Tarjuman-e-Mashriq

بُزدار کا لاہور

تحریر :احمد حماد 

لاہورہزاروں سال پرانا شہر ہے۔یہاں کے باسی اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔جس طرح عربی زبان بولنے والے دیگر زبانیں بولنے والوں کو گونگا کہتے تھے، لاہوری بھی اس شخص کا وجود ماننے سے انکاری ہیں جس نے لاہور نہیں دیکھا۔ جس نے لاہور نہیں دیکھا، اس کے بارے میں مسکرا کر پنجابی میں کہتے ہیں: ’’جنھیں لہور نئیں ویکھیا، جمیا نئیں‘‘۔ یعنی، جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ گویا اس دنیا میں آیا ہی نہیں۔ پیدا ہی نہیں ہوا۔

Photo:Rohaan Bhatti via .wikimedia.org

دنیا کے ہر بڑے اور قدیمی شہر کی طرح لاہور کے بھی دو حصے ہیں۔ ایک حصہ قدیم لاہور پہ مشتمل ہے اور دوسرا حصہ جدید لاہور پہ ۔ قدیم لاہور اور جدید لاہور کے سنگم پہ جو بستیاں، بازار، مساجد اور تعلیمی ادارے آبادہیں، ان کا اپنا حسن ہے ۔ لاہور کے قلب میں تانگے کی جگہ چنگ چی، دیے کی جگہ انرجی سیور، کھڑکی کی جگہ ایئر کنڈیشنر اور خط کی جگہ وٹس ایپ نے لے لی۔ لیکن لاہور سے پیار کی خُو لہوریوں میں نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ کوئی دوسرا جذبہ اس پیار کی جگہ نہ لے سکا۔

لہوری اپنے باغوں، ناشتوں، تاریخی عمارتوں، میلوں ٹھیلوں، دن ڈھلے کی محفلوں اور زندہ دلی پہ فخر کرتے ہیں۔ یہ ہر اس شخص سے پیار کرتے ہیں جس نے لاہور کو سجایا سنوارا اورلہوریوں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ اور اس شخص سے نفرت کرتے ہیں جس نے لاہور کے حسن کو برباد کیا اور لہوریوں کے لیے مشکلیں پیدا کیں۔

اب سے تیرہ برس پہلے اپنی مخصوص رفتار سے ترقی کرتے ہوئے اس شہر لاہور کے منظرنامے پہ جدت کے مناظر اچانک اور تیزی سے بدلنے لگے۔ دوہزار آٹھ کے انتخابات میں عوام نے شہبازشریف کو منتخب کیا۔اس انتخاب سے پہلے لہوری عوام کے پیش نظر شہبازشریف کے وہ کام بھی تھے جو انہوں نے ۱۹۹۷ء سے ۱۹۹۹ء کے دورانیے میں کیے۔ تب شہبازشریف نے لہوریوں کے لیے اربن ٹرانسپورٹ کے طور پہ ڈائیوو کی ایئرکنڈیشنڈ بسیں چلائیں۔ اورچند نئے انڈرپاسز/ اوورپاسز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ پوری جیل روڈ کو جدید خطوط پہ استوار کیا۔ علاوہ ازیں، آئی ٹی اور ووکیشنل ایجوکیشن کے میدان میں بھی کافی کام کیے۔ نوازشریف نے اسی دور میںایم ٹُو موٹروے کا افتتاح کیا۔ گویا، انٹرسٹی ٹرانسپورٹ میں اگر نوازشریف انقلاب لائے تو انٹراسٹی ٹرانسپورٹ میں انقلابی قدم شہبازشریف نے اٹھائے۔ لہوریوں نے پرویز مشرف کا سارا زمانہ شہبازشریف کے کاموں کو یاد کرتے گزارا۔ اور جیسے ہی مشرف کی آمریت کا سورج زوال پذیر ہونے لگا، یعنی ۲۰۰۸ء کے الیکشنز، لہوریوں نے شہبازشریف کو ایک بار پھر منتخب کیا۔شہبازشریف نے شہر لاہور کی تعمیروترقی کا سلسلہ وہیں سے شروع کر دیا جہاں سے مشرف نے مارشل لاء لگا کر اسے روکا تھا۔

