Tarjuman-e-Mashriq

سیاسی قیادت فوجی حکومت

سیاسی قیادت فوجی حکومت

عامر شاہد کیانی 

جنہیں یہ معلوم نہیں کہ ان کے ملک کو کس کس نے،کیسے کیسے کب کب کہاں کہاں سے اور کتنا کتنا لوٹا ہے۔انہیں اگر یہ پتہ چل بھی جائے کہ ان کے مستقبل کے سیاسی منظرنامے کا اسکریٹ کوں،کہاں،کیسے،کیوں اورنجانے کب سے لکھ رہا ہے تو وہ کون سی توپ چلالیں گے؟ایک مصرعہ ہے جس کے بارے میں کہاجاتا ہے اور ٹھیک کہا جاتا ہے کہ اسے جس بھی شعر کے دوسرے معرعے کے طور پر لگا لیا جائے یہ فٹ بیٹھتا ہے اور وہ معرعہ ہے
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتانہیں کوئی
یہی حال پاکستانی قوم کا ہے امریکیوں اور ان کے پروردہ”پس چلمن“ حلقوں کو یہ راز خوب معلوم ہے کہ اس معرعے کی طرح پاکستانی قوم پر جس کوبھی وزیر اعظم لگادیا جائے قوم کی صحت،معیشت،معاشرت اور ثقافت پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر پڑتا بھی ہے تو گذشتہ ساٹھ سالہ بدترین ذہنی دباؤکے بعد اس قوم میں اتنی لچک آچکی ہے کہ یہ اسے آسانی سے ”اکاموڈیٹ“کر لیتی ہے۔ا نہیں اس کے کیا کہ وزیر اعظم بے نظیر ہویا شوکت عزیز،اتفاق فونڈری میڈہو یا امپورٹڈ،مولانا ہو یا قاضی،مرد اول ہو یا خاتون آخر۔
انہیں تو ٹماٹر کی طرح سرخ سرخ گال دیکھ کر جو تھوڑا بہت ابال آتا بھی ہے وہ سبزی منڈی میں ٹماٹر کی قیمت سن کر جھاگ کی طرح فوراً بیٹھ بھی جاتا ہے۔دولت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا میں چین سے بیٹھنے نہیں دیتی اور قبر میں چین سے لیٹنے نہیں دیتی لیکن بھوک (جو دولت کی غیر مساوی تقسیم کا شاخسانہ ہے) دنیا میں ہی چین سے کھڑا ہونے دیتی ہے نہ بیٹھنے دیتی ہے اور نہ لیٹنے دیتی ہے اب تو حالت یہ ہے کہ دولت کے پچاری اگلی سطح پر پہنچ کر دولت کے مزید پجاری ہوگئے ہیں اور کھایا پیاپیسہ ہضم کرنے یا محفوظ کرنے کے بعد قومی خزانے پرمزید بوجھ بنے بلکہ اس میں ایک اور نقب لگانے کیلئے بے چین و بے قرار ہیں اور بھوکے مزید بھوکے ہوکر سوات سے کراچی تک اپنے ہی خون کے پیاسے ہورہے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ کا تو کیا کہنا کہ ہماری ساری مادی دولت لوٹ کر اپنے ممالک کو”ویلفیئر سٹیٹ“ بنانے والے اب ہماری اخلاقی دولت کے درپے ہیں ہر کرپٹ اور طالع آزما کیلئے ان کے دلوں میں نرم گوشے ہیں بلکہ یہ ان اکٹھا کرنے اور عوام پر چھوڑنے کیلئے ان کی ڈیلیں کروارہے ہیں اپنے آپ کو مہذب کہلانے والے اور ہمیں ”سوشل سیکیورٹیاں“کھلاکر اپنی تعریفیں اگلوانے والے یہ گورے حکمران کس حد تک ہمارے اندرونی معاملات میں دخل انداز ہیں اس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں ہے۔
کالم نگار ہونا بذات خود کسی عذاب سے کم نہیں ایک طرف عوام تعریفوں کے پل باندھنے سے باز نہ آکر ہمیں مزید شہہ بلکہ ”ہلاشیری“ دیتے ہیں تو دوسری طرف جس کی دُم پر پیر آتا ہے وہ غصے میں چیخنا چلانا شروع کردیتا اور کہیں اپنی برادری قلم کی نوک کے نیچے آجائے اس کی چیخ و پکار خان صاحب کے دانت کے نیچے آجانے والے بھونڈ کی سی ہوتی ہے لیکن میرا جواب ہمیشہ خان صاحب والا ہی ہوتا ہے ”خوچہ چیں کرو یا مییں کرو ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے“ اسی ٹائپ کے ایک سیاستدان کا اگلے روز غصہ بھرا ٹیلی فون موصول ہوا