Tarjuman-e-Mashriq

زینت کی کہانی – 2

تحریر: محمد ایوب  

( گزشتہ سے پیوستہ )

مہرین ملک سے پہلی ملاقات چترال کی تقدیرہ خان کے گھر ہوئی ۔تقدیرہ کی تقدیر مہرین جیسی نہیں اب وہ پی ٹی آئی میں ہے۔ تقدیرہ کو تاریخ اور سیاست پر کھوج کرنے کاجنون ہے ۔تقدیرہ نے کوئی پانچ سو صفحات پر مشتمل ایک مسودہ ’’تاریخ ، پرویز مشرف اور عہد حاضر ‘‘ کے عنوان سے لکھا مگر پارٹی نے اسے شائع نہ ہونے دیا۔ میں نے یہ مسودہ پڑھا اور واپس کردیا ۔سرنامے پر تقدیرہ اور مہرین کا نام لکھا تھا ۔ شاید یہ ان کی مشترکہ کاوش تھی۔یہ تحریر جنرل مشرف کی ’’ ان دی لائن آف فائیر ‘‘ سے کئی درجے بہتر تھی ۔ لکھا تھا کہ ہر عہد کا حکمران زمین پر اپنے فٹ پرنٹ چھوڑ جاتا ہے جسکی وجہ سے وہ تاریخ میں زندہ رہتا ہے۔ جیسے اشوک کے اقوال ،پاٹ شالائیں ،یونیورسٹیاں ،شہر اور بستیاں۔شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ ، اکبر کے قلعے ، شاہجہان کی مسجد یں ،مقابر اور محل۔ عہد عتیق سے عہد جدید تک بادشاہوں اور حکمرانوں کے کارناموں کے بعد جنرل پرویز کے کارناموں کا بھی ذکر تھا مگر بوجہ کتاب شائع نہ ہوئی ۔بہت سال پہلے چار کہانیوں پر مشتمل ایک کتاب پڑھی تھی جس کا نام ’’ محبت اور زندگی ( لوو اینڈ لائف ) ‘‘ تھا۔ پہلی کہانی’’ میری محب (مائی لوو )  ،دوسری’’ ایک نوجوان لڑکی کے نام خط( آ لیٹر ٹو اے ینگ لیڈی ) ، تیسری ’’پل ‘‘  ( دی برج)  اور چوتھی ’’درویش اور ریت ( سینٹ اینڈ سینڈ ) تھی اور چاروں کہانیاں انوکھی اور بے مثال تھیں ۔کتاب پرانے ڈھاکہ ایئر پورٹ کے باہر ریڑ ھی بان سے خرید ی جو ریڑھی پر پرانی اور بوسیدہ کتابیں فروخت کرتا تھا ۔دی برج کی ابتدأ ایک ویران ریلوے اسٹیشن سے ہوتی ہے جہاں اکیلا مسافر ٹرین کے انتظار میں بیٹھا ہے۔ اُس دن طوفان  پوری قوت سے چل رہا ہوتا ہے۔ شمشالی اور قندہاری جیسی ہوائیں اور تیز بارش۔ ویران ریلوے ا سٹیشن اور اکیلا مسافر۔ پھر سیٹی بجاتی گاڑی آکر ایک منٹ کے لیے رکتی ہے اور مسافر سوار ہوجاتا ۔گاڑی کا آدھاحصہ پل پر اورآدھاپل سے تھوڑا پیچھے ریلوے اسٹیشن کی طرف ہوتا ہے۔پل کا آدھا حصہ طوفان کی وجہ سے گرچکا ہوتا ہے اور گاڑی پل سے دریا میں گرنا شروع جاتی ہے ۔اکیلے مسافر والا ڈبہ دریا میں گر رہاہوتا ہے تو وہ اپنے بچپن ،جوانی ،سکول کالج ، یونیورسٹی، محبت ، شادی اور دوماہ کے بیٹے کی پیدائش کی خوشی ،گھر سے ریلوے اسٹیشن تک کاسفر ، بارش ، طوفان ، گاڑی کے انتظار اور گاڑی کے دریا میں گرنے تک کے سارے مراحل یاد کرتا ہے ۔

                  گاڑی میں سوار ہونے سے لیکر دریامیں گرنے تک اتنا ہی وقت ہوگا جتنا زینت اور اس کی بہنوں کا اجازت لیکر دفتر میں داخل ہونے اور پھر بیٹھنے اور چائے کا کپ پکڑنے میں ۔زینت کی طرح کبھی کسی نے اجازت نہ مانگی تھی ۔اسکا کام بھی کوئی مشکل نہ تھا ۔ان کا اکلوتا بھائی گھر سے ناراض ہوکر پشاور آیا تھا اور مل نہ رہا تھا۔ میں نے ڈی ایس پی نثارخان کو فون کرکے لڑکے کا نام اور حلیہ بتایا تو دودن بعد وہ کابلی تھانے سے مل گیا ۔آوارہ گردی کی دفعہ لگی تھی ،ایس ایچ او نے چھوڑدیا۔ تینوں بہنیں پھر شکریہ ادا کرنے آئیں اور چلی گئیں مگر ذھانت ،زینت اور زبان کا اچھا تا ثر چھوڑ گئیں ۔

                  کچھ لوگوں کی موجودگی میں وقت رُک جاتا ہے ۔سارا نہیں صرف اتنا ہی جتنا آدمی کو درکار ہوتا ہے ۔وہ دائرہ نہیں گھومتا جہاں آدمی موجود ہوتا ہے ۔سارا وقت صرف ایک ہی بار رُکا تھا جب جبریل ؑ براق  لیکر آئے ۔وہ اُم ہانی کا گھر تھا ۔میں مطاف کے کسی کونے میں بیٹھتا تو اکثر سوچتا ،جمعہ خان یا نوید سے پوچھتا کہ تب مطاف کا دائرہ تھوڑا تھااور ارد گر د گھر تھے۔ کہتے ہیں کہ اُم ہانی کا گھر میں ایدھر ہی تھا۔ یہی براق آیا اور آپ ﷺ سوار ہوگئے۔ بیت المقدس پہنچے ، انبیاء کی امامت کی ،اللہ سے ملاقات ہوئی ،آمنے سامنے بات ہوئی نہ کوئی پردہ نہ حجاب ،کیا باتیں ہوئیں ،کون جانے یہ واحد اور انوکھی ملاقات ،پہلی اور آخری ملاقات  ، ’’نورِِ مِن نُور اللہ ‘‘پہلا نُور اور آخری نبی ﷺ، خاتم النبین ﷺ، رحمت العالمین ﷺ، ہمارے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ آپ ﷺ کو شفاعت کی اجازت ملی ، تاج ملا، تخت ملا ، جیسے بھی ہیں آپ ﷺ کے اُمتی ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ بڑی عظمت اور مقدر کی بات ہے ۔بادشاہوں کا بھی ایسا نصیب نہ ہوا۔حضور ﷺکا اُمتی ہونا ہی کافی ہے ۔وقت چلتا رہا اصحاب کہف سوتے رہے، کروٹیں بدلتے رہے ،تین صدیاں اور نوسال گزر گئے۔ ان کا کتابھی غار کے دھانے پر سویا رہا۔ جاگے تو پوچھا کتنا وقت سوئے ،یہی کچھ گھنٹے صبح سے دوپہر تک ۔بھوک لگی تھی ایک ساتھی کو کھانا لانے بھیجا اور کہا کھانا نفیس ہو اور صاف ہو۔ پھر تاکید کی” وَلَیَتَلطف "احتیاط سے ، راز داری سے جانا ، کسی کوخبر نہ ہو ۔

خبر کیسے نہ ہو ۔دکاندار سکہ دیکھ کرحیران ہوا ۔حکومت کو خبر ہوگئی ۔سب کو پکڑ کر لے گئے۔ عجیب گرفتاری تھی ۔سارا شہر دیدار کے لیے اُمڈ آیا ۔ بادشاہ ،وزیر مشیر ، خواص عوام سبھی آئے ، کہا بزرگوں سے سناتھا ،پچھلی کتابوں میں پڑا تھا کہ ظالم بادشاہ کے دور میں کچھ نوجوان ایمان والے ، خوف خدا والے، اللہ پر ایمان رکھنے والے شہر چھوڑ گئے تھے۔ یہ صدیوں پرانی بات ہے۔ شہر پر حملے ہوتے رہے، انبیاء آتے رہے ،بادشاہ بھی بہت آئے اور گزر گئے ۔

