Tarjuman-e-Mashriq

دھرم سر، سمبک سر پر دہشت کے بادل- 3

 

میں نے وقتی طور پر جان چھڑوانے کو دھرم سر ،سمبک سر جھیلوں  کا نام تو لے لیا بچوں کے سامنے لیکن مجھے معلوم تھا کہ ان دونوں جڑواں بہنوں کی خوبصورتی اپنی جگہ لیکن ان کے اردگرد پہاڑوں پر چھوٹے چھوٹے گبر سنگھ بے تحاشا تعداد میں موجود ہوتے ہیں ۔۔اکیلا بندہ تو پھر ان کا سامنا کر سکتا ہے لیکن فیملی کے ساتھ میں وہاں جانے کا رسک نہیں لے سکتا تھا ۔۔۔لیکن یہ بات اگر میں اپنے منہ سے کہتا تو گبر سنگھ سے پہلے میرا برا حال کردیا جاتا اس لیے مصلحت کے تحت خاموش ہوگیا 

بیسر سے تین کلو میٹر فاصلے پر لب سڑک لولو سر جھیل واقع ہے ۔۔لولو شینا زبان میں سرخ اور سر جھیل کو کہتے ہیں ۔۔۔یہاں کبھی بھی سرخی نظر نہیں آئ ۔۔جھیل کا پانی سورج کے ساتھ رنگ بدلتا ہے ۔۔نیلا ،سیاہ اور سبز دکھتا ہے لیکن سرخ کبھی نہیں ہوتا ۔۔۔یہ سارا علاقہ اسی کی مناسبت سے لولو سر نیشنل پارک یعنی قومی ملکیت کہلاتا ہے ۔۔لولو سر جھیل دو کلومیٹر طویل جھیل ہے اور اس کا منبع برفانی گلیشیئر ہیں ۔۔جبکہ یہ دریائے کنہار کی ماں بھی ہے کہ دریائے کنہار یہیں سے جنم لیتا ہے ۔۔گیارہ ہزار دو سو فٹ بلند اس جھیل کی تفصیلات میرے ایک گزشتہ سفر کی روداد میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔۔جس میں پچیس سال قبل اور موجودہ جھیل کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے ۔  اس سفر کی داستان  کچھ ایسے  تھی

 رمضان المبارک 2016 میں لولو سر جھیل جانے کا اتفاق ہوا ۔۔۔۔لولو سر   ایک برفانی جھیل ہے جوکہ ناران سے 50کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے دریائے کنہار کا منبع  یہی  جھیل ہے۔

موجودہ جھیل کی بابت بات کرنے سے پہلے ماضی کی کچھ یاداشتیں بیان کرنا چاہتا ہوں ۔۔پچیس سال قبل کی جھیل اور موجودہ جھیل میں زمین وآسمان کا فرق تھا ۔۔تب دودی پت سر اور لولو سر یکساں خوبصورتی اور مسافت کی حامل جھیلیں تھیں ۔۔۔سال شاہد 1996 یا 1997 ہوگا ۔۔۔ان دنوں ہم کچھ دوست ہر سال دوتین بار وادی کاغان اور گردونواح کا تفریحی دورہ کرتے تھے ۔۔بابو سر ٹاپ تک ان دنوں گرمیوں میں ایک کچا اور پہاڑی راستہ جس پر اب پختہ سڑک بن چکی ہے جاتا تھا ۔۔ناران سے اگر دس جیپ والوں سے بات کریں تو ایک لولوسر جانے کے تیار ہوتا تھا ۔۔اس زمانے میں ایک جیپ والے سے چار ہزار روپے کے عوض لولو سر جانے کی بات طے  ہوئی  ۔۔علی الصبح ہم لولو سر کے لیے روانہ ہوئے ۔۔ناران سے بٹہ کنڈی تک راستہ قدرے بہتر تھا ۔۔۔ایک گلیشیر کافی طویل راہ میں موجود تھا ۔۔اس وقت گلیشیر کی کٹائی نہیں کیا کرتے تھے بلکہ گلیشیر کے اوپر سے ہی گاڑیاں گزاری جاتی تھیں اور گاڑیاں گزر گزر کے اک راستہ سا بن جاتا تھا ۔۔گاڑی ہچکولے کھاتی جب گلیشیر سے گزرتی تو دل منہ سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا لیکن ہر کوشش میں ناکام ہوتا ۔۔۔گلئشیر دور نیچے دریا تک جاتا تھا اور یہ تصور کرکے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے کہ اگر جیپ دوفٹ پھسل کر گلیشیر کی اترائی پے چلی گئیں  تو کیا ہوگا ۔۔۔