Photo:wikimedia.org

پہلے اور اب کے شہبازشریف میں فرق یہ تھا کہ اب کی بار شہبازشریف نے نہ صرف لاہور، بلکہ پورے پنجاب میں تعمیروترقی کو پانچویں گیئر میں ڈال دیا۔اگرچہ شروع کے تین برس جو پیپلزپارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت پہ مبنی تھے، شہبازشریف نے ترقی کی رفتار دھیمی رکھی۔اس کا حقیقی سبب تو وہی بتا سکتے ہیں۔ ہم تو صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسا انہوں نے شاید اس لیے کیا کہ ان کی وزارتِ اعلیٰ میں ترقی کا کریڈٹ، مرکز میں بری طرح ناکام ہوتی ہوئی پیپلز پارٹی کے ساتھ شیئر نہ ہو جائے۔لہٰذا، انہوں نے ۲۰۱۱ء میں پیپلزپارٹی کو مخلوط حکومت سے چلتا کیااوراس کے بعدترقی کی ریس پہ دبائو بڑھا دیا۔

اس دور میں لاہور شہرکے نقشے اوراس کی سکائی لائن میں وہ تبدیلیاں آئیں جو واقعتا صدیوں کے بعد رونما ہوتی ہیں۔جیسے کہ اس دور میں انہوں نے ملکی تاریخ کی پہلی میٹروبس سروس کی داغ بیل ڈالی۔ اس کا کم و بیش اٹھائیس کلومیٹر طویل ٹریک لاہور شہر کے دو کناروں کو ملاتا ہے۔ ان کناروں کے درمیان قدیم و جدید لاہور کی بستیاں آباد ہیں۔ اور لاکھوں انسان اس روٹ پہ سفر کرتے ہیں۔ میٹروبس سروس سے گویا لہوریوں کی زندگی میں انقلاب آگیا۔اس انقلابی پراجیکٹ نے شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کیا او رماحولیاتی آلودگی میں کمی کا سبب بھی بنا۔اس پراجیکٹ کے ٹریک سے منسلک جو سڑکیں تھیں، ان کو بھی جدید خطوط پہ استوار کیا۔ کینال روڈ کو تین رویہ کیا گیا۔ اس پہ مزید انڈرپاسز تعمیر کیے گئے۔تین تہوںوالے کلمہ چوک فلائی اوور نے شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کیا اور جدید لاہور کی دو اہم بستیوں گارڈن ٹائون اور گلبرگ کو انڈرپاس کے ذریعے سے، جبکہ ماڈل ٹائون سے اچھرہ جانے والی فاسٹ موونگ ٹریفک کو اوورپاس کے ذریعے سے جوڑ دیا۔درمیان والی تہہ میٹرو بس کے لیے اور ملحقہ علاقوں کی طرف مڑنے یا یوٹرن لینے کے لیے بنائی گئی۔

شہبازشریف نے اس دور میں لاہور کو سجانے سنوارنے کے بنیادی کاموں کے ساتھ ساتھ ترکی اور چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کر لیے۔

اسی اثناء میں پیپلز پارٹی کے مرکز میں پانچ برس مکمل ہوئے اورمئی ۲۰۱۳ء میں نئے انتخابات کا نقارہ بجا۔ان انتخابات میں لہوریوں نے بالخصوص اور پنجابیوں نے بالعموم شہبازشریف کو اس کی خدمات کے عوض ووٹوں کی بارش کی صورت میں خراجِ تحسین پیش کیا۔مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے یہ انتخاب جیت گئی۔ شہبازشریف کی انتھک محنت کرنے کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک تجویز یہ تھی کہ انہیں بجلی کے بحران سے نپٹنے کے لیے مرکز میں پانی و بجلی کی وزارت سونپی جائے۔ تاہم، نو منتخب وزیراعظم نوازشریف نے انہیں دوبارہ پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔ انتخابات میں نوازشریف کی خواہش رہی تھی کہ ان کو فیصلہ کن برتری ملے تاکہ وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر سکیں۔ ان کی نظر میں سی پیک تھا جسے وہ گیم چینجر کہتے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ پہلے ہم نے ایٹمی دھماکہ کیا، اب معاشی دھماکہ کریں گے۔ یہ سی پیک ہی وہ معاشی دھماکہ تھا جس کا وہ ذکر کیا کرتے تھے۔ لیکن اندریں حالات یہ کام ایٹم بم بنانے سے زیادہ مشکل تھا۔ کیونکہ پاکستان کی گلی گلی میں بارود بچھا تھا۔ خودکش دھماکے اور اسٹریٹ کرائمز نے پاکستانیوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی اس پر مستزاد اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے طویل لوڈشیڈنگ۔

