Tarjuman-e-Mashriq

خیال خدائی لشکر ہیں

مولانا جلال الدین رومی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں خیال خدائی لشکر ہیں جو سارا دن بارش کی مانند برستے رہتے ہیں اور رات کو جب تم سوتے ہو تو یہ اپنے اصل کی جانب لوٹ جاتے ہیں

‎سائینسی تحقیق کے مطابق ہمارے دماغ سے اوسطا ۵۰ ہزار سے ۷۰ ہزار خیالات گزرتے ہیں اور یہ ذیادہ تر خیالات ہمارے اور کاموں اور عملوں سے متعلقہ ہوتے ہیں جن میں سے ہم گزر رہے ہوتے ہیں .

‎یہ خیالات ہمارے اپنے روز مرہ کی ترتیب سے متعلقہ بھی ہوتے ہیں اور کچھ خیالات ہمارے ساتھ دیگر وقوع پزیر ہونے والے عوامل سے بھی متعلقہ ہوتے ہیں اور عموما رد عمل کے طور پہ ہمارے ذہن و دماغ میں ضاہر ہوتے رہتے ہیں اور انہی خیالات  کے نتائج کے طور پہ ہم اچھے اور برے گمان قائم کرتے رہتے ہیں  گمان چونکہ کسی اچھے انسان کے متعلق بھی ہماری کم فہمی کی وجہ سے بدگمان بھی ہو سکتے ہیں اس لیئے قران کریم میں بدگمانی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور سے گناہ قرار دیا گیا ہے .

‎اتنے سارے ملے جلے خیالات کی بارش ہونے کے ضمن میں سید ابو الحسن علی بن عثمان ہجویری داتا گنج بخش رحمت اللہ علیہ اپنی تصنیف کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارے نفوس دن میں تقریبا ۳۶۰ مرتبہ مختلف لباس بدل کر ہمیں ورغلاتے ہیں اور اس ورغلانے کے سبب جو خیالات پیدا ہوتے ہیں ان خیالات کے نتیجے میں ایسے ہم عمل کرتے ہیں اور خلقت خدا کے قلوب کو جو ہم تکلیف دیتے رہتے ہیں اور نتیجے کے طور پہ جو ہم ان عوامل کے نتائیج بھگتے ہیں اور پھر قتل و غارت ،غیبتوں ، مکرو فریب ، جلن کڑن ،نفرتوں اور منافقتوں کا ایک ایسا جہاں کھلتا ہے جہاں ابلیسیت رقص کرتی ہے اور اپنی اذلی دشمنی کا خوب مزہ چکھتی ہے نہ ہم خود چین میں ہوتے ہیں نہ دوسروں کو چین سے رہنے دیتے ہیں اور ‘‎ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ‘ ‎کے مصداق ہم نفرتوں کے جہان میں تسلسل اختیار کرتے چلے جاتے ہیں ۔ ان ساری باتوں کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے خیالات کا ادراک نہیں ہوتا بس ہم وحشی انداز میں اپنے خواہشات کے تابع عمل کیے جا رہے ہوتے ہیں جبکہ ہمارے اعمال ہماری نگاہ میں ہزار عیبوں کی موجودگی میں بھی خوشنما ہی ہوتے ہیں بلکہ بعض صورتوں میں تو ہم قصوروار ہوتے ہیں اور ہم خود ترسی کے جہاں میں تسلسل سے ناشکری کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں اس جہاں سے چھٹکارا خود شناسی کے بغیر ممکن نہیں اور خود شناسی کسی بہت بڑے حسیں خیال میں داخل ہوئے بغیر ممکن نہیں اور کسی بہت بڑے حسیں خیال میں داخل ہوئے بغیر خواہشات نفسانی اور فاسد خیالات سے چھٹکارا اور نفس کی مخالفت ممکن نہیں ۔

‎مولاناجلال الدین رومی رحمت اللہ علیہ اپنی تصنیف فیہہ وما فہیہ میں فرماتے ہیں کہ ایک خیال حسیں سے مزین مرد کامل  بزرگ ایک محفل بیٹھے تھے کہ اچانک کہا کہ فلانے مرید کے لیئے بھنی ہوئی مچھلی منگوائی جائے تاکہ وہ اسے کھائے۔ اس مرید سمیت سب لوگ اس بات پہ حیران تھے کہ ان کو یہ پتہ کیسے چلا کہ مرید کا دل بھنی ہوئی مچھلی کھانے کو کر رہا تھا فرمانے لگے کہ میں اپنی خواہشات کی نفی کرکے ایک خیال حسیں میں گم ہو چکا اب میرا دل ایک شفاف شیشے کی مانند ہوچکا ہے تو میں نے اس شیشے پہ بھنی مچھلی کے خیال کا عکس دیکھا تو حیرت ہوئی کہ تلفئ خواہشات کے بعد یہ عکس کیسا تو غور کرنے پہ معلوم ہوا فلاں مرید کا خیال ہے۔ اسی ضمن میں قلندر بابا رحمت اللہ علیہ فرماتے کہ’‎تم بابے کی آنکھ پہ تو پٹی باندھ سکتے ہو مگر اللہ کی آنکھ پہ پٹی نہیں  باندھ سکتے’.