بٹہ کنڈی سے جلکھڈ تک کا راستہ بھی صرف جیپ کا تھا لیکن قابل قبول تھا ۔۔تب کے بٹہ کنڈی و جلکھڈ اور آج کے بٹہ کنڈی و جلکھڈ میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ تب یہاں صرف کچے جھونپڑے اور مکان تھے جبکہ آج ریت وبجری (کنکریٹ) کے پہاڑ کھڑے کردیے گئے ہیں ۔۔۔تب لوگ بھی کھرے اور خلوص والے تھے مہمانوں (سیاحوں) کو دیکھ کر خوش ہوتے چائے اور موجود وسائل سے بھرپور تواضع کرتے جبکہ خوش تو سیاحوں کو دیکھ کر آج بھی ہوتے ہیں لیکن آج خوشی کی وجہ مہمان نوازی نہیں بلکہ کاروباری ہوتی ہے ۔۔۔حقیقت تو یہ ہے اتنے جوق در جوق آتے سیاحوں کی مہمان نوازی کرنا ممکن بھی نہیں ۔۔ان جگہوں پے قائم کردہ پختہ عمارات زیادہ تر مقامی افراد کی نہیں ہیں ۔۔مقامی افراد کی اکثریت اب بھی چھوٹے موٹے کام کرتی نظر آتی ہے ۔۔سڑک کنارے  مکئی کے دانے بیچتے ہوئے ،کسی جیپ پے ڈرائیوری کرتے ہوئے ،گھوڑوں کی لگامیں تھامے سیاحوں کے منتظر لب سڑک کوئ چائے کا کھوکھا ڈالے ہوئے ۔۔۔ثابت یہ ہوتا ہے کہ ان خوبصورت علاقوں میں جب بھی کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے تو اس سے اولین فائدہ وہی سرمایہ دار اٹھاتے ہیں جو ستر سالوں سے اس ملک کے عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں ۔۔۔مقامی افراد کے حصہ میں وہی غلاظت آتی ہے جو سیاح اپنے ساتھ لاتے ہیں اور پھر یہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔۔۔

جلکھڈ سے آگے وہ راستہ شروع ہوتا تھا کہ جس کا ایک ایک فٹ اللہ کی یاد سے بندہ ناچیز کو آشنا کردیتا تھا ۔۔۔بائیں ہاتھ پہاڑ ،پتھروں کے اوپر چلتی پھسلتی جیپ اور نیچے گہرائ میں دریائے کنہار ۔۔۔جب قوت بازو اور وسائل پر انحصار ختم ہوتا ہے تو نگاہیں ذات باری کی جانب دیکھنے لگتی ہیں ۔۔یہ آج کے مسلمان کی سب سے بڑی خامی اور ایک معنوں میں سب سے بڑی فضیلت بھی ہے ۔۔۔ہم بھی اس راہ پے اللہ کو یاد کرتے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے عازم سفر تھے ۔۔۔جلکھڈ سے بڑوای اور پھر بیسل تک ہمیں راہ میں کوی گاڑی نہ ملی ۔۔بڑوائ اور بیسل آلو اور مٹر کے کچھ کھیت اور کچے جھونپڑے تھے ۔۔۔مون ریسٹورنٹ کی پیدائش اس کے کم وبیش دو دہائیوں بعد کی ہے ۔۔۔تب راہ کنارے پڑے پتھر بھی تشہیری مہم سے پاک و صاف تھے ۔۔۔تب شاہد سینیٹر طلحہ محمود نہیں تھا یا شاہد اسوقت لوگ انہیں خوش آمدید نہیں کہتے تھے ۔۔تب مون ریسٹورنٹ و دیگر کھابہ ہاؤس بھی وجود میں نہیں آئے تھے۔۔۔پہاڑوں اور پتھروں پے تشہیر نہ ہونے کی وجہ شاہد یہ بھی ہو ۔۔۔ہم بحثیت قوم قدرت کے ان شاہکاروں کو مسخ کرنے میں کوئ کسر نہیں چھوڑتے اور حکمرانوں اور حکومت کی ترجیحات میں ان کا تحفظ شامل ہی نہیں ۔۔۔۔