شہبازشریف نے مرکز میں نہ جانے اور پنجاب میں رہنے کے باوجود بڑے بھائی کے لیے چین میں اعتماد کی فضا قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے انتخابات سے پہلے ترکی اور چین کے بہت دورے کیے اور وہ نوازشریف کو ان دونوں ملکوں کے قریب لے آئے۔ جس کا یقینی فائدہ سی پیک معاہدوں کی صورت میں نکلا۔ بجلی کے منصوبے بجلی کی رفتار سے لگے اور وہ ملک جہاں کارخانے تک بند ہو گئے تھے، وہاں جھونپڑی کے چھوٹے بلبوں میں بھی بجلی آنے لگی تھی۔ بم دھماکے کم ہو گئے تھے۔ ترکی سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ اور میٹروبس سسٹمز میں مدد دے رہا تھا۔شہبازشریف جس برق رفتاری سے ترقیاتی کام کرواتے تھے، چین والوں نے اس رفتار کا نام ’’شہباز اسپیڈ‘‘ یا ’’پنجاب اسپیڈ‘‘ رکھ دیا تھا۔تھری جی کی بڈنگ نوازحکومت میں ہوئی۔ سو تیزرفتار انٹرنیٹ بھی میسر ہوا۔ ہم اس انٹرنیٹ پہ بھارتی پنجاب کے شہروں کو تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتا دیکھتے تو شہبازشریف کے کاموں کو سمجھنے میں مدد ملتی کہ وہ کیوں سارے شہر کو وائی فائی سے منسلک کرنا چاہتے ہیں۔ ای گورننس کو مکمل طور پہ فعال کرنا چاہتے ہیں۔ سیف سٹی پراجیکٹ، اورنج لائن، سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ، ڈینگی بخار پہ قابو اور ہارٹی کلچر کے آپریشنز دیکھ کر دل خوش ہوتا۔ ایک لہوری ہونے کے ناطے لاہور کو یوں برق رفتاری سے ترقی کی منازل طے کرتا دیکھ کر شہبازشریف کے لیے دل سے دعائیں نکلتیں۔لاہور، بھارت کے کسی میگا سٹی کے برابر نہ سہی، استنبول، ہانگ کانگ، بیجنگ ، ٹوکیو، اور کوالالمپورجیسا ترقی یافتہ نہ سہی؛ شہبازشریف کے کاموں کی رفتار اور سمت دیکھ کر یہ حوصلہ ہوتا تھا کہ چلیں آج نہیں تو کل، لاہور بھی جنوبی ایشیا کا جدید شہر دِکھنے لگے گا۔

لیکن…اور اس لیکن میں اس ریاست کے بعض ملازموں کی غیرآئینی ضد شامل ہے؛ ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں کھلی دھاندلی کی گئی۔ وہ لہوری جو شہبازشریف کے کاموں کی وجہ سے اس سے پیار کرتے تھے، دم بخود تھے کہ ووٹ ڈالا شیر کو، نکلا بلے کے حق میں۔ یہ بات تو اب مسلم لیگ کے مخالفین بھی کھلے عام کرتے ہیں کہ اگر گزشتہ انتخابات کی رات آر ٹی ایس نہ بٹھایا جاتا تو اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر کوششوں کے باوجود مسلم لیگ ن یہ انتخاب جیت جاتی۔ کم ازکم پنجاب میں بلاشرکتِ غیرے حکومت بناتی۔

الیکشن کے نتائج چونکہ بدل دیے گئے تھے لہٰذا، عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔اورجسے وزیراعظم بنایا گیا، اس نے بتایا یہ وسیم اکرم پلس ہیں۔ جو صاحبانِ بصیرت تھے وہ تب بھی جانتے تھے کہ نہ نئے وزیراعلیٰ عثمان بُزدار میں کسی قسم کی کوئی انتظامی صلاحیت ہے، نہ اس کو وسیم اکرم پلس قرار دینے والے وزیراعظم میں۔وقت نے صاحبانِ بصیرت کی بصیرت کو حقیقت میں ڈھلتا دکھا کر ان کی سیانف پہ مہرِ تصدیق ثبت کی۔

