عشق عربی زبان کا مذکر لفظ ہے۔ یہ ایک کیفیت کا نام ہے جس کسی پر عشق کی یہ کیفیت غالب آ جاتی ہے اُسے عاشق کہتے ہیں جس کی جمع عشاق یا عاشقان ہے۔ عشق کے مقابلے میں محبت، پیار اور الفت جیسے الفاظ بہت معمولی لگتے ہیں۔ عشق کی کیفیت عام طور پر یک طرفہ ہوتی ہے۔ انسان جب کسی کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے محبوب کی پسند اور نا پسند کو اپنی زندگی کے ہر معاملے میں ترجیح دینے لگتا ہے۔ عاشق ہونے کا دعویٰ کرنا تو بڑا آسان ہے لیکن اس کے تقاضوں پر پورااترنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوتا ہے۔ اگر کوئی عاشق ہونے کا دعویدار اپنے محبوب کی رضا اور منشا کو پیش نظر نہ رکھے تو اس کا عشق محض منافقت پر مبنی ہوگا۔ سچا عاشق وہ ہوتا ہے جو ہر وہ کام کرنے کی خلوص نیت سے پوری کوشش کرے جس کا حکم اس کے محبوب نے دیا ہواور ہر ایسے فعل سے باز آ جائے جس سے اس کے محبوب نے منع کیا ہو۔ ہم مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی مسلمان جو عاشق رسولؐ ہونے کے دعویدار ہیں ذرا اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمدؐ نے ہمیں جن کاموں کا حکم دیا ہے کیا ہم ان پر واقعی عمل پیرا ہیں اور جن باتوں سے منع کیا ہے کیا ہم ان سے باز آ چکے ہیں؟ اللہ کے رسولؐ نے اپنی امت کو علم کے حصول اور غور وفکر کی بار بار تلقین فرمائی اور اپنے آخری خطبے میں فرمایا کہ”خبردار میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔ لوگو میں تم میں وہ چیز چھوڑ چلا ہوں کہ اگر اسے مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ قرآن اور سنت رسول اللہ ہے“۔
آج پاکستانی مسلمانوں میں کتنے عاشق رسولؐ ایسے ہیں جنہوں نے کتاب ہدایت یعنی قرآن پاک اپنی زبان (اردو، پنجابی، بلوچی، پشتو یا سرائیکی) میں مکمل پڑھا ہے اور اس مکمل ضابطہ حیات سے روشنی اور رہنمائی حاصل کی ہے یا سیرت النبیؐ کا مطالعہ کر کے راہ ہدایت اختیار کی ہے۔ اگر کوئی شخص عاشق رسولؐ ہونے کا دعویدار ہے اور اس نے اپنے رسولؐ پر اتاری جانے والی کتاب کو اپنی زبان میں سمجھ کر نہیں پڑھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عشق سچا نہیں بلکہ اس کو بہکایا گیا ہے اوراسلام کے کسی ٹھیکیدار مولوی نے اس کی برین واشنگ کی ہے اور اسے اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنانے سے محروم رکھا گیا ہے۔ سچے عاشق رسول ہونے کے دعویدار کسی ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل سمجھتے ہیں۔ سچے عاشق رسولؐ جھوٹ نہیں بولتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے، امانت میں خیانت کے مرتکب نہیں ہوتے، صفائی کو نصف ایمان سمجھتے ہیں، ملاوٹ نہیں کرتے، کم نہیں تولتے، ہمیشہ حق اور انصاف کا ساتھ دیتے ہیں، غرور اور تکبر میں مبتلا نہیں ہوتے، غصے کو حرام سمجھتے ہیں، ہر ایک سے اخلاق سے پیش آتے ہیں، منافقت اور مکر و فریب کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بناتے ہیں، کسی کا حق نہیں مارتے ہیں، اپنے ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں، کسی مفاد پرست مذہبی رہنما یا اسلام کے کسی ٹھیکیدار کی پیروی کی بجائے قرآن و سنت کی پیروی کرتے ہیں، اگر ہم اسوہ حسنہ کے آئینے میں اپنے عاشق رسولؐ ہونے کا جائزہ لیں تو ہر حقیقت واضح ہو کر ہمارے سامنے آ جائے گی۔ برطانیہ اور یورپ میں ہر سال سینکڑوں غیر مسلم قرآن پاک کا مطالعہ کرنے اور سیرت النبیؐ پڑھنے کے بعد مسلمان ہو جاتے ہیں اور یہ لوگ کسی مولوی یا اسلام کے کسی ٹھیکیدار کی پیروی کی بجائے صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں اور بہت راسخ العقیدہ مسلمان کے طور پر شاندار، باکردار اور اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق مطمئن اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں، ان نو مسلموں کو حیرت ہوتی ہے کہ جن پیدائشی مسلمانوں نے زندگی بھر قرآن پاک کو اپنی زبان میں ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھا وہ کس طرح اسلام کی تعلیمات کو سمجھ یا ان پر عمل کر سکتے ہیں۔ ان نومسلموں کا خیال ہے کہ قرآن پاک کو صرف عربی زبان میں پڑھنے سے ہی نہیں بلکہ اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہی مسلمانوں کی زندگی میں برکت اور تبدیلی آ سکتی ہے۔
