شہاب نامہ میں قدرت اللہ شہاب مرحوم نے ڈپٹی کمشنر کی ڈائری کے عنوان سے ایک باب لکھا۔ اس باب میں لکھے واقعات اور موجودہ دور کے حالات میں کوئی فرق نہیں بلکہ تب کی نسبت اب معاملات اس قدر پیچدہ ہیں کہ ان کا بظاہر کوئی حل ہی نہیں۔ تب انتظامیہ پر انگریزی دور کا کچھ اثر تھا۔ ڈپٹی کمشنر اور ایس پی، سیاستدانوں، حکمرانوں اور مافیا کی چاکر ی کے بجائے عوام الناس کی تھوڑی بہت خدمت کرتے تھے۔ اب ایس پی اور ڈی سی، ایم ایل اے، ایم پی اے یا کسی وزیر، مشیر، سینٹر یا پھر کسی بڑے اور بااثر مجر م کی سفارش پر ہی کسی کی عرضی پر نظر ڈالتے ہیں اور اس نظر کا نذرانہ وصول کرنے کے بعد ہی کوئی حکم صادر فرماتے ہیں۔
میرا تعلق آزادکشمیر سے ہے اور حکومت آزادکشمیر کا قیام 24اکتوبر1947کے دن عمل میں آیا تھا۔ آزاد حکومت کے پہلے صدر سردار محمد ابراہیم خان اور پہلے چیف سیکرٹری (عارضی) قدرت اللہ شہاب تھے۔ کابینہ مختصر تھی اور انتظامیہ کے زیادہ تر افراد ڈوگرہ حکومت کے تربیت یافتہ اور اپنے کام کے ماہر تھے۔
تھوڑے ہی عرصہ بعد کام کرنے والوں کی جگہ کام چوروں نے لے لی اور برادری ازم کی لعنت نے ریاست کو راجواڑہ بنا دیا۔ریاستی ڈھانچہ انتظامی لحاظ سے تین اضلاع پر مشتمل تھا۔ ضلع پونچھ کی تحصیل پونچھ، راجوری اور مینڈھر اور ضلع مظفرآباد کی تحصیل اوڑی بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں شامل ہوگئیں۔
لوگوں کے مسائل کم تھے، سیاست میں نو دولیتہ کلچر ابھی متعارف نہ ہوا تھا۔ معاشرہ اخلاقی بنیادوں اور اعلیٰ قبائلی اور خاندانی روایات پر قائم تھا۔پولیس میں ٹاؤٹوں کی کمی تھی اور پٹواریوں پر ابھی تک ڈوگروں کے سخت قوانیں کا خوف تھا۔ سیاست خدمت سمجھی جاتی تھی اور عوام دینی اقدار کو سمجھتے تھے۔ جنجال ہلزسے ریاست کا صدر مقام مظفرآباد منتقل ہوا تو سیاست میں تجارت کا عنصر بھی شامل ہوگیا۔ مسلم کانفرنس کا یہ حال ہو اکہ وہ عوام کے بجائے ٹھیکیداروں، پٹواریوں اور تھانیداروں کی جماعت بن گئی۔ بعد میں ٹھیکیدار اور ان کی اولادیں سیاست کی مدارالمہام بن گئیں۔ سیاست سے اخلاقیات روایات اور دینی اقدار کا خاتمہ ہوا تو معاشرہ تنزلی کا شکار ہوگیا۔ ڈوگروں کے بعد آزادی کا سورج طلوع ہوا ہی تھا کہ اُسے کرپشن، لا قانونیت، جبری جمہوریت اور برادری ازم کا گرہن لگ گیا۔ پچھتر سال ہوئے اس گرہن کا اثر زائل نہ ہوسکا۔ اندھیر نگری میں چوپٹ راج ڈوگرہ راج کا متبادل بن گیا تو عام لوگوں نے اسے آزادی سمجھ کر قبول کرلیا۔
ڈی سی اور ایس پی کا کام وزرائے اعظموں اور وزیروں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تو لوگ اپنی عرضیاں لیکر ان کے حضور پیش ہونے لگے۔ بقول ملک ریاض کے وہ فائلیں اور درخواستیں جن کے نیچے ٹائر لگے ہوں وہی شرف قبولیت حاصل کرتی ہیں اور باقی پرحکمران لکھ دیتے ہیں کہ ”تحت ضابطہ کارروائی کی جائے“ سائل خوش ہو کر درخواست کسی ڈپٹی کمشنر یا اعلیٰ پولیس افسر کے دفتر میں پہنچا کر خوشی سے پانچ سال اُس ضابطے کا انتظار کرتا ہے جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہوتی۔ پانچ سال بعد وہ دوسری جماعت کا ووٹر بن کر پہلی نسل کے دوسرے اُمیدوار کو ووٹ دیکر کامیاب کرتا ہے اور پھر نئی درخواست پر تحت ضابطہ کارروائی لکھوا کر مزید پانچ سال گزار دیتا ہے۔
