Tarjuman-e-Mashriq

بریگزیٹ اور برطانیہ

بریگزیٹ اور برطانیہ  


(فیضان عارف (لندن  


 
​دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد یورپ کے کئی ملکوں کے سیاسی قائدین نے خطے میں دیرپا امن کے قیام اور اقتصادی تعاون کی ضرورت کو شدت سے محسوس کرنا شروع کیا تاکہ جنگ کی ہولناک شکست وریخت کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ یونا ئیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کی طرز پر یونا ئیٹڈ اسٹیٹس آف یورپ کو حالات کی ضرورت سمجھا گیا  جس کی حمایت اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے بھی کی۔ 1949ء میں ایک کونسل آف یورپ تشکیل دی گئی۔ جس کے بعد 1957ءمیں یورپین اکنامک کمیونٹی یعنی ای ای سی بنائی گئی۔اٹلی کے شہر روم میں ایک معاہدہ پر پانچ ممالک بیلجئیم، فرانس، ہالینڈ، ایسٹ جرمنی، اٹلی اورلگسمبرگ نے دستخط کئے اور یہ معاہدہ روم ٹریٹی کہلایا جو ایک طرح سے یورپی یونین کے قیام کی طرف پہلا قدم تھا۔ 9 مئی 1950ء کو فرانسیسی وزیر خارجہ رابرٹ شومین نے یورپی ملکوں کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعاون کے لیے ایک مشترکہ یونین کےقیام کو حالات کی ضرورت قرار دیا۔ بعد از اں یورپ کے بیشتر ملکوں نے تجارت کے فروغ کے لیے کسٹمز ڈیوٹی کو ختم کردیا ۔ خاص طور پر کوئلے اورسٹیل کی انڈسٹری نےبہت سے یورپی ملکوں کو ایک دوسرے  کی اقتصادی ضرورت بنا دیا۔ 1973ء میں برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک نے یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی۔ جس کے بعد اور بہت سے ممالک ای ای سی کا حصہ بنے۔ کیوں کہ زراعت، ماہی گیری اور علاقائی ترقی کے لئے اس یورپی اتحاد میں شمولیت اُن کے لئے ناگزیر ہوگئی تھی۔ یکم نومبر 1993 میں اس اتحاد کو باقاعدہ طور پر پورپی یونین کا نام دیا گیا۔ 1979ء میں ناروے نے یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت کے لئے ایک عوامی ریفرنڈم کروایا تھا جسے ناریجن لوگوں نے مسترد کر دیا اور یوں ناروے اب تک یورپی یونین کا حصہ نہیں ہے۔ 2002ء میں یورپی یونین کے 12 ممالک نے اپنی کرنسی کو ختم کر کے یورو کرنسی کو اپنایا اور یوں ڈالر کے بعد یورو کا شمار دنیا کی مستحکم کرنسی میں ہونے لگا۔ 2004 ء میں پولینڈ اور 2007ء میں رومانیہ اور بلغاریہ یورپی یونین میں شامل ہوئے تو اب ان ملکوں سے لاکھوں لوگ ہجرت کر کے برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے معاشی طور پر مستحکم ملکوں میں آباد ہوئے۔ اس وقت برطانیہ میں تارکینِوطن کی سب سے بڑی آبادی پولینڈ کے لوگوں کی ہے۔ اسی طرح رومانیہ کے 40 لاکھ لوگ نقل مکانی کر کے یورپ کے مختلف ملکوں میں آباد ہوئے جن میں سے 5 لاکھ برطانیہ میں مقیم ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی یونین کے لوگ بغیرویزے اور پاسپورٹ کے 29 ملکوں میں آجاسکتے ہیں۔ یورپی یونین کو انسانی حقوق کی علمبرداری اور یورپ میں قیام امن اور اقتصادی مساوات کی کوششوں پر 2012ء میں امن کا نوبل پرائز دیا گیا۔