                  ایک طرف وقت چلتا رہا اور چند کوس کے فاصلے پر ٹھہرا رہا۔ جوانوں کی جوانی قائم رہی کروٹ بھی اللہ کے حکم سے بدلتے رہے ،سورج ایسے رخ چلتا کہ سردی اور گرمی کا اثر بھی نہ ہوا ۔

میں پشاور نمک منڈی والی صبیحہ خان کے ہمراہ اصحاب کہف ؓکی غار دیکھنے گیا۔ یہ 1982؁ء کا سال تھا صبیحہ کے پاس دمشق میں واقع مقدس مقامات کی فہرست تھی۔ ہم نے اس مقدس غار میں نوافل ادا کیے اور صبیحہ نے اپنے خاوند کے لیے دعائیں مانگیں ۔بیس سال بعد صبیحہ سے ملاقات ہوئی تو دو جواںسال بیٹے ساتھ تھے۔ وہ جس کے لیے دعائیں مانگتی تھی وہ راہی ملک عدم ہوچکا تھا ۔

 حضرت عزیرؑ بخت نصر کے ہاتھوں قید ہوئے مگر پھر جلد ہی رہا ہوگئے ۔جوان تھے ۔سفر طویل ، گدھے کی سواری تھی اور راستے سے گرم اور تازہ کھانا بھی ساتھ لیا اور چلتے رہے۔ دھوپ تیز ہوئی تو ایک سائیہ دار درخت کے نیچے آرام کرنے کے لیے سورج ڈھلنے کے انتظار میں لیٹ گئے ۔گدھے کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور کھانے کا برتن درخت کی ٹہنی سے لٹکا دیا ۔

                  سوچنے لگے کہ قیامت کب ہوگی ،سال صدیاں بہت بیت گئے اور بہت ابھی بیتنے ہیں۔ دنیا کا نظام ہے چلتا رہا ہے،چل رہا ہے اور پتہ نہیں کب تک چلے گا ۔ سوچوں کے سمندر انسان کے ذہن میں چلتے ہیں۔ چائے کاکپ پینے میں کتنی دیر لگتی ہے ۔گاڑی پل سے گرنے میں تو ایک منٹ بھی نہ لگا ہوگا ۔تیز رفتار تھی اسی تیزی سے گر گئی۔ اس ایک منٹ میں اکیلے مسافر نے بیس پچیس سال کا بیک ورڈ ،بیتا ہوا ماضی دہرادیا ۔ساری فلم چل گئی اور پھر کٹ ہوگئی ۔

                  حضرت عزیرؑ پیغمبر تھے ۔حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ نے بھی ایسے ہی سوچا اور پھر نشانیاں دیکھ کر سجدے میں گر ے ،سوچ پر معافی مانگی اور پھر کبھی نہ سوچا۔ حضرت عزیرؑ تھوڑی دیر سوئے اور پھر جاگ اٹھے تو منظر بدل چکا تھا ۔ صحرا سر سبز میدان بن گیا تھا ۔ بیچ میں دریا بھی تھا اور کنارے پر شہر آباد تھا مگرخود ویسے ہی تھے ،درخت بھی ویسا ہی تھا ،گدھا مر کر ہڈیوں کا پنجر بن چکا تھا ،گلے میں گھنٹی اب بھی بندھی تھی۔ کھانا دیکھا تو ابھی تک گرم اور تازہ تھا ۔یہ سب دیکھ کر اپنی سوچ پرنا دم ہوئے معافی مانگی اورکہا میرے ربّ توہی قاد رہے ، خالق ہے ،مالک ہے اور سب کچھ تیری دسترس میں ہے ۔            

ایسا ہی احوال حضرت سلیمان ؑ کے دربار کا ہے۔ ملکہ بلقیس کا سناتو جلد ملنے کا خیال آیا ۔جنات کے سردار نے کہا جب تک تیری محفل بر خواست ہوتی ملکہ سباکو تیرے سامنے لے آئونگا۔ پھر و ہ شخص بولا جس کے پاس کتاب علم تھا ۔کتاب تو حضرت سلیمان ؑ کے والد دائو د ؑ سلام پر نازل ہوئی تھی مگر اندر کی خفیہ باتیں ، ٹاپ سیکرٹ آصف بن بر کیا ہی جانتا تھا ۔بولا اس سے پہلے کہ تو پلک جھپکے میں ملکہ کا تخت تیرے سامنے لائونگا ۔،ایک سکینڈ سے کم وقفہ تھا ۔شاہد ہزاروں میل کی مسافت تھی، ایک طرف وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا اور دوسری طرف رک گیا اورایک طرف تیسرے زاویے پر ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل سے بڑھ کر کئی لاکھ میل ہوگیا ۔ملکہ اپنے تخت سمیت حاضر ہوگئی ۔

اپنی پوری زینت وز یبائش لیکر۔ بادشاہ او رحکمران نہ تو وقت کی قدر کرتے ہیں اور نہ ہی رفتا رکا خیال رکھتے ہیں۔ ملکہ سبانے اپنی زینت و زیبائش کا خیال رکھا ،وقت کی قدر کی اور رفتار کے ساتھ چل کر آئی اور کہا میں سلیمان ؑ کے ربّ پر ایمان لاتی ہوں ۔اس کے وزیروں نے ، جرنیلوں نے اور سرداروں نے مشورہ دیاکہ ہم سلیمان ؑ سے لڑینگے ،جنگ کرینگے اور مرینگے مگر وہ نہ مانی۔ وہ زیرک تھی اور عقلمند تھی۔ کہا جنگ سے ملک تباہ ہوجاتے ،جس جنگ کا کوئی مقصد نہ ہو اسے لڑنے کا کیا فائدہ ۔سلیمان ؑ نے اتنا ہی تو کہا ہے کہ میرے پاس آجائو ،جاتی ہوں ،بات کرتی ہوں ، کوئی راہ نکالتی ہوں ،وہا ں گئی تو سلیمان ؑ نے کوئی دھمکی نہ دی ، کوئی تڑی نہ لگائی ، پیغمبر تھے ، پیغمبرانہ طریقہ اختیار کیا، اپنی کوئی بات نہ کی صرف ربّ کا پیغام دیا تووہ سمجھ گئی ۔ جیسے ایک لمحے سے کم وقت میں آئی ویسے ہی ایک ساعت سے کم وقت لیا اور بولی میں سلیمان ؑ کے ربّ پر ایمان لاتی ہوں ۔

                  کہا تو فرعون نے بھی تھا کہ میں موسیٰؑ کے ربّ پر ایمان لاتا ہوں مگر تب وقت گزر چکا تھا ۔ موسیٰ کا قافلہ سمندر عبور کرچکا تھا اور فرعون اپنی طاقتور فوجوں کے ساتھ عین سمندر کے بیچ راستے پر تھا ۔لہریں پہاڑوں کی طرح کھڑی تھیں ۔ فرعون خوف زدہ ہوگیا اور پکارا میں موسیٰؑ کے ربّ پر ایمان لاتا ہوں ۔آواز آئی اب وقت گزر گیا ہے ۔ٹائم از اوور۔ لہریں آپس میں مل گئیں اور فرعون اپنے لشکر وں سمیت تباہ ہوگیا۔

                  وقت کا قانون ساری کائنات پر لاگو ہوتاہے مگر اس کی پاسداری کوئی کوئی کرتا ہے۔ ہر چیز کے لیے ایک وقت مختص کردیا گیا ہے ۔وقت کی ابتدأ کب ہوئی کسی کو پتہ نہیں ۔پتہ ہو بھی کیسے ؟ وقت پر کسی کوکنٹرول نہیں سوائے کائنات بنانے والے کے ۔ٹموتھی فیرس ’’ دی ھول سی بینگنڈ ‘‘ میں لکھتا ہے کہ ہر چیز کی ایک حد ہے۔تھیوریاں ، انداز ے اور حقیقتیں ایک حد تک جاکر بے حقیقت ہوجاتی ہیں ۔آگے اندھیری غار یں ہیں ، بلیک ہول ہیں جہاں روشنی کی حدختم ہوجاتی ہے۔ روشنی کی رفتار تھم جاتی ہے مگر وقت نہیں رکتا ۔

