Tarjuman-e-Mashriq

امریکہ کے بعد ؟ -1

امریکہ کے بعد افغانستان میں کیا ہوگا؟ یہ سوال جتنا اہم ہے اتناہی پیچیدہ اور بڑی حد تک نا قابل حل بھی ہے۔ افغان امور کے ماہر دانشوروں کا ایک ٹولہ پاکستان میں بھی موجود ہے جن میں اکثریت پشتوزبان بولنے اور سمجھنے والوں کی ہے اور یہی ان دانشوروں کا کل اثاثہ ہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی کا دعویٰ ہے کہ روسو افغان جنگ کے دوران انہوں نے سارے افغانستان کا سفر کیا اور مختلف فیلڈ کمانڈروں اور لیڈروں سے ملنے اور اُن کے خیالات جاننے کا موقع ملا۔ جو لوگ اُس دور کے افغانستان سے واقف ہیں وہ مجھ سے اتفاق کرینگے کہ تب سارے افغانستان کا سفرکر ناناممکن تھا۔ دیکھا جائے تو آج بھی سارے افغانستان کا سفر بڑی حد تک نا ممکن ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ تاریخ کے کسی بھی دور میں ایسا سفر ممکن نہ تھا۔ جب سے انسان نے افغان دھرتی پر قدم رکھا ہے اس کے خیالات، عقائد، رسم ورواج، طرز معاشرت و سیاست، ثقافت، طریق حکومت اور نفسیات دیگر اقوام سے الگ رہی ہے۔ افغانستان میں بسنے والا ہر قبیلہ ایک قوم اور اُسکا علاقہ وطن کہلاتا ہے۔ قبیلے کا سردار حکمران اور اُس کی بانگ یعنی حکم پر ہر فرد کا حاضر ہونالازم ہے۔ اختلاف کرنے والے وطن چھوڑ دیتے یا پھر ماردیے جا تے ہیں۔چونکہ سردار کی بانگ پر غیر حاضری غداری کے زمرے میں آتی ہے۔ افغانوں کی روایات اُن کی نفسیات سے منسلک ہیں جس کا تجزیہ کرنا بڑی حدتک ناممکن ہے۔ افغان کی زبان اُس کے دل کی ترجمان نہیں ہوتی۔ اُس کے دل ودماغ میں آندھیاں چلتی ہیں اوروہ کبھی پر سکون نہیں ہوتا۔ وہ کسی پر بھروسہ نہیں کرتا اور مقصد کے حصول کے لیے وہ بڑی حدتک بے رحم ہوتاہے۔ وہ اپنی روایات کی حفاظت اور سردار کے حکم پر ساری دنیا کے خلاف اعلان جنگ کر سکتا ہے۔ وہ کبھی شکست تسلیم نہیں کرتا اور صدیوں تک اپنے دشمن سے برسر پیکار رہتا ہے۔ عربوں اور بلوچوں کی تاریخ میں طویل قبائلی جنگوں  کا ذکر ہے۔ مدینہ کے نواح  میں  بسنے والے دو قبیلے ایک سو پچیس سال تک حالت جنگ میں رہے۔ حضور ﷺ کی مدینہ آمد کے بعد ان میں سے اکثریت نے اسلام قبول کر لیا مگر یہودی شاعر انہیں ہمیشہ باہم لڑانے کی کوشش میں رہتے تھے ۔ کامل القادری کی تاریخ کے مطابق رند اور لا شاری قبیکلے  تیس سال تک حالت  جنگ میں  رہے۔ جنگ کی وجہ  ایک خوبصورت مالدار عورت گوہر خانم کے اونٹ س   بچے کی لاشاری سردار میرر امن کے ہاتھوں موت تھی۔ گوہر خانم میر چاکر خان کی پنا ہ میں تھی۔ بلوچ غیرت کا تقاضاتھا کہ زیر پناہ عورت کے مال کی حفاظت کی جائے چاہیے ہزاروں جانوں کاضیاع ہی کیوں نہ ہو۔