‎یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے

‎جنہیں تو نے بخشا ہے زوق خدائی

‎دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا

‎سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

‎دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

‎عجب چیز ہے لذت آشنائی

‎جو کوئی کسی خیال حسیں میں کھو گیا وہی نجات پا گیا۔ مجازی سطح پہ مجنوں کو ہی دیکھ لیں اس کا سارا عمل کسی ایک انسان سے محبت تھا وہ ایک محبت کا خیال ہی اس کے سارے عیبوں کو آگ کی طرح جلا کر فنا کر گیا ۔ اب مجنوں فنا تھا ادھر بھی لیلی ادھر بھی لیلی۔ مجنوں نہ تھا بس لیلی تھی مجنوں کا عمل فقط محبت باقی تھا اب وہاں کوئی خیال غیر سودوزیاں، سونا چاندی، اچھائی برائی، ہر چڑھدی لیندی، ایک برابر تھی اگر کچھ تھا تو وہ فقط اک خیال محبت تھااور محبت سودو ذیاں سی پاک ہوتی ہے تبھی زمانہ پکار اٹھا کہ

‎دیکھ لیلی ترے مجنوں کا کلیجہ کیا ہے

‎خاک میں مل کے بھی کہتا ہے کہ بگڑا کیا ہے

‎انسانی تخلیق کے بعد اور پیغمبروں اور انبیا کو معبوث کرنے کے بعد جب اللہ بجز چند باقی ماندہ اہل کتاب، سب سے بیزار ہوا۔ تو جہاں انسانی قدریں انتہائی پستی کا شکار تھیں اور تمام دنیا سے تقریبا کٹا ہوا صحرائے عرب کا وہ علاقہ جہاں انسانی ظلم و ستم اپنے عروج پہ تھا وہاں اللہ نے اسی انسانی تہذیب سے کٹے ہوئے پستی کے شکار معاشرے میں اپنے محبوب شہنشاہ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو معبوث فرمایا ۔

‎کائنات میں اللہ کے خیال سے اس قدر مزین اور حسیں ہستی نہ کبھی آئی ہے اور نہ ہی کبھی آئے گی ۔ شہنشاہ دو جہاں نے جس جس کو اس خیال حسیں سے آراستہ کیا وہ روشن چمکتا ستارہ بنتا چلا گیا ۔ خاک کے زروں کو طاقت پرواز عطا کی گئی تمام کاینات کے لیئے تاقیامت مثالی کردار بنے۔ اور یوں خیال حسیں سے مزین صحرا نشین ساری دنیا پہ چھاتے چلے گئے اور وہ وقت دیکھنا والا تھا جب سلطنت فارس کے حاکم کو پتا چلا کہ مسلمان سلطنت فارس سے جنگ کے لیئے آئے ہیں تو وہ انتہائی حیرت زدہ تھا کہ کیا واقعی عر ب کے صحرا نشین “ہم” سے جنگ کرنے آئے ہیں‎کیوں کہ اہل فارس  کی نظر میں عرب صحرا نشینوں کوئی بھی حیثیت نہ تھی مگر یہ آقائے دو جہاں کے عطا کردہ ایک خیال حسین ہی کی بدولت تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے پردہ کرنے کے فقط تیرہ سال بعد ہی سلطنت فارس مسلمانوں کے قبضہ میں تھا جبکہ ایسا ہونا بضاہر ناممکنات میں سے تھا۔ خیال حسیں لا الہ الل اللہ ہے اور یہ خیال اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ شہنشاہ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچا دیا۔

‎یہ بات عقل انسانی کے لیئے اللہ کی انسانوں سے محبت کو ضاہر کرتی ہے کہ نافرمان ترین گناہ گاروں میں  اللہ کریم نے اپنےمحبوب ترین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بھیجا۔ بقول ڈاکٹر علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ

‎حسن بے پرواہ کو اپنی بے نقابی کے لیئے

‎بن اگر شہروں سے اچھے ہوں تو پھر شہر اچھے کہ بن

‎پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

‎تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

‎اسی سنت کی پیروی میں خیال حسیں سے مزین اولیا کرام بازار حسن میں اور گناہگاروں کی بستیوں میں جا کر ان کو محبت ازلی سے سے نوزتے رہے اور رہنمائی کرتے رہے اور یہ یقین دلاتے رہے کہ اے اولاد آدم اللہ اب بھی آپ سے محبت کرتا ہے.‎ایک بار اسے دل سے پکار کر تو دیکھو وہ بن مانگی برسات کی مانند پہلے ہی برس رہا ہے تمہارے دل ہی اس بارش کو محسوس نہیں کر پارہے اور یوں وہ اس ازلی خیال حسیں کی روشنی کو جو قلب شہنشاہ دو جہاں سے ہوتی ہوئی سینہ بہ سینہ اولیا اللہ تک پہنچتی رہی ہے اور وہ اسے انسانوں تک پہنچاتے رہے ہیں اور اس خیال حسیں کی ترسیل انسانی کردار کو مد نظر رکھے بغیر ہی عطا کی جاتی رہی ہے اور تا قیامت یہ تسلسل جاری رہے گا مگریہ بات یاد رکھنے کت قابل ہے کہ  ڈھونے والوں کو ہی نئی دنیائیں عطا کی جاتی ہیں