بیسل نام کا کوئی  سائن بورڈ تو اسوقت ہوتا نہیں تھا ڈرائیور سے جگہ کی بابت معلوم ہوتا یا اب جاکے پتہ چلا کہ اس جگہ کا نام کیا تھا ۔۔۔بیسل کے قریب جہاں اب مشہور زمانہ مون ریسٹورنٹ ہے اس سے زرا آگے جیپ نے بمعہ ڈرائیور جانے سے انکار کردیا ۔۔۔وجہ اس کی یہ ہوئ کہ اوپر پہاڑ سے آتا پانی بہت پھنکارتا ہوا آرہا تھا ۔۔جیپ یقیناً اس برفانی پانی کے ریلے میں بہہ جاتی ۔۔ڈرائیور کے بقول اس سے آگے تھوڑا سا راستہ تھا جو بعد ازاں اڑھائی گھنٹے پے محیط نکلا ۔۔اس برفانی پانی پے ذرا اوپر کرکے ایک درخت کا تنا رکھا تھا وہاں سے اسے عبور کرکے ہم نے اپنا سفر جاری رکھنا تھا ۔۔ڈرائیور سے بہت عاجزانہ انداز میں درخواست کی گئ کہ وہ ہمارے ساتھ چلے ۔۔۔اکڑی ہوئ گردن کے ساتھ ہماری درخواست قبول کرلی گئ ۔۔۔جیپ کو یہاں کھڑا کرنے میں کوئ خطرہ نہ تھا کیونکہ ایک تو جیپ میں ایسا کچھ نہ تھا جو چوری کیا جاسکتا ہو دوسرے یہاں کسی چور کے انسانی شکل میں ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں تھا ۔۔۔ان ممکنات کو دیکھتے ہوئے ہماری درخواست پر غور کیا گیا اور بعد ازاں قبول بھی کرلی گئیں  ۔۔اس سے آگے کا سفر ایک یادگار سفر تھا ۔۔۔ہنستے کھیلتے دو سے اڑھائی گھنٹے پیدل سفر کے بعد لولو سر جھیل ہمارے سامنے تھی تین اطراف برف سے گھری ۔۔۔نیلگوں پانی والی لولو سر ۔۔۔ایک طرف پہاڑی ڈھلوان جس پر سبز مخملیں گھاس اور چھوٹے چھوٹے پھول تاحد نگاہ پھیلے ہوئے تھے ۔۔اسی مخملیں ڈھلوان کے بیچوں بیچ جھیل کا پانی ایک دریا کی صورت شور مچاتا ہوا نکلتا اور آبشار کی طرح بہتا نیچے وادی میں چلا جاتا ۔۔اس جگہ اب ایک پختہ آہنی پل تعمیر ہوچکا ہے ۔۔۔کاش اسوقت کوئی  ایسا موبائل ہوتا کہ لولو سر کی وہ صورت محفوظ کی جاسکتی ۔۔۔لولو سر پر کوئی کھوکھا ، کوئی ہوٹل بلکہ کسی ذی روح تک کے آثار نہ تھے اس سیزن میں ہم پہلے سیاح تھے جو وہاں تک پہنچے تھے ۔۔ اس زمانہ میں لیز ،بسکٹ اور دیگر طاقتور خوراکیں بھی نہیں تھیں اور غلاظت پھیلانے والے ان کے ریپرز بھی نہیں تھے ۔۔۔ہماری جیبوں میں کالے چنے ،ریوڑیاں ،اور چھوہارے موجود تھے گوکہ یہ لیز ،سلانٹی اور دیگر عجیب وغریب ذائقہ دار چیزوں کے ہم پلہ نہ تھے لیکن  غذائیں ضروریات بھرپور پورا کرتے تھے اور ماحول دوست بھی تھے ۔۔۔صاف ستھری رنگ بدلتی جھیل میں آج پچیس سال بعد بھی آنکھیں بند کروں تو میرے سامنے آجاتی ہے ۔۔جہاں آسمان کا عکس پانی میں تھا وہاں پانی نیلا ،جہاں برفانی گلیشیر منعکس ہوتے وہاں سفید دودھیا اور جہاں سبز مخملیں ڈھلوانوں کا سایہ پڑتا وہاں گہرا سبز ۔۔۔ ان تین رنگوں کا امتزاج لیے لولو سر قوس قزح کی طرح رنگ بکھیر رہی تھی ۔۔۔۔خوبصورت یادیں جو آج تک میرے قلب کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ان کو ساتھ لیے واپسی کا سفر شروع ہوا اور رات تقریبا دس بجے ہم کاغان پہنچے ۔۔۔ایک بات جو میں بتانا بھول گیا ان دنوں وادی کا مرکز کاغان ہوا کرتا تھا ناران نہیں ۔۔۔سیاحوں کے ٹھہرنے کی جگہیں کاغان میں تھیں ناران میں بہت کم تھیں ۔پی ٹی ڈی سی یا ایک آدھ ہوٹل تھا جو اکثریت کے وسائل سے بہت باہر ہوا کرتا تھا ۔۔۔

