Tarjuman-e-Mashriq

سکردو  سے یارانہ-3

 

خالد ندیم اللہ رکھی اور آتشی

آخری  قسط

چینی دیومالا میں ایک جگہ شنگری لا کا ذکرآتاہے جو ہمالیہ کے دامن میں کہیں گم شدہ ایک شانت وادی  ہے۔ یہاں کے باسی دنیاکی فکروں سے آزاد ہمیشہ شادوآباد رہنے والے ہیں۔ کہتے  ہیں نویں صدی میں ایک بدھ دیوتا پدم سمبھاو نےسات مقدس جگہیں آباد کی تھیں جہاں بدھ مت کے پیروکار بیرونی دنیا سے پناہ لے کر آبادہوتے تھے۔  لوگوں کا ماننا ہے کہ شنگری لا ان پراسرارپناہ گاہوں میں سے ایک ہے جہاں کے رہنے والے خوش باش حیاتِ جاودانی کے مزے لوٹتے ہیں۔ ہم اورخالدندیم نے بھی بیرونی اداسی کے پناہ لینے کے لیے اپنا شنگری لا ڈھونڈ نکالا تھا۔

سکردو سے لگ بھگ تیس کلومیٹرکے فاصلے پر جبکہ آپ کا منہ اور نیت کچھ کچھ گلگت  اور کچھ کچھ اسلام آباد کی طرف ہوتو ایک جگہ کچوراکے نام کی آتی ہے۔ یہاں کچورا جھیل واقع ہے۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں یہاں ایک پہاڑوں کے دلدادہ مردکہن ساز، بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد اسلم خان نے ایک نرالی دنیا بسائی تھی۔

بریگیڈیئر محمد اسلم خان شمالی علاقہ جات میں ایک طلسماتی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے سکردو اور وادی  بلتستان کو آزاد کروانے میں ایک کلیدی کردار اداکیا۔ اس فوجی ایکشن میں حکومت پاکستان نے انہیں ہلالِ جرات سے نوازا جو نشانِ حیدرکے بعد بہادری کا دوسرا  بڑا اعزاز ہے۔ اس سے پہلے وہ برٹش انڈین آرمی میں ۱۹۴۴ میں برما حملے کے دوران ملٹری کراس حاصل کرچکے تھے۔ ۱۹۶۳ میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے فروغ کے لیے کام کیا اورسکردو میں شنگریلا ریزارٹ کی بنیاد ڈالی جو آج بھی سکردوکی سیاحتی  شناخت ہے۔ ۱۹۹۴ میں ان کا انتقال ہوا اور وہ اپنی خواہش کے احترام میں اپنی بیگم کے ساتھ شنگریلا ریزارٹ کی ایک پہاڑی پر سپرد خاک ہیں۔

تو بات ہورہی تھی بریگیڈیئر محمد اسلم خان کی بسائی نرالی دنیا کی۔ پہاڑوں میں تراشی ہوئی ایک تقریباً مصنوعی جھیل جو کچورا جھیل کےپانیوں سے سیراب ہوتی ہے اور جس کے چواطراف کچھ پہاڑیوں اور کچھ درختوں اور پھولوں کے قطعوں کے بیچ سرخ چھتوںوالے چائنیز طرز کے کاٹیج ایستادہ ہیں۔ ایک اچھوتے خیال پربنائی گئی یہ ارضی جنت شنگریلا ریزارٹ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ آپ نے بھی سکردو کے ہر دوسرے پوسٹ کارڈ پر جو خوبصورت ریزارٹ کی تصویردیکھی ہے وہ شنگریلاہی ہے۔ گرمیوں میں یہاں کافی گہما گہمی رہتی ہے مگر سردیوں میں یعنی آف سیزن ریزارٹ بندرہتاہے اور اسے واقعتاً تالے  لگ جاتے ہیں۔ شنگریلا کی جھیل کی جنوب مغربی سمت کچھ سرکاری اور فوجی ہٹس ہیں جوسارا سال فنکشنل ہوتے ہیں۔ یہاں سے جھیل تک کی آمدورفت ممکن ہوتی ہے اور یہیں ہٹس کے پہلو سے لگ کرجنوبی سمت میں ہمالیہ کے پہاڑوں کی ایک تقریباً عمودی چڑھائی شروع ہوتی ہے۔