زینت نے کہاصبح کا وقت تھا جب بھائی گھر سے چلا گیا۔دس رو زبعد ماں نے بتایا تو یوں لگا جیسے وقت تھم گیا ہے۔فکروںاور وسوسوں نے گھیر لیا۔ ایک ہی بھائی ہم تینو ں کاجوگم ہوگیا ۔ہر وقت خوف طاری رہتا ہے کوئی بری خبر نہ آجائے۔یہ وقت صرف زینت اوراس کی بہنوں کے لیے رکا تھا ۔تب تک رکا رہا جب تک بھائی کابلی تھانے سے باہر نہ آیا ۔

زینت بی بی کا بھی یہی حال تھا ۔جب تک لڑکے کالج میں داخل نہ ہوئے اُسکا وقت رُکا رہا ۔ شاہ زانہ کا وقت بھی رُک گیا جب اس کے بیٹوں کا ایف جی سکول میں داخلہ نہ ہو ا ۔ہر دن فون کرتی ۔سر کچھ کریں۔بچے مایوس ہیں ۔ہروقت کہتے ہیں اماں کچھ کروناں۔ پھر نانی کے پاس جاکر یہی پوچھتے ہیں۔ نانی کے جاننے والے بہت ہیں مگر کوئی کام نہیں آرہا ۔

                  میں نے کہا میرا تو اَب کوئی جاننے والا بھی نہیں رہا وہ وقت گزر گیاہم پیچھے رہ گے جاننے والے انجان ہوگئے۔ وہ مشرف کادورتھا اب عمران خان کاہے تب کام ہونے میں دیر نہ لگتی تھی اب کام بگھڑتے دیر نہیں لگتی ۔وقت چل رہا ہے آگے جارہا ہے اور ہم پیچھے جارہے ہیں ۔

                  شاہ زانہ ہر روزفون کرتی رہی وقت کی پابندرہی ،پورے دس بجے اسکا فون آتا اور ایک ہی بات کہتی سر میرے بیٹوں کا کیا بنا ۔شاید یہ وقت کی پابندی تھی یا ماں کی دعا تھی ۔کیا تھا جو بھی تھا مگر دس بجے کا وقت تھا ۔فون آیا مگر شاہ زانہ کا نہیں بلکہ کرنل آصف ملک کا آیا ۔وہ بھی کبھی کبھی فون کر لیتا ہے اورخیر خیریت پوچھتا ہے ۔میں نے کہا تمہارا ایف جی سکول میں کوئی جاننے والا ہے ۔کہنے لگا بہت ہیں کام بتائیں ۔شاہ زانہ کے بچوں کا بتایا توبہت دنوں بعد اس کی ماں نے فون کیا ۔کہا بچے داخل ہوگئے ہیں کسی نے سفارش کی تھی، آصف ملک صاحب ہمارے جاننے والے ہیں شاید انہوں نے کسی کو کہا تھا ۔

                  شاہ زانہ نے وقت کا زاویہ بدل لیا اورپھر فون نہ آیا ۔ایسے بہت سے واقعات ہیں ،زندگی کے اوروقت کے۔ ہمیں بس وقت کا خیال نہیں رہتا ۔اللہ نے وقت کے پیمانے اور منزلیں مقرر کر دی ہیں،دائرے بنا دیے ہیں، مگر انسان ہر جگہ تجاوز کرتا ہے اور وقت کے دریا میں ڈوب جاتا ہے جیسے فرعون ڈوب گیا۔

                  قرآن کریم میںکئی بار ذکر ہوا ہے کہ تمہیں ایک مقررہ وقت کے لیے زمین پر بھیجا گیا ہے ۔زندگی اور موت پیدا کی گئی ہے تاکہ تمہاری پہچان ہوسکے ۔کسی کو پتہ ہی نہیںکہ اس کے پاس کتنا وقت ہے مگر پھر بھی وقت کی قدر نہیں۔ فرمایا میں نے زمین اور آسمان چھ دن میں بنائے اور ساتویں دن میرا تخت عر ش پر قائم ہوا ۔سورۃ توبہ میں بارہ مہینوں کا ذکر کیا۔ سورۃ سجدہ میں تخلیق آدم کا ذکر ہوا اور پہلی اور آخری بار ہوا مگر کسی کو اسکا دھیان ہی نہیں۔ کہاتمہیں لیس دار مادے سے پھر کھنکھنی مٹی سے ، پھر ایک بوند سے اورپھر اس بوند سے جمے ہوئے خون سے ایک گوشت کا لوتھڑا بنایا ۔ایک ہڈی میں تبدیل کیا اور پھر گوشت چڑھایا اور پھرایک شکل و صورت میں پیدا کیا ۔النحل میں بیان ہوا کہ عورت اللہ کی نعمت ہے۔ اللہ نے نکالا تمہیں ماں کے پیٹ سے تب تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے تمہیں کسی چیز کا پتہ نہ تھا ۔اللہ نے تمہیں آنکھیں ،کان اوردل دیا تاکہ تم اللہ کا احسان مانو۔

میرے جاننے والے کی بہن بہت پڑھی لکھی اور خوبصورت تھی ۔ایک بڑے افسر سے شادی ہوئی تو موصوف سرکاری خزانے سے بہت سامال لوٹ کر امریکہ جاکر آباد ہوئے اور گوری میم سے شادی کر لی۔پہلی بیگم نے شادی کے بعد خاوند کے حکم پر سرکاری نوکری چھوڑ دی تھی ۔میاں صاحب امریکہ گئے تو خاتون حاملہ تھی ۔کچھ ماہ بعد بچہ پیدا ہوا توماں نے مہتاب شاہ نام رکھا۔امریکی بیوی نے پہلی بیگم کو ناپسند کیا اور طلاق بھجوا دی ۔اس خاتون کا نام مہرین خان تھا مگر وہ سیاست میں نہ تھی۔ مہرین ملک اور مہرین انور راجہ کی طرح نہ بولڈ تھی اورنہ ہی عالمہ اور عاملہ تھی۔ نوکری کی اور مہتاب شاہ کو بہترین سکولوں میں پڑھایا۔ شاہ جی جوان ہوئے تو ماں کو اگنور کرنے لگے ۔ماں نے کہا دیکھو بیٹے میں نے تیری خاطر کیا نہیں کیا ؟بولے کچھ بھی تو نہیں کیا۔ تم نے میرے باپ کے ساتھ شادی کی، مزے لیے اور حادثاتی طور پر میں بھیپیدا ہوگیا۔ پڑھائی پر جو خرچ کیا وہ تمہاری انوسٹمنٹ ہے ۔سمجھو تمہاری پنشن ہے ۔تھوڑا تھوڑا دیتا رہونگا توتمہارا کام چلتا رہے گا ۔ شکرکرو تم نے دوسری شادی بوڑھے دکاندار سے کی تھی ورنہ اور بچے پیداہوجاتے تو کیا کرتی، انہیں کون سنبھالتا ۔

                  کچھ عرصہ بعد مہتاب شاہ بھی امریکہ چلا گیا اور وہاں جاکر شادی کرلی۔ اللہ کااحسان کون مانتا ہے، لوگ ماں باپ کے احسان مند نہیںرہتے۔ ہمارے انگلش میڈیم سکولوں میں ایسی ہی تر بیت ہوتی ہے۔بچے وقت سے پہلے جوان ہوجاتے ہیں۔ سنا ہے شاید سچ نہ ہو ۔کہتے ہیں وہاں سیکس ایجوکیشن بھی ہوتی ہے ۔سوسائٹی بدل رہی ہے ۔نیا معاشرتی اور ثقافتی نظام متعارف ہورہا ہے ۔ہر شخص کے ہاتھ میں آئی فون ہے، سوائے میرے اور شایدمیری طرح کچھ اور بھی ہوں ۔

