تبصرہ نگار : ثمینہ یاسین
کتاب کا ٹائٹل فیس بک پر دیکھا تو بہت بھایا اور دل کیا کہ مجھے یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔لہذا مصنف سے رابطہ ہوا اور کتاب کا محلِ فروخت دریافت کیا۔انھوں نے کہا بیٹی! میں تو رانی کی کہانی تقسیم کرتا ہوں۔عرض کیا کہ خرید کے پڑھنا میرے استادِ محترم کی تلقین ہے۔سو جاز کیش نمبر عطا کیجیے۔جواب ملا ”آپ بس ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا مجھے خوشی ہو گی“۔یہ پہلی کتاب ہے جو میں نے بذریعہ فیس بک منگوائی۔دو دن بعد کتاب "پیام اقبال پبلک سکول میاں چنوں "کے پتے پہ وصول ہو گئی تھی۔استاد محترم اقبال عابد صاحب نے کچھ تصویریں بنا کے بھیجیں۔میں اس کتاب کی شدت سے منتظر تھی۔لیکن جب وہ چند صفحات دیکھے تو میرا تجسس دلچسپی اور انتظار ایک خاص طرح کے ملال اور خوف میں بدل گیا۔
ان صفحات سے علم ہوا کہ شائستہ جبار مرزا رانی کو کینسر تھااور مصنف نے لکھا تھا کہ آخری وقت وہ بہت تکلیف میں تھی اس کے جسم کا پور پور دکھتا تھا میں اسے ٹیک دینا چاہتا تھا اور یہ اس کی آخری خواہش بھی تھی لیکن میں جانتا تھا اس کے زخم اس سے دکھیں گے۔۔۔۔۔
محترم جبار مرزا کے دکھ اور کرب کو مجھ سے بڑھ کے کون سمجھ سکتا ہے شاید غم سانجھا تھا اس لیے مجھے کتاب کو پڑھنے کی جلدی تھی ۔آج سے دس ماہ پہلے جب مجھے، میرے گھر والوں کو پتہ چلا کہ میری امی کو کینسر ہے تو میرا ذہن وقتی طور پہ مفلوج ہو گیا تھا۔بہت رونا آتا تھا ۔۔روئی بھی۔بے شمار آنسو اندر بھی اتارے ۔ڈر تھا کہ امی کو شک نہ ہو جائے ۔ابھی انھیں نہیں بتانا ۔مجھے سمجھ نہیں آتی تھی بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔سوچتی تھی شاید یہ ڈراونا خواب ہو ۔کینسر کوئی معمولی مرض تو نہیں ،میری امی کو کیسے ہو سکتا ہے۔تب میں ایم فل کے سیکنڈ سمسٹر میں تھی۔۔۔
اپنے بارے کیا تمہید باندھوں۔۔۔بس اتنا کہ ایک تو بڑا بھائی سب بہنوں کا ہونا چاہیے۔۔۔بھائی نہ ہوتے تو شاید ہم خوف ہی سے مر جاتے ۔۔۔کب، کیسے ،کس سے اور کہاں علاج کروانا ہے۔سب انھوں نے کیا۔
کیمو کے دوران والدہ جس تکلیف سے گزریں وہ سب سے اذیت بھرے لمحات تھے۔مسلسل دباتے رہنا پھر بھی امی کا درد سے بے حال رہنا ۔۔۔لگتا تھا ماس بھی مسلسل دبانے سے بھربھرا ہو گیا ہے۔۔۔
بہت دعا کرتی تھی کہ میرے خدا یہ کیسی رات ہے جس نے زندگی کے سارے سکھ نگل لیے ہیں پلیز اسے صبح میں بدل دے۔مجھ سے ماں کی اور تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔
اللّہ کا کرم ہے میری والدہ اب صحت یاب ہیں۔
اس بات کا بہت دکھ ہے کہ محترم جبار مرزا کی رانی چلی گئیں۔382 صفحات کی اس کتاب کو جب اول سے آخر تک مکمل پڑھ لیا تو ایک دکھ ایک کسک جو شدت سے محسوس کی وہ یہی تھی کہ کاش جبار صاحب آپ کینسر کی تشخیص ہوتے ہی رانی کو منا لیتے محبت سے ،غصے سے،حکم چلا لیتے،ان کی ایک نہ سنتے ۔کینسر کی تشخیص ہوتے ہی فوری کیمو ہوتی سرجری کروا لیتے تو شاید ان کی زندگی ۔۔۔۔۔
