Tarjuman-e-Mashriq

زندگی تماشہ بنی ، دنیا دا ہاسا بنی

 
یہ ہے تو کسی پنجابی فلم کے گانے کا مکھڑا جو فلمی کہانی کے مطابق کسی سین پہ فلمایا گیا تھا جسے فلمی حد تک ہی سنا اور پھر بھلا دیا لیکن کیا معلوم تھا کہ بدلتے وقت ، سائینسی ترقی اور سوشل ، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے انقلاب کے بعد یہ تلخ حقیقت قدم قدم پہ منہ چڑائے گی۔ اسی طرح سوشل میڈیا میں سیلفیوں کی بھرمار پہ ایک طنزیہ تصویر بھی نظر سے گذری جس میں تالاب میں ڈوبتا ہوا کوئی شخص مدد کے لئے پکار رہا ہے اور اس صرف ایک ہاتھ ہی پانی سے باہر ہے جبکہ کنارے کھڑے تمام لوگ اپنے اپنے موبائیل پہ وہ لمحات محفوظ کرنے میں مصروف ہیں تاکہ اپنے اپنے سوشل میڈیا اکاوٗنٹ پہ اپ لوڈ کرکے اپنے اپنے فالوورز سے لائیک جمع کرکے فیس بُک پہ اپنی ریٹنگ بڑھانے کو علاوہ اپنی سماجی ، سیاسی یا معاشرتی مصروفیت کا لوہا منوا سکیں ۔ لیکن انسانیت سے گمراہ ان لوگوں کو کوئی احساس نہیں کہ اپنے اس عمل سے وہ کتنے لوگوں کی دل آزاری کررہے ہوتے ہیں ۔ بات کو مزید واضح کرنے کو چند مثالیں بھی گوش گزار کرنا ضروری ہے ۔
چند دن پہلے ہی مری میں ایک اندوہناک برفانی طوفان میں بے شمار جانیں ضائع ہوئی ۔ قطع نظر اس کے کہ لاپرواہی کس کس کی تھی ، گاڑیاں برف میں پھنس یا کسی حد تک دب بھی گئیں۔ مسافروں نے سردی سے بچاوٗ کے لئے ہیٹر آن کردئے اور یوں اپنی ہی گاڑیوں کے ایگزاسٹ میں موجود کاربن مونو آکسائیڈ جیسی زہریلی گیس کیپھر وجہ سے پہلے بے ہوش اور بر وقت توجہ یا مدد نہ ملنے کے سبب زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ میڈیا خبروں کے علاوہ کچھ سنگ دلوں نے کاروں میں مرے لوگوں کی سیلفیوں اور ویڈیوز سے سوشل میڈیا میں بھرمار کردی ۔ یہ کتنا دکھ کا مقام تھا کہ ہزاروں بلکہ ہزاروں کے مجمعے میں کوئی دردِ دل رکھنے والا شخص نظر سے نہیں گذرا جو رضارکارانہ طور پر مصیبت زدوں کی مدد کرتا ۔ اتنا بڑا مجمع اگر محض ایک ایک مٹھی برف کی ہٹا کر پھنسی کاروں کے نکلنے میں مدد کر دیتا تو شاید کتنی قیمتی جانیں بچ جاتیں۔
سنگدلی کی ایسی ہی دوسری مثال میں سانحہ سیالکوٹ میں پہلے قتل اور پھر نذر آتش کئے جانے والے سری لنکن باشندے کی دوں گا کہ جب وحشی درندے اسے نذر آتش کر رہے تھے کسی کی انسانیت بیدار نہ ہوئی جو کم از کم اس کی لاش کی آتشزدگی روکنے  کو آگے بڑھتا بلکہ اس کے برعکس اسی مجمعے میں کئی سنگدل سیلفیاں بنانے اور بڑے فخر سے انہیں شئیر کرنے میں مصروف تھے ۔ ایسی اور بھی ان گنت مثالیں ہیں جنھیں لکھتے ہوئے بھی دکھ اور شرم محسوس ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ہر انسان میں ایک جانور یا شیطان موجود ہوتا ہے جس پہ اللہ کے بہت سے بندوں کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے لیکن میڈیا کے اس گندے انقلاب نے اس اندر والے جانور یا شیطان کو آزاد ہونے میں بہت بڑی مدد فراہم کر دی ہے ۔ اسی لئے توآج یہ زندگی ایک تماشہ بنی اور دنیا کے لئے ہاسا بن کر رہ گئی ہے ۔ کسی کو کچھ پرواہ نہیں کہ وہ کن پسندیدہ مشاغل سے کتنوں کے زخموں پہ نمک چھڑک کے ان کے دلوں کو پارہ پارہ کرہا ہے ۔

Exit mobile version