                  جو بچے وقت سے پہلے جوان ہورہے ہیں ان کی جوانی ضائع ہورہی ہے مگر انھیں اس کااحساس نہیں۔ ہر کام کا وقت مقرر ہے ۔لڑکی جب بھی بالغ ہو اسکی شادی کر دینی چاہئے۔ اب مسلئہ یہ ہے کس سے شادی کریں ۔نو دس سال کی بالغ لڑکی کی دس سال کے نابالغ لڑکے سے کوئی شادی نہیں کریگا ۔مس میچ پر نہ لڑکی اورنہ ہی لڑکا راضی ہوگا ۔این جی اوزوالے طوفان برپا کردینگے ۔سوشل میڈیا اور کرنٹ میڈیا جنگی صورت حال پیدا کردیگا ۔ڈر اورخوف کے درمیان ایک ہی راستہ ہے اور وہ برائی کا راستہ ہے۔اس کا ایک حل بھی ڈھونڈ لیاگیا ہے’’Purgation of emotions‘‘پتہ نہیں آسان اردو میں اس کا ترجمہ کیا ہوگا۔میں نے ایک آدمی سے اس پربات کی تو کہنے لگا اسکا ترجمہ جذبات کا اخراج بنتا ہے کہ جب ہیجانی کیفیت طاری ہوجائے تو اسے بد ہضمی سمجھ کر الٹی کر دو ۔ یہ ایک عالمی انسانی مسلئہ ہے جسے اہل مغرب نے سرے سے ہی اگنور کردیا ہے ۔تہذیبوں کے تصادم کا مصنف لکھتا ہے کہ مسلمان معاشروں کی آبادی بہت بہت زیادہ ہے ۔ان کی اکثریت بیروزگاراور ان پڑھ ہے۔ پندرہ اورتیس سال کی عمر کے مرد اورعورتیں کئی مسائل کا شکار ہیں جسکی بنیاد غربت اور جاہلیت ہے۔ یہ لوگ تشدد اورعدم استحکام کا بہت بڑا منبع ہیں ۔اس نسل کی عمر میں اضافہ اور معاشی استحکام عدم تشدد کاباعث بن سکتا ہے ۔جان لوئیس نامی تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ مسلم معاشروں کو جوں کا توں رہنا اور انھیں مغر بی ماحول اپنانے پر مجبور کرنا اہل مغر ب کا مفادات پر کاری ضرب لگانے کے مترداف ہے ۔وہ واٹنگٹن کے اس نظریے کا حامی ہے کہ ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے ذریعے تیسری دنیا کے غریب ممالک کوکنٹرول کیا جائے تاکہ وہ یک تہذیبی کی طرف مائل ہوکر اپنے عقیدوں ،رسم و رواج اور فرسودہ تہذیبوں سے خود ہی علیحدہ ہوجائیں ۔لوئیس کہتا ہے کہ مالیاتی اداروں کے علاوہ فلمیں ڈرامے،ناول ،اشتہار ،ٹاک شوز ، عالمی سطح پر منائے جانے والے تہوار اور دن ،جدید علمی مراکز ، جنسیاتی ماحول ،فیشن شوز اور تعلیم یافتہ لوگوں کے کلب اور تقریبات غیرمحسوس مگر موثر اور کارگر ہتھیار ثابت ہوسکتے ہیں ۔مغر بی معاشرے اور تہذیب کو اسلام اور کنفیوشسنرم سے خطرہ ہے۔ وہ چینی تہذیب کی بنیاد کنفیوشسنرم سے جوڑتا ہے جو اسلام سے کافی حدتک ہم آہنگ ہے۔ وہ مضبوط مشرقی تہذیبوں اور ادیان کے خاتمے کے لیے جنسی بے راہ روی کازبر دست حامی ہے۔ اسطرح پیدا ہونے والے بچوں کا الگ معاشرہ بن جائے تو وہ مذہب اور تہذیب کو خاطر میں نہیں لائے گا اورآزاد معاشرے اور ماحول کو پر وان چڑھانے کا باعث بنے گا۔

                   کتاب کے بارھویں باب میں لکھتا ہے کہ مغربی تہذیب دیگر تہذیبوں سے منفرد ہے جسکا آغاز 1500ء میں ہوااور مغر بی تہذیب دیگر تہذیبوں پر اثر انداز ہونے لگی ۔جدید سرمائیہ داری نظام اور صنعتی تر قی نے دیگر تہذیبوں کے لیے کشش پیدا کی اور مشرقی معاشرے مغر بی ماحول میں ڈھلنے لگے ۔جدید سائنسی علوم اور رجحانات نے بھی اثر دکھلایا اور مشرقی ملکوں سے سیاح ،طالب علم اور امیر لوگوں نے مغر بی ماحول اور جدید تعلمی اداروں سے منسلک ہونے کو باعث فخر سمجھا ۔

                  وہ لکھتا ہے کہ جدید اسلامی احیأاور ایشیاء میں معاشی تر قی نے مغر ب کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ مغربی معاشرے میں بچت کا رحجان کم ہورہا ہے اور عالمی منڈیوں میں صارفین کو فروغ نہیں مل رہا ۔

                  وہ لکھتا ہے کہ معیشت اور آبادی سے کہیں زیادہ مغرب کا اخلاقی زوال سیاسی انتشار اور ثقافتی خود کشی ہے ۔

                  وہ لکھتا ہے کہ مغر بی معاشرے میں تشدد کا رحجان بڑھ رہا ہے ۔منشیات کا کھلے عام استعمال ہے اور معاشرتی جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔خاندانی زندگی قصہ ماضی بن رہی ہے ۔میاں بیوی اور بچوں میں احترام اور جذباتی کشش محدوم ہوچکی ہے۔ ہر دوسری عورت طلاق یافتہ یا پھرنا جائز بچے کی ماں ہے۔ ٹین ایج حمل اور سنگل مدر اور سنگل فادر گھرانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف مسلم اور مشرقی معاشروں کا اخلاقی ، معاشرتی اور تہذیبی معیار بہت بلند ہے ۔تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی ایک مسئلہ ہے جسکا بظاہر کوئی حل نہیں ۔

                  تارکین وطن نے مغر بی ماحول میں رہتے ہوئے مشرقی معاشرہ آباد کر رکھاہے ۔ان کی گوری بیویاں مسلمان ہوجاتی ہیں اور مشرقی لباس پہن لیتی ہیں۔ گوری مسلمان خواتین نماز روزے کی پابند اور قرآنی تعلیمات سے متاثر ہیں ۔ مسلمانوں نے ہر مغر بی ملک میں عالیشان مسجدیں تعمیر کی ہیں جہاں نمازیوں کی بڑی تعدادی پانچ وقت حاضر ی دیتی ہے ۔

                  مشرقی تارکین وطن بچت کے عادی ہیں انہوں نے یورپ میں عالیشان مکان اور بڑے بڑے بزنس کھول لیے ہیں ۔بہت سے کاروبار ایسے ہیں جن پر ان کی اجارہ داری ہے ۔

                  گویاکہ اس بات کا ابھی تک کسی مصنف نے کھل کر اظہار نہیں کیا مگر اہل یورپ سنجیدگی سے برائیوں کا طوفان مشرق کی جانب موڑ رہے ہیں ۔یہ ایک سنجیدہ اور خاموش آپریشن ہے جسے ففتھ جنریشن اور سائبر وار سے منسلک کردیا گیا ہے ۔اسکا ہدف مسلمان معاشروں کے نوجوان ،معیشت ،کلچراور ثقافت ہے ۔

                  واٹنگٹن لکھتا ہے کہ سائنسی علوم پر دسترس اور برتری کے باوجود ہم اخلاقی ،معاشرتی اور ثقافتی محاذ پر شکست کھا رہے ہیں۔ اہل یورپ ،امریکہ اور دیگر اسلام دشمن معاشروں کو مل کر کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ دنیا واقعی ایک گلوبل ویلج بن جائے ۔