پھر خیال آیا اس شخص کی سینتیس سالہ رفاقت تھی۔پوری کتاب رانی کی یادوں اور تصاویر سے بھری پڑی ہے۔جس نے ایک سو بیس دن مسلسل بنا ناغہ کیے رانی کی قبر پہ دعا کی جس نے لاکھوں روپے خرچ کر ڈالے ۔اپنی طرف سے کوئی ڈاکٹر پیر فقیر نہ چھوڑا وہ بھلا اور کیا کر سکتا تھا یہ سب ترلے ہی تو تھے رانی کی زندگی کے لیے۔
میرا یہ کہنا کہ کاش بروقت کیمو ،سرجری کروالیتے۔۔۔۔بلاوجہ احساس جرم میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے اس حسرت کا اظہار تو کتاب کے کئی صفحات پہ وہ خود بھی کر چکے ہیں۔
آپ کا ذرا قصور نہیں ،آپ نے جو کیا محبت میں کیا بس آپ کی رانی کاتب تقدیر سے اتنی ہی عمر لکھوا لائی تھیں
جب امی بیمار تھیں تو یہ بھی سوچتی تھی یا اللّہ یہ امیروں والی بیماریاں تو غریبوں اور مڈل کلاس لوگوں کو نہ دیا کر تب میرا خیال تھا جن کے پاس بہت پیسہ ہوتا ہے ان کو بیماری اتنی تکلیف نہیں دیتی۔
ان کو ڈاکٹر ایسی دوا دیتے ہوں گے کہ تکلیف کا پتا ہی نہیں چلتا ہوگا۔لیکن اب سمجھ میں آیا ہے کہ روپیہ پیسہ معنی رکھتا ہے لیکن زندگی اور سکھ تو صرف اللّہ دیتا ہے ۔وہ چاہے تو زندگی کا دھاگہ لمبا کر دے ،چاہے تو اگلی سانس نہ لے پائیں۔
نام نہاد مسیحاوں کے بارے کیا کہوں
۔۔۔۔مسیحا ۔۔۔
لفظوں کا بھی تقدس ہوتا ہے ایسے لوگ انسانیت کو تو پامال کرتے ہی ہیں لفظ کی عزت بھی مجروح کر دیتے ہیں۔
میں نے ایک چیز سیکھی ہے کہ کینسر خاموش مرض ہے ۔۔۔دیہاتوں میں کتنی خواتین لا علمی کے ہاتھوں اس جان لیوا مرض سے عدم سدھار جاتی ہیں اور انھیں علم تک نہیں ہوتا۔کم سے کم جو تھوڑا بہت شعور رکھتے ہیں وہ گھر بیٹھ کے یہ انتظار نہ کیا کریں کہ حکومت کے نمائندے آئیں اور عوام الناس میں آگاہی پھیلائیں یہ تو ان کا فرض ہے۔
معاشرے کا ہر انسان جسے کسی بھی حوالے سے شعور ملا ہے وہ اللّہ کے حضور ،حقوق العباد کے لیے جوابدہ ہے۔
کچھ ماہ پہلے ایک کزن سے ملاقات ہوئی۔اس نے بتایا تھا ایک جوان عورت جو تین بچوں کی ماں تھی، ہمارے گھر دودھ لینے آتی تھی وہ اچانک فوت ہو گئی ۔۔۔اس کی ساس نے بتایا
"اوندے ہاں اچ پیڑ ہوندی ہائی۔۔۔پیر کولوں دم رکھا لیندے ہاسے یا ماڑی موٹی دوائی لئہ لئی چنگی بھلی ہو جاندی ہائی، آرام آ جاندا ہاسو”
اسے کینسر تھا۔وہ معصوم تھی،لاعلمی میں ماری گئی ۔معاشرہ سفاک نکلا اسے آگہی تک نہ مل سکی۔جبار صاحب آپ اپنی رانی کے لیے بہت بھاگے،بہت تگ ودو کی ،اپنی محبت کا اظہار ایک انتہائی دیدہ زیب کتاب کی صورت میں کیا ہے۔اپنی رانی کو لفظوں میں زندہ کر دیا ہے اور میری آنکھیں اس بات پہ نم ہیں کہ
ہر عورت اپنے گھر کی اپنے شوہر کی رانی ہوتی ہے ۔کوئی اس پہ کتاب نہ لکھے کاش کوئی اسے اتنا تو بتا دے