سردیوں کی شاموں میں اکثر مقامی سیاحوں کی یہ جوڑی (جن پڑھنے والوں کی سمجھ میں یہ استعارہ نہ آئے تو ہم معذرت کے ساتھ عرض کریں گے کہ اس سے مراد ہم اور خالدندیم ہیں ) سیدھا شنگریلا کے فوجی گیسٹ ہاؤس کا رخ کرتی۔ وہاں پنجاب رجمنٹ کے میس حوالدار اقبال کو رات کے کھانے کی کچھ ہدایات جاری کرتی۔ کچھ دیر شنگریلاکی واقعتاً جمی ہوئی جھیل کی برفیلی سطح پر نظریں پھسلاتی اور پھر بالترتیب ارادے اور کمرکس کے ہمالیہ کی چڑھائی کی راہ لیتی۔ ایک ٹھنڈ آلود، منجمدجھیل کی برفیلی ٹھنڈک میں بیٹھ کر ٹھٹھرنے کے مقابلے میں کچوراکےپہاڑوں پرکوہ پیمائی اس لیے بھی ایک گوارافعل تھا کہ یہ بیک وقت لہوگرم رکھنے کا اک بہانہ بھی تھا اوررات کے کھانے تک کی وقت گزاری کا حیلہ بھی۔ اور اگر سچی بات بتائیں تو پہلے پہل جب ہم نے کچھ بلندی پر پہنچ کر اپنے محبوب شنگریلا اور اس کی جھیل پر نظرڈالی تو وہیں دل ہار بیٹھے ۔ کوہ پیمائی ایک ایسی مہم جوئی ہے جس میں پیچھے مڑکردیکھنے کی مناہی ہے۔ ہم نے ہمالیہ کے پہاڑوں میں پیچھے مڑکردیکھنے کی غلطی کی تھی اور وہیں پتھرکے ہوگئے تھے۔ شنگریلا کاوہ منظر ہماری اور خالدندیم کی آنکھوں کی پتلیوں سے ہوکردل پر کچھ ایسا نقش ہوا کہ گہرااثرچھوڑگیا۔

اس کے بعد شنگریلا گردی کی تمام شامیں ہم نے صرف اس منظرکی چاہت  میں پہاڑ چڑھنےمیں گزاردیں۔ میس حوالدار اقبال سے رات کے کھانے کی بابت مکالمہ اور واپسی پر رات کاکھانا محض خانہ پری کی کارروائی ہوکررہ گئے۔ مگر پہاڑچڑھنے اور یہ سارا کشٹ  کاٹنے کی ایک وجہ اور بھی تھی اور وہ تھی آتشی۔

شنگریلا کے جنوب مغرب میں ہمالیہ کی ترائی کے دامن میں ہم نے پہلے پہل اسے دیکھا تھا۔ ہم روٹین کی پہاڑی یاترا پرتھے۔ شام کی یخ بستہ اور فعال ہوا میں ٹنڈ منڈ درختوں کے بیچ ایک آتشی گلابی دوپٹہ لہرارہاتھا ۔ خالد کا خیال تھا کہ کوئی گاؤں کی گوری پہاڑوں میں راستہ بھول بیٹھی ہے جبکہ ہمیں اس پہاڑی ویرانے میں گمان ہوا کہ ہو نہ ہو کوئی سلیڈا ہی ہے۔ (سلیڈا لفظ چھلاوے کا پنجابی مترادف ہے۔ ہمیں تو سلیڈا میں زیادہ مافوق الفطرت پن اور چونک جانے والی حیرانگی نظرآتی ہے) ۔ کوئی آدھے گھنٹے کی مزید چڑھائی اور پندرہ منٹ کے سانس اور ہوش درست کرلینے کے وقفے کے بعد ہم نے دیکھا تو وہ ایک گلابی رنگ کا دوپٹہ تھا جو درختوں کی شاخوں کے بیچ بڑی پائیداری کے ساتھ الجھ کررہ گیا تھا۔  پائیداری ہم نے اس لیے بھی کہا کہ آنے والے تمام دنوں  میں وہ دوپٹہ بڑی ثابت قدمی  سے وہیں رہا اور ہماری شنگریلا ٹریکنگ کا ایک مستقل لینڈمارک (زمینی نشان) بن گیا۔