                  ایک مغر بی مصنف کے حوالے سے لکھا ہے کہ آج مغر بی قومیں عالمی بینکنگ سسٹم کی مالک ہیں ۔ہماری کرنسیاں مضبوط ہیں ،عالمی خریداری مراکز پر ہماری اجارہ داری ہے ،دنیا کی بہترین اشیاء ہم بناتے اور بیچتے ہیں ۔ سرمایہ داری پر ہمارا کنٹرول ہے ۔بہت سے معاشروں کو بدلنے میں ہم اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔جہاں چاہتے ہیں عسکری مداخلت کرتے ہیں۔ اعلیٰ تحقیقی اور علمی ادارے اور عالمی عدالت انصاف ہم نے قائم کی ہے ۔جدید ٹیکنالوجی ہماری پہچان ہے ۔ہائی ٹیک مواصلاتی ،خلائی نظام اور صنعتیں ہم نے قائم کی ہیں ۔سمندروں پر ہمارا قبضہ ہے ۔ہتھیار سازی میں ہمار ا کوئی مقابل نہیں مگر معاشرہ تنزلی کا شکارہے ۔حقیقت یہ ہے صرف مضبوط معاشرہ ہی نظام زندگی کی ضمانت ہے ۔

                  وہ لکھتا ہے کہ یہی وقت ہے کہ ہم تیسری دنیا کے ممالک کو اپنے مضبوط معاشی ، عسکری ، سائنسی اور تحقیقی نظام کے تحت ایک عالمی ثقافتی ،معاشرتی ،تعلیمی ،تحقیقی اور عقیدے پر متفق یا مجبور کرلیں۔دوسری صورت میں وہ بھارت ، پاکستان اورمسلئہ کشمیر کی مثال دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہمیں فیصلہ کن انداز میں صرف ایک فریق کا ساتھ دیکر دوسرے کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کردینا چاہئے ۔مگر اس میںبھی ایک قباعت ہے۔ جس پر مزید تو جہ دینے کی ضرورت ہے۔ بلفرض اگر بھارت کشمیریوں کو ختم کر دیتاہے یا پھر انہیں ترک وطن پر مجبور کر دیتا ہے توپھر برصغیر میں صرف ہندو مذہب کی اجارہ داری ہوگی جس سے نبردآزما ہونے کے لیے الگ سے منصوبہ بندی کی ضرورت پڑے گی ۔

                  ان سب ضرورتوںاور خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں تاریخ ،ادب ، فلسفہ و منطق کا اجراء کریں۔یہی وہ ٹھوس بنیاد یںہیں جن پر معاشرہ قائم ہوتا ہے اور دیگر علوم میں اعتدال بر قرار رہتا ہے ۔

                  تقدیرہ کے گھر مہرین ملک سے پہلی ملاقت ہوئی تو اس نے بھی ایسی ہی بات کی ۔شادی کی ایک تقریب میں مہرین انور راجہ کو بھی ایسی ہی گفتگو کرتے سنا ۔دونوں خواتین مختلف سیاسی جماعتوں میں رہتے ہوئے ایک ایسے موضوع پر متفق ہیں جسے حکومتی سطح پر لائق توجہ نہیں سمجھا گیا ۔

                  دونوں خواتین نے تاریخ اور منطق کے حوالے سے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے پر زور دیا ۔یوں لگ رہا تھا۔جیسے وہ زینوں، سقراط اور اوسطا طالیس کی زبان میں بات کر رہی ہوں۔ دوسری صدی ہجری میں عرب علماء و حکمأ نے زینوں ،سقراط اور اسطاطالیس جو حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے تقریبا ً پانچ سوسال پہلے ہوئے کا سارا علم عربی میںنہ صرف ترجمہ کیا بلکہ جہاں جہاں نقص دیکھا اسے درست کر لیا۔ دیکھا جائے تو یہی وہ علمی بنیاد تھی جس پر مسلم معاشرہ قائم ہوا اور قرآنی ظاہری و باطنی علم کومضبوط دلائل دیکر عام آدمی کے سامنے پیش کیا گیا ۔سچ تو یہ ہے کہ صرف قرآن ہی وہ علمی خزانہ ہے جس کی بنیاد پر ایک عالمگیر معاشرہ اور ثقافت پروان چڑھ سکتی ہے ۔

                  ہمارے ہاں سیاسی اور مذہبی جماعت کا ایک منشور ہے مگر بنیادی دینی علم و عقیدے پر سبھی خاموش ہیں۔ مذہبی جماعتوں کا دین ان کے مسلک تک محدود ہے جو کسی بھی لحاظ سے فلاح انسانیت اور اصلاح معاشرے کی ضروریات کو پوری نہیں کرسکتا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ مسلک کو مذہب سمجھ کر ایک طبقہ دوسرے طبقے کا دشمن ہے اور شدت پسندی کا رجحان رکھتا ہے ۔یہی شدت پسندی ہماری سیاست کا اہم جُزاور بنیاد ہے جس کی وجہ سے معاشرتی برائیاں پروان چڑھ رہی ہیں۔

                  زینت بی بی کے حلقہ میں بھی ایسی خواتین تھیں جو بظاہر اصلاح و فلاح کا جذبہ تو رکھتی تھیں مگر انہیں کوئی پلیٹ فارم میسر نہ تھا۔ وقت گزاری اور عیش وعشرت کے لیے ہر شہر میں کلب اور فورم موجود ہیں۔جہاں مرد وزن بیٹھتے ہیں گپ شب لگاتے ہیں ،کھاتے اور پیتے ہیں اور میل ملاپ بھی کرتے ہیں۔ ایسی جگہوں کی ہر شہر میں بھر مار ہے جہاں صرف ممبر مرد اور عورتیں جاتی ہیں۔ میںنے دیکھا ہے کہ کچھ خواتین جلد ہی ان محفلوں سے اُکتا جاتی ہیں ۔جس کی بنیادی وجہ ان کا ماضی ،واجبی تعلیم اور خاندانی عصبیت ہوتی ہے۔ ابن خلدون اور امام غزالی ؒ نے عصبیت پر بہت کچھ لکھا مگر ہمارے دانائو ں نے اسے تعصب کے زمرے میں ڈال کر عصبیت کی اہمیت کو علم کی حد سے ہی خارج کر دیا۔

                  یہی حال تاریخ اور منطق کا ہے۔ ہمارے مدارس میں معقول و منقول کا علم مختصرا ً پڑھا یا جاتا ہے ۔مدارس کے سلیبس میں فلسفہ، تاریخ،منطق،سیاست ، سماجیات ،اخلاقیات اور دیگر علوم کے اسلوب پڑھائے جاتے ہیں۔مدارس کے سلیبس میںابن خلدونؒ اور مام غزالیؒ کی سوانح حیات اور کتب کا تعارفی مطالعہ شامل ہے۔حیرت کی بات ہے کہ مذہبی، سیاسی جماعتوں کے ورکروں او رلیڈروں کی ذاتی ،اخلاقی ،معاشرتی اور سیاسی زندگیوں اور عملی سیاست میں ان علوم کی ذرہ بھرجھلک نظر نہیں آتی۔ سیاسی تقریروں ،جلسوں، جلوسوں اور ٹاک شوز میں یہ لوگ سیکولر اور لبرل سیاسی جماعتوں کے نظریات کا پر چار کرتے ہیں ۔سوائے داڑھی اورد ستار کے علمیت کاکوئی رنگ ان کے چہروںپر نہیں ہوتا ۔

                  چانکیائی اور میکا ولین سیاست کو دینی رنگ میں پیش کرنا نہ صرف جاہلیت مگر ضرب کاری ہے۔ انوار ایوب راجہ نے اپنی تصنیف ’’سفید پوش ‘‘ میں لکھا ہے کہ سیاست اور ساز ش دو الگ نظریے ہیں ۔مسلم حکماء کے قرآنی علم کے مطابق علم سیاست افضل علوم میں شامل ہے اور سازش فتنے اور شرکا باعث ہے۔ بحیثیت مجموعی ملک میں سیاست کی جگہ ساز ش کا رجحان ہے اور ہر طبقہ فکر کے سیاستدان اپنی ہی عوام کو سازشی سیاست کے ذریعے ذہنی وقلبی لحاظ سے مفلوج کررہے ہیں ۔

