Tarjuman-e-Mashriq

الیکشن تماشہ اور ہمارے دانشور

آزادکشمیر میں الیکشن کا میلہ سجا ہے اور مقبوضہ کشمیر جل رہا ہے،بھارت مسلمانوں کی آبادی کو  ایک منظم منصوبے کے تحت کم کر رہا ہے اور مسلمانوں کی جائیدادیں  انہی خطوط  پر چھینی جارہی ہیں جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کو گھروں سے بے گھر اور بے زمین کیاہے۔ نہ کسی مسلمان کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی جان۔ بھارتی فوجی جسے چاہے گولی کا نشانہ بنا دیتے ہیں اور لاش کسی ویرانے میں دفنا دیتے ہیں۔

ایک طرف بھارت ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم کر رہا ہے تو دوسری طرف بھارتی خفیہ ادارے نفسیاتی جنگ کے محاذ پر پاکستان کے دفاعی اداروں،  محب الوطن شہریوں، دینی اقدار، تہذیبی ورثے اور معیشت پر حملہ آور ہے۔ پاکستان میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد مرکزی حکومت کے اختیارات محدود ہیں جس کی وجہ سے صوبے من مانی کا اختیار رکھتے ہیں۔ کرپشن، بد عنوانی، اقربا پروری کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور نیب ایک نمائشی اور کرپشن کی آبیاری کرنیوالا ادارہ بن چکا ہے۔ زرداری، نوازشریف اور اُن کے خاندانوں کے کیس کبھی کھلتے ہیں اور پھر بند ہو جاتے ہیں۔ وہ سیاستدان جوو قتی طور پر جیلوں میں جاتے ہیں وہ وہاں بیٹھ کر نہ صرف سیاست کرتے ہیں بلکہ اپنے کاروبار بھی چلاتے ہیں۔جیلوں میں انہیں فائیو سٹار سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور پھر نیب والے خود ہی ان کی رہائی کا بندوبست بھی کر دیتے ہیں۔

ہماری آزاد عدلیہ نے جس احسن طریقے سے عزت مآب جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مقدمہ سنا اور پھر تاریخ ساز فیصلہ دیا اُسے بینظیر و بے مثال نہ کہنا توہین عدالت کے مترادف ہے۔ کاش ہماری عدلیہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام اور لاہور کے ڈی سی آفس میں بلدیہ کا ریکارڈجلانے والوں پر توجہ دیتی۔ نواز شریف نے نااہلی کے بعد” وہ پانچ لوگ” کا نعرہ بلند کیا تو بھی عدلیہ خاموش رہی اور مریم نواز نے کونسا ایونٹ چھوڑا ہے جس میں عدلیہ پر طنز کے تیر نہ برسائے ہوں۔ محترم قاضی فائز عیسیٰ کیس کو بھی اپنی تقریروں کا حصہ بنایا اور آجکل وہ جناب جسٹس شوکت عزیزصدیقی کا مقدمہ بھی جلسوں میں لڑ رہی ہیں۔ صفد ر اعوان نے قائداعظم ؒکی قبر کی بے حرمتی کی تو بڑی مشکل سے بیرسٹر اعتراز احسن چوہدری کے منہ سے نکلا کہ اس کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ سال ہے۔ اگر کوئی دیوانہ یہ حرکت کرتا تو اسے فوراً سزا ہو جاتی مگر صفد رکو نواز شریف کا داماد ہونے کی وجہ سے بانی پاکستان پر آئینی و قانونی سبقت حاصل ہے۔ صفدر اعوان نے اپنی بیگم کو مادر ملت کا خطاب دیا اور میاں جاوید لطیف نے پاکستان زندہ باد کو بیگم صفدر اعوان کی صحت و زندگی سے منسوب کر دیا۔ ایسا بیان سوائے محمود خان اچکزئی کے کبھی کسی مکتی باہنی والے نے بھی نہیں دیا تھا۔ میاں جاوید لطیف پر غداری کا انتہائی نرم اور نمائشی مقدمہ تودرج ہو گیا مگر ساری مسلم لیگ (ن) اس کی حمائت میں کھڑی ہوگی۔ آخرکار میاں صاحب ضمانت پر رہا ہوگئے تو جماعت نے انہیں نہ صرف ہیرو کا درجہ دیا بلکہ بے مثال استقبال بھی کیا۔