قبائلی  جنگوں  کی تاریخ میں بھی افغانوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔ افغانوں کی باہم لڑائیوں میں تب ہی ٹھہراؤ آتا ہے جب بیرونی حملہ آور افغان سرزمین پر موجود ہوں۔ افغانوں کی ایک بڑی خاصیت بدلہ لینا  اورپڑوسیوں سے اُلجھے رہنا بھی ہے۔ جہاں اُن کے قبیلے کی حد ختم  ہوتی  ہے وہاں اُنکا مورچہ قائم ہوتا ہے۔

مرزا علی خان جنہیں فقیر آف  ایپی بھی کہا جاتا ہے نے انگریز دشمنی سے شہرت پائی مگر جوں جوں تحریک آزادی پاکستان کے خدوخال سامنے آنے لگے مرزا علی خان کی اسلام سے محبت اور روحانی کمالات کی قلعی بھی کھلنے لگی۔ وہی مرزا علی خان جو اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے اور جن کی قیادت میں ہزاروں قبائلی مسلمان مختلف معرکوں میں کام آئے، ذاتی مفاد کے پیش نظر نہ صرف انگریزوں بلکہ نہرو اور گاندھی کے بھی دوست بن گے۔

پاکستان مخالف قوتیں جن میں سرحدی گاندھی باچا خان، عبدالصمد اچکزئی، جمعیت علمائے اسلام ہند، کیمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، برٹش انڈین گورنمنٹ، کانگرس اور حکومت افغانستان شامل تھے نے مرزا خان  کو بھی اپنی صفوں میں شامل کر لیا۔

مرزا خان کا پاکستان مخالف دھڑوں میں شامل ہونا اسکے ماتحت کمانڈروں کو کسی طور قبول نہ تھا۔ مرزا خان کے نائب امیر مہر دل وزیر نےنو مبر 1954ء میں ہتھیار ڈال دیے اور بنو ں آکر گرفتاری دے دی۔ مہر دل وزیر کی گرفتاری اور پھر باعزت رہائی سے فقیر آف ایپی کی تحریک تو دم توڑ گئی مگر دونوں دھڑوں کے درمیان دشمنی کا سلسلہ حالیہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے بعد ختم ہوا۔فقیر آف  ایپی کے مریدین کی اولاد وں میں اکثریت تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہوئی۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) عوامی نیشنل پارٹی اورپی ٹی ایم میں بھی یہ لوگ شامل ہیں۔ اکرم درانی کے پی کے کے وزیراعلیٰ بنے تو سب سے پہلی خبر یہ چھپی کہ فقر آف ایبی کے خاندان کا چشم و چراغ اقتد ار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ماضی کی طرح آج بھی ٹی ٹی پی، پی ٹی ایم اور بی ایل اے کے مراکز کابل، قندہار، دہلی اور لندن میں قائم ہیں۔ وہی عالمی قوتیں اور اُن کے وظیفہ خوار پاکستانی صحافیوں اور دانشوروں کی اولادیں بیان کردہ پاکستان مخالف تحریکو ں کی آبیاری میں مصروف ہیں  مگر بظاہر حکومتی اداروں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بندکر رکھی ہیں۔

