Tarjuman-e-Mashriq

بانوقدسیہ سےملاقات

 تحریر: محمد عمران سعید
1984میں پاکستان ٹیلیویژن کی بیسویں سالگرہ کی تقریب میں غزالہ قریشی کےسوال کےجواب میں بانوآپانےکہاتھا
’میں اب تصوف کےبھی زیادہ قریب ہوں اورقبرستان کےبھی اب مجھے اسی کےمتعلق لکھناہے‘
اس میں ان کی آدھی بات درست تھی
بہت بعد کا ذکرہے غالباً ایک انفرادی انٹرویو میں سوال کےجواب میں ان کاکہنا تھا کہ مجھ سےدنیا کےبارےمیں سوال کریں تو جواب دوں،یہ تو مرد کی ذات ہے جو عارفِ مولاہےوہ آپکواللہ تک پہنچنےکا کوئی راستہ بتائےتوبتائے
ایک بظاہر سادہ لوح خاتون لکھاری سے جب وہ عارفِ دنیا ہونےکانعرہ لگارہی ہواحتیاط لازم ہے
ہمارےکمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ ارشد بھٹی کوگلہ تھاکہ میں لوگوں سےملنےکےلیےان کےمرنےکاانتظارکرتاہوں
اس سنہری دوپہرماڈل ٹاؤن کےقبرستان میں اشفاق احمدسےملاقات ادھوری رہنی تھی جب تک اشفاق احمد کوبیا اورخودکوبئے کا گھونسلا کہنےوالی بانوآپا سے داستان سرائےمیں ملاقات نہ ہوجاتی
بانوقدسیہ تصوف کی گھٹی نہیں دیتیں، لفظوں کی انگلی پکڑا ایک نیرنگیٔ خیال کی بھول بھلیوں سےگزارقبرستان کی دہلیزپرلا چھوڑتی ہیں
راجہ گدھ میں قبرستان بہت شروع میں ہی آگیا تھا
گلبرگ کی سیمی کابےجان بدن اور عشق لاحاصل کا آموختہ مجھ جیسےقاری کولامتناہی تجسّس کےبیچوں بیچ ڈولتاچھوڑگیا
راجہ گدھ کی تازہ چوٹ کھائے سیالکوٹ کےمقیم ایک نیم لفٹین کولاہورکے لارنس گارڈن میں ترت مرادکامزارمل جائے تو اسکی قربت میں وہ کافورکا درخت بھی ڈھونڈنکالےگا
اسکی اگلی نظرمزارکی جالی میں اٹکے زمان ومکان کی قید سے آزاد ان منتی دھاگوں کوتلاش کرے گی جنہیں سیمی وہاں بندھا چھوڑگئی تھی
بہت زمانوں بعدکا قیوم جب ساندہ کلاں سےاڈاری بھرشیخوپورہ کی ہمسائیگی میں چندراکی نمک چاٹی زمینوں پراترےگاتومعلوم پڑےگاکہ مائی توبہ توبہ کےبھٹےکوتوکب کاکلّرکھاچکا
مگرآج نہیں توکل وہا ں بھٹہ توتھا
پتلیوں میں سوئیاں چبھوتی مائی توبہ توبہ تھی
ایک سایہ ہی سہی راجہ گدھ کا مہاندرہ تو تھا
ہرکھوج بے انت نہیں ہوتی، مگرجہاں بات قبرستانوں تک چلی جائےوہاں سراغ بندگلیوں میں کھوجایا کرتےہیں
وہ علی زیب روڈ کا جواں سال مزار ہو یا گرومانگٹ روڈ یا پھر غالب روڈ کے قبرستانوں کے بے نشان مکین اب نہیں بتاتے کہ گئے وقتوں میں کون تھا جو اندرون لاہورکےکشمیری, آفتاب کے عشق کا اسیرہوا
یہاں سے ہم ماڈل ٹاؤن قبرستان کی اس سہ پہرکوپلٹتے ہیں
اشفاق صاحب کےپاس فاتحہ پڑھ لینےکے کچھ دیربعدمیں ۱۲۱ سی پردستک دےرہاتھا
ایک مہمان کی آداب ملاقات کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کرملنےکی اس خواہش کی بانو آپا نے لاج رکھی، اللہ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے
کچھ دیربعدسفیدرنگ سرتاپامجسم سادگی میں ملبوس بانوآپا میرےسامنے بیٹھی تھیں
اشفاق صاحب کی قبرپرحاضری کاذکرکیاتوانجانےمیں دکھتی رگ چھیڑدی
درد کا ایک سایہ اس شفیق مسکراہٹ پرسےگزرگیا
غلطی کااحساس ہوا ہاتھ جوڑمعافی طلب کی
بانوآپاخودکوسنبھالتےہوئےگویا ہوئیں، بیٹا آپ اپنی بات پوری کیجیے
ان آنکھوں کی نرمی کی شہہ پائی تودست بستہ عرض کی کہ آپ دونوں محبوب ہستیوں کی تحریروں کی میرےدل پر بہت گہری چھاپ ہے
ابھی اشفاق صاحب کے پاس دعا کرتے ہوئے میرا بہت دل چاہا کہ میں آپ کو ایک نظردیکھ لوں
بانوآپایہ سنتے ہی کھڑی ہوگئیں اور بصدتشکر میرے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑدئیے
میں ہڑبڑاکراٹھ کھڑا ہوا اور انہیں بمشکل روک سکا
صاحب بڑے لوگوں کی عاجزی بھی انہی کی طرح قد آورہوتی ہے، میں اورآپ مزید بونے لگتے ہیں
جذبات سے عبارت ان لمحوں میں اجازت چاہی
بانوآپا نے رکنے اورکچھ کھاکرجانے پراصرارکیا مگرایک مشتاق ملاقاتی کےلیے عنایت کے یہ چند لمحے ہی سرمایۂ کل تھے
چھاؤنی جاتے ہوئے غروب آفتاب سے ذراپہلے میاں میرکےپل پرایک بےآسراانجن شنٹ کررہا تھا
کور ٹروپس کے میس پرافطارکرتےہوئے میں نے وہ سوال پپولےجو میں بناپوچھےلوٹ آیا تھا
راجہ گدھ کی سیمی کون تھی
کیا ہم نے اسے گلبرگ کےکسی گورستان مین دفنادیاتھا یا وہ ابھی تک ۱۲۱ سی ماڈل ٹاؤن میں رہتی ہے
یہ بات پرانی ہوئی، بانوآپا نےایک انتظارکےبعدزادعمرسمیٹااورماڈل ٹاؤن قبرستان میں اندرون لاہورکے اس کشمیری کے پاس جاسوئیں جس کے بارےمیں میڈم نورجہاں نے ان سےکہا تھا
دیکھو بی بی تمہاراشوہرپاکستانی تولگتانہیں اطالوی لگےتولگے، تم کچھ ڈھنگ کے کپڑےپہنو، میک اپ کروتوآغاجی کی جوڑی بھی سجے
اور ملکۂ ترنم کےمنہ سے یہ سن کر بقول بانوآپا وہ دل ہی دل میں اپنی لاٹری نکل آنے پرخوش خوش لوٹ آئی تھیں
Exit mobile version