مسلمانوں کو لفظی دعووں سے نہیں بلکہ اپنے شاندار کردار سے ثابت کرنا چاہئے کہ اسلام ایک بہترین مذہب ہے۔ اسلام کے غالب آ جانے کے بعد کیا مدینے کی ریاست میں غیر مسلموں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جاتا تھا جو آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں حقیقی اسلامی اقدار اور جمہوری روایات تیزی سے روبہ زوال ہیں۔ تعلیم و تربیت کے فقدان اور بحران کے باعث آبادی میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور ایسا ہجوم تیزی سے اپنی تعداد بڑھا رہا ہے جس میں عدم برداشت، جہالت اور جنونیت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے اور یہ اسلام کے ان نام نہاد ٹھیکیداروں کی سوچی سمجھی سازش کا شاخسانہ ہے جن میں سے کچھ کے اسلاف نے تو ہندوستان کی تقسیم کے بعد یہ بھی کہہ دیا تھا کہ شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہیں۔ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان کا نام بدنام کرنے والے ان مذہبی ٹھیکیداروں نے جاہلوں کی برین واشنگ کی جو فیکٹریاں لگا رکھی ہیں اب ان کا سدباب ناگزیر ہو گیا ہے وگرنہ حالات تشویشناک بلکہ خطرناک مستقبل کی خبر دے رہے ہیں۔ اگر ہمارے ارباب اختیار کی آنکھیں اب بھی نہ کھلیں تو یہ ہجوم ہمارے ہر طرح کے ملکی اور قومی مفادات کو دیوار سے لگا دے گا۔اسلام کی ٹھیکیداری کا جو رجحان پاکستان میں پنپتا رہا ہے یہ رجحان دنیا کے کسی اور مسلمان ملک میں سرے سے نظر نہیں آتا اور نہ ہی عدم برداشت کا ایسا رویہ کسی اور مسلم ملک میں پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ برطانیہ اور یورپ کے ایشیائی آبادی والے علاقوں میں جگہ جگہ پر مسجدیں، گوردوارے اور مندر قائم ہیں، مقامی کونسلیں کسی بھی مذہب کی عبادت گاہوں کی تعمیر کی اجازت دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتیں بلکہ 12ربیع الاول اور عاشورہ محرم کے روز جلوس اور ماتم کے اجتماعات کے موقع پر سیفٹی اور سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں اور مقامی آبادی کو ان اجتماعات کے بارے میں پیشگی آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ انہیں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس وقت دنیا کے 193ممالک میں سے 100ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمان ایک اقلیت کی حیثیت سے آباد یا مقیم ہیں لیکن ان غیر مسلم ممالک کے کروڑوں اقلیتی مسلمانوں کو وہاں ہر طرح کی مذہبی آزادی اور سہولت حاصل ہونے کے ساتھے ساتھ مساوی حقوق بھی میسر ہیں اور ایسے مساوی حقوق اور مذہبی آزادی کا تصور پاکستان کی اقلیتوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا۔ اگر پاکستان کے مسلمان دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک امت مسلمہ سمجھتے ہیں اور جمعہ کے اجتماعات میں اس امت مسلمہ کی سلامتی اور اتحاد کی دعائیں مانگتے ہیں تو انہیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ وطن عزیز میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ناورا سلوک پر ان مسلمانوں کے دل بہت دکھتے ہیں جو خود غیر مسلم ممالک میں اقلیت کے طور پر ہر طرح کی آسانی اور سہولت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ اقلیتی مسلمان اس حقیقت پر بھی حیران ہوتے رہتے ہیں کہ اسلام کے جن سنہری اصولوں پر مسلمانوں کو عمل کرنا چاہئے ان کو غیر مسلم ممالک کے لوگوں نے اپنا رکھا ہے۔ اسی لئے ترقی اور خوشحالی ان کا مقدر بن چکی ہے۔ مثلاً پنجگانہ نماز ہمیں وقت کی پابندی کا احساس دلاتی اور سبق سکھاتی ہے لیکن ہماری روز مرہ کی زندگی کے معمولات اور تقریبات میں کبھی کوئی وقت کی پابندی کا خیال نہیں رکھتا بلکہ غیر مسلموں نے وقت کی پابندی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا رکھا ہے۔ نماز ہمیں جس ڈسپلن اور نظم و ضبط کا درس دیتی ہے ہماری عام زندگی پر اس کا ذرا سا بھی اثر نہیں پڑتا جبکہ مغربی معاشروں نے ڈسپلن اور نظم و ضبط کو اپنی تربیت میں شامل کر رکھا ہے۔ فرمان رسولؐ کے حوالے سے یہ بات اکثر مسلمان اور خاص طور پر تجارت پیشہ مسلمان ضرور جانتے ہیں کہ ”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“۔ لیکن کیا پاکستان میں کھانے پینے کی کوئی ایسی چیز میسر ہے جس میں ملاوٹ کا امکان نہ ہو جبکہ غیر مسلم معاشروں اور ملکوں میں دودھ سے لے کر شہد تک کسی بھی شے میں ملاوٹ کا تصور ہی ممکن نہیں۔ اگر ہم واقعی سچے عاشق رسولؐ ہیں تو قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھیں اور کسی مذہبی ٹھیکیدار اور مفاد پرست مولوی کی پیروی کی بجائے اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔ وہ کام کریں جن کا حکم ہمارے رسولؐ نے دیا ہے اور وہ کام کرنے سے باز رہیں جن سے ہمارے نبی آخر الزماں ؐ نے منع فرمایا ہے۔ یہی عشق رسولؐ کا تقاضا ہے اور یہی عشق رسولؐ کا ثبوت ہے۔