افغانستان کے مسئلے پر ہماری گرم جوشی ہمارے مسائل کا حال نہیں بلکہ اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے کہ افغانوں کی نفسیات کو سمجھنا آسان نہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کا حالیہ بیان بلاوجہ نہیں۔ اسی طرح کارویہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کابھی تھا۔ پاکستان کو قائم ہوئے پچہتر سال اور افغانستان کو قائم ہوئے ایک سو پچہتر سال ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے افغانستان کے نصف حصے کا نام صوبہ کابل اور نصف کا نام خراساں تھا۔ کابل کبھی کشمیر اور بدخشان کا حصہ رہا اور کبھی مغلوں اور ترکوں کی حکمرانوں میں رہا۔ اسی طرح خراسان ایران اور ترکستان ان کے زیر تسلط رہا کبھی خوارزم اور سلطنت غزنی کا حصہ رہا۔ کابل و   ہرات  اور قندہار میں جو بھی حکمران رہا اسکا دائرہ اختیار کبھی شہرپناہ سے باہر نہ تھا۔ 1747ء کے بعد نہ افغان بدلے اور نہ ہی افغانستان بدلا۔ بخت نصر، سارس اوّل، سکندر مقدونی، اشوک اعظم، راجہ للتہ دت، اونتی ورمن، چنگیز خان،تیمور، بابر اور نادر شاہ فشار آئے اور گزر گئے مگر نہ افغانوں نے اپنی روش بدلی اور نہ ہی افغانستان میں کبھی دائمی امن قائم ہوا۔ افغانستان میں امن کامطلب قبائلی روایات اورخاندانی عصبیت کی موت ہے۔ افغان کی زندگی کشمکش سے منسوب ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ افغانوں نے کبھی ایران اور ماورالنہرکی طرف توجہ نہیں دی۔ اُن کی زندگی کا دارو مدار ہمیشہ سے ہی پنجاب پر رہا ہے۔ افغان کا پنجاب پشاور سے دلی اور کشمیر سے ملتان تک کا علاقہ ہے۔پاکستانی پشتونوں کی خود فہمی ہے کہ وہ بھی افغان ہیں اور کوہ سلیمان کے آرپار بسنے والے ایک ہی خاندان کی طرح ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوہ سلیمان کے آرپار بسنے والے قبائل کی ذات، برادری اور قبیلے ہم نام ہیں مگر طرز زندگی ایک جیسا نہیں اور نہ ہی سوچ و فکر میں ہم آہنگی ہے۔ ہم زبان اور ہم رنگ ونسل ہونے کا مطلب ہم وطن اور ہم خیال نہیں ہو سکتا۔

افغانستان کے کم وبیش چالیس صوبے ہیں۔روسو افغان جنگ کے دوران تینتیس صوبے تھے اور ہر صوبے کا گورنر تعینات تھا۔ افغانستان میں پشتو اور فارسی سمیت سات علاقائی زبانیں بولی، سمجھی اور لکھی جاتی ہیں مگر لسانیت کی وبانہیں۔ ملک کی سرکاری زبان (دری) افغان فارسی ہے جو ایرانی زبان سے مختلف ہے۔ ہمارے سیاستدانوں، صحافیوں، لفافہ دانشوروں اور افغان امور کے ماہرین کو افغانوں کے ملی اتحاد سے ہی کچھ سیکھ لینا چاہیے۔ صوبہ خیبر پختونخواکے باشندوں کو افغانوں سے کوئی غرض نہیں۔ عام پختون افغانوں کی موجودگی سے پریشان ہے۔

افغان نودولیتے تاجر وں نے پختونخوا اور بلوچستان کی سیاست، تجارت، ثقافت او ر روایات کو بری طرح متاثر کیا اور عام پختونوں سے روزگار کے مواقع چھین لیے، چھوٹے کاروبار، ٹرانسپورٹ اور محنت مزدوری پر بھی افغان قابض ہیں اور عام لوگ بے روزگار اور بد حال ہیں۔ کوئٹہ پشاور اور کراچی سمیت کئی شہروں میں ایسے لاکھوں افغان موجود ہیں جو مہاجرین کے زمرے میں نہیں آتے۔ وہ گھر جہاں چھ افراد کی گنجائش ہے وہاں بیس افراد پر مشتمل افغان کنبہ رہائش پذیر ہے۔ پشاور جو کبھی پھولوں کا شہر کہلاتا تھا اب گندگی او ر بدبو کی وجہ سے بیماریوں کا گڑھ  ہے ۔ جن علاقوں میں افغان آباد ہیں وہاں سیوریج کا نظام تباہ ہو چکا ہے، پلوں اور پارکوں پر حفاظتی جنگلے افغان بچوں اور بھکاریوں نے توڑ کر بیچ ڈالے ہیں اور سٹریٹ لائٹس توڑنا افغان بچوں کا من پسند کھیل ہے۔ پاکستان کی ہر سطح پر مخالفت اور پاکستانی حکومت اور عوام کی وارثت کو نقصان پہنچانا افغانوں کے عادات میں شامل ہے۔

