Tarjuman-e-Mashriq

ایشیاءکا دل افغانستان

 
علامہ اقبال ؒ نے افغانستان کا طویل دورہ کرنے کے بعد ایک طویل نظم” اوعا فل افغان” کے عنوان سے لکھی مگر مکمل مایوس نہ ہوئے اور افغانستان کو ایشیاء کا دل قرار دیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک  ہارٹ آف ایشیاء کے نام سے ایک کانفرنس کا انعقاد بھی ہوتا رہا مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ حکیم الامت علامہ اقبال ؒ سے پہلے حضرت شیخ سعدیؒ بھی افغانوں کے باہم جھگڑوں، دشمنیوں اور غیر سنجیدہ رویوں سے سخت نالاں تھے۔ حضرت شیخ ؒ نے ترکوں کے حُسن، ایرانیوں کی نزاکت اور ہندیوں کے علم و ہنر کی تعریف کے بعد لکھا کہ کم عقلی و پستی بہ افغان دادی۔ اس میں شک نہیں کہ1747 کے بعد اوراُس سے پہلے کبھی کوئی بیرونی حملہ آور اس خطہ زمین پر قابض نہ ہوسکا مگر پڑوسی ممالک سے آنیوالے قبائل نے جہاں ویرانہ دیکھا وہاں خیمہ لگا لیا۔ ازبک، تاجک، ترکمان اور دیگر قبائل ان ہی پنا گزینوں کی اولادیں ہیں۔ احمد شاہ ابدالی سے لیکر ظاہر شاہ تک سوائے ہزار ہ قوم کے کبھی کسی غیر پشتون نے حکومت کے معاملات میں دخل اندازی نہ کی اور نہ ہی حکومت سازی میں کوئی حصہ طلب کیا۔ افغانستان میں طریق حکمرانی ہمیشہ سے منفرد رہا اور قبائل اپنے اپنے علاقوں تک محدود اور آزاد زندگی بسر کرتے رہے۔
کابل کے تخت پر براجمان بادشاہ اپنی من پسند کا بینہ، مختصرفوج، مقامی پولیس، لویی جرگہ  ، شرعی عدالت اور علمائے کرام کی کونسل کے ذریعے حکومت چلاتا رہا۔ مختصر اور محدود وسائل کے باوجود حکمران خوشحال اور عوام آزاد، بے فکر و بد حال اور شکر گزار زندگی بسر کرتے رہے۔ نہ ملک مقروض تھا، نہ عوام پر کوئی معاشی اور نفسیاتی بوجھ تھا کہ یکا یک ماسکوسے اٹھنے والی سرخ ہواؤں نے کابل یونیورسٹی کے ٹھنڈے علمی ماحول کو گرما دیا۔ سردار داؤد نے ظاہر شاہ کی غیر موجودگی سے فائدہ اُٹھا یا اور حکومت پر قبضہ کر لیا۔ کم عقلی و پستی کا نیادور شروع ہو گیا اور ہر طرف غفلت کے اندھیرے چھا گئے۔ خلقیوں اور پرچمیوں نے لینن، سٹالن اور کار ل مارکس کے نام پر ایک دوسرے کا قتل عام جائز تصور کرتے ہوئے بد امنی اور خونریزی کے سابقہ ادوار بحال کر دیے۔ سردار داؤد کے بعد نور محمد تراکئی اور حفیظ اللہ امین قتل ہوئے اور اُن کے خاندان صدارتی محل سے پل چرخی جیل منتقل ہوتے رہے۔ ابتر سیاسی حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں اور چند ہفتوں کے اندر سارے افغانستان پر قابض ہو گئیں۔ روسیوں نے پہلی بار ایک غیر پشتون ببر ک کارمل کو افغانستان کاکٹھ پتلی صدر تعینات کیا، خفیہ ایجنسی خاد کی تربیت کی اور اسے کے جی بی اور ”را“ کی معاونت سے پاکستان شپیشل بنا دیا۔ 79سے86تک سویت افواج نے افغانوں کی روش بدلنے اور انہیں جدید سوشلسٹ کلچر میں ڈھالنے پر اربوں ڈالر خرچ کیے مگر نہ افغان بدلے اور نہ افغانستان بدلا۔ سوشل ریفامز سے بدل ہوئے روسیوں نے اپنے جدید توپخانے، میزائیلوں، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور جدید جنگی جہازوں کا بے دریغ استعمال کیا۔ بستیوں پر ٹینکوں کے ذریعے یلغار کی،کیمیائی اور جراثیمی ہتھیار استعمال کئیے۔زمینی افواج نے پشتونوں کو بے دریغ قتل کیا۔ غیر پشتونوں کے علاوہ بڑی تعداد میں پشتونوں نے بھی روسیوں کی مدد کی اور کیمیونزم کی برکات سے مستفیض ہوتے رہے۔اسی دوران پاکستان کے تعلیمی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ دانشوروں، صحافیوں اور استادوں نے بھی سرخ آندھی سے اُمید یں وابستہ کر لیں اور ایشیاء کو سرخ کرنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ فیض احمد فیض نے لینن ایوارڈ وصول کیامگر پروفیسر وارث میر محروم رہے۔ بیٹے حامد میر نے پاکستان، قائداعظم ؒ، اسلام اور افواج پاکستان مخالف رویہ اپنایا تو نہ صرف حسینہ واجد سے بلکہ ساری دنیا کی پاکستان مخالف قوتوں اور ملکو ں سے تمغے اور سندیں وصول کیں۔
آٹھ جماعتی افغان اتحاد اگرچہ کاغذی اتحاد تھا مگر اپنے اپنے علاقوں میں غیر روائیتی جنگی طریقوں سے روسیوں کی فوجی قوت اور نظریے کا خاتمہ کر دیا۔ سویت یونین بکھر گیا، دیوار برلن ٹوٹ گئی اور دنیا کا نقشہ بدل گیا مگر نہ افغان بدلے، نہ افغانستان بدلا، نہ ایشیا ء میں سرخی آئی، نہ پاکستان بدلا اور نہ ہی پاکستانی بدلے۔افغان اتحاد بکھر گیا، گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود جو پہلے سے ہی ایک دوسرے کے دشمن تھے اب کھل کر سامنے آگئے۔ببرک کارمل کے بعد دوسرا غیر افغان پروفیسر برہان الدین ربانی عہدہ صدارت پر فائز ہوا تو شمالی اتحاد روس اور بھارت کی بھرپور حمایت اور عسکری قوت کے سہارے حکمران بن گیا۔ گلبدین حکمت یار کی سیاسی اور جنگی حکمت عملی پر دیگر جماعتوں اور فیلڈ کمانڈروں نے کبھی بھروسہ نہ کیا اور نہ ہی باہم ملکر کبھی کوئی مشن مکمل کیا۔مکہ اورپشاور معاہدوں کی بنیاد پرگلبدین حکمت یا رربانی حکومت میں وزیراعظم نامزد ہوئے مگر شمالی اتحاداور تاجک قیاد ت کے تیور دیکھتے ہوئے کابل سے کچھ فاصلے پرسروبی کے مقام پر ہی  ٹھہرے   رہے۔
شمالی اتحاد نے پشتونوں کی روایات کو پامال کرنا شروع کیا تو جرائم پیشہ عناصر نے مافیا کی صورت میں ہر صوبے میں اپنی متوازی حکومت قائم کر لی۔ سمگلنگ، منشیات فروشی،بردہ فروشی، عورتوں اور بچوں کی بے حرمتی اور آبرو ریزی کا چلن عام ہوا تو جنوب مشرق سے ملا عمر کی قیات میں طالبان اُٹھے اور جنوب سے شمال تک سارے افغانستان پر قابض ہو گ گئے ۔ شمالی اتحاد وادی پنج شیر تک محدود ہو گیا۔ مزار شریف کی فتح کے بعد عبدالرشید دوستم اور استاد عطا نور نے طالبان سے امن معاہدہ کیا مگر چند روز بعد ہی طالبان کے مختصر لشکر اور گورنر کو قتل کرنے کے بعد احمد شاہ مسعود کیساتھ اتحاد کر لیا۔ اسی دوران ایران اور طالبان کے درمیان بھی رنجش  پیدا ہوگئی۔ اگر چہ طالبان اور ایران کے درمیان جنگ کی نوبت نہ آئی مگر حالات آخر دم تک کشیدہ رہے اور احمد شاہ مسعود کی حمایت کرنے والے ممالک میں ایران بھی شامل ہو گیا۔ مغربی ممالک میں فرانس سرفہرست تھے  چونکہ احمد شاہ مسعود نے فرانس سے ہی تعلیم حاصل کی تھی اور فرانسیسی حکومت کی ایمأ پر ہی واپس آیا تھا۔ احمد شاہ مسعود نے روسیوں کے خلا ف بھی کوئی جنگ نہ لڑی تھی بلکہ ابتدائی معرکوں کے بعد روسی افواج کسی خفیہ ڈیل کے بعد واخان اور پنج شیر سے چلی گئی تھیں۔