وہی شکوے شکائتیں وہی حکائیتیں آخر جب لاجواب ہوگئے تو آخری وار کیا بندہ برادری کا ہی خیال کرلیتا ہے اتنی لمبی تقریر کے جواب میں ایک ہی گزارش کرسکا کہ اسی برادری ازم،فیورٹ ازم نے تو ہمیں ا س مقام تک پہنچایا ہے ہم کرپٹ کو کرپٹ کی بجائے راجہ‘ چوہدری اور ملک وغیرہ وغیرہ کے خانوں میں رکھ کر دیکھتے ہیں اور”ابابہشتی چوری کرنے گئے اور وہ جہنمی نماز پڑھ رہا تھا“کہ مصداق اگر بندہ اپنی برادری ذات قبیلے یا کسی اور طرح قریبی ہو تو ہم اس کی برائیوں سے صرف نظر کر جاتے ہیں حالانکہ انسانیت اور قومیت سب سے بڑی برادری اور ذات ہے میری ڈکشنری میں اسے بڑے قبیلے، ذات یا برادری کا نقصان کرنے والا خواہ میرا کتنی ہی قریبی کیوں نہ ہو میرے قلم کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور کوئی رشتہ داری نہیں دوسرا سوال بلکہ واویلا یہ تھا کہ اتنے عرصے بعد بے نظیر صاحبہ کو وطن کی مٹی چومنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے اس پر اتنی کڑی تنقید کیوں جواباً عرض کیا کہ بی بی اگر ”سیاسی حج“کرکے واپس تشریف لاتیں اوران کے نامہ اعمال میں امریکہ و برطانیہ نوازی کی بجائے سیاسی جدوجہد، اصولی موقف پر ڈٹ جانے کا تو شہ ہوتا تو میرے سمیت کسی کی کیا مجال تھی کہ ان کے استقبال پر آنکھیں بچھانے کی بجائے قلم سے تنقید کے پھول بچھاتا۔ڈیل یا ڈائیلاگ کی بحث بلکہ بکواس کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف مذاکرات کاروں کے بائیو ڈیٹا (سی ویز) پر نظر ڈالنے سے ہی بات بڑی حد تک واضح ہوجاتی ہے ایک طرف رحمان ملک دوسری طرف طارق عزیز۔ ایک طرف آئی ایس آئی دوسری طرف بش بھائی ان مذاکرات میں امین فہیم جیسے سنجیدہ سیاستدان ہوتے تو بھی مذاکرات کا نتیجہ مختلف نہ ہوتا لیکن کم از کم مذاکرات کی آبرو بچ جاتی۔
لیکن انگریز کی The اور پنجابی کا ”دا“ جتھے لگدا ہی اتھے لا (جہاں لگ سکے وہاں لگا) کے اصول پر کارفرما ان سیاسی(حکومتی اور اپوزیشن) رہنماؤں کو کیا معلوم کہ ساکھ کس چڑیا کا نام ہے اور کریڈیبیلٹی کس بلا کو کہتے ہیں یہ تو بش کو اپنی ساکھ اور کونڈا لیزا رائس کو ہی بہت بڑی بلا سمجھتے اور مانتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو عوام کا سیاسی شعور جو اتنا بلند ہوا کہ بغیر سوچے سمجھے لاکھوں کی تعداد میں استقبال کرنے پہنچ جاتے ہیں چاہے اس میں جان ہی چلی جائے۔
ان حکومتی اور اپوزیشن سیاستدانوں کو جو 150 افراد کی جانیں گنواکر بھی فرینڈلی فائیرنگ میں مشغول ہیں اور عزیز ہم وطنوں کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جب غدر مچتا ہے تو اچھا خاصا رعب دبدبے والا مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر بھی بہادر رہتا ہے نہ شاہ؟بلکہ صرف ظفر (وصی ظفر نہیں) رہ جاتا ہے اور ظفر بھی ایسا جو کہتا ہے!
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
وطن عزیز پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں قیادت کے حوالے سے اتنا بڑا بحران ہے جہاں تضادات ہوں گے وہاں بحران نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا یہ ملک خدا کا ہے اس میں نظام انگریز کا ہے حکم امریکہ کا چلتا ہے اور حکومت فوج کرتی ہے بحران کیلئے اور کتنے تضادات کی ضرورت ہوتی ہے؟

Exit mobile version