 جس طرح افغانی پاکستان کے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں ایسی سہولت کسی پاکستانی کو افغانستان میں میسر نہیں۔ البتہ بھارتیوں کا معاملہ الگ ہے۔ افغانوں کے لیے بھارت اور بھارتیوں کے لیے افغانستان ہمیشہ سے  ہی دوسرا وطن رہا ہے۔

لائق شاہ درپا خیل نے اپنی کتاب ” تاریخ وزیرستان” میں نہ صرف مرزا علی خان عرف فقیر آف ایپی کی جعلی کرامات اور پھر ان کی تشہیر اور پاکستان مخالف تحریک کا مفصل ذکر کیا ہے بلکہ افغانوں کی پاکستان دشمنی اور بھارت نوازی کے کئی پردوں کو بھی عیاں کیا ہے۔ افغان حکمران ہمیشہ سے ہی ہمارے قبائلی سرداروں کوپاکستان کے خلاف استعما ل کرتے آئے ہیں تاکہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں امن اور ترقی کا فقدان رہے۔فقیر آف ایپی کو بھی آخری دور میں اپنی غلطی کا احساس ہوا جب امیرافغانستان نے اُسے کابل آنے کی دعوت دی۔ یہ دعوت ایک سازش تھی چونکہ امیر کابل فقیر آف ایپی کی زندگی کا انگریز حکومت سے سودا کر چکا تھا۔ فقیر کوجب اس دعوت نما ساز ش کا پتہ چلا تو وہ کابل تو نہ گیا مگرشرمندہ ہو کر اپنے ہی کمانڈروں اور مریدوں کا سامنانہ کر سکا۔

ہماری عسکری اور  سیاسی  قیادت کی پھرتیاں اپنی جگہ مگر احتیاط لازم ہے۔ ہمیں اپنے ملکی امن کو افغانستان کے امن سے منسلک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ البتہ اس امر کی اشد ضرور ت ہے کہ افغان مہاجرین کی پاکستان شہریت ختم کی جائے اور افغانوں کے لیے پاکستان کو ماسی ویڑا نہ بنایا جائے۔ اُن کے کاروبار اور نقل حرکت کو ایسا ہی رکھا جائے جیسے پاکستانیوں کے لئے افغان حکومت نے کر رکھا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوتا جس میں کوئی افغان باشندہ یا پھر این ڈی ایس یا را کا تربیت یافتہ دہشت گرد ملوث نہ  ہو۔ آئے دن افغان سرزمین سے دہشت گرد پاکستان آرمی کے جوانوں او ر سرحدی علاقوں کی سویلین آبادی کو نشانہ بناتے ہیں جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔ افغان صدر اور مشیر کا حالیہ بیان امریکہ صدر کا بیان لگتا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ دوستی یا دشمنی کا چناؤ پاکستان نے کرنا ہے۔ اشرف غنی کو اپنے کل کا پتہ نہیں اور اُسے نور محمد تراکئی سے لیکر ڈاکٹر نجیب اللہ اور ان سے پہلے سردار داؤد کا انجام نظر نہیں آرہا ہے۔ جن ہم وطن افغانوں کا ان لوگوں نے بھارت اور امریکہ کے ساتھ ملکر خون نا حق بہایاہے وہ کسی معاہدے اور سپر پاور کی دھمکی کا اثر قبول نہیں کرینگے۔ دوحہ معائدہ ہو یا کسی اور ملک میں نمائشی امن کانفرنس، یہ سب کچھ بدلے کی آگ کا ایندھن بن جائیگا چونکہ قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا افغانوں کی سر شت میں شامل  ہے  —جاری ہے —-

Exit mobile version