"تمہیں امیروں والی بیماری لاحق ہو گئی ہے”
میں نے کتاب کے پڑھنے میں کافی تاخیر کی ہے۔کیوں کہ ان دنوں میں انٹرویو کی تیاری میں مصروف تھی۔ لیکچرر شپ میرا ایک دیرینہ خواب ہے۔میں اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے جینا چاہتی ہوں۔جب آپ کی کتاب کے چند صفحات دیکھے تو بند کر کے رکھ دی۔کہ ابھی مجھے اس کتاب کو نہیں پڑھنا چاہیے۔
رانی صاحبہ کے لیے بہت دعائیں ہیں
"جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں” چند اقتباسات جن کو پڑھتے وقت میں نے بارہا سوچا جب دل میں جینے کی امنگ ہو اور موت کی دستک تیز تر ہوتی چلی جائے تب کیسا محسوس ہوتا ہے؟؟؟؟
عمر کے آخری حصے میں جب جیون ساتھی کو دوسرے ساتھی کے ساتھ کی ضرورت بہت زیادہ ہوتی ہے تب ایک قضا کے ہاتھوں مجبور ہو کے چل دے تو پیچھے رہ جانے والا مسافر تنکا تنکا گھر کو کیسے سمیٹتا ہو گا۔۔۔۔
وہ لمحات انسان کی ذات کو کیسے نڈھال کردیتے ہوں گے جب اسے یہ ادراک ہوتا ہے کہ اب جینے کا مقصد باقی نہیں رہا۔
"اللّہ کرے ہمارے دم پورے ہوں ہم تو گھر جائیں۔۔۔۔بچے اکیلے ہیں۔۔۔۔۔۔جبار میں پریشان ہوں۔۔۔۔۔پتہ نہیں کیوں رونے کو دل کرتا ہے۔۔۔۔میں نے دلاسہ دیا”ص 219
"مر جانا تو کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔زندہ رہنا کمال ہے۔۔۔۔۔
آپ لوگوں نے اپنی مما کا جی بھر کے سوگ منا لیا۔۔۔۔۔یہ کسک تو عمر بھر محسوس ہو گی۔۔۔۔۔مگر آپ لوگ اب نارمل ہو جائیں۔۔۔۔۔ہمارے بھی والدین فوت ہوئے تھے۔۔۔۔زندگی تو بسر کرنی تھی۔۔۔۔سو ہم نے کی۔۔۔۔آپ لوگ کامن روم کا ٹی وی چلائیں۔۔۔۔۔ہنسیں کھیلیں۔۔۔۔۔کہیں آوئٹنگ کے لیے نکلیں۔۔۔۔۔زندگی کی طرف لوٹ آئیں پلیز”ص 321
"ایک دن رانی نے مجھ سے اچانک کہا کہ”جبار زندگی کا مقصد تو ختم ہو گیا ہے”
میں نے حیرت سے کہا کیا کہہ رہی ہو،وہ بولی۔صبح کی نماز کے بعد واک،ناشتہ پھر اخبار اور اس کے بعد کام والیاں آ جاتی ہیں دوپہر کا کھانا،رات کا کھانا ،سو گئے ،صبح جاگ گئے وہی معمول وہی صبح شام،کیا کام کرتے ہیں،ہم کچھ بھی نہیں۔
"میں نے معصومیت اور سادگی سے کہا دوبارہ بچے پیدا کرنا شروع کردیں؟؟”
وہ بولی” میں زندگی بارے سنجیدگی سے سوچ رہی ہوں۔“ص 373
یہ کتاب محض اپنی شریکِ حیات سے محبت کا اظہار نہیں۔یہ کتاب ہمارے سماجی ڈھانچے کے کچھ مکروہ چہروں پر لٹکے اجلے نقابوں کو نوچ پھینکنے ،ان بے دلوں کی متعفن سوچوں کو لفظوں میں ڈھالنے والی کتاب ہے جو شکم پروری کی چاہ میں آدم خوری تک چلے گئے ہیں۔ میری دانست میں ایسی کتابیں ادبی محاسن کے معیاروں پر جانچنے کی بجائے دل سے پڑھی جانی چاہییں۔کیوں کہ آہ وفغاں کرتے دکھی شخص کے چہرے کے اتارچڑھاٶ کی بجائے اس کے درد کو محسوس کرنا چاہیے۔
<script async src=”https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-3236452777863529″
crossorigin=”anonymous”></script>