‎ہم تک اس ازلی خیال حسیں سے مزین ہستیاں اولیا کرام کی صورت میں پہنچی ہیں جو بازار حسن سے سیاست کے ایونوں تک اور بیوروکریسی اور دیگر تمام سرکاری اور اداروں اور مختلف ممالک تک اس خیال حسین سے  مزین  پیغام محبت پہنچاتی رہی ہیں اور انھوں نے عملی طور پہ یہ ثابت کیا ہے کہ یہ ایک خیال حسیں دیگر تمام خیالات کو جلا دیتا ہے اور انسان کو دوسروں انسانوں کے لئے مفید بنا دیتا ہے انسان نفرتوں اور مایوسیوں  سے نکل کر محبت میں داخل ہوتا ہے جہاں ستے ہی خیراں ہوتی ہیں ۔ ستے خیراں ، سیوں اپ، اور سیوں شریف میں چونکہ سات کا عدد مشترک ہے تو یہ سارے اسم اکثر مجھے ایک ساتھ یاد آتے ہیں جیسے سات آسمان سات زمینیں سات دن وغیرہ وغیرہ .‎خیال دنیا کا طاقتور ترین عمل ہے کیوں کہ فقظ خیال ہی کی بدولت ہمارے عمل وقوع پزیر ہوتے ہیں خیال کے اثرات ہوتے ہیں اور فاسد خیالات کا وزن ہوتا ہے اور ہم اپنے فاسد خیالات کے بوجھ نہ صرف خود اٹھائے پھرتے ہیں ہیں بلکہ دوسروں کو بھی متاثر کرتے ہیں .‎فقط اللہ کا خیال حسیں ہی ہے جو تمام بوجھ کا وزن ختم کر کے مادی کشش ثقل کو ختم کر کے ہمیں لطافت کی دولت سے ہمکنار کرتا ہے اور اس لطافت میں داخل ہونے کا زرلیعہ رب کائنات کے چنے ہوئے بندے ہیں جنہیں “من لدنک رحمتہ اور انعمت علیہم جو اللہ سے اور کتاب اللہ سے آپ کا رشتہ شہنشاہ دو جہاں علیہ صلوات و تسلیم کی محبت کے زریعئے جوڑتے ہیں اور دل سے کلمہ پڑھاتے ہیں .اسی کلمے کے حوالے سے حضرت سخی سلطان باہو رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں

زبانی کلمہ ہرکوئی پڑھدا، دل دا پڑھدا کوئی ہُو

جتھے کلمہ دل دا پڑھیئے،اُوتھے ملے زبان نہ ڈھوئی ہُو

دل دا کلمہ عاشق پڑھدے،کی جانن یار گلوئی ہُو

ایہہ کلمہ مینوں پیرپڑھایا باہو،میں سدا سوہاگن ہوئی ہُو

قران ایک خیال حسیں ہے اوراس خیال کی حقیقی اور عملی صورت شہنشاہ دو جہاں علیہ صلوات و تسلیم ہیں اور قران کے باطن اور حقیقت تک  پہنچنے اور اس کی روشنی سے مسفید ہونے کے لیئے ایک روشن سینہ درکار ہے روشن سینہ ہی دوسرے سینے کو روشن کرتا ہے اور ہم تک تسلسل سے سینہ بہ سینہ یہ مے حجازی آتی رہی ہے اور تا قیامت آتی رہے گی پیمانے مختلف ہیں مگر مے وہی ہے کہیں پہ یہ نقشبندی پیمانے میں ملتی ہے تو کہیں چشتی ، کہیں قادری و سہروردی ہے تو کہیں قلندری ہے بس جس مزاج کو جو پیمانہ بھائے وہ وہیں سے مے حجازی پائے ۔ اسی بابت علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ شکوہ میں فرماتے ہیں

عجَمی خُم ہے تو کیا، مے تو حجازی ہے مری

نغمہ ہندی ہے تو کیا، لَے تو حجازی ہے مری

بمصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست

اگر بہ او  نہ  ر یسدی  تمام  بو  لہبی  است

‎ادراک کو ہے ذات مقدس میں دخل کیا

‎ادھر نہیں گزار گمان و خیال کا

‎مرنے کا بھی خیال رہے میر اگر تجھے

‎ہے اشتیاق جان جہاں کے وصال کا

Exit mobile version