                  اگر ہم سیاسی جماعتوں اور زینت کے سوشل کلب کے موازنہ کریں تو کسی بھی لحاظ سے دونوں میں فرق نہیں۔ زینت کے گھر آنے والی خواتین سیاسی ورکر ،سوشل ورکر ،این جی او ز میں کام کرنے والی خواتین اور کچھ نکمی گھریلوخواتین تھیں جو وقت گزاری اور چسکہ بازی کے لیے آتیں اور گپ شب لگاکر چلی جاتیں ۔

                  زینت کے گھر سے چند سو گز کے فاصلے پر ایک کھلے پلاٹ میں چھپر لگا تھا ۔یہ چھپر دانشواروں کا کلب تھا۔ دس بجے کے قریب ایک ریٹائر ڈ جج صاحب ویل چیئر پر چھپر کے سائے میں آتے اور پھر ریٹائر ڈ سرکاری افسروں کی آمد شروع ہوجاتی۔ ایک دو بارمیں بھی اس محفل میں شریک ہوا مگر یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ وہاں صوبائیت ، لسانیت ،تنگ نظری اور تعصب کا ماحول تھا۔کالا باغ ڈیم کی ضرورت نہیں ،افغان مہاجرین کو واپس نہیں جانا چاہئے ،کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور پاکستان ایک ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن ہو تو قبول ہے ورنہ مکمل صوبائی خود مختاری ہی آخری حل ہے ۔

                  میری وجہ سے وہ صرف پشتو میں بات کرتے تھے تاکہ مجھے سمجھ نہ آ ئے۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں پشتو سمجھتا ہوں بول نہیں سکتا ۔ آپ لوگوں میں اخلاقیات کی کمی ہے۔ جج صاحب نے معذرت کی کہ آپ آیا کریں ایسی بات نہیں   میں نے زینت کے گھر کی طرف اشارہ کیااور پوچھا کہ اسے جانتے ہو۔ ایک اعلیٰ افسر نے کہا کون نہیں جانتا ۔ گندی عورت ہے۔ میں نے کہا کہ آپ کا بیٹا بھی اس کلب کا ممبر ہے۔ فرمانے لگے جوان آدمی ہے۔ میں اس کی آزادی پر قدغن نہیں لگا سکتا۔ میں نے کہا زینت بہت اچھی عورت ہے۔ وہاں کوئی تعصب نہیں اور نہ ہی ناچ گانا ہے۔

                  شہر میں ایک ڈیرہ تھا ۔ یہ بھی کلب تھا ۔ یہاں ایک پروفیسر صاحب بیٹھتے تھے۔ انگلش پڑھاتے تھے اور پیری مریدی کا سلسلہ بھی تھا۔ ایسی جگہوں پر عورتوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ وہاں بھی ایسا ہی لبرل ماحول تھا۔ یہاں یونیورسٹی سٹوڈنٹ کی خاصی تعداد آتی تھی۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے میرا تعارف پروفیسر صاحب سے کروایا ۔ میں ہفتے میں دو یا تین بار وہاں جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب دال روٹی کا اہتمام کرتے تھے اور ہر موضوع پر کھل کر بات ہوتی تھی۔ زینت کلب کی خواتین وہاں بھی آتی تھیںجن میں رخسانہ سب سے بولڈ تھی۔ وہاں ایک لڑکا بھی تھا۔ لڑکے اور بھی تھے مگر وہ بولڈ تھا۔ اس کے پاس نئے ماڈل کی کار تھی۔ وہ کسی لگی لپٹی کے بغیر لڑکیوں کو کھانے اور گھمانے کی دعوت دیتا تھا۔ وہاں صائمہ، کرن ، شمع اور شبنم بھی آتی تھیں۔ ان کا حلقہ احباب بھی وسیع تھا۔ صائمہ سکالر تھی۔ وہ اپنا ریسرچ پیپر لے کر امریکہ چلی گئی اور وہی بس گئی۔ شبنم کو آستانے سے ایک ریٹائرڈی ایس پی کالڑکا تو مل گیا مگر کامیاب نہ ہو ئی۔ وہ سمجھا کہ لڑکی امیر ہے دھن اور دولت ایک ہی کائونٹر پر مل جائیں گے۔ شبنم کا خیال تھا کہ ڈی ایس پی کا بیٹا ہے مالدار ہو گا۔ دونوں طرف سے وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے تو پتہ چلا کہ کرنل فقیر اور کرنل بادشاہ والا معاملہ ہے۔ وہ تو ہنس کر گلے ملے تھے مگر شبنم اور شاہ زمان لڑ جھگڑ کر ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔ اس جنگ میں ڈی ایس پی کی بیٹیوں نے بھرپور شرکت کی اور بھائی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار یں بن گئیں۔ انہیں شبنم کی عمر، مالی حالات اور لبرل ازم پر اعتراض تھا ۔ شبنم نے پروفیسر صاحب کے در سے آس لگائی مگر ناکام ہو گئی۔

                  اسی کلب سے وابستہ بلکہ پیوستہ لیلیٰ خان نے رقص و موسیقی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ لیلیٰ اور اس کی بہن انجم خان بڑی بڑی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں اور جنرل پرویز مشرف کو دعائیں دینے والے گروپ میں بھی شامل تھیں۔لیلیٰ نے بغداد یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری اورپشاور یونیورسٹی سے سیاسیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ وہ زیادہ وقت دبئی میں قیام کرتیں اور ہوٹلوں میں ہونے والی تقریبات میں پشتو کلچر سوسائٹی کی نمائندگی کرتی تھیں۔ ان کے گروپ میں پچاس سے زیادہ خواتین تھیں جن کا تعلق مردان، نوشہرہ ، پشاور اور چارسدہ سے تھا۔

                  بولڈ لڑکے نے چالیس سالہ رخسانہ سے دوستی تو کرلی مگر زیادہ دیر چل نہ سکا۔ لڑکے کے بھائی نے بتایا کہ وہ کسی عورت کو اس کے گھر چھوڑ کر آ رہا تھا کہ تیز رفتاری کے باعث کار الٹ گئی۔ رات کا وقت تھا اور سڑک ویران تھی۔ بہت دیر بعد پولیس موبائل نے کار دیکھی مگر تب تک وہ چل بسا تھا۔ میں نے پروفیسر صاحب کو بتایا تو ہنس کر کہنے لگے کہ ہاں مجھے دوسرے ہی روز پتہ چل گیا تھا ۔ فرمانے لگے آپ نے اسے میرے پاس ٹیوشن پڑھنے بھیجا تھا مگر اس نے آتے ہی خود پڑھانا شروع کر دیا۔ جوان موت ہے اور بہت سے بیوائیں چھوڑ گیا ہے جن پر عدت بھی واجب نہیں۔ پوچھا کسی نے سوگ منایا ہے ۔ کہنے لگے سوگ تو نہیں منایا مگر گفٹ اور پارٹیاں ختم ہونے پر افسردگی کا اظہار کیا گیا ہے۔

                  میں نے ان کلبوں کے متعلق پروفیسر صاحب کی رائے جانی تو کہنے لگے کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو این جی اوز کو فریڈم دی گئی ۔ جتنی خواتین و مرد ان این جی اوز سے وابستہ ہیں وہ پڑھے لکھے اور لبرل مائینڈڈ ہیں۔ آپ لبرل ازم سے کوئی بھی مطلب نکال سکتے ہیں۔ حیات آباد ،لاہور ڈیفنس ، اسلام آباد ، بحریہ ٹائون راولپنڈی اور ملک میں ہر جگہ ان لوگوں نے عالیشان کوٹھیاں کرائے پر لے رکھی ہیں۔ زینت کے گھر کا ایک پورشن بھی اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جنرل مشرف کی والدہ پاکستان میں این جی اوز کی سر پرست ہیں۔

