بچوں کو بتائے بغیر میں نے تحقیق مکمل کرلی کہ دودی پت سر جانا اس وقت مشکل ہے اور بچوں کے ساتھ ناممکن ہے ۔۔کیونکہ راہ میں آتی اکلوتی قیام گاہ ‘ملا کی بستی’ اجڑ چکی تھی ۔۔بستی کے ملا اپنا بوریا بستر گول کر چکے تھے ۔۔ملکہ حسن دودی پت سر سے مکمل محظوظ ہونے کے لیے ایک رات کا کم از کم قیام ضروری ہے ۔۔۔گوکہ ملا کی بستی میں بھی قیام کے لیے بہت اعلی سہولیات موجود نہیں لیکن اس کی حیثیت بیس کیمپ کی سی ہے جہاں خیمہ اور دال روٹی کی سہولت میسر آجاتی ہے ۔۔سولہ کلومیٹر کے طویل سفر کے بعد کچھ وقت سکون اور اگلے دو کلومیٹر کے لیے تازہ دم ہوکر نکلنے کے لیے ملا کی بستی کا آباد ہونا ضروری ہے جو کہ غیر آباد تھی ۔۔۔
دل پر پتھر رکھ کر بچوں کو یہ خبر سنائی جس کا مجھے گھر سے نکلتے وقت بھی اندازہ تھا لیکن ایک موہوم سی امید تھی کہ شاہد ملکہ حسن کا دیدار نصیب ہو ہی جائے ۔۔۔رات نو بجے بیسر بالا کوٹ ہوٹل کے کمرہ میں بچے ایک باپ کی کلاس لے رہے تھے اور باپ خاموشی سے دونوں ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھے لیکچر سن رہا تھا ۔۔۔باپ کے ذہن میں اسوقت یہی چل رہا تھا کہ اس لیکچر کو ذہن نشین کیا جائے اور امتحان میں سرخرو ہونے کی کوئی صورت نکالی جائے ۔۔۔۔لیکچر کے بعد جہاندیدہ باپ نے بچوں کے سامنے سبز باغات کا ایک نقشہ پیش کیا اور پچیس سال پہلے لالہ زار ٹاپ کی سفری روداد یوں پیش کی کہ بچے لالہ زار دیکھنے کو بے چین ہوگئے اور یوں دودی پت سر کے ٹریک سے اتر کر لالہ زار جانے پر آمادہ ہوگئے ۔۔۔
لالہ زار ایک گلستان فردوس ہے جس تک آنے کا واحد راستہ بٹہ کنڈی سے ہوکر آتا ہے ۔۔۔واحد اس لیے کہ دوسرا راستہ بہت مشکل ہے جس کا تذکرہ بعد میں آئے گا ۔۔کاغان سے لالہ زار 18 کلومیٹر ہے ۔۔۔جیسے ہی بٹہ کنڈی پہنچتے ہیں تو بالکل شروع میں پولیس چیک پوسٹ کے سامنے ایک کچا راستہ اوپر جاتا ہے جوکہ 10240 فٹ اونچے وادی کاغان کے خوبصورت ترین مقام لالہ زار کو جاتا ہے ۔۔۔
جونہی میں نے جیپ کو اس راستے پرموڑا تو مجھے پچیس سال پہلے والا راستہ یاد آگیا لیکن یہ وہ راستہ نہیں تھا ۔۔وہ راستہ موڑ مڑتے ساتھ بلندی کی جانب بلند ہوتا تھا لیکن یہ راستہ پتھریلا تھا انتہائی مشکل تھا ۔پرانا راستہ شاہد عمر رسیدہ ہوکر اپنا وجود کھو چکا ہوگا ۔۔پرانے راستے کے راہی بھی اپنا وقت تیزی سے پورا کررہے ہیں ۔خیر یہاں سے واپسی ممکن نہ تھی کیونکہ بچوں کو بڑی مشکل سے لالہ زار پر راضی کیا تھا ۔۔۔قریبا چھ کلو میٹر کا یہ راستہ وادی کاغان کا سب سے مشکل راستہ ہے ۔۔دو کلو میٹر پتھریلے مشکل راستے کے بعد لال مٹی اور پتھروں سے ملا جلا راستہ سامنے اجاتا ہے ۔۔۔مسلسل چڑھائی ،کراسنگ کے لیے گاڑی کو ریورس کرکے بعض اوقات کافی دور تک لیجانا پڑتا ہے جو بذات خود ایک امتحان ہے ۔۔۔
باپ امتحان پاس کرنے کے چکر میں ایک اور امتحان میں پھنس چکا تھا ۔۔۔
دور نیچے بٹہ کنڈی جاتی سڑک اور سڑک سے نیچے دریا ایک لکیر کی مانند دکھتے ہیں ۔۔جیپ کے شیشے سے باہر جھانکیں تو جیپ کے ٹائر بالکل کھائی کے کنارے پر چلتے نظر آتے ہیں۔۔ہماری خوش قسمتی کہ موسم صاف تھا بارش میں لالہ زار تک رسائی نامکمن ہوجاتی ہے ۔۔۔کیونکہ ایک دو جگہ کیچڑ تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہاں سے گزرتے گاڑی پر ڈرائیور کا کنٹرول بالکل ختم ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ہر موڑ پر بچوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں اور انہی آوازوں میں والدہ کی اللہ اکبر ،استغفراللہ ،کی صدا بلند ہوتی سنائی دیتی ۔۔۔ہر بار کی طرح اس بار بھی انہوں نے اس وقت کو کوسا جب انہوں نے میرے ساتھ آنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔لیکن اب کوئی فائدہ نہیں تھا وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا ۔۔۔اور گیا وقت کب ہاتھ لگتا ہے ۔۔۔
