Tarjuman-e-Mashriq

انقلاب یا عذاب

انقلاب یا عذاب

تحریر:  لیفٹینٹ کرنل (ر)  محمد ایوب

 

مسلم مفکر ین میں ابن خلدون نے انقلاب کی تعریف میں لکھا ہے کہ تغیر و تبدل کا نام انقلاب ہے۔ وہ بڑی حد تک ارسطو کے تصور انقلاب سے متفق ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم مفکرین نے ظاہری انقلاب پر زیادہ نہیں لکھا۔زمانے کی ہیت میں مسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے انقلابات آتے ہیں اور پھر ان کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ جس طرح ادوار کا سفر جاری رہتا ہے اس طرح انقلابات بھی رونما ہوتے ہیں اور اپنے منفی یا مثبت اثرات چھوڑ کر نئی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ ارسطو کا نظریہ انقلاب ہر لحاظ سے جامع، بامعنی اور ٹھوس حقائق پر مبنی اہمیت کا حامل ہے۔ اُس کے نزدیک ریاست کے اقتدار اور مقتدار اعلیٰ کی شخصیت و کردار کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیاں انقلاب کے زمرے میں آتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ریاست کے آئین میں ہر چھوٹی بڑی تبدیلی انقلاب ہے خواہ وہ آئینی ہو یا غیر آئینی۔آئین یا دستورمیں کی جانے والی تبدیلیوں سے ریاست کے نظام میں خلل یا پھر خلأ پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے عوام کی روزمرہ زندگیوں اور ملکی معشیت پر اثر پڑتا ہے۔ہر انقلاب کی وجہ دستور میں کوئی ایسی خامی ہی ہو تی ہے جو جاری نظام کو بے یقینی اور بداعتمادی کا شکار کرتی ہے۔ عوام الناس کا مقتدار اعلیٰ کے وعدوں سے اعتبار اُٹھ جاتاہے جس کی وجہ سے مفاد پرست عناصر ملکی معیشت پر غلبہ حاصل کرلیتے ہیں۔ اسی طرح قوانین کے نفاذ میں ”دوعملی کا رحجان بڑھ جاتا ہے اور حکومتی مشینری مفلوج اور کرپٹ ہو جاتی ہے۔ ارسطو کے مطابق انقلاب کا مقصد آئین میں تبدیلی، اقتدار پر قبضہ، سیاسی نظام کے خلاف بغاوت یا پھر کسی مخصوص ادارے کے خلاف محاذ آرائی یا بغاوت ہوسکتا ہے۔

