Tarjuman-e-Mashriq

اکیلی مائیں

فیضان عارف

وہ جس پاکستانی کی محبت میں مبتلا ہوکر مسلمان ہوئی تھی وہ اُسے چھوڑ کر جا چکا تھا اور اب وہ اکیلی ماں بن کر اپنی دوبچیوں کی پرورش کررہی تھی۔وہ سوشل سروسز کے محکمے میں منیجر کے عہدے پر فائز تھی ، اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ زندگی بھر دوسری شادی نہیں کرے گی اور اپنی بچیوں کی تعلیم و تربیت کو ہی اوّلیت دے گی۔ کہنے کو تو وہ انگریزتھی لیکن جب سے اس نے اپنا مذہب بدلا تھا اس نے خود کو مکمل طور پر ایک مسلمان عورت کے سراپے میں ڈھال لیا تھا۔ اس کا رہن سہن بہت سادہ اور بناوٹ سے پاک ہوگیا اور وہ اپنے طرزِ زندگی سے بہت مطمئن تھی لیکن جب کبھی اس کی ملاقات برطانیہ میں آباد پیدائشی مسلمان عورتوں سے ہوتی تو وہ اُن کی دورخی زندگی اور قول و فعل کے تضاد پر حیران اور ششدر رہ جاتی ۔ اُسے انٹر فیتھ کانفرنسز میں بھی مدعو کیا جاتا جہاں وہ ایک نومسلم کے طور پر اپنے خیالات کا اظہارکرتی۔ ایک بار اُسے لندن میں مسلم سنگل مدرز یعنی مسلمان اکیلی ماؤں کے مسائل پر گفتگو کرنے کے لیے اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی جب وہ سیمینار میں پہنچی تووہاں مختلف مسلمان ممالک کا پس منظر رکھنے والی اکیلی ماؤں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس نے سوشل سروسز کے محکمے میں کام کے دوران اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں اپنی تقریر کا آغاز کیا اس نے کہا کہ اکیلی ماں بن کر زندگی گزارنا واقعی ایک بہت بڑاالمیہ ہے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ یہ بتانا پڑرہا ہے کہ مسلمان اکیلی ماؤں کی اکثریت ایسی ہے جو محض زیادہ سے زیادہ بینیفٹ ( سرکاری امداد) کے حصول کے لیے سنگل مدر بنی ہوئی ہیں۔ میں صومالیہ، بنگلہ دیش ، البانیہ اور دیگر کئی مسلمان ملکوں کی ایسی درجنوں مسلمان ماؤں کو جانتی ہوں جو کاغذات اور ریکارڈ کی حد تک اکیلی مائیں ہیں لیکن وہ ہردوسرے سال ایک اور بچے کو جنم دیتی ہیں ۔ ان بچوں کو وہ Love Child کا نام دیتی ہیں اور اُن کے برتھ سرٹیفکیٹ پر والد کے نام کے خانے میں نامعلوم لکھواتی ہیں تاکہ مزید ’’سرکاری وظیفے ‘‘کے حصول میں آسانی رہے اور زیادہ بچوں کے لیے مزید بڑا گھر حاصل کرنے میں بھی سہولت میسر آئے۔ حجاب پہننے والی اکیلی مائیں جب بے نام باپ کے بچوں کو جنم دیتی ہیں یا داڑھی والا کوئی مسلمان مرد جعلی ڈس ایبلٹی یعنی معذوری کا الاؤنس وصول کرتا ہے تو انہیں خود کو مسلمان کہتے ہوئے سوچنا چاہئے کیونکہ مسلمان تو سچا، دیانتدار اور مثالی کردار کا مالک ہوتا ہے اور دنیاوی فائدے کے لیے اپنا ایمان فروخت نہیں کرتا۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ جو اکیلی مائیں معاشی فائدے کے لیے گمنام باپ کے بچوں کو جنم دیتی ہیں اُن بچوں کا مستقبل کیا ہوگا اور ایسے بچوں کو یہ مائیں کس اسلام کا درس دیں گی؟ ابھی وہ مزید حقائق سے پردہ اٹھانا چاہتی تھی لیکن اس نے محسوس کیا کہ حاضرین اور سیمینار کی آرگنائزر خواتین میں سراسیمگی پھیلنا شروع ہوگئی چنانچہ اس نے اپنی تقریر مختصر کردی… برطانیہ ایک ملٹی کلچرل ملک ہے ۔ پونے سات کروڑ آبادی پر مشتمل اس جزیرے میں دنیا بھر کی مختلف قوموں اور مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق یونائیٹڈ کنگڈم میں تقریباً 33 لاکھ73ہزارمسلمان مقیم ہیں جو اس ملک کی کل آبادی کا5.1 فیصد ہیں ۔ ان مسلمانوں میں اکثریت کا تعلق پاکستان، بنگلہ دیش ، بھارت ، صومالیہ ، مراکو، ماریشس ، ترکی اور دیگر ممالک سے ہے۔ 10لاکھ مسلمان صرف گریٹر لندن میں رہتے ہیں برطانوی مسلمانوں کا اس ملک کی ترقی میں بہت اہم کردار ہے ۔ اسلام برطانیہ کا دوسرا بڑا مذہب ہے ۔ گزشتہ انتخابات میں18 مسلمان امیدوار برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے جن میں اکثریت خواتین کی ہے جبکہ لندن کے میئر صادق خان بھی پاکستان نژاد ہیں۔ برطانیہ میں آباد دیگر نسلی اقلیتوں کے مقابلے میں مسلمان کمیونٹی تعلیم کے میدان میں کافی پیچھے ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مختلف ممالک کے مسلمانوں اور خاص طور پر صومالیہ اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی مسلم کمیونٹی کی اکثریت کی ترجیحات میں اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم دلوانا شامل نہیں ہے۔ کثرتِ اولاد کی وجہ سے ان دو کمیونیٹز کے زیادہ تر لوگ کام نہیں کرتے اور ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ بینیفٹس ( سرکاری امداد) اور کونسلز کے بڑے گھروں کے حصول کے لیے تگ ودو کی جائے یہی وجہ ہے کہ جب سرکاری اعداد و شمار اکٹھے کئے جاتے ہیں تو بے روزگاری اور پسماندگی کے لحاظ سے یہ دونوں مسلمان کمیونیٹیز سب سے اوپر نظر آتی ہیں۔ اس ملک میں بچے کی پیدائش سے لے کر بالغ ہونے تک اس کی پرورش، دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے اس لیے بہت سے مسلمان گھرانے محض برطانیہ کی آبادی میں اضافے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ مجھے یادہے کہ پچھلی صدی کے اختتام پر یہاں کے ایک اخبار نے برطانیہ کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اعدادوشمار کی روشنی میںپیش گوئی کی تھی کہ اگر بنگلہ دیشی اور صومالیہ کے مسلمانوں کے ساتھ کئی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے برطانوی شہریوں کے گھرانوں میں اسی تناسب سے بچوں کی پیدائش کا سلسلہ جاری رہا تو 2050تک برطانیہ میں سفید فام آبادی 50فیصد سے کم ہونا شروع ہو جائے گی کیونکہ سفید فام لوگوں میں بچوں کی پیدائش کا تناسب مسلسل کم اور نسلی اقلیتوں یعنی غیر سفید فام گھرانوں میں بچوں کی پیدائش کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ برطانیہ اور یورپ ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ محدود آبادی ہے۔ یہاں آبادی کم اور سو فیصد پڑھی لکھی ہے، آبادی کے مقابلے میں وسائل زیادہ ہیں۔ ملک بھی گھروں کی طرح ہوتے ہیں مثلاً ایک چار کمرے کے گھر میں چار افراد رہتے ہوں تو چاروں مل کر اس گھر کو صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں ۔ میسر وسائل اور سہولت کے ساتھ رہ سکتے ہیں لیکن اگر اسی چار کمرے کے گھر میں8افراد رہنا شروع کردیں تو رفتہ رفتہ اس گھر کے وسائل ہر فرد کے لیے ناکافی ہونا شروع ہو جائیں گے اور گھر کو صاف ستھرا رکھنا اور رہائش کے معیار کو بہتر بنانا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ ہم اگر دنیا کے کسی بھی ملک اور اس کی آبادی کے تناسب سے اُن کی تعمیر وترقی کا جائزہ لیں تو چین کے علاوہ ہر وہ ملک ترقی پذیر یا پسماندہ ہے جس کی آبادی میں اس کے وسائل کے مقابلے میںمسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہر وہ ملک ترقی کررہا ہے جس کی آبادی محدود ہے اور وسائل دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔ آبادی پر کنٹرول اور وسائل میں اضافہ ہی موجودہ دنیا کی ترقی کا زینہ اور خوشحالی کی سیڑھی ہے۔ دنیا کے195 ممالک میں سے جن جن ملکوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے اُن کی پسماندگی رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ پاکستان ہو یا بھارت ، بنگلہ دیش ہویا افغانستان یا پھر یورپ کا ہی کوئی ملک ہو جو شخص ( شوہر یا بیوی) جو جتنا زیادہ پڑھا لکھا ہے اُن کے ہاں اتنے ہی کم بچے ہیں اور اُن کے پاس ان بچوں کی پرورش کے لیے وسائل بھی کافی سے زیادہ ہیں جبکہ جو میاں بیوی ان پڑ ھ یا کم تعلیم یافتہ ہیں اُن کے ہاں اولاد کی کثرت اور وسائل ناکافی ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ملک اپنی آبادی پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے تو اُسے خواندگی کی شرح میں اضافے کے لیے ترجیحی اور ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہئے کیونکہ جہالت کے خاتمے سے ہی آگاہی اور ترقی کے امکانات کی راہیں ہموار ہوتی ہیں مسلمانوں کو تو علم کے حصول میں اس لیے بھی سب سے آگے ہونا چاہئے کہ ہم جس پیغمبر ؐ کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں ، اس نے تو علم کو مومن کی میراث اور کھویا ہوا مال قرار دیا ہے جو جہاں سے بھی ملے حاصل کر لو۔کچھ عرصہ پہلے بھی میں نے اپنے ایک کالم میں اس حقیقت اور المیے کی نشاندہی کی تھی کہ اگر موجودہ حکومت واقعی پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے سنجیدہ ہے تو اُسے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر قابوپانے اور خواندگی یعنی تعلیم کی شرح میں اضافے کے لیے فوری اور مؤثر منصوبہ بندی کرنا ہوگی وگرنہ پاکستان کے وسائل میں دن بہ دن کمی اور آبادی میں آئے روز خطرناک حدتک اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے طرح طرح کے معاشرتی، نفسیاتی اور معاشی مسائل خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جب کسی کشتی میں پانی بھرنا شروع ہو جائے تو اُسے ڈوبنے سے بچانے کے لیے اس میں سے پانی کی بالٹیاں بھربھر کے نکالنے سے زیاد ہ ضرو ری ہے ، اس سوراخ کو بند کیا جائے جہاں سے پانی کشتی میں داخل ہورہا ہے۔

Exit mobile version