Tarjuman-e-Mashriq

عبّاسیہ اور گھمسان کارن

پی ایم اے کے دو تلواروں کے سائے میں اللہ کی مدد اورفتح کی بشارت دیتے سرخ فارمیشن سائن کی جگہ ہم نے اپنی نئی نکور افسرانہ وردی پر برفانی تیندوے والا فورس کمانڈ ناردرن ایریاز کا کالا بیج لگایا تو 14 عباسیہ ہمارا نیا گھر تھا۔ 1947 میں نواب سرصادق محمدخان عباسی کی ریاست بہاولپور کےپاکستان سےالحاق کےوقت ریاستی توپخانہ 14 فیلڈ رجمنٹ کی صورت میں پاکستان آرمی کا حصہ بنا اور 14عباسیہ کہلایا۔ یونٹ کاخوبصورت مونوگرام ایک توپ کی اوپرکے رخ سے لیے گئے عکس کی
آؤٹ لائن ہے اورنیچےان محاذوں کےنام جہاں جہاں یونٹ برسرپیکاررہی۔

ان میں سب سےپہلانام رن آف کچھ کاہے۔ رن کی بات ابھی کچھ دیرمیں کرتےہیں۔ ہم یونٹ کےساتھ ہمالیہ کےپہاڑوں سے اترے توفوج کے سسرال سیالکوٹ چھاؤنی کے بکھیڑوں سے الگ تھلگ وزیرآباد روڈ پر صدقے تمھارے کی شانوکے موضع ڈھلم بلگن کے پڑوس میں یونائیٹڈ سٹیٹس آف اگوکی کے ماڈل ٹاؤن کے عین قلب میں پڑاؤڈالا۔سیاچن کے محاذ سے اترکرزمانہ امن کا سکون میسرآیا توباقی چیزوں کےساتھ رجمنٹ پراپرٹی کی سٹاک ٹیکنگ بھی شروع ہوئ۔ جان کی امان پائیں تو عرض کریں کہ رجمنٹ پراپرٹی یونٹ کے کھانگڑمیجروں کاپسندیدہ سبجیکٹ رہاہے۔ ماضی قریب و بعید کےکچھ اصلی کچھ تصوراتی قصےاور کچھ بڑھکیں جن کی تان اس بات پرآکرٹوٹتی کہ اُنّی سوتُنّی میں کس کی لاپرواہی کےنتیجےمیں رجمنٹ پراپرٹی کی نوادرات زمانےکی دھول میں کہیں کھوگئیں۔

صاحب یہاں رنجیت سنگھ کے جرنیلوں سے کوہ نور نہ سنبھالاگیا ، ایک فیلڈ آرٹلری رجمنٹ کے ہما شما کس قطارمیں ہیں۔ چلیں کوہ نورتو پھر ٹاورآف لنڈن میں بہاردکھا رہاہے عباسیہ کے گم کردہ سامان کی تو گرد بھی نہ ملی۔ اگوکی کی روشن دوپہروں میں ان لمبے ہوتے سٹا ک ٹیکنگ سیشنوں میں سامنے بچھی اپنی بہاردکھاتی چائنہ اور سلورکراکری اورکٹلری کےجلومیں بیٹھے ٹوآئی سی   (ہم نام نہیں بتائیں گے) کہاکرتےتھےکہ اچھےوقتوں میں عباسیہ کی پراپرٹی ایک دس ٹن کا سول ٹرک تھاجو امتدادزمانہ کی نظرہوگیا۔اب صاحب وہ سوئی ہویا ٹرک آنکھ اوجھل پہاڑاوجھل والی بات ہے۔
ہمارے پڑھنے والے اگر اس گمشدہ ٹرک بشمول سامان متعلقہ وغیرمتعلقہ کوبمعہ ٹوآئی سی  کچھ دیر کے لیے نظراندازکرنے پر آمادہ ہوں تو ہم ان کو رن آف کچھ کی کچھ گم گشتہ یادوں سے ملواتے ہیں۔