وہ انقلاب کی وجوہات پر سیر حاصل تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انقلاب کی بظاہر تین وجوہات ہیں جن میں اوّل عام وجوہات دوئم خاص وجوہات اور سوئم مخصوص ریاستوں اور خطوں کی الگ وجوہات ہیں۔ وہ عام وجوہات کے ضمن میں عدل و انصاف کا فقدان، عدم مساوات، معاشی ناہمواری، سیاسی جانبداری، انتہاپسندی اور مڈل کلاس یعنی متوسط طبقے کی عدم موجودگی کو قرار دیتا ہے۔ ارسطو کی نزدیک انقلاب کی پہلی عام وجہ عدم مساوات ہے جس کی کوکھ سے دیگر وجوہات جنم لیتی ہیں۔ جب تک ریاست کا نظام عدل درست رہے کوئی دوسری عمومی وجہ معاشرے اور ریاست کے نظام میں خلل نہیں ڈال سکتی۔ آگے چل کر مسلم مفکرین امام غزالی ؒ، فارابی، ماوردی، ابن خلدون، شاہ ولی اللہؒ اور علامہ اقبالؒ نے بھی عدل کو ہی اہمیت دی۔ مسلم مفکرین نے اعتدال کو عدل کی بنیادقرار ہے۔ جب تک میزان کے دونوں پلڑے متوازی، ہم وزن اور ہم آہنگ نہیں ہوتے میزان عدل کا مقصد اور اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ جنرل (ر) لودھی نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان کا ہر ادارہ ناکام ہوچکا ہے۔ دانشور صحافی ہارون الرشید نے جنرل لودھی کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے درست قرار دیا۔ حقیقت کی رو سے دیکھا جائے تو جنرل لودھی کی سوچ اور ہارون الرشید کا تبصرہ حقیقت اور علمیت کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا نظام عدل نا کام ہوچکا ہے۔ عدلیہ پر خوف طاری کی ہے جس کی خارجی و داخلی وجوہات ہیں جن کے متعلق بات کرنا عدلیہ کی توہین اور آئین پاکستان کی رو سے جرم تصور کیا جاتا ہے۔ قاضی فائز عیسٰی اور شوکت صدیقی کے معاملات کے علاوہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے مقدمات میں جسطرح عدل کا معیار برقرار رکھا گیا اسے کسی بھی صورت میں عدل اور حق نہیں کہا جاسکتا۔ اگر نواز شریف اور بینظر بھٹو کو این آر او کے تحت واپسی پر دی گئی سزاؤں پر معافی نہ دی جاتی اور نہ ہی انہیں عدلیہ کے ذریعے اقتدار تک رسائی اور پھر د س سال تک لوٹ مار اور آئین میں تبدیلی کا اختیار دیا جاتاتو آج ملک ایک نئے انقلاب کی طر ف تیزی سے گامزن نہ ہوتا۔ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ عمرانیات کی سب اہم اور مدلل کتاب قرآن پاک ہے۔ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات انسانی افعال کا نتیجہ ہیں۔ سورۃ انعام اور سورۃ یوسف میں فرمایاکہ” بے شک بھلائی نصیب نہیں ہوتی ظالموں کو۔ پھر کٹ گئی جڑ ان ظالموں کی اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جوپالنے والا ہے سارے جہان کا”۔ظلم صرف عدلیہ ہی نہیں کرتی بلکہ معاشرے اور ریاست میں ہر بااختیار شخص کسی نہ کسی صورت میں ظلم کا مرتکب ہوتا ہے جس کی ذمہ داربھی عدلیہ ہی ہے۔ ملک میں تحصیل، اضلاع، صوبوں اور سب سے بڑی عدالت عظمیٰ کو موجودگی میں کسی بھی شخص یا ادارے کو عدل کی حد سے آگے بڑھنے اور معاشرے کو بد اعتدالی کا شکار کرنے کی جرأت کیسے ہوسکتی ہے۔ سورۃ یوسف میں فرمایاکہ” بیشک بھلائی نہیں پاتے جو لوگ بے انصاف ہوں "۔ جس معاشرے کی بنیاد ہی بے انصافی، بے اصولی، بد اعتدالی اور عدل و مساوات کے فقدان پر استوار ہو وہاں بھلائی اور خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ فرمان الہٰی ہے کہ امیروں اور دولت مندوں کے اشارے پر قانون بدل دینا یہودی قانون دانوں کا شیوہ ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے علاوہ زرداری اور نواز شریف نے اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر آئین و قانون میں جو ردو بدل کیا عدلیہ نے اسے بھی نظر انداز کیا اور کسی کی جواب طلبی نہ ہوئی۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے ریاستی اداروں کو مفلوج کرنے اور قانون کی آڑ میں ملکی خزانہ لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے کے لیے جو طریقہ کار اپنایا اُسے عدلیہ کی ناکامی نہ کہنا عدل و اعتدال کی توہین ہے۔ سورۃ البقراۃ اور سورۃ المعائدہ میں فرمایاکہ” مت ملاؤں صحیح میں غلط اور مت چھپاؤ سچ کو جان کر۔ حکم کرتے ہو لوگوں کو نیک کام کااور بھولتے ہو اپنے آپ کو اور پھر تم پڑھتے ہو کتاب اور پھر کیوں نہیں سوچتے کہ اللہ خوب جانتا ہے جو یہ چھپائے ہو ئے تھے”۔ عدلیہ کے علاوہ ہماری پارلیمنٹ بھی مقدس ہے مگر قانون بنانے والے اور قانون کی تشریح اور اسے لاگو کرنے والے کتنے ہیں جو اللہ کے آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہیں او رمخلوق کو بلا امتیاز محض خوف خدا کے پیش نظر بروقت انصاف مہیاکرتے ہیں؟۔ جو ادارہ ذاتی اور گروہی مفادات کے پیش قانون وضع کرے اور پھر سب سے اعلیٰ اور مقتدر ادارہ ان قوانین کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے مخلوق خدا سے امتیازی سلوک روا رکھے تو وہ مقدس اور معتبر کیسے ہو سکتا ہے؟۔ دیکھا جائے تو پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کی کثیر تعداد ایسی ہے جو محض نام کے مسلمان ہیں۔ وہ دولت، فرقے، مسلک، علاقائیت، قبائلی تعصب، بے اصولی، بے ایمانی، دھونس، دھاندلی اور غنڈہ گردی کی قوت سے الیکشن لڑتے اور کامیاب ہوتے ہیں۔ یہی لوگ اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنی دولت کو نہ صرف تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ اس میں بے تحاشہ اضافہ بھی کرتے ہیں۔ میاں شریف اور زرداری نے حکمرانی کے زور پر اپنی اپنی ایمپائر کھڑی کی اور پھر ایسے لوگوں کو مراعات دیکر اپنے ساتھ ملا لیا جوسچ میں جھوٹ ملانے کے ماہر اور ا ن کی قصیدہ گوئی کو اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتے ہیں۔ اس گروہ میں ہر دو جانب کے صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں کے ممبران، سینٹ کے اراکین، صحافی میڈیا ہاؤس، ہاؤسنگ سکیموں کے مالکان، سول سرونٹ، کار خانہ دار، سرمایہ دار، سمگلر اور غنڈہ عناصر کی کثیر تعدادی موجود ہے جو ریاست پاکستان میں متوازی حکومت چلا رہے ہیں۔ جس ملک میں دو متوازی حکومتیں قائم ہوں وہاں آئین کی حیثیت نمائشی اور عوامی رائے علامتی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ حکومت میں ہوں یا نہ ہوں اُن کا اقتدار قائم رہتا ہے جس کی وجہ اُن کی وظیفہ خوربیورو کریسی، غنڈہ عناصر، سرمایہ دار، کارخانہ دار اور ہر سطح پر عدالتوں میں بیٹھے خاموش کردار ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے ملکی نظام مفلوج کرنے اور ملکی وسائل لوٹنے کی مربوط پالیسی اپنا رکھی ہے اورہر دو جماعتوں کا تھنک ٹینک اس پالیسی پر مسلسل کام کر رہا ہے۔ دونوں جماعتوں کا میڈیا سیل جسے فوج،ملک اور دین مخالف صحافی جنہیں بھارت، افغانستان، کچھ عر ب اور مغربی ممالک کی آشیر باد حاصل ہے اس پالیسی کو خارجی محاذ پر پھیلانے اور ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کو بدنام کرنے کے مشن پر گامزن ہیں۔ عمران خان کی حب الوطنی اپنی جگہ مگر سیاسی نا پختگی کے علاوہ پارٹی عہدیداروں اور کابینہ میں بیٹھے لوگوں کی کارکردگی، سطحی سوچ، عوام الناس سے دوری، منافع خوری کے علاوہ غیر ذمہ دارانہ روش نہ صرف عمران خان بلکہ ملکی مفاد کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ زرداری اور نوازشریف خاندان کی سوچ اور سیاست نہ صرف منفی اور مضر ہے بلکہ بڑی حدتک ملک دشمنی اور ملت فروشی کے اصولوں پر گامزن ہے۔ دونوں سیاسی گھرانوں کی سوچ ہے کہ ملک کو معاشی، سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اس سطح پر لایا جائے کہ اس گراوٹ اور تنزلی کا ذمہ دار فوج اور عدلیہ کو ٹھہرایا جائے۔ ملکی اور بین الااقومی سطح پر ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی مدد سے ملکی سلامتی کے اداروں پر کیچڑ اچھال کر انہیں اس قدر بدنام کیا جائے کہ عالم سطح پر اُن کی ساکھ نہ صرف متاثر ہو بلکہ انہیں زرداری اور شریف گھرانوں کے سامنے جھکنے یا پھر ملکی معاملات اپنے ہاتھ لینے کے سوا کوئی راستہ دکھلائی نہ دے۔ چھپن کے قریب مسلم ممالک پر بھارت، یورپ اور امریکہ نواز عرب حکومتوں کا اسقدر دباؤ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے شکنجے سے نکلنے کے لئے پاکستان کو سات ووٹ بھی دستیاب نہیں۔ زرداری اور شریف خاندانوں کی عنایات پر پلنے والا میڈیا اسے عمران خان کی ناکامی  ثابت کرنے اور مریم اور بلاول کی حکمرانی کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے بطور سیاسی ہتھیاراستعمال کر رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف میں کوئی ایسا شخص نہیں جو مریم اور بلاول میڈیا کے اثرات زائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بد کلامی، پھکڑ پن اور جگت بازی کا اسی انداز میں جواب ففتھ جنریشن وار کے کھلاڑیوں پر ہر گز اثرا انداز نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ روش ملکی اور قومی مفاد میں ہے۔