عثمان بُزدار نے وقت کی نزاکت کو نہیں سمجھا۔لاہور کا روڈ انفراسٹرکچر اچھا تھا۔بجلی اور انٹرنیٹ کی فراوانی تھی۔ سو، بین الاقوامی کمپنیوں نے اپنی ٹیکسی سروس شروع کی۔ ان ٹیکسیوں سمیت ہر سال لاکھوں نئے موٹروہیکلز شہر کی سڑکوں میں ٹریفک کا حصہ بنتے رہے۔ لیکن اس تناسب سے نہ فلائی اوورز بنے، نہ انڈرپاسز؛ نہ نئی سڑکیں بنی نہ پرانیوں کی مناسب مرمت۔نتیجہ یہ ہے کہ ٹریفک جام معمول بن گیا ہے اور بڑی سڑکوں پہ کھڈے بھی پڑ گئے ہیں جو گاڑیوں کو نقصان بھی دیتے ہیں اور انسانی صحت کے لیے بھی مضر ہیں۔ یہی حال سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ کا ہے۔ شہر میں کچرے کے ڈھیر پڑے رہتے ہیں اور ہفتوں کوئی نہیں اٹھاتا۔ جب کوئی پرانا ڈھیر اٹھانے آتا بھی ہے تو نئے ڈھیر اس پرانے ڈھیر سے زیادہ بڑے ہو چکے ہوتے ہیں۔ سیف سٹی کے کیمرے اکثر کام نہیں کرتے۔ اکثر جگہوں پہ ان کی لائیٹس بند ہوتی ہیں۔پولیس جابجا ناکے لگا کر نوجوان موٹر سائیکل سواروں کو پریشان کرتی ہے بالکل ویسے جیسے مشرف دور کے لاہور میں نوجوان بائیک اونرز کی تذلیل کیا کرتی تھی۔

بُزدار کے دور میں ڈینگی بخار نے قیامت ڈھا دی لیکن انہوں نے شہریوں کواسپرے سے محروم رکھا۔ نہ ڈینگی اسکواڈ فعال ہوا، نہ ان تجاویز پہ عمل کیا گیا جن پہ عمل کر کے شہبازشریف نے ایک ہی برس میں ڈینگی کے مہلک جن کو قابو کر لیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یہ وائرس سارے ملک میں پھیل گیا ہے۔ لہوری ابھی کرونا کی ہلاکت خیزیوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ اسپتالوں میں بنیادی سہولیات ختم کر دیے جانے پہ سراپا احتجاج تھے۔ ادویات کی قیمتیں کئی گنا بڑھا دیے جانے پہ ماتم کناں تھے کہ ڈینگی نے ان کو گھیر لیا۔گزشتہ ہفتے لہور شہر کے تمام اسپتال ڈینگی کے مریضوں سے بھرے ہوئے تھے۔ پیناڈول شارٹ ہو چکی تھی اور ایک ایک بستر پہ دو دو مریضوں آہ و بُکا کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

اسٹریٹ کرائمز بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں۔بیوروکریسی کا دل ہی نہیں چاہتا کہ کام کرے۔ تعلیمی ادارہ ہو یا قانون نافذ کرنے والا ادارہ؛ عہدِ بُزدار میںسب  ‘لک بزی ڈو نہ تھنگ ‘کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔کوئی نیا میگا پراجیکٹ نہیں۔ اور جو پرانے پراجیکٹس تھے، ان کو نیم دلی سے چلایا جاتا ہے۔ یا پھر بند کر دیا گیا ہے۔

یہ ہے بُزدار کا لاہور۔ پہلے سے زیادہ متعفن، زیادہ شور اور رش بھرا، زیادہ بیمار اور زیادہ غیرمحفوظ۔

یادرکھیں، لہوری اس شخص سے محبت کرتے ہیں جو ان کے شہر کو سجاتا سنوارتا اور رہائش کے لیے محفوظ بناتا ہے۔ اور، اس سے نفرت کرتے ہیں جو اس شہر کو بگاڑتا، اجاڑتا اور برباد کردیتا ہے۔ زندہ دلانِ لاہور ملکی سیاست کا اصطرلاب ہیں۔یہ غلط فیصلہ نہیں کرتے۔ تمام اہم سیاسی فیصلوں میں لاہوریوں کی رائے قطب نما کی حیثیت رکھتی ہے!شہبازشریف انہی لاہوریوں کا انتخاب تھے جنہیں چین جیسے محنتی ملک نے خراج تحسین پیش کیا۔

شہبازشریف کا لاہور متحرک تھا، روشن تھا، خوشبودار تھا، ترقی پذیر تھا، صحتمند تھا اورکھِلتا ہوا گلاب محسوس ہوا کرتا تھا۔عثمان بُزدار کا لاہورجامد ہے، تاریک ہے، متعفن ہے،بیمارہے اور پسماندہ ہے ۔ بُزدار کا لاہور وہیں کھڑا ہے جہاں شہبازشریف اسے چھوڑ کر گئے تھے۔ شہر جب فطری طور پہ نشوونما پانا بند کر دیتے ہیں تو ناقابلِ رہائش ہو جاتے ہیں جیسے چلتا پانی اگر رک جائے تو بدبودار جوہڑ بن جاتا ہے۔

Exit mobile version