سینتالیس سے لیکر 2021ء تک آزادکشمیر میں وہ ضابطہ ہی نہیں بن سکا جس کے تحت کارروائی ہو سکے تو آئندہ ایسا کب ممکن ہے جس کی نوید وزیراعظم پاکستان جنا ب عمران خان نیاز ی اور اُن کے من پسند وزیراعظم آزادکشمیرجناب سردارعبدالقیوم خان نیازی قوم کو سنانے والے تھے۔ پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئے کافی عرصہ گزار گیا مگر حکومت کا لائحہ عمل ابھی تک واضع نہیں ہوسکا۔ آثار بتلاتے ہیں کہ نیا وزیراعظم پرانی مشینری اور فرسودہ ضابطہ کار کو ہی بروئے لا کر تحت ضابطہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ 1952ء میں قدرت اللہ شہاب ضلع جھنگ میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر کی ڈائری میں دو عرضیاں نقل کی گئی ہیں جو آج کے دور کی بھی ترجمانی کرتی ہیں۔ پہلی عرضی عمر حیات ولد احمد یا ر قوم کھوکھر کی ہے۔ جناب عمر حیات ڈپٹی کمشنر کو لکھتے ہیں یا اللہ یا محمد ﷺ کے بعد بخدمت جناب عالیٰ گورنمنٹ صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر صاحب۔ جناب عالی اسلام علیکم کے بعد عرض یہ ہے کہ ان تین باتوں میں سے ایک بات خدا کے نام پر منظور کر لو یا ریل گاڑی کا کارڈدے دو۔
غریبوں کا کام کرنا افسروں کا کام ہے
افسروں کے آگے ہاتھ جوڑنا غریبوں کا کام ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ڈاکخانے یا ریل گاڑی کی نوکری دینا تمہارا کام ہے
گورنمنٹ صاحب کے آگے ہاتھ جوڑنا ہمارا کام ہے
گورنمنٹ صاحب تمہاری مہربانی ہو کہ غریب کو نوکری دے دینا۔دعا گو عمر حیات بقلم خود۔
دوسری درخواست نور محمد ولد رحماں ذات ٹونڈا سکنہ کلور تحصیل چنیوٹ ضلع جھنگ کی ہے۔ لکھتے ہیں۔
درِ جناب ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر ضلع جھنگ دائم اقبال درخواست برائے شفقت۔
جناب عالی!
تیرا مرتبہ اندر ضلع جھنگ
تیری اس حکومت میں عاجز ہاں تنگ
نمبرداراں پٹواریاں مینوں لیا ستا
ڈگا میں مسکین ہاں در تیرے تے آ
مدت گزری بہت ہے کردیاں حال پکار
شفقت کر مسکین تے اے میری سرکار
چلو چل عرضی شتاب و شناب
لے آ جناب عالی سے جلد جواب
جناب عالی دی خدمتے قدمی سیس نوا
کر کے بہت تعظمیاں ہتھ بن عرض سنا
کہنا ڈپٹی صاحب نوں تیرا خاص غلام
ہتھ بن عرض سناوندا نور محمد نام
شفقت کر مسکین تے فیصلے سبھے سُٹ
کرے تعظیم خوشامداں بھولہ بھالہ جٹ
آیا یہ مسکین ہے پینڈا کر کے دور
عاجز اس مسکین پر شفقت کر ضرور
تیرے آگے صاحب جی عاجز کی فریاد
مہربانی آپ کی اس کو دیو داد
بس ایہو اسکی عرض سی جو کچھ دی سنا
کریو چا منظوریاں رحم دلے تے پا
والسلام نور محمد ولدرحماں ذات ٹونڈا سکنہ کلور تحصیل چنیوٹ ضلع جھنگ، نورم محمد بقلم خود۔ اس کے بعد نور محمد بذات خود ڈپٹی کمشنر کے دفتر جا کر صاحب بہادر سے عرض کرتا ہے۔
نورا ہو حیران کھلوتا رکھے ہتھ پیشانی