سلیم صافی نے اپنے ایک پروگرام میں سندھ مسلم لیگ ن کے صدر شاہ محمد شاہ سے سوال کیا کہ نیشنل عوامی پارٹی پر ذوالفقار علی بھٹو نے پابندی لگائی اور ولی خان کے علاوہ دیگر اہم سیاستدانوں کو حیدر آباد جیل میں بند کر دیا۔ ان پر غداری کا مقدمہ چلا اور ا س سلسلے میں حید رآباد ٹربیونل قائم ہوا۔ سلیم صافی نے یہ بھی پوچھا کہ یہ ٹربیونل کس کی ایمأ پر قائم ہوا تو شاہ محمد شاہ نے کہا کہ جس نے یہ ٹربیونل ختم کیا۔ سلیم صافی نے کہا کہ اس کا واضح مطلب ہے کہ یہ ٹربیونل ضیاء الحق کی ایمأ پر بنا اور پھر اسی نے اسے ختم کر دیا۔

سلیم صافی کے ایسے پروگرام ففتھ جنریشن وار کی یہ واضح مثال ہیں اور عام لوگ اور وہ ممالک جہاں سلیم صافی کا بیانیہ بکتا ہے بغیر سوچے اس سازش اور فوج مخالف بیانیے پر نہ صرف یقین کرلیں گے بلکہ اسے موزوں وقت پر استعمال بھی کرینگے۔ سیلم صافی کا فوج اور پاکستان مخالف رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے جنازے کر موقع پر سلیم صافی نے کہا تھا کہ وہ افغان پاکستانی ہے۔مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ پاکستان میں افغانستان کا ہی نمائندہ ہے۔سلیم صافی کے سوالات اور جواب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تیار کیئے جاتے ہیں اور اسی کا نام میڈیا وار ہے۔ سلیم صافی کو پتہ ہو گاکہ بلوچستان میں تخریب کاری کے دوران فوج کی کمان جنرل ٹکا خان کر رہے تھے اورجنرل راجہ اکبر خان بلوچستان میں کور کمانڈر تھے۔ جنرل ضیاء الحق تب بہت جونیئر تھے اور میجر جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ حیدر آبا دٹربیونل بہت پہلے قائم ہو چکا تھا جسے جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا ء  کے دوران ختم کر دیا۔

سلیم صافی کے ایسے پروگرام ففتھ جنریشن وار کی یہ واضح مثال ہیں اور عام لوگ اور وہ ممالک جہاں سلیم صافی کا بیانیہ بکتا ہے بغیر سوچے اس سازش اور فوج مخالف بیانیے پر نہ صرف یقین کرلیں گے بلکہ اسے موزوں وقت پر استعمال بھی کرینگے۔ سیلم صافی کا فوج اور پاکستان مخالف رویہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے جنازے کر موقع پر سلیم صافی نے کہا تھا کہ وہ افغان پاکستانی ہے۔مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ پاکستان میں افغانستان کا ہی نمائندہ ہے۔سلیم صافی کے سوالات اور جواب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تیار کیئے جاتے ہیں اور اسی کا نام میڈیا وار ہے۔ سلیم صافی کو پتہ ہو گاکہ بلوچستان میں تخریب کاری کے دوران فوج کی کمان جنرل ٹکا خان کر رہے تھے اورجنرل راجہ اکبر خان بلوچستان میں کور کمانڈر تھے۔ جنرل ضیاء الحق تب بہت جونیئر تھے اور میجر جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ حیدر آبا دٹربیونل بہت پہلے قائم ہو چکا تھا جسے جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا ء  کے دوران ختم کر دیا۔

