Tarjuman-e-Mashriq

سر می دہم ، سالانگ نمی دہم

تحریر : جاوید کیانی – امریکہ 
اڑتی اڑتی خبر ہے کہ افغان حکومت نے امریکی انخلا کے بعد بھارتی فضائیہ کو افغان فضائیہ کی مدد کی درخواست کی ہے ۔ اللہ کرے خبر سچ ہو ، اللہ کرے بھارتی فضائیہ افغانستان کی مدد کو آئے اور اللہ یہ بھی کرے کہ بھارتی فضائیہ کے ساتھ ساتھ انڈین آرمی بھی افغان حکومت کو بچانے میدان میں آجائے ۔ افغان آڑ میں چھپ چھپ کر پاکستان پہ وار کرنے کی بجائے اب انڈیا کو برائے راست میدان میں آ ہی جانا چائیے تاکہ تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوسکے۔

The Mi-24V attack helicopter seized by the Taliban | Twitter | @JosephHDempsey

کابل سے مزار شریف کی طرف سفر کرتے ہوئے راستے میں ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو سالانگ نام سے مشہور ایک سرنگ سے عبور کیا جاتا ہے ۔ اس سرنگ پہ ، اس کی تعمیر کے وقت سے ، ایک مصرعہ کنندہ ہے کہ “سر می دہم ، سالانگ نمی دہم” یعنی ہم اپنا سر تو دے دیں گے لیکن سالانگ کبھی نہیں دیں گے ۔ اور افغانستان کی صدیوں کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ افغانوں نے اس قول کو ہر آزمائش کی گھڑی میں پورا کردکھایا ہے ۔ پہلے برطانوی سامراج نے یہاں قدم جمانے کی کوشش کی ، اس کے بعد روسی کمیونزم نے قسمت آزمائی کی جس کے بعد امریکی امپیئیریل ازم پوری نیٹو کی طاقت سے افغانستان کو محکوم کرنے یہاں وارد ہوا ۔ اور ان سب کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ میں “سَر مِی دہم ، سالانگ نمی دہم” کی زندہ مثال بن کر محفوط ہوکر رہ گیا ۔

Salang pass- wikipedia.org

امریکہ کی موجودگی اور اس کی اشیرباد سے انڈیا نے افغانستان میں داخل ہوکر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا ایک گھناوٗنا کھیل شروع کیا جو بتدریج آگے بڑھ ہی رہا تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں نہ ختم ہونے والی جنگ اور اس کے نتیجے میں بے پناہ معاشی نقصان کی بدولت یہاں سے کوچ کرنے میں ہی عافیت نظر آئی اور وہ بھی کچھ اس ادا سے کہ اپنی مشہور زمانہ بگرام بیس کو رات کے اندھیرے میں کسی کو اطلاع دیے بغیر ہی تالے لگا کر بھاگنا پڑا۔ امریکہ نے افغانستان میں پڑاوٗ ڈال کر پہلے عراق کو ختم کیا اور اب انڈیا اور اسرائیلی جاسوسی نیٹ ورک اور دہشت گردی کی بدولت پہلے پاکستان اور پھر ایران کو غیر مستحکم کرنے کی آرزو میں تھا کہ اسی کی ناک تلے تباہ حال طالبان آدھے سے زیادہ افغانستان کا کنٹرول سنبھال کر امریکہ اور اس کی پٹھو افغان حکومت کے لئے وبال جان بن گئے ۔ اِدھر امریکہ نے واپسی کا اعلان کیا ، اُدھر طالبان بھی پوری طاقت سے امریکہ ، بھارت اور افغان حکومت پہ قہر بن کر میدان میں نکل آئے ۔اسرائیلی اور انڈین لابی جو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف مصروف عمل تھی وہ امریکہ کی افغانستان سے واپسی کی راہ میں مکمل رکاوٹ تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو تو انہوں نے رام کر رکھا تھا لیکن صدر جوبائیڈن نے اس لابی کی ایک نہ سنی اور افغانستان میں مزید جانی و مالی نقصان سے بچتے ہوئے انخلاٗ کا فیصلہ کر لیا ۔ امریکہ کے بوریا بستر لپیٹتے ہی انڈین نیٹ ورک بھی خطرے میں آگیا چنانچہ پاکستان کی سرحد کے ساتھ جگہہ جگہہ اپنے قونصل خانوں کی صورت موجود جاسوسی کے اڈوں اور ٹریننگ کیمپس کو بھی اکھاڑنا پڑا ۔
امریکہ کو افغانستان میں روکنے میں ناکامی اور طالبان کے ہاتھوں افغان حکومت کی پسپائی کو انڈیا نے ایک نئے پراپیگنڈے کا رنگ دیا اور طالبان کی کامیابیوں کو پاکستان کی خفیہ مدد سے جوڑنا شروع کر دیا اور اپنے اس مکروہ پراپیگنڈے میں اس نے افغانستان کی ڈوبتی حکومت کو بھی شامل کر لیا۔ پاکستان کے خلاف اس پراپیگنڈہ وار میں اسے یہودی لابی ، میڈیا ، یورپی آقاوٗں اور خود غدار وطن پاکستانیوں کی مکمل آشیرباد حاصل ہے جس کی بدولت سوشل میڈیا پہ آئے دن کوئی نہ کوئی پاکستان دشمن ٹرینڈ چلا دیا جاتاہے ۔اب اگر انڈین فضائیہ کی افغان فضائیہ کی مدد والی خبر یا افواہ کو سچ مان لیا جائے تو یہ بھی کوئی انٹرنیشنل پلان ہی سمجھا جائے گا جو ہو سکتا ہے کہ انڈیا کی پیٹھ ٹھونک کر اسے افغانستان میں لے آئے اور پاکستان کو برائے راست انگیج کر لے ۔ اگر انڈیا ایسا کرتا ہے تو اسے خودکشی سے بڑھ کر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ طالبان افغانستان تو لے ہی چکے ہیں اور اس کے بعد جنگوں میں پلنے والی اس مخلوق کو کشمیر سے بہتر کوئی اور میدان جنگ نہیں ملے گا ۔ اور روس ، چین ، ایران اور افغانستاں کے دوسرے ہمسایہ ممالک بھی اسے آسانی سے ہضم نہیں کرپائیں گے ۔ اور آخر میں اپنے نادان افغان بھائیوں کو ایک انمول مشورہ ہے کہ وہ انڈین فضائیہ پہ اتنا تکیہ نہ کریں کیونکہ ابھینندن جیسے مشہور زمانہ پائیلٹ انڈین فضائیہ کا ہی سرمایہ ہیں جو اپنے بم درختوں پہ پھینک کر یا کووٗں کو نشانہ بنا کر خود نشانہ بن جاتے ہیں اور قیدی بن کر اپنے میزبانوں سے چائے کا ایک کپ پی کر پھر سے اکڑ کر چلنا شروع کر دیتے ہیں ۔
 
Exit mobile version