Tarjuman-e-Mashriq

بلتستان کے نوجوان

تحریر: عمران مہدی 

سنگلاخ پہاڑوں، یخ بستہ گلیشیر وں ، بہتے دریاؤں نیلگوں جھیلوں، رواں دواں آبشاروں اور جھرنوں کی سرزمین بلتستان پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں شمال میں لداخ اور کارگل سے ملتی ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو، سب سے اونچا محاذ جنگ سیاچن، سطح مرتفع دیوسائی اور دریائے سندھ چند اہم ترین اور قابل ذکر مقامات ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں شاہراہِ قراقرم کی تعمیر سے قبل یہ علاقہ پوری دنیا سے تقریباً کٹا ہؤا تھا۔ ذرائع نقل و حمل اور آمد و رفت کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے۔ آج بھی روالپنڈی تک پا پیادہ سفر کرنے والے لوگ بقید حیات ہیں۔ صحت اور تعلیمی سہولیات بھی اسی حساب سے تھیں۔ یوں خوراک و پوشاک کا زیادہ تر انحصار مقامی اشیاء پر تھا۔ یہاں کی اکثریتی آبادی دنیا کی حیرت انگیز ترقیوں سے نابلد تھی۔
شاہراہِ قراقرم کی تعمیر سے یہاں ترقی اور مواقعوں کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ گاؤں گاؤں اسکول اور ڈسپنسریاں، کھلیں۔ ضلعی سطح پر ہسپتال اور کالج کھلے۔ بہتر ذرائع آمد و رفت کی وجہ سے لوگ روزگار،صحت اور تعلیم کی بہتر سہولیات سے استفادہ کرنے کے لیے کراچی اور روالپنڈی جیسے شهروں کی طرف نکل پڑے۔ ذرائع نقل و حمل میں بہتری آنے سے اشیائے ضروریہ اور اشیائے تعیشات کی دستیابی آسان ہو گئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اصلاحات کی وجہ سے جاگیر دارانہ نظام اور FCR کے قوانین کا مکمل خاتمہ ہوا اور یہاں کے باسی ذہنی اور فکری طور پر بھی آزاد ہو گئے۔اسی کی دہائی تک خواندہ افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی گاؤں کے واحد مرد استاد سے لوگ خط پڑھواتےاور لکھواتے تھے۔
نئے ہزاریے تک یہاں شرح خواندگی میں بہت بہتری ائی آج بلتستان کے نوجوان بلا تخصیص جنس پاکستان کے اچھے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ آج IBA، LUMS،GIK، اور ایچیسن کالج جیسے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں تک پہنچ چکے ہیں۔ آج پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد سرکاری محکموں۔ کی ضرورت سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔
بلتستان میں روزگار اور سرکاری ملازمت کو مترادف الفاظ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں معیشت کی تشکیل میں نجی شعبے کا کردار انتہائی محدود ہے۔ جس کی وجہ سے سرکاری شعبے پر بہت زیادہ بوجھ ہے۔ نوجوان جائز و ناجائز ذرائع سے روزگار حاصل کرنے کے لیے کوشاں ر ہتے ہیں۔ اس ضمن میں سیاسی ، مذہبی اور خاندانی اثر و رسوخ کے ساتھ ساتھ رشوت وغیرہ کے استعمال کو ناجائز نہیں سمجھتے۔
اب کسی حد تک نوجوان کاروبار کی طرف راغب ہوتے رہے ہیں۔ نجی سکول، ٹرانسپورٹ، سیاحت، تعمیرات، ماہی پروری ،پراپرٹی اور پولٹری وغیرہ میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ لیکن یہ تناسب انتہائی کم ہے آج بھی سرکاری ملازمت نوجوانوں کی پہلی ترجیح ہے۔ کاروباری لوگوں کی اکثریت بھی نوکری نہملنے کی وجہ سے      کاروبار کو بطور متبادل روزگار کے طور پر لیتے ہیں 

 

Exit mobile version