سورۃ العنکبوت آیت بارہ میں ایسے جھوٹوں اور حقیقت کو مسخ کرنیوالوں کے متعلق فرمایا کہ” البتہ اٹھائینگے اپنے بوجھ اور کتنے بوجھوں کیساتھ۔ البتہ قیامت کے دن ان سے پوچھ ہوگی جو باتیں یہ جھوٹ پر مبنی بناتے تھے”۔ تفسیر میں لکھا ہے کہ جو لوگ جھوٹ بول کر دوسروں کے گناہ اپنے سرلیتے ہیں وہ اُن ہی کی صف میں شامل ہیں۔ حامد میر ہو یا سلیم صافی یا اس روش پر چلنے والے دیگرصحافی اور دانشور، کیا وہ نہیں جانتے کہ زرداری، نواز شریف، گجرات کے چوہدری،ملتان کے گیلانی، مخدوم، سرحد کے خوانین اور نوابین نے کیسے دولت کمائی اور کس طرح پہلے انگریزوں کی غلامی اور پھر اُن کی جگہ خود لیکر انگریز کی جانشینی کا حق اداکیا۔آج عدلیہ پوچھ رہی ہے کہ زرداری، شریف خاندان اور دیگر کی کرپشن کا ثبوت لاؤ۔سب سے بڑا ثبوت تو ان کی دولت اور حسب ونسب ہے۔ ارسطو کی بیان کردہ تینوں طاہری وجوہات کا تجزیہ کیا جائے تو قائداعظم ؒ اور پھر حسین شہید سہروردی کے بعد یہ تینوں وجوہات سامنے آنے لگیں اور مملکت آہستہ، آہستہ ایک خاموش مگرھلاکت خیز انقلاب کی طرف سے سرکنے لگی۔ سکندر مرزا، ایوب، بھٹو، ضیاء الحق، پرویز مشرف، زرداری اور نواز شریف کے تینوں ادوار میں نودولیتے کرپٹ خاندانوں نے اشرافیہ کے لبادے میں سیاسی کاروبارشروع کیا تو دیگر طبقات سے بھی حصہ داری کا خاموش معائدہ کر لیا۔ سول بیورو کریسی نے عام آدمی سے جینے کا حق چھین لیا تو کسی بھی شخص کی عزت و آبرو اور آزادی محفوظ نہ رہی۔ سکندر مرزا، بھٹو اور نوازشریف نے ملکی حالات میں ایسا بھگاڑ پیدا کیا کہ عدل و اعتدال کو مشکوک بنا دیا گیا۔ جسٹس منیر کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں ایسے ججز تعینات ہوئے جن کی وجہ سے نظام عدل میں بد اعتدالی اور مساوات کے معنی ہی بدل گئے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے من پسند وکیلوں، رشتہ داروں، پارٹی ورکروں اور اہم سیاسی عہدوں پر فائز افراد کے عزیز وں اور رشتہ داروں کے علاوہ کچھ ایسے لوگوں کو اعلیٰ عدلیہ میں جگہ دی جو عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے خواص کے حقو ق کے محافظ بن گئے۔ جسٹس افتخار چوہدری کا عدالتی، سیاسی اور مفاداتی کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کی بد ترین مثال ریکوڈک کا فیصلہ ہے جس کی وجہ سے ریاست کو اربوں ڈالرکا نقصان ہوا اور عالم سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ عدل کے فقدان کی وجہ سے ہی عدم مساوات، معاشی، ناہمواری، سیاسی جانبداری، انتہا پسندی کے علاوہ مڈل کلاس اور متوسط طبقہ غربت وافلاس کا شکار ہوتا ہے۔ دنیا کے امیر ترین ممالک میں امراء کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ یہ لوگ معاشرے میں معزز اور معتبر مقام رکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بیرون ملک بے نامی جائیدادوں کا مالک نہیں اور نہ ہی کسی نے کرپشن کی کمائی سے سرے محل، ایون فیلڈ اپارٹمنٹ، دنیا کے ہر امیر ملک میں اربوں ڈالڑ کے بینک اکاؤنٹ، دبئی میں آسمان کو چھوتے ٹاور، فرانس میں خفیہ جائیدادیں اور مشرقی بعید اور آسٹریلیا میں جزیرے خرید رکھے ہیں۔ یہ لوگ اپنی دولت کی نمائش نہیں کرتے اور نہ ہی قانون سازی میں کوئی مداخلت کرتے ہیں۔ ان ہی لوگوں کے دیے ہوئے ٹیکس سے ملکی نظام چلتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر صنعت کار، کارخانہ دار، تاجر اور جاگیردار خود یا اُس کا نمائندہ سینٹ یا اسمبلی میں بیٹھا ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔

عدم مساوات کے بیان میں ارسطوں کا کہنا ہے کہ اگر عدم مساوات کا احساس بڑھتا رہے تو معاشرہ بہت جلد عدم استحکام کا شکار ہو کر قانون کی پاسداری سے منحرف ہو کر خاموش یا باغیانہ روش اختیار کر لیتا ہے۔ جن معاشروں میں انقلاب برپا کرنے کی سکت نہیں ہوتی وہاں لاقانونیت اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے۔ خارجی طاقتیں اس روش سے فائدہ اٹھا کر ریاستی نظام کو مفلوج کردیتی ہیں اور ریاست عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہے۔ عدم مساوات سے صرف معاشرہ ہی نہیں بلکہ ملکی معیشت، صنعت وحرفت اور دیگر شعبہ جات میں بدامنی اور بد اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے۔ ملکیت کی غیر منصفانہ تقسیم،زرعی پیداوار میں کمی اور غربت کا باعث بنتی ہے۔ اشیائے ضروریہ مہنگی اور نایاب ہونے کی وجہ سے لوٹ مار، چوری چکاری جیسے جرائم کا باعث بنتی ہیں جس کی وجہ سے متوسط طبقہ غریب سے غریب تر اور منافع خور تاجر اور ذخیرہ اندوز حکومتی اہلکار امیر کبیر ہو جاتے ہیں۔(جاری)

Exit mobile version