Tarjuman-e-Mashriq

زُہد کیوں

زُہد کیوں اور کس کے لیے اختیار کیا جاتا ہے اس اعتبارسے زاہدوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
۱۔ اول یہ کہ آدمی ہر چیز سے زاہد ہو جائے کہ عذاب آخر سے رہائی مل جائے اور اپنے مرنے پر راضی ہو جائے یہ اہل خوف کا زُہد ہے۔ جنت تب مل سکتی ہے جب عذاب سے رہائی مل جائے اور عذاب سے رہائی کے لیے زُہد کام آتا ہے۔
۲۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ زُہد کو ثواب آخر ت سے رہائی مل جائے یہ پورا زُید ہے۔زُہد کا سبب رجا و محبت ہے اس لیے اس کو اہل رجا کا خوف کہتے ہیں یعنی اُمید واروں کا زُہد۔
۳۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ دل میں نہ دوزخ کا خوف ہو نہ جنت کی آرزو بلکہ حق تعالیٰ کی محبت اور دنیا وآخرت کو بھلا دینے کا سبب بن گئی ہو۔غیر اللہ کی طرف دیکھنا اس کے لیے باعث شرم ہو اور موجب رسوائی ہو یہ درجہ کمال ہے۔ رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ نے بہثت کی بات کی توا نہوں نے کہا کہ گھر سے بڑا گھر والا ہوتا ہے۔ جس کے دل میں محبت الہی جاگزیں ہو جائے اس کے لیے بہشت کی لذت کوئی کشش نہیں رہتی۔ جس چیز کو ترک کرکے زُہد اختیار کیا جاتا ہے اس اعتبار سے بھی زُہد کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ترک تو صرف چند چیزوں تک محدود ہوتا ہے اور کچھ تارک کے معاملہ میں درجہ کمال کو پہنچ جاتے ہیں۔ وہ ہر اس چیز کو ترک کر دیتے ہیں جو نفس کو لذت حظ پہنچاتی ہو اور دین کے لیے اس کی ضرورت بھی نہ ہو۔ کیونکہ دنیا عبارت مال و جاہ سے،خورد دو نوش سے پہننے اُوڑھنے سے،سُونے اورمجلس ارائی سے ہے کہ جاں بیٹھ کر لطف اُٹھائیں،درس و تدریس کریں، حدببش سنائیں اور اپنے نفس کو محفوظ کیا کریں۔ جو بات نفس کی خاطر ہو وہ دنیا میں شمار کی جائے گی اگر ان تمام کاموں کے لیے اس کی ضرورت بھی نہ ہو تو مجلس منعقد کرتے مقصود (خلق خدا کو راہ حق کی دعوت دی جائے کہ وہ حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ان اُمو ر کو دنیا میں شامل نہ سمجھا جائے)۔ حضرت با یزید بسطامیؒ فرمایا کرتے کہ میں نے نفس کوبارہ سال تک ریاضت کی بھٹی میں ڈال کو مجاہد ے کی آگ سے تپایا اور ملامت کے ہتھوڑ ے سے کوٹتار ہا پھر میرا قلب آئینہ بن گیا۔ پھر پانچ سال تک میں نے خود اعتماد ی کی نظر سے اس کا مشاہدہ کیا تو اس میں تکبر اور خود پسندی کا مادہ موجود پایا چنانچہ پھر پانچ سال تک سعی بسیار کے بعد اس کو مسلمان بنایا۔ جب خلائق کا نظارہ کیا تو سب کو مردہ پایا اور نماز جنازہ پڑھ کر ان سے اس طرح کنارہ کش ہو گیا اور پھر مجھے وصل الیٰ اللہ کا مرتبہ حاصل ہو گیا۔
مرن تو پہلاں مرنا پیندا اگے وی کجھ ترنا پیندا
یعنی اللہ والہ بننے کے لیے اور بلند مرتبہ پا نے کے لیے اپنے نفس کو مارنا پڑتا ہے۔ زُہد کی بادشاہت رعیت کی بادشاہت سے زیادہ باعظمت ہے اور رعیت کے بادشاہ کی بادشاہت سے زیادہ عظمت ہے۔رعیت کا بادشاہ لوگوں سے کنارہ کشی کرتا ہے پھر بھی لوگ اس کا پیچھا نہیں چھوڑ تے۔دنیا سے یکسر قطع تعلق کر کے کسی غار میں معکف ہو جانا جو انمردی نہیں۔ مردوہ ہے جو دنیا میں رہ کر اللہ تعالی ٰ سے تعلق قائم رکھے اور دنیا میں گم ہو کر نہ رہ جائے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ دین و دنیا کو ساتھ لیکر چلو۔حضرت ابراہیم بن ادھمؒ بلخ کے بادشاہ تھے اورایک جہاں آپ کے زیر فرمان تھا۔ ایک رات آپ اپنے شاہی ستر پر سورہے تھے تو آدھی رات کے وقت آپ کو چھت پر آہٹ محسوس ہوئی تو آپ نے آواز دے کر پوچھا کہ چھت پر کون ہے۔ آگے سے کسی نے جواب دیا کہ میرا اونٹ کھو گیا ہے میں اپنا اونٹ تلاش کر رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا اے نادان اونٹ کا چھت پر کیا کام ہے۔ اونٹ کبھی چھت پر ملا ہے کسی نے جواب دیا کہ اے غافل تو خدا کو اپنے اطلسی لباس میں ڈھونڈتا ہے۔ کیا چھت پر اونٹ ڈھو نڈنے سے یہ بات زیادہ تعجب کی نہیں کہ شاہی عیش و عشرت اور غفلت کے بسترپر خدا کو ڈھونڈا جائے۔ حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ یہ غیبی آواز سن کر بڑے متاثر اور حیران ہوئے اور صبح جب آپ اپنے تحت شاہی پر بیٹھے تو دربار عام ہو رہا تھا تو ایک اجنبی شخص کا کچھ ایسا رعب و دبدبہ تھا کہ اسے اندر داخل ہونے سے کوئی بھی نہ روک سکا۔ یہ آدمی جب دربار میں داخل ہوا تو کہنے لگا یہ سرائے مجھے پسند نہیں۔بادشاہ بولا کہ یہ سرائے نہیں یہ تو محل ہے۔ اس جنبی نے پوچھا کہ آپ سے پہلے یہ محل کس کے پاس تھا۔میرے داد ا کے پاس تھا اورپھر میرے والد اس میں رہتے تھے تو اجنبی نے جواب دیا کہ خود سوچ کہ سرائے کس کو کہتے ہیں۔سرائے بھی تو وہی ہے جس میں ایک جائے اور دوسرا آئے یہ کہہ کر وہ پر شکوہ آدمی باہر نکل گیا۔ حضرت براہیم بن ادھم تخت سے اُترے اور اُس اجنبی کے پیچھے دوڑے یہاں تک کہ اسے پالیا اور دریافت کیا کہ تم کون ہو۔ اُس نے جواب دیا کہ خضرؒ ہوں۔ حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ کے دل پر ان واقعات کا گہرا اثر ہوا اور دنیوی سلطنت کو خیر آباد کہہ کر آپ نے نو برس تک ایک غار میں سکونت اختیار کر کے مجاہد ہ کیا اور پھر دنیا ولائت کے درخشندہ ستارے بن گئے۔
زُہد کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔زُہد حقیقت میں کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص اگر ایسی چیز سے احتراز کرے جو اس کے پاس موجود ہے ہی نہیں تو حقیقت میں زُہد کہاں ہوا اور اگر اپنی مملوکہ اشیاء سے کنارہ کشی اختیار کرے جو اس کی ملکیت میں ہیں تو جب تک یہ چیزیں اس کے پاس موجود ہیں زُہد اور ترک تعلق کا مفہوم صادق نہیں آسکتا۔پس زُہد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ تلفِ نفس اوربذل مواسات ہے۔یعنی نفس کشی اور دوسروں کی غمخواری۔ زُہد کا مطلب ہے کہ اپنی ملکیت کی چیز وں کو ہاتھ سے نکال کر راحت محسوس کر ے۔ دل کا اسباب کی طرف خیال نہ کرنا اور اپنی ملکیت کی چیزوں سے ہاتھ جھاڑ نے کا نام زُہد ہے۔ زُہد تین طرح کا ہے ترک حرام پر عوام کا زُہد حلا ل چیزوں میں سے فضول چیزوں کو ترک کرنا یہ خاص لوگوں کا زُہد ہے ان تمام چیزوں کا ترک کر دینا جو بند ہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھڑا کر اپنی طرف مشغول رکھتی ہے یہ عارفین کا زُہد ہے۔ فقر کی محبت کے ساتھ اللہ پر بھروسہ کرنے کا نام زُہد ہے کیونکہ اللہ پر بھروسہ کرنا بھی زُہد کی علامات میں سے ہے۔ یعنی زُہد کی یہ تعریف نہیں ہے کیونکہ کوئی بندہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کے بغیر زُہد کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ دنیا میں زُہد شازو نادر ہوتے ہیں اور عارف آخر ت میں نادر ہوں گے جو اپنے زُہد میں سچا ہوگا دنیا خود بخود اُس کی طرف کھینچی چلی آئے گی اسی لیے کہا گیا ہے اگرآسمان سے ٹوپی گرتی ہے تو صرف اس شخص کے سر پر گرے گی جو اسے نہ چاہے گا۔ دنیا کی چیزوں کو دنیا والوں کے لیے چھوڑ دینے کا نام زُہد ہے۔ اپنی مملوکہ چیز سے ہاتھ خالی ہونے پر پھر دل کا اس کی طرف نہ لگنے کا نام زُہد ہے۔ زُہد ایک فرشتہ ہے جو ان لوگوں کے دلوں میں سکونت اختیار کرتا ہے جن کے دل دنیا سے خالی ہوتے ہیں۔

Exit mobile version