2016 لولوسر دیکھنے کے بعد میں نے تہیہ کیا کہ دوبارہ یہاں نہیں آؤں گا اگر اس راہ سے بھی گزرنا پڑا تو جھیل پر نہیں رکوں گا ۔۔۔میرے یادوں کے دریچوں کو 2016میں آگ لگ گئی جب میں نے دیکھا مخملیں ڈھلوانوں پر جہاں کبھی حدنگاہ رنگ برنگے پھول ہوا کرتے تھے وہاں پختہ تعمیرات ہوچکی ہیں تعمیرات اور جھیل کے درمیان سے پختہ سڑک گزر رہی ہے سڑک سے پرے جھیل ۔۔۔۔۔۔میں لولو سر سے اور لولو سر مجھ سے اپنا منہ چھپا رہی تھی ۔۔۔ہم دونوں ایک دوسرے سے شرمندہ تھے ۔۔۔بچے میرے ساتھ تھے اور بہت خوش تھے ۔۔لیکن میرا دل اداس تھا ۔۔قدرت کی اس صناعی کی ایسی بے قدری پر میرا جی چاہ رہا تھا میں پھوٹ پھوٹ کے روؤں اور میرے آنسو جھیل کے ٹھنڈے پانیوں میں ضم ہوکر کنہار کا حصہ بن جائیں تاکہ لولو سر کو میری بے گناہی کا یقین آ جائے ۔۔جھیل کے بالکل کنارے اور قائم کردہ عالیشان ہوٹلوں کے پیچھے کچرے کے انبار اور ایک ناخوشگوار بو پھیلی ہوئ تھی ۔۔۔ہم نے ترقی کے نام پر فطرت کو پامال کرکے رکھ دیا ہے۔۔۔ترقی سے پہلے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو ہم میں بحثیت قوم نہیں ہے ۔۔ترقی سڑکیں یا پل بنانے سے نہیں سوچ کی بلندی سے آتی ہے ۔۔۔ہم نے بابو سر ٹاپ پر سڑک بنا کر ایک کارنامہ تو کر دکھایا لیکن اس کے اثرات وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس کارنامے سے قبل یہ علاقہ دیکھ چکے ہیں ۔۔۔اج بھی جن علاقوں میں سیاحت کے نام پر میگا پراجیکٹ شروع کیے جارہے ہیں وہاں ان سب چیزوں کا خیال رکھا جائے ۔۔۔جھیل کنارے ایک پتھر پے بیٹھا میں سڑک سے گزرتی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ٹیڑھے میڑھے منہ کرکے سیلفیاں بناتے بچے ،جوان ،خواتین وحضرات سب مجھے اور لولو سر کو منہ چڑھا رہے تھے ۔۔۔ایک خوبصورت شاہکار ترقی کی بھینٹ چڑھ گیا ۔۔۔یہ قدرت کے وہ شاہکار تھے جن کو قدرت نے اپنے چاہنے والوں کے لیے رکھ چھوڑا تھا لیکن ہم نے انہیں آشکار کردیا ۔۔۔کاش یہ سڑک نہ بنی ہوتی ،کاش یہ سڑک لولو سر کے ساتھ سے نہ گزرتی ،کاش آج بھی لولو سر کے لیے دوچار گھنٹے چلنا پڑتا اور حقیقی عشاق اس تک آتے ۔۔۔کاش لولو سر آنے والے اپنی جیبوں میں چھوہارے بھر کے لاتے اور گٹھلیاں جھیل کے گہرے نیلگوں پانی میں پھینکتے ۔۔۔

