Tarjuman-e-Mashriq

سکردو سے یارانہ- 1

خالد ندیم، اللہ رکھی اور آتشی

 

سکردو سے اسلام آبادکی پروازتھی ۔ جہاز رن وے پر اڑان بھرنے کے لیے پرتول رہا تھا۔ انجن نے کچھ شورکیا تو کچھ کچھ ہچکچاہٹ کے بیچ ہم نے ساتھ بیٹھی خاتون سے گفتگوکا آغاز کرنے کی کوشش کی۔ مگرجو الفاظ منہ سے برآمدہوئے ہم خود انہیں سن کربھونچکا سے رہ گئے۔

’تو آپ کہاں جارہی ہیں ؟‘ جواب بہت سیدھا اور کھراتھا۔ ’یہ جہاز اسلام آباد کےعلاوہ بھی کہیں جارہاہے!‘ کسی بھی خاتون سےغیررسمی تعارف کی یہ ایک نہایت نامناسب ابتدا تھی۔

سکردوایئرپورٹ کے بورڈنگ کاؤنٹرپروہ ہمیں پہلے پہل نظرآئی تھیں۔ چہرہ مقامی نہیں تھا اورسکردو میں ایک غیرمقامی خاتون سے مڈبھیڑ ایک تقریباً انہونی بات ہے، مگروہ دن ہی کچھ انہونیوں کاتھا۔ سکردو سے ہوائی سفرکےامیدواروں میں عموماً مقامی تاجراورفوجی ہوتے ہیں، مگراس روز وہ غیرمقامی خاتون قسمت کے پھیرمیں آکرجہاز میں ہمارے ساتھ والی نشست پرآبیٹھیں۔ اوراس کا شاخسانہ اس گفتگوکی شکل میں سامنے آیا جس کا ذکراوپرہو گزراہے۔ ہم اسقدرتابڑتوڑ جواب کے لیے تیارنہیں تھے۔ کھسیانے سے ہوکرہم نے ہاتھ آئی کتاب کوکھولا اوردکھاوے کو اس کی ورق گردانی شروع کردی۔ اب اس کاکیا کِیا جائے کہ وہ کتاب شماریات کی پریکٹیکل ورک بک نکلی اور ہم اتنے نروس تھے کہ اسے پڑھنے میں لگے رہے۔ جہاز اڑان بھرچکا اورسیٹ بیلٹ باندھنے کا اشارہ بجھ گیا تو خاتون خود کو بندشوں سے آزاد کرتے ہوئے ہماری طرف متوجہ ہوئیں اوربڑی رسان سے کہنے لگیں، ’اچھا، تو آپ حساب بھی پڑھ کے یاد کرتے ہیں!‘ ہم پہلے مکالمے کی چوٹ پوری طرح سہلانہیں پائے تھے اس دوسری ضرب سے تو بالکل ہی ناک آؤٹ ہوگئے۔

خدا معلوم اس اللہ کی بندی کو ہماری صورت پر ترس آگیا یاپھرقسمت ہم پرکچھ مہربان ہوگئی کہ بقیہ سفرایک نارمل گفتگو میں بسرہوا۔ ویسے بھی ہم بات چیت کےآغاز کی تکنیک میں کافی کڈھب واقع ہوئے ہیں مگریوسفیؔ صاحب کے الفاظ میں ایک دفعہ ہیاؤ کھل جائے  تو اچھی خاصی گفتگو کرلیتے ہیں۔ خاتون پیشے کے اعتبار سے آرکیٹیکٹ تھیں اور خپلو میں ایک تاریخی عمارت  کی تزئین کے پراجیکٹ پر کام کررہی تھیں ۔ سردیوں کے آغاز پرچھٹیوں میں گھر جارہی تھیں کہ شمال کی سردیاں کاروبارِ زندگی کو تقریباً مفلوج کردیتی ہیں اور یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ شمال کی انہی سردیوں کا ذکرابھی آگے آئے گا۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اس سفرکا اختتام ہوا اور ہمارے ساتھ زادِ راہ میں کچھ یادیں اورایک داستان چھوڑگیا۔ ایک داستان جسے کچھ واقعہ نگاری کا رنگ بھر کے ہم نے خالد ندیم کو سُنانا تھا۔

خالدندیم سکردو میں ہماری واپسی کی راہ دیکھتا تھا اور چونکہ ہرچھٹی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے تو ہم بھی سکردو ایئرپورٹ پرواپسی اترے۔ اسی دن شنگریلا ریزارٹ میں رات کے کھانے پرجب ہم ’میری چھٹی کا ختم ہوجانا‘ سیلیبریٹ کررہے تھے ، تو ٹراؤٹ مچھلی کے قتلوں کے بیچ، ہم نے حتی الوسع رومان کا رنگ بھرتے ہوئے اپنی خوشگوارہمسفرکی کہانی بیان کی۔ یہاں قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ ہم صورتاً اور سیرتاً بھی کچھ سیدھے آدمی واقع ہوئے ہیں، لہٰذا کہانی کو کچھ رنگین تو ہم نےکیا لیکن خاتون کے ساتھ ابتدائی مکالمے بازی کا ڈراپ سین من وعن بیان کربیٹھے۔ خالد ندیم کہ جہاندیدہ آدمی ہیں بات کی تہہ تک پہنچ گئے اور لگے ہمیں رگیدنے۔ جب وہ اچھی طرح چیزا لے چکے تو ہمارے زانو پر ہاتھ مارکرکہنے لگے، ’چلو چھڈّو! ایہہ دسّو اوہدا ناں کی سی ؟‘ یہاں ہم پرمنکشف ہواکہ نام توہم نے پوچھا ہی نہیں۔ ایک گھنٹے سے کچھ اوپرکی پروازمیں   دورانِ گفتگو نام پوچھنے کا نہ تو موقع محل آیا اور نہ ہی ہم نے ہمت کی۔ ہماری مظلوم انا پریہ دوسرا تازیانہ اور خالدندیم کے ہاتھ میں یہ دوسراپینترا تھا ۔ ہماری حماقت اور ناتجربہ کاری پر کفِ افسوس ملتے ہوئے خالد نے تجویزکیا کہ فوراً سے پیشتر ایک عدد نام رکھا جائے۔  تو واقعہ کچھ یوں ہے کہ شنگریلا کی جھیل کے پہلو سے لگی اس جوبن پر آئی رات میں ہماری بے نام ہمسفرکانام اللہ رکھی تجویز ہوا۔ اپنے پڑھنے والوں کو بتاتے چلیں کہ سکردو کی آنے والی سرد دوپہروں اور منجمدشاموں کو اللہ رکھی کے ذکرنے شاداب رکھنا تھا۔ دسمبر اور جنوری کےبرفاب مہینوں میں، ہمالیہ کی مسافتوں سے تھکے ہارے اور ایک دوسرے کی شکل دیکھ دیکھ کر بیزار آئے ہوئے عمران اور خالد ندیم کی آس اسی ایک ارادے نے بندھانی تھی کہ سکردو سے کچھ اُدھر چند وادیوں کی مسافت پر خپلوُ میں جب بہار اترے گی تو اللہ رکھی واپس آئےگی اور ہم اسے دیکھنے جائیں گے۔

………………جاری ہے…………..

Exit mobile version