یہ لینڈمارکس وقتاً فوقتاً منتخب ہوئے تھے اور ان کی ترتیب کچھ یوں تھی ۔ سٹارٹ پوائنٹ یعنی نقطۂ آغاز پر میس حوالدار اقبال  کے لیے رات کے کھانے کی ہدایات۔  یہ ہدایات بغیرکسی ردوبدل کے ہمیشہ ایک سی رہیں۔ مٹرپلاؤ اور چکن کڑاہی۔ دونوں کھانے فوجی میس پر اتنی کثرت سے بنتے  ہیں کہ کُک جتنا بھی چاہے ان کا ستیاناس نہیں کرسکتا۔ اقبال نہایت بھلامانس آدمی تھا جو پوری توجہ اور محنت سے یہ من و سلویٰ تیارکرواتا تھا مگراس تمام خلوص اور یگانگت کے باوجود اسے کسی اور فرمائش کی تکنیکی آزمائش میں ڈالنے کا نہ ہم نے کبھی تجربہ کیا اور نہ ہی ہمیں اس کا حوصلہ ہوا۔

دوسرالینڈمارک وہ ایک نیا بنا ہوا مکان تھا جو پہلی پہاڑی ڈھلان پر واقع تھا۔ وہاں سے ہمیں ہردفعہ لسّی کے دوگلاس مل جاتے تھے۔ وہ مکان بینک کے ایک کلائنٹ کا تھا جن کی خالدندیم سے اچھی یاد اللہ تھی۔ پہلے پہل ٹریکنگ پرنکلے ہوئے ہماری ان سے اتفاقیہ ملاقات ہوگئی تھی۔ سلام دعاکے بعد انہوں نے اخلاقاً چائے ، پانی یا لسّی کا پوچھ لیا اور خالدندیم کے اندر کا لاہوری جاگ اٹھا اور فٹ سے بولا، ہم لسّی پئیں گے۔ زو (یاک سے ملتا جلتاایک گھریلو چوپایہ جو گلگت ،سکردو اور نواحی علاقوں میں پالاجاتاہے) کے دودھ کی لسّی پرہم بھی ایسےڈھیٹ ہوئے کہ اس کے بعد کے ہر ٹریکنگ ٹرپ پرہم باقاعدہ دروازہ کھٹکھٹا کر لسّی طلب کرنے لگے۔ اس بھلے مانس نے بھی گھر میں ہدایت کررکھی تھی کہ میں گھرمیں ہوں یا نہ ہوں دو پنجابی مہمان (گلگت بلتستان کے لوگ ہر اس شخص کو جو کوہستان یا اس سے پیچھے کا ہو پنجابی کہتےاور سمجھتے ہیں)  آئیں گے اورلسّی مانگیں گے توان سے سوال وجواب کیے بغیر دو گلاس بھجوادینے ہیں۔

تیسرا لینڈمارک وہ درختوں میں ثابت قدمی سے الجھا ہوا گلابی دوپٹہ تھا۔ ہماری بلاناغہ حاضری نے اس جگہ کو ایک آستانے  کا مقام بخش دیا تھا جس کا نام باہمی مشاورت سے آتشی رکھ دیا گیا تھا۔ گلابی رنگ خالدکی کمزوری تھا اور ایسا شوخ اور سجیلا رنگ ہمالیہ کے ویرانےمیں کسی کی بھی کمزوری بن سکتاہے۔ آستانۂ آتشی پر حاضری دیتے  ہوئے ہم اس پہاڑی پلیٹ فارم پر جاپہنچتے جہاں سے ہمارے محبوب شنگریلاکا وہ حسین منظر جلوہ گر ہوتا تھا۔  یہ پلیٹ فارم ہمارا چوتھا لینڈمارک تھا ۔ واپسی پر میس حوالدار اقبال کی نگرانی میں کھانے کی میز سجی ہوتی۔

ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ

انگریزی زبان کے جواں مرگ رومانوی شاعر جان کیٹس کا ایک معروف مصرعہ ہے

A thing of beauty is a joy forever

ہم اس کا ترجمہ نہیں کریں گے کہ پھر مقصد فوت ہوجائے گا۔ کوئی منظر، کوئی چہرہ، کوئی یار طرحدار، جو کچھ آپ دیکھتے ہیں اور جن سے آپ ملتے ہیں، اپنے ساتھ یادیں لیے ہوتے ہیں۔ یہ چہرے، یہ منظر لمحوں کی دھول میں گم ہو بھی جائیں تب بھی دل پر نقش ان کی انمٹ یادیں باقی رہتی ہیں۔ یہ خوبصورت اور سدابہار یادیں انسانی دل پر وہ تحفۂ خداوندی ہیں جو ہمیشہ ہمیش کی خوشی اور مسرّت عطا کرتی ہیں۔  یہی کیٹس  نے کہاہے۔ سکردو کی محبوب وادی، شنگریلا اور اس کی جھیل کا فضائی نظارہ، خالد ندیم کا ساتھ، ہمالیہ کے پہاڑوں کی آتشی اور اللہ رکھی کے خپلوکاآسرا۔ کتنے منظر تھے جو دل کی آنکھوں کے سامنے سے گذرگئے اور انکی یاد سے دل ابھی ابھی کتنا شاداں و فرحاں ہوگیا۔ سکردو سے ہمیں ایک خاص تعلق ہے، یہ ہمارے دل کے کسی نہاں خانے میں احتیاط سے رکھی ایک خوشی کا نام ہے۔ اس دلربا وادی کے ہم پر ان گنت احسانات میں سے ایک خالد ندیم ہیں اور یہ اسی یادِ یارِ طرحدار کی بدولت ہےکہ اس داستان کاجو ہم نے ابھی بیان کی، ہر صفحہ رنگین اور ہر گلشن مہکا ہواہے۔ دوستوں کا جب جب ذکر کریں ہمیشہ گلوں کی ہی خوشبو آئے گی۔

زندگی کی بے ربط سی مسافت میں سے یہ چند فروزاں یادیں تھیں جن کا یہاں ذکر ہوا۔ ممکن ہے ہمارے پڑھنے والوں کو ان میں کوئی تعلق یا تواتر  نظرنہ آئے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ ان کالے کیے گئے صفحات کی کوئی معقول وجہ تلاش نہ کرسکیں۔ توہم دست بستہ عرض کریں گے کہ ہماری تو کُل زندگی کچھ اسی بے ڈھب سے انگ اور نامعقول سے روزنامچے کی صورت گذری ہے۔ جب روڈ میپ ہی اسقدر آڑھا ترچھا ہوگا تو اس میں سے جو آموختہ بھی برآمد کیا جائے اُس کی کچھ ایسی ہی بھول بھلیّوں والی صورت ہوگی۔ یہاں ہم جھٹ یوسفی ؔصاحب کی نقل میں ایلس اور اس کی بلّی کے مکالمے کا گھونگھٹ اپنے دفاع میں نکال لیں گے۔ اور صاحبو، نقلِ یوسفیؔ یقیناً یوسفیؔ باشد!

مشتاق احمد یوسفیؔ  نے اپنے بہت عمدہ مضمون قصّہ خوانی بازار سے کوچۂ ماضی گیراں تک میں لکھا ہے

وضاحتاً ایلس کی بلّی کو اپنی کمک پر بلانا پڑے گا۔ ایلس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کدھرجائے۔ اس نے دیکھا کہ نزدیک ہی ایک درخت کے گُدّے پر چیشائر کیٹ ٹنگی ہے۔ ایلس نے اس سے پوچھا :

"Would you tell me, please, which way I ought to go from here?”

"That depends a great deal on where you want to go”, said the Cat.

"I don’t much care where… ” said Alice.

 "Then it doesn’t matter which way you go”, said the Cat.

"_____ so long as I get somewhere”, Alice added as an explanation.

"Oh, you’re sure to do that”, said the Cat, "if you only walk long enough.”

https://bit.ly/3qq3jldپہلا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

https://bit.ly/3sebIITدوسرا  حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

Exit mobile version