​یورپی یونین میں شامل وہ ممالک جو اقتصادی طور پرمستحکم اور خوشحال ہیں، ان کے عوام کی اکثریت کا خیال ہے کہ اس اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے انہیں فائدہ کم اور نقصانات زیادہ ہیں، اسی لئے کئی ممالک کے لوگ گاہے بگاہے یورپی یونین سے نکلنے کے لئے مطالبات اور احتجاج کرتے رہتے ہیں۔برطانیہ میں بھی ایسے مطالبات ایک طویل مدت سے کئی جارہےتھے جو ٹوری پارٹی کے وزیر اعظم ڈیورڈ کیمرون کے دور ِحکومت میں زور پکڑ گئے اور انہوں نے اس مسئلے پر 23 جون 2016ءمیں ایک ریفرنڈم کر وایا جس میں 52 فیصد برطانوی عوام نے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس ریفرنڈم کے نتیجے میں یونائیٹڈ کنگڈم ایک ایسے سیاسی بحران کا شکار ہو گیا جس کی وجہ سے حکمران جماعت کے دو وزرائےاعظم ڈیوڈ کیمرون اور ٹریسامے کو اپنے عہدوں سے محروم ہونا پڑا اور برطانیہ میں مڈ ٹرم الیکشن اور عام انتخابات کے نتیجے میں بورس جانسن دوبار برطانوی وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ 2019ء کےجنرل الیکشن میں ٹوری پارٹی کو سادہ اکثریت حاصل ہونے کی وجہ سے برطانیہ کے لئے یورپین یونین سے نکلنے کا راستہ ہموار ہو گیا۔ 31 دسمبر 2020ء کے بعد جب برطانیہ اس اتحاد کا حصہ نہیں رہے گا تو یورپی یونین میں شامل ممالک کی تعداد 27 رہ جائے گی۔ یورپی یونین نے ہر ممکن کوشش کی کہ برطانیہ کے اس اتحاد سے نکلنے کو زیادہ سے زیادہ مشکل اور دشوار بنایا جائے تاکہ کوئی اور ملک یونائیٹڈ کنگڈم  کی تقلید نہ کرے۔ 2016ء کے ریفرنڈم کے نتیجے نے برطانیہ کے سیاسی اور معاشی مستقبل کا رخ موڑ دیا ہے۔ اس ریفرنڈم کے بعد سکاٹ لینڈ میں آزادی کا مطالبہ پھر سے زور پکڑنے لگا ہے جبکہ ٹریڈ ڈیل کے بغیر یورپی یونین سے نکلنے کے باعث برطانیہ کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور برطانوی عوام کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
​مجھے یاد ہے کہ جب نئی صدی کے آغاز میں یورپی یونین نے مشرقی یورپ کے کچھ ممالک کو اس اتحاد میں شامل کرنے کا عندیہ دیا تو برطانوی اخبارات نے تسلسل کے ساتھ ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اگر پاسپورٹ کے بغیر مشرقی یورپ کے لوگوں (رائٹ آف فری مومنٹ کے نام پر) کو برطانیہ آنے اور کام کرنے کی اجازت دی گئی تو پولینڈ اور رومانیہ سے تارکینِوطن کا ایک سیلاب برطانیہ آئے گا جس کے نتیجے میں این ایچ ایس یعنی نیشنل ہیلتھ سروس اور نظامِ تعلیم بُری طرح متاثر ہوں گے اور واقعی گزرنے والے پندرہ برسوں کے دوران برطانیہ اور خاص طور پر گریٹر لندن میں تعلیم اور صحت کی سہولتیں اضافی آبادی کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ برٹش ویلیوز جس پر گورے فخر کیا کرتے تھے، رفتہ رفتہ زائل ہوتی نظر آتی ہیں۔ اینٹی سوشل رویے، گھروں میں چوری، کھلے عام شراب نوشی، ریل گاڑیوں اور سٹیشنز پر بھیک مانگنے ،کاروں کی چوری، بینک اور انشورنس فراڈ، ناجائز مساج سنٹرز، منی لانڈرنگ، ٹیکس اور وی اے ٹی فراڈ اور سرکاری امداد یعنی بینیفٹ ڈس ایبلیٹی یعنی معذوری کے جعلی کلیمز میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے۔