میرے سامنے دی نیوزاخبار رکھا ہے جس میں نسیم زہرہ کا مضمون  ” انڈیاز سیٹلر کلونیلزم ” اور اسلام آباد سے راجہ شفاعت اللہ کا ایک مایوسانہ خط(ایڈیٹر کی ڈاک )   اے جے کے الیکشن رکھا ہے۔ نسیم زہرہ لکھتی ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ پاکستان کشمیر میں بھارتی نوآبادیاتی رویے کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ ساتھ ہی لکھا ہے کہ پاکستان کی طرف سے اس خطرے سے نبردآزما ہونے کا کوئی واضع منصوبہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ نسیم زہرہ کا ذکر اے ایس دلت کی کتاب "کشمیر دی واچپائی ائرز” میں بھی آیا ہے۔ سابق بھارتی را چیف لکھتا ہے کہ شیریں رحمان کے گھر دعوت پر نسیم زہرہ بھی مدعو تھیں۔ وہ جلدہی مجھ سے مانوس ہو گئیں اور مجھے کیسپر یعنی فرینڈلی گھوسٹ کہہ کر پکارنے لگیں۔ نسیم زہرہ باخبر دانشور صحافی ہیں مگر حیر ت کی بات ہے کہ وہ اپنے بھوت دوست کی شیطانی چالوں اور درندگی سے واقف ہی نہیں۔ انڈین را کا چیف وہ شخص ہے جس کے حکم سے زندہ انسانوں کے ہاتھ پاؤں کاٹے جاتے ہیں، اذیت دیکر قتل کیا جاتا ہے، عقوبت خانے قائم کیئے جاتے ہیں، زبانیں کاٹی جاتی ہیں، عورتوں اور بچوں کو اغوا ء کیا جاتا ہے اور اُن پر جنسی تشدد کیا جاتا ہے۔ یہ صرف نسیم زہرہ ہی نہیں بلکہ سارے ہی روشن دماغ مغرب و بھارت نواز پاکستانی دانشوروں کا المیہ ہے۔

                  نسیم زہرہ کی کتاب  ”   کارگل ٹو کو -دیٹ شک پاکستان”  بھارت  میں شائع ہوئی جسے بھارتی صحافتی حلقے ریفرنس بک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ نصر ت جاوید نے ایک کالم میں نسیم زہرہ سے معذرت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ باوجود کوشش کے کتاب نہ پڑھ سکا۔ دی نیوز میں ایک تبصرہ نگار نے لکھا کہ بڑی مشکل سے کتاب تو پڑھ لی مگر سمجھ میں کچھ نہ آیا۔کتاب کے پہلے ڈھائی سو صفحات ہٹا دیے جائیں تو کتاب پڑھنے لائق ہوسکتی ہے۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ اس کتاب کا نام  ” کارگل ٹو کلکتہ – دیٹ شک انڈیا” ہوتا تو بات سمجھ میں آجاتی۔ اس میں شک نہیں کہ جنگ نام ہی تباہی کا ہے۔ بریگیڈئیر سلطان احمد ستارہ جرأت (دوبار)”اپنی تصنیف "دی سٹولن وکٹری ” میں لکھتے ہیں

” جنگ حقیر ہے۔ لڑائی سے درد ، تھکن ، تکالیف ، بد نظمی ، وحشت اور موت آتی ہے۔ جیسا کہ کروسس نے سائرس کے ہاتھوں شکست کھا جانے اور ذلیل و خوار ہونے کے بعد ، فاتح سے کہا ‘کون  امن پر جنگ کو ترجیح  دے گا ۔ امن کے وقت بیٹے اپنے باپوں کو دفن کرتے ہیں اور جنگ میں باپ اپنے بیٹوں  کو دفن کرتے ہیں'”

