دنیا تو سدا رہے گی ناصرؔ
ـــــ
مارچ کا مہینہ ناصرؔکاظمی کے وداع ہونے کامہینہ ہے۔ آج جب ناصرکو یادکرنے بیٹھا تو معین اختربھی بے تحاشا یاد آئے ۔ ایک دلرباشاعرسےجڑی یہ یاد اتنےہی ہردلعزیزآرٹسٹ کو کشاں کشاں کھینچ لائی ہے
انورمقصود کے کھٹ مٹّھے پروگرام لوز ٹاک کے یوں تو سارے ہی پروگرام بے مثال تھے مگر وہ انٹرویو تو لاکھوں میں ایک تھا جس میں معین اختر نے خود سے بےگانہ، نشے میں تنہا رہ جانے والے بے کس کا رول کیا تھا جو ناصرؔکاظمی کے شعروں کے سہارے زندگی کررہاتھا
یہ معین اخترکی شاہکار پرفارمنسز میں سے ایک تھی، بالکل روزی کے کانٹے کی۔ کچھ جملے تو ایسے کاٹ دار اور برجستہ تھے کہ لوحِ دل پرنقش ہوگئے۔ بہن بھائیوں کی تعداد پرایک سوال کے جواب میں انورمقصود کےمہمان کاکہناتھا
والدمرحوم، والدہ مرحومہ جتنے چھوڑکے مرے تھے اتنے ہی ہیں (کچھ رک کرانگلیوں پرحساب لگاتے ہوئے) پانچ بہنیں ہیں اورتین بھائی ہیں ، سب زندہ ہیں مگرناصرؔمرگیا (تقریباًروہانسو ہوتے ہوئے)
؎ آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
پروگرام کےتسلسل کوتوڑتے ہوئے معین کا وہ رک رک کرناصر کو یاد کرنا اور پھر وہ نشے میں ٹوٹتےبدن سے لاچارہوکر گاہے گاہے بریک لینے پراکسانا، بیمارماں کے علاج کے لیے پیسوں کے مطالبے کی تکرار اور ان سب کے بیچ جیسے اچانک کچھ یاد آجائے ناصرؔکاکوئی حسب موقعہ شعر
؎ فکریہ تھی کہ شبِ ہجرکٹے گی کیونکر
لطف یہ ہے کہ ہمیں یادنہ آیا کوئی
ناصرکاظمی سےجڑی دوسری یادہمارےاردو کےاستاد ثروت اللہ قادری صاحب کی ہے۔ یا پھر وہ ہمارے ہردلعزیز زبیر ہاشمی صاحب تھے (معاف کیجئے گا، عمر کے ساتھ ساتھ یادداشت کچھ کچھ دھندلاگئی ہے)۔کہنےلگےکہ ناصرکاظمی نےاپنےشعری مجموعےدیوان کانام میرؔ کےاس شعر پررکھا ہے
؎ جانےکا نہیں شور سخن کا مرےہرگز
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
اسی دن ہم لائبریری سے ناصرکاظمی کی دیوان اٹھا لائے۔ صاحب پرانے وقتوں کے استاد نبض شناس ہوا کرتے تھے۔ ناصرؔ کی کتاب دیوان کا ۱۹۷۷ کا ایڈیشن میرؔ ہی کے ایک اور لاجواب شعرسے معنون ہے
؎ مجھ کو شاعرنہ کہومیرؔکہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
لوگ کہیں گےکہ ناصرؔ چھوٹی بحرکابےتاج بادشاہ ہے۔ مگر ہم سےپوچھئےتو وہ بےنواؤں کا شاعر ہے، محبت کےماروں کی کھنڈر پناہ گاہ، دیواروں پر اداسی کےسنگ سنگ بال کھولےسونے والوں کا ہمدم، شب ہجرکے تیرہ بختوں کا نالہ رسا
؎ نالۂ آخر شب کس کو سناؤں ناصرؔ
نیند پیاری ہےمرےدور کےفنکاروں کو
مکلیوڈ روڈ پر جہاں نکلسن روڈ کی شاخ نکلتی ہےاس سےذرا پہلےداہنےہاتھ مومن پورہ کے اداس قبرستان میں ایک قبرناصرؔکاظمی کی ہے
؎ وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
اس سےپہلےکہ یہ تحریر اپنا آخری سانس لےکچھ ایسا ہےکہ ناصرؔ سے جڑی ایک اور یادکا ذکر ہوجائے۔ اول اول کی محبت جسےآج کل کی دنیا فرسٹ کرش کہتی ہے۔ یاد کےطاقچےمیں ایک بھولی صورت اور اس کے یکے بعد دیگرے امیدواروں میں دو جگری دوست۔ اورجیساکہ اولین محبت کا نصیب ہے, دستبرداری کےڈھونگ میں لپٹی اپنےاپنےحصےکی ناکامی سمیٹ لینےکےبعد کا ٹھہراؤ۔
یہ سب تو قصۂ پارینہ ہوا مگرآج بھی جب آوارگانِ شام بمعہ قصۂ پنج درویش مل بیٹھتے ہیں تو دو جگری دوست ایک قدیم یاد کی دھیمی آنچ پرمسکرااٹھتے ہیں اور ایک تیسرادرویش کہہ اٹھتاہے
؎ دوستوں کے درمیاں
وجہ ِ دوستی ہے تو
تو صاحب کہہ لینے دیجئے گئے دنوں کی محبت کے راویوں کے دل جب جب دھڑکیں گے ناصرؔکاظمی کی یادآئے گی۔ ہم نے ان کی برسی پر ناصرؔ کاظمی کو یاد کیا، اللہ انہیں غریق رحمت کرے، آمین، ثم آمین