لولو سر جھیل کو دیکھتے  ہی میں نے شور شرابا کرکے جھیل کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کی اور ایک قدرے ویران جگہ پر گاڑی کھڑی کرکے جھیل کی تعریفیں کرنا شروع کردیں تاکہ لولو سر ،دھرم سر سمبک سر کا بھوت بچوں کے سر سے اتارنے میں کامیاب ہوجائے لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا ۔۔۔جھیل ٹریکنگ ٹیم کی ہیڈ عائشہ بیٹی کا کہنا تھا کہ وہ بھی کوئی  جھیل ہوتی ہے جہاں دو چار گھنٹے پیدل ٹریک نہ کیا جائے یا کم از کم دو گھنٹے سڑک سے ہٹ کر جیپ کا سفر نہ کیا جائے ۔۔۔بات تو اس کی بالکل ٹھیک تھی لیکن مجھے بالکل پسند ن آئی  بلکہ اس وقت وہ مجھے بیٹی کم اور ماں زیادہ لگی ۔۔۔میں نے ابھی تک انہیں دھرم سر سمبک سر کے متعلق نہیں بتایا تھا اور میں خود سے بتانا بھی نہیں چاہتا تھا ۔۔میرے ذہن میں ایک منصوبہ تھا اور میں نے اسی پر عملدرآمد کا فیصلہ کرلیا ۔۔۔لولو سر پر کچھ دیر قیام کے بعد روانگی ہوئ ۔۔کچھ ہی دیر بعد گیٹی داس کا خوبصورت میدان شروع ہوتا  ہے ۔جہاں سے دھرم سر اور سمبک سر کا ٹریک شروع ہوتا ہے یہاں ایک پولیس چوکی بھی ہے ۔۔میں نے منصوبہ کے مطابق وہاں بریک لگائ اور پولیس کے جوانوں سے دھرم سر سمبک سر جھیل کا راستہ پوچھا ۔۔۔۔۔جواب عین میری توقع کے مطابق تھا ۔۔انہوں نے راستہ تو بتا دیا ساتھ سختی سے منع کردیا کہ آپ لگ وہاں نہیں جاسکتے ۔۔۔یہ جواب سن کر سب کے چہرے اتر گئے ۔۔میرے من میں لڈو پھوٹ رہے تھے ۔۔۔لیکن میں اس وقت پنکج اداس لگ رہا تھا جیسے مجھ سے زیادہ دکھی شاہد ہی اس دن کوئ اور ہو ۔۔۔دکھ کے انہی لمحات کو میں نے بابو سر ٹاپ پر گزارنے کا فیصلہ کیا اور بچوں کو اس کی مختصر تفصیلات سے آگاہ کیا اور بابو سر ٹاپ جانے کا اعلان کردیا ۔۔۔۔دودی پت سر ،سمبک سر دھرم سر کا جادو وقتی طور پر اتر چکا تھا ۔۔۔ہم لوگ خراماں خراماں بابو سر ٹاپ کی جانب رواں تھے ۔۔جاری ہے 

Exit mobile version