نسیم زہرہ اور اُن کے ہمنوا صحافی اور دانشور نہیں سمجھ سکے کہ بھارت اورافغانستان کے درمیان آزاد ی اور امن سے رہنے کے لئے جنگ کے لئے تیار رہنا ضروری ہے۔

پینسٹھ اور اکہترکی جنگوں کے دوران جنوبی بھارت میں کسی کو بھی جنگ کی خبر نہ ہوئی۔ مگر کارگل کی جنگ نے سارا بھارت ہلاکر رکھ دیا۔ بھارتی فوج نے بنگال اور بہار کے فوجیوں کی لاشیں کارگل میں دفنانا شرو ع کیئں تو بہار کا وزیراعلیٰ لالو پر شاد یادواور رابڑی دیوی لاشیں لینے سرینگر پہنچ گئے۔ اگر نسیم زہرہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان کی طر ف سے ابھی تک کوئی واضع کشمیر پالیسی سامنے نہیں آئی تو آپ خود کسی مضبوط اور مستحکم پالیسی پر کام کریں۔ آپ کی دوست عائشہ صدیقہ بھی تو نیول تھنک ٹینک کا حصہ رہی ہیں، اُن سے مدد لیکر حکومت کو گائیڈ کریں۔ سن تو ژو اورکوتیلیہ چانکیہ نے اپنے وچار پیش کیئے تو بادشا ہوں نے انہیں اپنا مشیر بنا لیا۔ پتہ نہیں کہ ہمارے دانشوروں کا بیانیہ کابل، دلی، لند ن اور واشنگٹن میں ہی کیوں بکتا ہے اور اُن کے سخن بھارت میں  بطور نمونہ کیوں پیش کیئے جاتے ہیں۔ بھارت میں ان لوگوں کی پذیرائی سے یوں لگتا ہے کہ یہ لوگ بھارت سے ڈیپوٹیشن پر پاکستان آئے ہیں۔ نسیم زہرہ اور اُن کے ہم خیال پاکستان کی طرف سے جس لائحے عمل کی توقع رکھتے ہیں ابھی اس کا وقت نہیں آیا اور شاید نہ ہی اُس کی ضرورت پڑے۔ آخر پاکستان کچھ توکر رہا ہے تب ہی تو حامد میر سے لیکر جنرل روادت تک سب پریشان ہیں۔

راجہ شفاعت اللہ آزادکشمیر کے الیکشنوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ میں پندرہ نومبر انیس سو چوبیس میں پیدا ہوا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس سال نومبر تک زندہ رہونگا۔ وہ مایوسی کے عالم میں لکھتے ہیں کہ دنیا تو بدل گئی ہے مگر آزادکشمیر میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی۔ آزادکشمیر کی سیاست برداری ازم، کرپشن، لوٹ مار، بد عنوانی اور اخلاقی گراوٹ کی بنیادوں پر استوار ہے۔ انتظامی ڈھانچہ کرپٹ، بد عنوان اور اخلاقی لحاظ سے گرے ہوئے نام نہاد سیاستدانوں کی مرضی و منشأ کا محتاج ہے۔ آزادکشمیر میں ہر ادارہ برائیوں اور جرائم کی یونیورسٹی ہے۔ دوسری جانب یعنی ایل اور سی کے پار آگ اور خون کی ہولی کھیلی جاررہی ہے اور آزادی کا بیس  کیمپ سیاسی خرید وفروخت اور نئے کرپٹ سیاستدانوں کے لئے تجارتی منڈی بن چکا ہے۔ برادریوں کے سرخیل یورپ اور امریکہ سے ڈرگ منی لیکر منڈی میں آچکے ہیں اور اپنی اپنی برادریوں کے سیاسی جانوروں پر دولت لٹار ہے ہیں۔جو کوئی زیادہ سیاسی جانور خریدنے میں کامیاب ہو گیا وہ اگلے پانچ سال تک مال ؤکمائے گا اور حکومت بھی کرئے گا۔آخری خبر یہ ہے کہ ریاست کا اگلا صدر فوجی جرنیل ہو گا۔

Exit mobile version