                  ان ہی دنوں بیگم زریں سرفراز نے پشاور میں قائم اَپوا کے دفتر پر کنٹرول حاصل کیا ۔ دوسری جانب ایک بزرگ خاتون جو اس اداریہ کی سربراہ اور ایک سینئر آرمی افیسر کی والدہ تھیں کو ادارے سے نکال دیا گیا۔یہ مسلئہ بھی ہمارے دفتر تک آیامگر بیگم زریں سرفراز کا گروپ زیادہ مضبوط اور جنرل مشرف کے قریب تھا ۔بیگم زریںسرفراز گروپ کے خلا ف درخواست کے ہمراہ ایک البم بھی تھی جس میںبہت سی خواتین سوات ،کالام اور ایوبیہ کے مقام پر اپنے دوستوں کے ہمراہ قدرت کے حسین نظاوں سے لطف اندوز ہورہی تھیں ۔ہم نے درخواست رکھ لی اور البم واپس کردی ۔درخواست گزار حیران ہوئے تو عرض کی کہ ان سب کو دیکھا ہوا ہے ۔پریشانی کی کوئی بات نہیں اپو اعورتوں کا ادارہ ہے اور کسی عورت نے ہی چلانا ہے ۔پانی رک جائے تو بدبودار ہوجاتا ہے۔ عورت ،پانی اور چاند کا آپسی رشتہ قدیم علوم کا حصہ ہے جسے سمجھنا آسان نہیں۔ عورت کاحسن ،چاندکی روشنی ،سمندر کے مدو جزر پیدائش ،زیبائش ،زینت اورراحت ایک ہی شجر کی شاخیں، پھول اور پھل ہیں۔ پوچھا اس علم کا نام کیا ہے ۔پروفیسر نے کہا علم الیقین ۔عورت،چاند اور سمندر اپنے ظاہری جسمانی وجود میں قائم ہیں۔ جس میں کوئی شک نہیں۔ کچھ دانشور وں نے اسے علم الحیوانات اور علم الارض سے بھی منسلک کیا ہے ۔ ہندومذہب کے مطابق عورت کی پیدائش پورن ماشی کی شب پانی سے ہوئی۔ چاند پورے جوبن پر تھا، اس کے لمبے ریشمی بال اسکامرمر یں جسم ڈھانپے ہوئے تھے جسکی وجہ سے عورتوں کے کئی رنگ و روپ بن گئے ہیں۔

                  1836؁ء میں کریسٹن ٹامس نامی فرانسیسی عالم نے زمانے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جن میں پتھر کا زمانہ ، دھات کازمانہ اور لوہے کا زمانہ شامل ہیں۔ پھر پتھر کے زمانے کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا ۔کچھ محققین نے اس جاہلانہ تصور کو رد کرتے ہوئے اس سے قبل زمانے کو ثمریا بی یا ثمریاتی زمانے سے تشبیع دی ہے۔ لکھا گیا ہے کہ ہر دور عورت کی اولین بر تری اور حکمرانی کا دور تھا ۔انسان جنگلوں میں رہتے تھے۔ پھل،پھول اور درختوں کی جڑھوں پر گزارہ کرتے تھے ۔ خاوند بیوی کا کوئی تصور نہ تھا عورت افزائش نسل کے لیے کسی بھی مر د کا چنائو کر سکتی تھی ۔

                  پروفیسر کلب کی چند لڑکیاں سبط حسن کی کتابوں کا حوالہ دے کر اپنی علمیت کا اظہا رکرتیں تو پروفیسر صاحب مسکرا دیتے ۔شبنم اور رخسانہ سیکولرازم کے حق میں دلائل دیتیں تو پروفیسر صاحب بہت خوب کہتے ۔میں نے پوچھا کیا آپ اس نظریہ سے متفق ہیں ۔فرمایا نہیں ۔صرف حوصلہ افزائی کرتا ہوں تاکہ اظہار خیال کا راستہ کھلا رہے ۔سبط حسن جیسے جاہلوں سے زمانہ بھرا پڑا ہے مگر ایسے علوم اور معلم اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔میں نے کہامگر ان کے ایڈیشن مسلسل شائع ہوئے ہیں۔ کہنے لگے میرے پاس کوک شاشتر کا سواں ایڈیشن ہے ۔وحی حیوانوی کے بھی بہت سے ایڈیشن چھپ چکے ہیں ۔ایسا ہی احوال واجدہ تبسم کا ہے۔ پروفیسر صاحب نے رخسانہ کو بلا کر پوچھا بیٹا یہ کتابیں پڑھی ہیں جنکا میں نے نام لیا ہے۔ کہنے لگی نہیں ۔پروفیسر مسکرائے اور کہا کہ ایسی کتابیں ایک خاص مقصد کے لیے شائع کی جاتی ہیں ۔ایک دور تھا جب راجہ انور کی کتاب’’ جھوٹے روپ کے درشن‘‘ کی تعلیمی اداروں میں بڑی دھوم تھی ۔پھر تہمینہ درانی کی بلس فہمی اور سوزن آزادی کی آوٹ آف ایران بہت مقبو ل ہوئی اور اب ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ۔یہ سب ردی کا مال ہے ۔حکایات سعدی ؒ اور مثنوی مولانا روم ؒ، بھلے شاہ ؒ ،میاں محمد بخش ؒ ،امیر خسروؒ، حافظؒ، وارث شاہؒ، امیر حمزہ ؒ ، شنواری ،خوشخال خان خٹک ، شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ،اقبالؒ ، غنی کا شمیری ؒ،للا عارفہ ، خبہ خاتون ، اور دیگر آج بھی زندہ ہیں ۔ان کے ذکر و فکر کے چرچے عام ہیں اورکبھی کم نہ ہونگے ۔

                  طلعت شیرازی عورت کی آزادی پربولتی تو سب کو حیران کر دیتی ۔لگتا تھا جیسے سہد یونے مہا بھارت طلعت کے سامنے بیٹھ کر لکھی ہو ۔وہ مہاراجہ یدھشٹر ،بھیم ،ارجن ،نکل اور سہدیو کی مشترکہ پتنی درو پتی کا حوالہ دیتی نہ تھکتی تھی ۔ان دنوں دور درشن پر مہا بھارت ڈرامہ دکھا یا جارہا تھا اور ڈش ٹی وی نیا نیا متعارف ہواتھا۔سوات گئے تو وہاںایک وسیع باغ میں شاندار بنگلہ دیکھا جس کی چھت پر ڈشوں کا بازار لگا تھا ۔پتہ چلا کہ ایک بڑے مولانا کے چھوٹے بھائی کی دوسری بیگم کا گھر ہے جہاں وہ سہیلیوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ ہم ان سہیلیوں میں سے ایک سہیلی کوملنے گئے اور مل کر واپس آگئے۔ ہمیں کمشنر صاحب سمیت بہت سے لوگوں سے ملنا تھا ۔ان دنوں وزیر اعظم کے دست راست ارباب شہزاد وہاں کمشنر تھے ۔ طلعت اور سارا خان کا ٹاپک عورت تھا :۔

                                                      نے پردہ،  نہ تعلیم،  نئی ہو کہ پرانی

                                                      نسوانیت زن کا نگہبان ہے  فقط مرد

                                                       جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا

                                                       اس قوم کا  خورشید بہت  جلد ہوا  زرد

ٍ               سارہ خان اقبال ؒ کا شعر پڑھتی تو طلعت خاموش نہ رہتی ۔سارا خان ایک بڑے تعلیمی ادارے میں پڑھاتی تھی اور اقبالیات پر اپنا ریسرچ پیپر لکھ رہی تھی۔ صائمہ عورت پر اور طلعت ان سب پر لکھ تو نہیں رہی تھی مگر نظر رکھتی تھی ۔

                 