جیو کر دیو اجازت اُس نوں کرے بیان زبان
پچھتر سال گزر ے، کئی عمر حیات اور نور محمددرخواستیں لیکر کھڑے ہیں اور کھڑے رہینگے۔ پرانے اور نئے پاکستان میں صرف مہنگائی، لاقانونیت اور عدل وانصاف کے فقدان کا فرق ہے۔ پچھتر سالوں سے نورے اوربشیرے دھکے کھا رہے ہیں اور جاگیرداروں، وڈیروں، افسروں، لیٹروں، لیڈروں، سرمایہ داروں، کارخانہ داروں، نودولیتے سیاستدانوں کے عتاب کا نشانہ بنتے رہے مگر کسی نے نہ سنی اور نہ ہی تحت ضابطہ کارروائی ہوئی۔ روٹی کپڑا اور مکان، ووٹ کو عزت دو، چوہدر ی افتخار عدل کا مینار، ماں جیسی دھرتی اور تبدیلی کے نعرے سنتے کئی سال گزر ے اور اب یہ سال اور اگلے کئی سال بھی گزر جائینگے۔ جو آج ہیں وہ قصہ ماضی بن جائینگے اور اُن کی اولادیں حکمران بن جائینگی مگر عمر حیات اور نور محمد کی درخواستیں تاریخ کا حصہ رہے گی۔ نہ ضابطہ کارہوگا اور نہ تحت ضابطہ کارروائی ہوگی۔ قدرت اللہ شہاب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اس درخواست پر تحصیلدار سے جواب طلب کیا توا ُس نے لکھ بھیجا کہ رپورٹ پٹواری مستند ہے اور اب تحت ضابطہ کارروائی ممکن نہیں۔ بقول قدرت اللہ شہاب کے جس شخص کے خلاف درخواست دی گئی تھی وہ علاقے کا بڑا سیاستدان اور روحانی شخصیت تھی۔ ضلعی انتظامیہ اُس کی مرضی سے تعینات ہوتی اور تبدیل ہوتی تھی۔ پاکستان کے بنتے ہی کرپشن اور لاقانیت کا آغاز ہوا اوراب اُسے آئینی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔ آمریت ہو یا جمہوریت قانون شکن ہر حکمران کی ضرورت ہوتے ہیں اور یہ لوگ مملکت خدادداد کے اصل حکمران اور قومی مجرم ہیں۔ سیاستدانوں کے لئے قتل، کرپشن، اور قانون کا کھلواڑ کرنا اور باعزت بری ہو کر اسبملیوں میں بیٹھنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ یہ بڑے اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ قانون کا مقصد مجرم کو تحفظ فراہم کرنا اور جرائم کی آبیاری کرنا ہے۔ ججوں کو اس لئے تعینات نہیں کیا جاتا کہ وہ قانون کو حقائق کی روشنی میں دیکھیں اور مجرم کو سزا دیں۔ ججوں کی تعیناتی کا مقصد مجرم کو شک کا فائدہ دیکر باعزت بری کرنا ہے۔ پولیس، پٹواری اور وکیل مل کر شکوک پیدا کرتے ہیں اور مجرم کو ملزم اور ملزم کو مجرم بنانے کا فن جانتے ہیں۔ پچھہتر سال گزرگئے اور اب عالمی سطح پر ملک عدل و انصاف کے لحاظ سے سب سے نچلی سطح پر ہے۔ عد ل و انصاف کا میعار جس رفتار سے گر رہا ہے شاید چند سالوں کے اندر ہی ہم دنیا میں بے اصولی، بے عدلی و بے انصافی میں پہلے نمبرپر آجائیں یا پھر کسی انقلاب یا عذاب کی صورت میں سب کچھ کھو بیٹھیں۔ دنیا کی حکمرانی اللہ کی حکمرانی کا پر تو ہے۔ انحراف کی صورت میں قومیں عذاب الہٰی میں مبتلا ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں یا پھر اغیار کی غلامی میں چلی جاتی ہیں۔ ملک عد ل کی بنیادوں پر قائم ہوتے ہیں اور عد ل کے فقدان سے بکھر کر بے نام ہو جاتے ہیں۔ یہ مقام فکر ہے فخر نہیں۔ ذرا سوچیں اور عدل کا میزان درست کریں۔
تحت ضابطہ کارروائی کی جائے
