Tarjuman-e-Mashriq

آزادکشمیر کا سیاسی کلچر اور نئی سیاسی قیادت

تحریر:شہلا خان نیازی

مسلم مفکرین ابو النصر محمد بن محمد فارابی، ماوردی، امام غزالی، ابن خلدون اور حضرت شاہ ولی اللہ نے علم سیاسیات کی ایک جیسی تعریف لکھی ہے اور اسے صنعتوں میں اوّل درجے کی صنعت لکھا ہے۔ مسلم علمائے سیاست کے مطابق سیاست کا مطلب میل جول، رواداری، ایک دوسرے سے ہمدردی، اخلاقی اور انسانی روایات کی پاسداری ہے۔
حکمرانی کے اوصاف میں لکھاہے کہ ایک مسلم ریاست کے حکمران کے لیے ضروری ہے کہ وہ عام لوگوں کی تکالیف سے آگاہ ہو اور ان کے ازالے کا ہنر بھی جانتا ہو۔ وہ نیک چلن، دیانتدار، پرہیزگار اور عوام دوست ہو۔ وہ خود قوانین پر سختی سے عمل کرنیوالا اور قوانین کے نفاذ پر سختی سے عمل کروانے والا ہوا۔
بد قسمتی سے آج ساری دنیا پر چانکیائی اور میکاولین سیاسی نظام رائج ہے جس کی بنیاد بد عہدی، جبر و ظلم، دھوکے، فریب اور ریاکاری کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔
آزادکشمیر ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کا ایک حصہ بھارت کے زیر قبضہ ہے اور دوسرا حصہ آزادکشمیر کہلاتا ہے۔ اس خطہ زمین پر بسنے والے قبائل ہمیشہ سے ہی ایک دوسرے سے نفرت کرتے آئے ہیں۔ برادری ازم کا زہر نسلوں سے ان کی رگوں سے دوڑ رہا ہے جو ان کی طویل غلامانہ زندگی کا باعث ہے۔
سینتالیس کے جہاد آزادی کی ایک وجہ برادری ازم اور منفی سیاسی رجحان بھی تھا۔ 1947کے بعد مقبوضہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس اور آزادکشمیر میں مسلم کانفرنس حکمران جماعتیں رہیں جنہیں بھارتی کانگرس اور پاکستان میں مسلم لیگ کے علاوہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پنجاب کی حکمران برادریوں کی آشیر باد حاصل رہی ہے۔ 1974میں پیپلز پارٹی آزادکشمیر کی حکومت پر قابض ہوئی تو کشمیری سیاست کے معنی ہی بدل گئے۔ پیپلز پارٹی آزادکشمیر میں اسی طرح داخل ہوئی جس طرح تین سو سال پہلے افغان داخل ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی آمد کے ساتھ ہی برادری ازم کو گویا ایک آئینی حیثیت مل گئی جس کی آڑ میں کرپشن، سیاسی ہلڑ بازی اور الیکشنوں کے دوران قتل و غارت گردی کا بازار گرم ہو گیا۔ عوام تحریک آزادی کو بھول کر حکومتوں، حکمرانوں اور سیاستدانوں کی خدمت گزاری کرنے لگے تو تحریک آزادی گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل دی گئی۔
آزادکشمیر میں نودولیتے سیاسی کلچر نے معاشرتی اخلاقیات اور اسلامی اقدار کا خاتمہ کر دیا تو باعزت گھرانے اور قبیلے اپنے گھروں اور علاقوں تک محدود ہو گے بیورو کریسی کرپٹ سیاستی نظام کی آلہ کار بن گئی اور عام لوگ تھانوں اور پٹوار خانوں کی غلامی پر مجبور ہو گئے۔ 1974سے لیکر 2021تک کے حالات وواقعات لکھنے بیٹھ جائیں تو ستائیس جلدوں پر مشتمل آزادکشمیر میں سیاسی گراوٹ اور کرپشن کا انسائیکلو پیڈیا مرتب ہو جاتا ہے۔
سیاسی ورکروں کے علاوہ نودولیتے سیاستدانوں، برادری ازم کے مبلغوں وزیروں، مشیروں حتیٰ کہ وزرائے اعظموں کی اخلاق باختہ حرکتوں پر اخباروں میں کالم اور مضامین لکھے گئے جن کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔ 2021کے عام انتخابات میں نواز لیگ، پیپلز پارٹی، مسلم کانفرنس اور دیگر علاقائی اورغیر ریاستی جماعتوں کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف آئی توآزادکشمیر کی سیاست میں بھونچال آگیا۔
تقریروں کے دوران گندی اور غلیظ زبان کا کھلے عام استعمال ہوا۔ اخلاقی گراوٹ کے مظاہرے دیکھنے میں آئے تو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے والے اپنے کرتوت بھول گئے۔ سابق صدر جنرل حیات خان کی بنائی سٹرکوں عمارتوں اور دیگر تعمیرات پر تختیاں لگانے والوں کو ذرا شرم نہ آئی کہ وہ ستائیس سالوں سے اس خطے کے عوام پر ڈوگروں، مغلوں، افغانوں اور سکھوں کی جانشینی کا حق ادا کرتے رہے ہیں۔ دیگر کارناموں کے علاوہ پیپلز پارٹی نے حسب سابق قتل و غارت گری کی روائیت قائم رکھی اور پاکستان تحریک انصاف کے دو کارکنوں کو پولنگ سٹیشن کے اندر قتل کر دیا۔ الیکشن کا مرحلہ مکمل ہوا تو آزادکشمیر کے وزیراعظم کے چناؤ پر نت نئی خبروں کے ساتھ کالم،مضامین اور داستانیں منظر عام پر آنے لگیں۔ ہر عاقل و بالغ کی سوئی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، خواجہ فاروق اور سردار تنویر الیاس پر آکر اٹک جاتی۔ یہ تینوں نام مفاداتی سیاست اورجاری سیاسی کلچر سے جڑے ہونے کی وجہ سے ہرطبقہ فکر کے مفادات کی پذیرائی کرتے تھے کہ یکا یک ایک اور بھونچال آیا اور سردار عبدالقیوم خان نیازی کا نام سامنے آتے ہی مفاداتی سیاست، برداری ازم کی لعنت اور کرپشن کے بت مایوسی کے تھپیڑے سے مسمار ہو گئے۔
کالم نگاروں نے طنزیہ اور مایوسانہ کالم لکھے، نامور ٹی وی اینکروں نے بغض، حسد اور نفرت کا اظہار کیا اور کچھ نے جناب عمران کے حوالے سے لکھا کہ آخر کار نیازی نے کشمیر میں بھی ایک نیازی ڈھونڈ ہی لیا ہے۔
کم علمی، کم عقلی اور کینہ پروری کاآج تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ورنہ بیان کردہ اصحاب علم و قلم کو علاج کے لیے بھجوا دیا جاتا۔
اقتدار کا اصل مالک خالق کائنات ہے۔ وہ عزت و ذلت دینے والا ہے اور وہی حکومت عطا کرتا ہے۔ میں نے اس تحریر کی ابتداء میں مسلم علمائے سیاسیاست کے حوالے سے ایک مسلمان حکمران کی جو خو بیاں لکھی ہیں سردار عبدالقیوم خان نیازی کو ان خوبیوں پر پرکھا جا سکتا ہے۔ سردار عبدالقیوم خان نیازی کا تعلق میانوالی، عیسیٰ خیل، بنوں، قندہار، لکی مروت یا پھر ہوشیار پور کے نیازی قبائل سے نہیں۔ سردار عبدالقیوم نیازی کا تعلق کشمیر کے مشہور راجپوت قبیلے دُلی سے ہے جو صدیوں سے پونچھ کے اس خطہ میں حکمران حیثیت سے آباد ہیں۔ سردار عبدالقیوم خان کا تخلص نیازی ہے۔ وہ مشہور شعراء جناب عبدالستار نیازی اور منیر نیازی سے متاثر ہیں اور اُن ہی کے انداز میں شعر کہتے ہیں۔ نیازی شاعروں سے اُنس کی وجہ سے آپ نے اپنا تخلص نیازی رکھا جو اچنبھے کی بات نہیں۔ علم و ادب سے لگاؤ کے علاوہ شاعری سے بھی آپ کا گہرا خاندانی تعلق ہے۔ اسی طرح آپ کا قبیلہ صوفیاء اور علماء کا بھی قدردان ہے۔ آپ کے بزرگوں میں محمد قاسم خان جن کا تخلص "ناکام” تھا اپنی شاعری کی وجہ سے سارے کشمیر میں مشہور تھے۔ آپ نے مفتوح الغیب کا ترجمہ پنجابی نظم میں کیا جو آج بھی آپ کی خاندانی لائبریری میں موجود ہے۔
جناب محمدد ین فوق تاریخ اقوام پونچھ میں لکھتے ہیں کہ پونچھ کے مسلمانوں کی ایک معزز قوم دُلی کے نام سے مشہور ہے۔ اس قوم کے افراد بالعموم شائستہ اور غیور ہیں۔ ان کے سرداروں کے مکانات قلعہ اور کوٹ کی صورت میں ہوتے تھے جو عموماً بلندیوں پر تعمیر کیے جاتے تھے۔ تاریخ اقوام پونجھ کی فصل چہارم دُلی خاندان کے متعلق ہے۔ قلم کاروں اور تبصرہ نگاروں سے گزارش ہے کہ وہ کرنل ایلین بیٹس کاگڑ یئر آف کشمیر اور تاریخ اقوام کشمیر و تاریخ اقوام پونچھ کا مطالعہ کریں تو جناب سردار عبدالقیوم خان نیازی کا سیاسی، سماجی، علمی، ادبی، اخلاقی، دینی، روحانی اور انسانی مرتبہ دیگر سیاستدانوں کی نسبت بہت بلند پائینگے۔
کردار کے حوالے سے آپ کی شخصیت پر کوئی داغ نہیں۔ آپ انسان دوست محب وطن اور مجاہدانہ اوصاف کے حامل ہیں۔ میخانوں کے عادی سیاستدانوں اور اُن کے ہم خیالوں کی مایوسی اپنی جگہ درست ہے۔ سردار عبدالقیوم خان نیازی سیاست میں بھی نووارد نہیں۔ اس سے پہلے آپ علاقہ کے کونسلر، ایم ایل اے اوروزیر رہ چکے ہیں۔ مگر تشہیر کی عادت نہیں رکھتے۔ آپ کے بڑے بھائی غلام مصطفی خان بھی ایم ایل اے رہے ہیں اور صنعت کار ہیں۔ آپ کے تیسرے بھائی آزادکشمیر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں۔ آپ کا گھرانہ علم و اداب کے علاوہ سخاوت اور غریب پیروری کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ خدا کرے آپ کا دور اقتدار اہل کشمیر کے لیے خوشیوں کا باعث بنے اور جاری کرپٹ سیاستی نظام کا خاتمہ ہو سکے۔ آزادکشمیرمیں اچھی حکمرانی اور عدل و انصاف کا معیار بلند ہونے سے تحریک آزادی کشمیر پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔

Exit mobile version