​برطانوی دارلحکومت میں اب شاپنگ سنٹر کے باہر ریل گاڑیوں کے اندر، ٹرین سٹیشنز کے داخلی اور خارجی دروازوں پر، ٹریفک لائٹس پر اور معروف مقامات کے چوراہوں پر جگہ جگہ حجاب والی عورتیں اور لڑکیاں اور داڑھی والے معذور مرد بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ یہ بھکاری (جن میں سے اکثریت کا تعلق مشرقی یورپ کے ممالک سے ہے) تاثر دیتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ یہ پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں جو ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرتے اور علاقے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر رمضان میں یہ پیشہ ور بھکاری مسلمان اکثریت والے علاقوں پر یلغار کر دیتے ہیں۔ برطانوی مسلمانوں کو چاہیئے کہ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر بھیک مانگنے والے ان پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ اپنی کونسل اور علاقے کی رکن پارلیمنٹ کو اس بارے میں ای میل بھیجیں یا خط لکھیں کیونکہ ان بھکاریوں کی وجہ سے برطانیہ میں آباد یورپی مسلمان کمیونٹی کا نام بد نام ہو رہا ہے۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی سماجی تنظیموں اور مساجد کی انتظامیہ کمیٹیوں کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے مگر افسوس کہ برطانیہ میں آباد ہماری مسلمان کمیونٹی اور ان کے نمائندوں کو مسلمانوں کی ساکھ اور وقار سے زیادہ  اپنے ذاتی مفادات کی فکر رہتی ہے۔ بہر حال اب برطانیہ یورپی یونین سے نکلنے جا رہا ہے ۔2016ء کے ریفرنڈم کے وقت یونائیٹڈکنگڈم کی تمام سیاسی جماعتوں نے اکٹھے ہو کر اس اتحاد میں شامل رہنے کے حق میں بھر پور مہم چلائی تھی اور یہ پہلا موقع تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں نے مل کر برطانوی عوام کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں ووٹ دیں مگر برطانوی عوام نے سیاستدانوں کی اس اپیل کو یکسر مسترد کر دیا اور 28 یورپی ملکوں کے اس اتحاد سے نکلنے کے حق میں فیصلہ دیا۔ اسے کہتے ہیں جمہوریت اور ووٹ کی طاقت۔ جس کے بعد برطانوی حکمرانوں اور سیاستدانوں کے پاس ووٹ کو عزت دینے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ یہ ووٹ ہی کی عزت اور طاقت ہے کہ برطانیہ یورپی یونین سے نکل رہا ہے۔ 31 دسمبر 2020ءکے بعد برطانیہ کے حالات کیا ہوں گے؟ اس بارے میں برطانوی عوام کی اکثریت کو کوئی ایسی خاص تشویش لاحق نہیں ہے۔ برطانیہ یورپ کی ایک بڑی اور مستحکم معیشت ہے جس طرح کئی تجارتی معاملات میں برطانیہ کو یورپ کی ضرورت ہے،اسی طرح برطانیہ بھی یورپ کی تجارتی مجبوری ہے کیونکہ یو نائیٹڈکنگڈم کی امپورٹ اور ایکسپورٹ کے تناسب میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ یورپی یونین سے نکلنے اور رائٹ آف فری موومنٹ کے خاتمے کے بعد برطانیہ اپنی امیگریشن پالیسی پر نظر ِثانی کرے گا اور وہ کامن ویلتھ کنٹریز یعنی دولت مشترکہ کے ممالک (جس میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں) سے افرادی قوت کے لئے امیگریشن کے دروازے کھولے گا۔ سٹوڈنٹس اور بزنس ویزے کیلئے آسانیاں پیدا ہوں گی لیکن فی الحال تو کووڈ 19 یعنی کرونا وائرس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں اور یونیورسٹیز اور کالجز میں تعلیمی سلسلہ جزوی طور پر معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ امید ہے کہ نیا سال مثبت امکانات اور عالمی وبا سے نجات کی توقعات کے ساتھ طلوع ہوگا۔

Exit mobile version