سندھ اورکچھ کےدرمیان رن کامتنازعہ علاقہ خشک نمکین اورآنکھوں کوخیرہ کردینےوالی سفید ریتلی بھربھری مٹی کابنجرویرانہ 1965 کےاوائل میں پاک بھارت تنازعہ کی وجہ بنا۔ دونوں طرف کی فوجیں جب آگےکی چوکیوں پر دفاع لینےکے لیےبڑھیں تو 14 عباسیہ بھی 51 بریگیڈ کی یونٹوں کے شانہ بشانہ محاذپرتھی۔
تھرکےریگزارمیں ایک شہرمٹھی ہے۔ ہمارےگروسلمان رشیدبتاتےہیں یہ نام گئےوقتوں کی کسی مٹھاں کےنام پرہے۔ توصاحبومٹھاں کےمٹھی سے جنوب مغرب کی سمت 8 اپریل کونصف شب سےکچھ پہلے14عباسیہ کےلیفٹیننٹ کرنل اقبال ملک 51بریگیڈکمانڈرکےساتھ جمع گاہ پہنچے۔ یہاں سےکچھ دیرمیں سردارپوسٹ پرحملہ کیاجاناتھا۔

حملے کے پہلےمرحلےمیں 18 پنجاب اور 8 فرنٹیئرفورس کی دو دوکمپنیوں نے سردارپوسٹ کے کیمپ  سے  اورکیمپ بی  پرقبضہ کرنا تھا۔ دوسرےمرحلےمیں 6 بلوچ نےکیمپ سی  کو ڈھیرکرناتھا اوراس کے نزدیک پوسٹ سے تھوڑا ہٹ کےشالیمارپوسٹ قابوکرنی تھی۔ یہ منصوبہ صرف کاغذوں پرتھااسکی زمینی شکل ابھی سامنے آنی تھی۔
صاحب ایک امریکن ایروسپیس انجینیئرایڈورڈاے مرفی سے ایک مشہورمقولہ منسوب ہے جس کامفہوم کچھ یوں ہےکہ ہروہ چیزجس کے غلط ہونے کا احتمال ہے لازماً غلط ہوگی۔ ہمیں تو لگتاہے کہ مرفی صاحب نے اپنے قول میں ہمارے سیزنڈ محاورے کا چربہ کیا ہے، ’سرمنڈاتے ہی اولے پڑے‘۔ بہرکیف اردومحاورے یا مرفی کے قول کےعین مطابق 18پنجاب سٹارٹ لائن پرتاخیرسےپہنچی اوراپنےآرٹلری آبزرورلیفٹیننٹ ریاض کوکہیں پیچھےچھوڑآئی۔ حملےکےوقت کورات دوبجےتک بڑھانا پڑا اور14عباسیہ کےلیفٹیننٹ ریاض کی جگہ مارٹربیٹری کےکیپٹن نذرحملےمیں شامل ہوئے۔

رات کی تاریکی میں کیا جانے والافوجی اصطلاح میں یہ ایک سائلنٹ اٹیک یعنی پوشیدہ حملہ تھا۔ 18پنجاب نےپیش قدمی کچھ اتنی عمدگی سےکی کہ انڈین سنتری کوتب پتہ چلاجب لیفٹیننٹ فرخ کھٹلانی کی براووکمپنی ہدف پرپہنچ گئی۔ کیمپ  اے کےآدھےمورچےفتح ہوگئےمگر باقی آدھےمورچوں پرکوئی حملہ نہ آناتھا نہ آیا۔
ہوایوں کہ رات کی تاریکی میں 18پنجاب کی دوسری کمپنی کیمپ بی  کی جانب جانکلی جو 8ایف ایف کاہدف تھا۔ 8فرنٹیئرفورس کی بھی ایک کمپنی مزیددائیں ہوتے ہوتے ہدف سے بالکل ہی باہرہوگئی۔ اب 18 پنجاب اور8 ایف ایف کی کمپنیاں آگے پیچھے کیمپ بی  کے مقابل آتوگئیں مگردیرہوجانے اور اندھیرےکی افراتفری میں بولا گیا ہلّہ کیمپ بی  کے طاقتوردفاعی مورچوں کو نہ ہلا سکا۔