ایک گھنٹے کے صبر آزما سفرکے بعد لالہ زار کا حسین منظر ہمارے سامنے تھا ۔۔۔پچیس سال پہلے اور آج کے لالہ زار میں بہت کچھ بدل چکا تھا لیکن لالہ زار کا حسن آج بھی قائم دائم تھا ۔۔پچیس سال پہلے لالہ زار کی ابتداء میں ایک پتھر کا بنا سرکاری گیسٹ ہاؤس تھا اور یہیں ایک کینٹین بھی موجود تھی لیکن اب وہ عمارت شکست وریخت کا شکار تھی اور غیر آباد ہو چکی تھی ۔۔نہ جانے کیوں ہم تاریخی عمارات کو محفوظ کرنے کے بجائے نئی تعمیرات پر توجہ زیادہ دیتے ہیں ۔۔۔
تتلیوں اور پھولوں کی سرزمین لالہ زار کو دیکھ کر بچے بہت خوش تھے ۔۔سب راستے کی مشکلوں کو بھول چکے تھے اور اللہ کی شان بیان کررہے تھے ۔۔۔لالہ زار میں آپ جس جانب نگاہ اٹھائیں زبان سے یہی نکلتا ہے سبحان اللہ۔۔۔۔
لالہ زار کے نام سے تو یہی لگتا ہے کہ رنگ برنگے پھولوں کی وجہ سے اسے لالہ زار کہا جاتا ہوگا ۔۔اگر ایسا ہوتا تو اس کا نام لالہ زار کے بجائے آلو زار پڑ چکا ہوتا کیونکہ اب اس کی ڈھلوانوں پر آلو کے بے پناہ کھیت ہیں ۔۔۔لیکن حق بات یہ ہے کہ وہ کھیت بھی آنکھوں کو بہت بھلے لگتے ہیں ۔۔۔
لالہ زار کے پہاڑوں اور جنگلوں میں کبھی مارخور اور ریچھ عام ہوا کرتے تھے لیکن اب اشرف المخلوقات کی کثرت سے ناپید ہوگئے ہیں ۔۔۔لالہ زار سے بہت سے پہاڑی درے بھی نکلتے ہیں ۔۔مغرب کی جانب پہاڑ کی چوٹی تک دو پہاڑوں کے درمیان ایک راستہ جاتا ہے جسے کچ گلی پاس کہتے ہیں ۔۔کچ گلی ٹاپ تک گھوڑے بھی جاتے ہیں جو تین سے چار گھنٹے ایک طرف کے لگاتے ہیں ۔۔کچ گلی ٹاپ سے جھیل سیف الملوک کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے اور جھیل کی جانب اترا بھی جاسکتا ہے ۔۔۔لالہ زار آنے کا یہی دوسرا راستہ ہے جسکا شروع میں تذکرہ تھا ۔۔کچ گلی پاس سے آنسو لیک اور پھر منور ویلی بھی اترا جاسکتا ہے ۔۔۔لالہ زار میں موجود ایک شخص نے بتایا کہ اسکا تعلق منور سے ہے وہ یہاں ہوٹل کرتا ہے اور بارہا منور سے پیدل لالہ زار آیا ہے ۔۔۔لالہ زار سے ایک راستہ سرن گلی سے ہوتا ہوا سرن جھیل اور پھر کشمیر نکلتا ہے ۔۔۔اس راہ پر بھی سرن جھیل تک لالہ زار سے گھوڑے جاتے ہیں جبکہ جھیل تک بٹہ کنڈی سے جیپیں بھی جاتی ہیں ۔۔۔
لالہ زار کے نام کی بابت معلوم ہوا یہ پھولوں کی وجہ سے نہیں بلکہ سوھنی کاغانی اور لالہ افغانی کی محبت کی وجہ سے معروف ہے ۔۔۔دونوں کی محبت کا انجام کیا ہوا ہوگا اس کی میں نے جستجو نہیں کی کیونکہ محبتوں کے انجام سے میں واقف ہوں ۔۔۔یا تو سوہنی لالہ افغانی کی بیوی بن گی ہوگی،یا کسی اور کی ۔۔۔۔دونوں صورتوں میں لالہ افغانی ایک حسرتناک انجام سے دو چار ہوا ہوگا ۔۔۔خاوند اور محبوبہ کے بچوں کا ماموں یہ دونوں دنیا میں پائی جانیوالی مسکین ترین مخلوق ہیں ۔۔۔۔
لالہ زار میں گزرا یہ دن ایک یادگار دن تھا ۔۔پہاڑوں ،جنگلات اور سر سبز لالہ زار میں اڑتی تتلیوں کے غول کسی اور دنیا کا نظارہ پیش کررہے تھے ۔۔۔عصر کی نماز کے بعد واپسی کا سفر شروع کیا تو ایک عجیب صورتحال پیش آ گئیں ۔۔۔لالہ زار ،دودی پت سر کا متبادل نہیں ہوسکتا ۔۔۔باپ کی کلاس پھر سے شروع تھی ۔۔۔اور باپ سوچ رہا تھا کہ پورے دن کی مشقت کے بعد بھی سرخرو نہ ہوسکا ۔۔۔امتحان سے نکلنے کے نت نئے منصوبے اس کے ذہن میں آنے لگے ۔۔۔اور اسی راہ پر چلتے ہوے اس نے بچوں سے دھرم سر اور سمبک سر جھیل کا وعدہ کرلیا ۔۔۔عائشہ اور عبداللہ ایک کے بجائے دو جھیلوں پر جانے کا سن کر بہت خوش تھے ۔۔۔جبکہ والدہ مجھ سے ان جھیلوں کے راستہ کی تفصیلات سے آگاہی چاہتی تھیں ۔۔۔جاری ہے