                                    طاقتیں صرف دو ہیں دنیا میں

                                    جس سے سارا نظام جاری ہے

                                    ایک خدا کا وجود بر حق ہے

                                    ایک عورت کی ذات بھاری ہے ۔

                  طلعت کو عبدالحمید عدم کے اشعار از بر تھے ۔وہ منٹو ،خشونت سنگھ ، ٹالسٹائی ،برنا ڈشا،عصمت چغتائی اور برٹنڈرسل کی شیدائی تھی۔ وہ انفسٹن کی تاریخ ہند کا حوالہ دیتی جس نے لکھا ہے کہ بھارت میں برہنہ مرد اور عورت کی پوجا کا خاص اہتمام کیاجاتا ہے۔ البیرونی نے بھی ایسی عبادات کا ذکر کیا ہے اور عورتوں کومندروں کی نذر کرنے کا رواج عام لکھا ہے ۔ شمیدس نے لکھاہے کہ سر ی کرشن جی مہاراجہ کی ایک سو آٹھ بیویاں تھیں اور پرتھوی راج چوہان کی اٹھارہ رانیاں تھیں۔شیر شاہ سوری نے بھی کئی ادھیڑ عمر ہندو رانیوں سے شادیاں کیں او رکئی کئی من سونا تحفوں کی صورت میں وصول کیا۔ چھوٹی ریاستوں اور جاگیروں کی یہ رانیاں خصوصی غذائوں اور کشتہ جات کے استعمال کی وجہ سے صحت مند تھیں مگر مذہب کی وجہ سے دوسری شادی نہ کرسکتی تھیں ۔

                  قانون گو کالکارنچن نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شیر شاہ کی مردانہ وجاہت نے اسے خوبصورت مگر بڑی عمر کی صحت مند رانیوں کی رفاقت اور دولت سے مالا مال کردیا ۔

                  طلعت برٹنڈرسل کا یہ قول اکثر دہراتی کہ اگر محبت شادی کانام ہے اور نفرت طلاق ہے تو پھر محبت کا سفر جاری رہنا چاہئے ۔پروفیسر صاحب زینت بی بی اور دیگر تعلیم یافتہ اور بولڈ عورت کا خیال تھاکہ عورت کی آزادی پر کوئی حد مقرر نہیںہونی چاہئے ورنہ وہ علی عباس جلالپوری کی جنسیاتی مطالعے میں شامل ہوکر نفسیاتی سطح پر کچلی جائے گی ۔عورتوں کے کلب ہوں یا این جی اوز میں عورتوں کی شمولیت ،تعلیم ہو یا شادی اسکا چنائو خود عورت کو ہی کرنے دیا جائے تومعاشرے کے بہت سے مسائل از خود حل ہوجائینگے ۔میں نے ان عورتوں کے خیالات، ان کے مخصوص کلبوں اور خاندانوں کے متعلق عورت فائونڈیشن کی ظل ہما ایڈووکیٹ ،رخشندہ ناز ، دوست فائونڈیشن کی پروین اعظم ، سوشل ورکرنرگس خان اور دیگر اعلیٰ علمی اور خاندانی پس منظر رکھنے والی خواتین سے پوچھا تو سب کی رائے ایک ہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وقتی ابال ہے جسے ٹھنڈا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ دوست فائونڈیشن نشے کے عادی لوگوں کا علاج کرتی تھی اور ان کی بحالی کے لیے انھیں کمپیوٹر سمیت جدید تعلیم سے بھی آراستہ کرتی تھی ۔زینت اور دیگر زینتیں صرف عورتوں کے حقوق پر شور شرابوں ، تقریروں اور مباحثوں تک محدود تھیں۔ مگر آمدنی کے کئی راستے ان کے درو ازوں پر آکر رُکے تھے ۔ماہر نفسیات ہما بھی نشئی عورتوں کی بحالی کا کام کرتی تھی ۔کئی لڑکیاںاس کے زیر علاج تھیں مگر وہ کسی کا راز افشاں نہ کرتی تھی ۔

                  ان دنوں جنرل پرویز مشرف روشن خیال پاکستان کا تصور پیش کرچکے تھے۔ زینت اور دیگر اس تصور کے حامی اور ہر اوّل دستہ تھے۔ مشاہد حسین سیّد اور ڈاکٹر فروش عاشق اعوان روشن خیال پاکستان کے مبلغین میں شامل تھے اور اکثر ٹیلویژن پروگراموں میں اس تصور اور نظریے کی افادیت سے عوام کو روشناس کرواتے تھے ۔

                  روشن خیالی کے نظریے کو تقویت دینے کے لیے جنرل مشرف نے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلوں کی اجازت دی تو ہرطبقہ فکرکے لوگوں نے کھل کر روشن خیالی کاپر چار کیا۔ سینکڑوں دانشور، اینکر ، صحافی ،سوشل اور سیاسی ورکر ٹیلیویژن چینلوں پر جلوہ افروز ہوئے اور بائیس کروڑ انسانوں کو طرح طرح کی نفسیاتی امراض میں مبتلا کردیا ۔

                  آزاد صحافت نے نظریہ پاکستان ،اسلام اور افواج پاکستان پرکئی اعتراضات اٹھائے اور اسلام اور پاکستان دشمن قوتوں کو اپنا حامی و ہم خیال بنالیا۔صحافت اور سیاست ایک منافع بخش کاروبار بن گیا اور ایک دوسرے کی معاونت سے دولت کے انبار لگا لیے ۔

                  مغربی اخلاقیات نے مشرقی اخلاقیات اور دینی تصورحیات پر حملہ آور ہوکر واٹنگٹن اور جان ڈیوی سمیت دیگر محققین کے نظریات کو تقویت بخشی تو ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں نے صرف پاکستان فرسٹ کاہدف چنا۔ ترکی اور ملائشیا نے سٹینڈ لیا تو چین اور روس نے ایک حدتک ساتھ چلنے کی حامی بھر لی مگر عرب اور اسلامی بلاک نے آنکھیں پھیر لیں۔ ملکی میڈیاپوری قوت سے مغر ب اور بھارت کا ہم نوا بن کر خارجی اور داخلی فتنوں کو ہوا دینے لگا ۔

                  مجھے پروفیسر صاحب کی باتیں یاد آتی ہیں مگر سننے والا کوئی نہیں ان کی مسکراہٹ مستقبل کے مصائب کی پیشن گوئی تھی ۔وہ کہتے تھے کہ یہ تو ابتدا ہے آنے والے دور میں ہر گھرزینت کلب کا منظر پیش کریگا ۔

                  میرے گھر کے سامنے بچوں کا پارک ہے یہاں بچے کم بڑے زیاد ہ آتے ہیں۔ بلوغت کی حد کو چھوتی لڑکیاں اور لڑکے مل کر بیٹھ جاتے ہیں اور موبائل سکر ینوں پر سر جوڑ کر دیکھتے رہتے ہیں ۔میں نے ایک خاتون سے پوچھا کہ بچے کیادیکھتے ہیں ۔وہ کچھ حیران ہوکر بولی تمہارے پاس آئی فون نہیں ۔میںنے اپنا فون دکھلایا تو ہنس کر پوچھا کب لیا تھا۔ عرض کیا کوئی پندرہ سال پہلے چھ ہزار کا لیا تھا ۔اب بھی چلتا ہے بلکہ بولتا بھی ہے۔ وہ پھر ہنسی اور کہا بچے آئی فون پر ممنوعہ سائٹس دیکھتے ہیں۔ کچھ دن بعددو موٹر سائیکل سواروں کا ایک دستہ جسکا تعلق غیر ت بریگیڈ سے تھا نے حسیب نامی لڑکے کی پٹائی کی۔ پارک میں بیٹھی خواتین نے حسیب کے حق میں شور تو مچایا مگر مدد نہ کی ۔سیکیورٹی والے درختوں کی آئو ٹ میں ہوگئے اورحسیب مار کھاکر آرام سے بینچ پر بیٹھ گیا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ حسیب ممنوعہ سائٹس کھولنے کا ماہر ہے۔

                  پروفیسر نے سچ کہا تھا اب زینت اورحسیب ہر گھر میں ہیں۔ دیکھا جائے تو نئے پاکستان کی ابتداء بھٹو صاحب نے کی اورجنرل پرویز مشرف نے اسے روشن خیال پاکستان میں بدل دیا۔ عمران خان کو بد حال پاکستان ملا مگر اسے بحال کرنے کا طریقہ ہی نہ آیا ۔

                  عمران خان کی ٹیم میں وہی لوگ ہیں جنہوں نے مل کر ملک کو کنگال کیا اور روشن خیال پاکستان کی بنیاد رکھی ۔

حصہ اول پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں 

https://bit.ly/3gv9cJK

Exit mobile version