کیمپ بی  نےنہ صرف اپنےاوپرآنےوالی لہرکوروکابلکہ کیمپ اے  پرکارگرفائرگرایا۔ اس حملےمیں لیفٹیننٹ کھٹلانی کیپٹن نذر صوبیدارمعوذ اوربہت سی قیمتی جانیں کام آئیں۔ ایک تماشایہ ہواکہ کیمپ  بی پرجاری گھمسان کی لڑائی میں سردارپوسٹ کےکمانڈرمیجرکرنیل سنگھ اوران کے ہیڈکوارٹر نےہتھیارڈال دئیے۔ لگ بھگ صبح کے ساڑھے چاربجے جب بریگیڈکے حملے کا پہلامرحلہ ناکام ہوچکاتھا اچانک 6 بلوچ نے خبردی کہ انہوں نے دوسرے مرحلے کی شالیمارپوسٹ پرقبضہ کرلیاہےکیونکہ دشمن وہاں سے پس قدمی کرگیاتھا۔ بریگیڈ کمانڈرنے 8 ایف ایف کی دوکمپنیاں 6 بلوچ کو دے کر انہیں کیمپ سی  پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔
ہمارے 14 عباسیہ کےگمشدہ لیفٹیننٹ ریاض اب 6 بلوچ کےحملےمیں ان کےساتھ تھےمگرتوپوں کےساتھ رابطےوالاوائرلیس سیٹ ان کےپاس نہیں تھا۔ دن گیارہ بجےسردارپوسٹ سےمشین گن کاکاری فائرآیاتو لیفٹیننٹ ریاض نےکمال مہارت سے 8 ایف ایف کےوائرلیس سیٹ  کااستعمال کرتےہوئےعباسیہ کی توپوں کاموثرفائرمنگوایا۔تھرکےریگزارمیں شام اتری تو 6 بلوچ ابھی بھی ہدف سےدورتھی۔

بریگیڈ کمانڈر نے بلوچ سی او  کو پیغام بھیجاکہ وہ آپریشن مزید آگے بڑھانےسےپہلےان کاانتظارکریں۔ بریگیڈیراظہرچھ بلوچ نہ پہنچ سکےاورانجام کارسردارپوسٹ پرحملے کوملتوی کردیا گیا۔ سردارپوسٹ کےمورچوں پر کیابیتی وہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔
انڈین1مہررجمنٹ کےکمانڈنگ آفیسرکرنل سندرجی کامانناہےکہ اگر پاکستانی بریگیڈکمانڈرتھوڑازور اورلگاتے تو سردارپوسٹ ان کے ہاتھوں میں ہوتی۔ پوسٹ پر انڈین ریزروپولیس کی تین کمپنیاں اور بٹالین ہیڈکوارٹرتھا۔ وہی بٹالین ہیڈکوارٹرجو میجرکرنیل سنگھ اورباقی سپاہیوں کےساتھ جنگی قیدی بن گیا تھا۔ ان میں کیمپ  اے  والی کمپنی تو پہلے ہی ہلّے میں ڈھے گئیں تھی، کیمپ  بی والوں نے زورتو لگایا مگر ان کے بھی قدم اکھڑچلے تھے۔ اگلے دن کی شام جب 6 بلوچ حملے کوآگے بڑھانے کے لیے بریگیڈ کمانڈرکی منتظر تھی سردار پوسٹ کی باقی ماندہ فوج پوسٹ چھوڑ کرپیچھے وگوکوٹ کی طرف پس قدمی کررہی تھی۔

سردارپوسٹ پاکستان کےمقدرمیں نہ تھی مگرہندوستانی بھی اس سےبےوفائی کرگئے۔ ایک گھمسان کے رن کےبعد سندھ اورکچھ کے بارڈر کی یہ پوسٹ کچھ دن بےیارومددگارپڑی رہی۔ کچھ دن بعدایک انڈین ہوائی آبزرویشن پوسٹ نےاسےخالی دیکھا تو2سکھ لائیٹ انفنٹری اور 1مہر کےسپاہیوں نے دوبارہ یہاں ڈیرے ڈال لیے۔


رن سے فی الوقت اتناہی۔ کچھ دن بعد 14عباسیہ نے ستمبرکی جنگ میں راجستھان کے محاذ پر مناباؤ پرچڑھائی کرنے والی فوج کو فائرپاوردینی تھی جس کے زورپرانہوں نے تاریخ کے صفحوں پر رقم ہونے والی مناباؤ ریلوے اسٹیشن کی تصاویرلینی تھی، مگر وہ قصہ پھر سہی۔
 

Exit mobile version