Tarjuman-e-Mashriq

جمہوری اصولوں کی پاسداری کی جائے 

 

جمہوریت کیا ہے؟ جمہوریت کیسے کام کرتی ہے ؟ جمہوریت کی اعلی مثال اور روایات ہیں جنکی پاسداری کی جاتی ہے دنیا کی سب سے خوبصورت اور بہترین جمہوریت تو برطانیہ ہی کی ہے بتایا جاتا ہے کہ برطانیہ کا ائین کی دستاویز موجود نہیں سارے معاملات روایات پر چلتے ہیں حکومتی معاملات چلانے کیلئے پارلیمنٹ سے متعلق ہرادارہ اپنے کام کو خوش اسلوبی سے سر انجام دیتا ہے جس کی وجہ سے نظام بھر پور انداز میں چل رہا ہے برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز کو تمام ممالک کی جمہوریت اور پارلیمنٹ پر برتری حاصل ہے جہاں ہاؤس آف کامنز کے سپیکر جو ہاؤس کے کسٹوڈین بھی ہیں اور طاقتور شخصیت کی حثیت سے جانے جاتے ہیں اور وہ پارلیمنٹ کے اندر وہ سب سے زیادہ طاقتور آدمی ہیں اور ہاؤس چلانا ان کی ذمہ داری ہے اور وہ اپنا کام بخوبی سرانجام دے رئے ہیں برطانوی پارلیمنٹ کی جو روایات ہیں وہ قابل ستائش ہیں ہاؤس کو روایات پر ہی چلایا جاتا ہے طاقتورسپیکر کو ہاؤس چلانے میں کوئی مشکل درپیش نہیں آتی مثال کے طور ہاؤس میں اگر آوازیں آتی ہوں تو زیادہ سے زیادہ دو بار سپیکر کے order order کہنے پر ممبران خاموش ہو جاتے ہیں اور جب وزیر اعظم بات کرتے ہوں تب وہ بھی سپیکر کی آواز ہاوس میں گونجنے پر بیٹھ جاتے ہیں کیا پاکستان اور third world کے کمزور جمہوریت والے ممالک خاص طور پر پاکستان میں سپیکر کی بے بسی اور ان کے خلاف شور شرابہ اور ان کی کرسی کا گھیراؤ یہ باتیں عام ہےں کیا کوئی پارلیمنٹ کا ممبر ایسی باتوں کو نہ کرے تو پارٹی میں اس کو اپنا وقار بحال رکھنا مشکل ہوتا ہے ایسا ان ممالک میں ہی ہوتا ہے جن ممالک میں جن کے ممبران جمہوری اقدار سے ناواقف ہوتے ہیں پاکستان میں کئی بار جیت کر کہ آنے والے ممبران کا ہاؤس کے وقار اور ادب و آداب سے ناواقف ہونا افسوس کا مقام ہے یا یہ لوگ جان بوجھ کر ہاؤس کے وقار کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے یہ لوگ خود کو تمام بنیادی اصولوں سے بالا سمجھتے ہیں اگر صیح معنوں میں جمہوریت ہو تو ہاؤس کو چلانے والا شخص یعنی سپیکر بہت مضبوط ہوتا ہے ہاوس میں وہ وزیر اعظم کو بات کرنے سے روک سکتے ہیں برطانیہ کی تاریخ میں ایسا کبھی نہں ہوا کہ کبھی سپیکر کو کوئی ایسا قدم اٹھانے پر مجبور کیا جائے یہاں ممبران منتخب ہونے سے پہلے پارلیمانی ادب آداب سے واقف ہوتے ہیں اوران کی تربیت سیاسی جماعتوں کے اجلاسوں میں ہوتی رہتی ہے پھر جب منتخب ہوتے ہیں اپنے مرتبے اور وقار کا خیال رکھتے ہیں اور ادب اور ادب کے دائرے میں رہ کر بات کرتے ہیں برطانیہ کے سیاست دان ہمیشہ سیکھتے رہتے ہیں برطانیہ کے جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کو بالا دستی حاصل ہے اور تمام فیصلے پارلیمنٹ میں ہی ہوتے میرے خیال میں پاکستان میں بہت سے مہذہب ممبران بھی ہیں لیکن وہ ہر جائز اور ناجائز بات پر اپنی سیٹوں پر کھڑے ہو کر شور نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ زیادہ معروف نہیں ہوتے حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی کو مچھلی بازار بنا دیا جاتا رہا ہے خاص طور پر جب کوئی ممبر مخالفین پر غیر پارلیمانی زبان استعمال کرے تو ڈیسک بجائے جاتے ہیں ، برطانیہ اور ہندوستان کی پارلیمنٹ کے دو واقعات کو قارئین کی دلچسپی کیلئۓ زیر قلم لاؤں گا گزشتہ سال برطانیہ کے ایک سینئر پارلیمنٹرین نے وزیر اعظم کیلئے ایک سخت لفظ کہہ دیا تو سپیکر نے ان سے اس لفظ کو دوہرا نے سے منع کیا ممبر نے جملہ دہرا دیا تو سپیکر نے ان سے کہا وہ چلتے سیشن تک ہاؤس سے باہر چلے جاہیں ،اس سے قبل کوئی اور بات کی جاتی وہ ممبر اپنے کاغذ اٹھا کر ہاؤس سے باہر چلے گئے یہ ہیں جمہوری روایات جس کی پاسداری کی جاتی ہے ،اسی طرح ہندوستان کے وزیر اعظم کو ایک بزرگ خاتون ممبر جن کا تعلق اپوزیشن پارٹی سے تھا کی طرف سے سخت الفاظ سے مخاطب کیا گیا خاتون نے وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بنایا اس وقت ایسا لگتا تھا کہ رولنگ پارٹی کے ممبران خاتون ممبر کو آڑے ہاتھوں لینگے لیکن ایسا نہیں ہوا اور خاتون نے جی بھر کر وزیر اعظم کی انسانی حقوق کی پامالیوں پر مذمت کی اور اپنی بھڑاس نکالی چونکہ وہاں جمہوریت ہماری جمہوریت سے ذرا بہتر ہے اس لئے بات ہاوس کے اندر ہی رہی ، پاکستان کی پارلیمنٹ میں سپیکر House in order please کہتے رہتے ہیں اور اراکین کو اس بات کا خیال نہیں رہتا کہ وہ ملک کے قانون ساز ادارے کے ممبر ہیں اور ملک کے اندر پارلیمنٹ ہی سپریم ادارہ ہے اور ادارے کے وقار کا خیال رکھنا ان کی ذمہ داری ہے ، قارئین کرام اب آتے ہیں پاکستان کے سینٹ کے انتخابات کی طرف اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے اندر ہارس ٹریڈنگ بھی ہوتی ہے جس کا قلع قمع ضروری ہے اور صاف شفاف انتخابات ہی ملکی بقاہ کیلئے ضروری ہیں اس کیلئے ممبران کو ہی بڑا کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنا ووٹ اپنی پارٹی اور اہل آدمی کو ہی دینا ہے دوسری پارٹی کے امیدوار پیسے لیکر ووٹ دینا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر قانونی عمل ہے اور پارٹی پالیسی کے خلاف ہے بنیادی طور پر وزیر اعظم پاکستان کا موقف درست ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں شو آف ہینڈز کے ذریعہ کیا جائے تاکہ سب کو پتہ چلے کہ کون کس کو ووٹ دے رہا ہے اس سے ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ بھی ہوگا اور ممبران کو ایک دوسرے پر اعتماد بھی بڑھے گا ویسے تو ووٹ بیلٹ کے ذریعے ہی ڈالنا ایک اچھا اور جمہوری عمل ہے لیکن کبھی کبھی ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جو عوامی مفاد میں ہوں اور ممبران کی ایجو کمیشن کیلئے ضروری ہوں بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں وقتی مفادات کیلئے غیر معروف فیصلے کر کے نہ جمہوریت کو پنپنے اور نہ ہی سیاسی ورکروں کو سیاسی اصول سیکھنے کا موقع فراہم کرتیں ہیں۔

Exit mobile version