طالبان کا پانچ سالہ اقتدار ساری دنیا کے لئے ایک الگ اور انوکھا تجربہ تھا۔ ایک طرف وہ مسلسل حالت جنگ میں تھے اور دوسری طرف وہ کسی بیرونی حمایت کے بغیر نظام حکومت بھی چلا رہے تھے۔ ملک میں امن تھااورجرائم کا شائبہ تک نہ تھا۔ 9/11کے بعد امریکہ اقوام متحدہ کی منظوری سے افغانستان پر حملہ آور ہوا تو 55سے زیادہ ممالک کی فوجیں اور خفیہ اداروں کے اہلکارامریکی فوجی اتحاد میں شامل ہوئے۔ ہزاروں طالبان اس جنگ کا نشانہ بنے اور لاکھوں بے گھر ہو گے۔ روس کے بعد اب یورپ، امریکہ، بھارت، اسرائیل، آسٹریلیا،، کینڈا، نیوزی لینڈ اور جاپان کے علاوہ افریقی ممالک اس اتحاد میں شریک ہوئے۔ بیس سال تک افغانستان جدید جنگی ہتھیاروں کی زد میں رہا مگر طالبان کا خاتمہ نہ ہوسکا۔طالبان جنگ بھی کرتے رہے اور دینی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم کی طرف بھی متوجہ ہو ئے۔ بیس سال بعد جب دنیا تھک گئی تو طالبان عزم نو لیکر دنیا کے سامنے آئے۔ دوحہ کے مقام پر طالبان نے امریکہ اور اُس کے اتحاد یوں کو علمی، عقلی، سیاسی اور نفسیاتی شکست دیکر دنیا پر ثابت کر دیا کہ اب وہ نہ غافل ہیں اور نہ ہی کم عقل اور پست ذہن رہے ہیں۔ اب کم عقلی و پستی امریکہ اور اُس کے اتحادیوں سمیت پاکستانی دانشوروں، مبصروں، مغرب اور بھارتی نواز صحافیوں کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔
افغان بدلے رہے تو افغانستان بھی بدل جائیگا مگر پاکستانیوں کے بدلنے کا کائی ارادہ نہیں۔ قیادت کرپشن کے دلدل میں دہنسی ہوئی ہے اور عوام کرپٹ، بددیانت، بد کردار، کم عقل اور پشت ذہن قیادت کی غلام ہے۔ افغانوں نے حضرت سعدی ؓ اور اقبال ؒ کی روحوں کو خوش کیا اور اب اہل ایشیاء پر فرض ہے کہ وہ اپنے زخمی دل پر توجہ دیں۔ چین پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے تعلق کی بنا  پر روس بھی افغانستان کا پڑوسی ہے۔ بھارت چانکیائی ریاست ہونے کی وجہ سے قابل اعتماد نہیں اور نہ ہی افغان اور طالبان قاتل بھارتیوں کو اپنی سرزمین پر آنے کی دعوت دینگے۔ اگر ایشیاء والوں نے اپنے دل کی حفاظت نہ کی تو ایشیاء ہمیشہ کی طرح دنیا کا مرد بیما ر  رہے گا۔ افغانستان میں امن ایشیاء کی خو شحالی کا باعث ہوگا۔پڑوسی ممالک کے درمیان باہمی روابط، تجارت سیاحت و مفاہمت کے سب راستے افغانستان سے گزرتے ہیں۔ افغانوں کا طرز معاشرت اور طریقہ حکمرانی کیا ہوتا ہے یہ سب وہاں کی حکومت نے سوچنا ہے دیگر دنیا نے نہیں۔پاکستانی صحافیوں، اینکروں اور دانشوروں اور سیاسی پنڈتوں کو افغانستان میں انسانی حقوق اور عورتوں کا غم کھائے جا رہا ہے۔ کیا کبھی کسی طالبان نے تم سے پوچھا ہے کہ چار سو مرد ایک عورت پر کیوں یلغار کرتے ہیں۔ تمہارے امیروں کے بچے غریبوں کا قتل کیوں کرتے ہیں، ماڈل ٹاؤن جیسے قتل عام کیوں ہوتے ہیں، تمہارے زرداری اور شریف ملک کیوں لوٹتے ہیں۔ ذرا سوچیے اور اپنامزاج اور معاشرہ بدلیے۔

Exit mobile version