Tarjuman-e-Mashriq

عمران خان کے بعد۔۔۔۔۔؟؟؟

میری دانشور دوست پروین کہتی ہے کہ جس کے ہاتھ میں قلم، منہ میں زبان اور جیب میں آئی فون ہے وہ صحافی، تجزیہ نگار، تبصرہ نگار، دانشور، محقق اور عالمی امور کا ماہر ہے۔ نوائے وقت میں لکھنے والے کالم نگار تصدق اے راجہ کالم لکھنے سے پہلے کسی پیر، سائیں سادھو یا کسی روحانی شخصیت کے آستانے پر گرم چائے پینے جاتے ہیں اور پھر اس روحانی شخص کی مخفی باتوں سے کوئی نتیجہ اخذ کرکے اپنے کالم کو ملٹی کلر روپ میں پیش کرتے ہیں۔ تصدق راجہ اور پروین میں فرق یہ ہے کہ وہ گھر بیٹھ کر اپنی پسند کے بابوں سے دل کی تاریں جوڑلیتی ہے اور عقل کے شیشے سے دیکھ کر شعور کے پردے پربابے کی تصویر اور تصور نقش کر لیتی ہے۔ پروین کا جب جی چاہتا ہے میرے گھر آجاتی ہے اور خو د چائے بنا کر پتی ہے۔ اُس کی چائے اور چاہت کا ذائقہ الگ ہے۔
آجکل وہ حسن نثار کی طرح غصے میں رہتی ہے مگر دونوں کے غصے میں فرق ہے۔ حسن نثار کا غصہ بناوٹی اور فنکاری کے زمرے میں آتا ہے۔ کبھی وہ اپنے آپ کو علامہ اقبال ؒ سے بڑا مفکر، مدبر اور دانشور بنا لیتا ہے تو کبھی بنگالی شاعر کی نعت چوری کر کے اپنے نام کر لیتا ہے۔ پہلی بیوی اور بچے دھکے کھا رہے ہیں اور دوسری کے گن گاتا ہے۔ اپنی قیمتی گھڑی کی نمائش کے لئے آستین چڑھا کر رکھتا ہے اور پھر بار بار گھڑی کو گھماتا ہے۔ پروین کہتی ہے کہ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ اور چھوٹے پن کی نشانی ہے۔ وہ اشفاق احمد ؒ، واصف علی واصف ؒ، محمود ہاشمی، جی ایم میر، ممتاز ہاشمی، ولی اللہ کاشمیری، پروفیسر اللہ لوک اور ڈاکٹر حمید اللہ جیسے لوگوں کی مثال پیش کرتی ہے جنہوں نے علاقائی، ملکی اور عالمی سطح پر اپنی قلم، زبان اور کردار کے حوالے سے شہرت پائی اور لوگوں کی زندگیاں بدلنے اور راہ راست پر لانے کا فریضہ سرانجام دیا۔ ولی اللہ کاشمیری کہتے ہیں کہ جس شخص نے ایک آدمی کو تیرنا سکھلایا، سیدھا راستہ دکھلایا، ایک گھونٹ پانی دیا، روٹی کا ایک ٹکڑا دیا یا ہنس کر بات کی گویا اُس نے اللہ کا حکم مانا۔
نوائے وقت کی کالم نگار عائشہ ملک کے طویل کالم ”پروفیسر اللہ لوک بھی راستہ دکھلاتے ہیں“ پر اکثر بحث کرتی ہے۔ یہ کالم اُس کی ڈائری میں پر چسپاں ہے۔ کہتی ہے کہ ایسے لوگ بھی اس معاشرے میں ہیں جو راستہ تو دکھلاتے ہیں مگر حسن نثار جیسے خود ساختہ دانشوروں کی طرح اپنی تشہیر نہیں کرتے۔ حسن نثار جیسے لوگ نا شکرے اور ڈھونگی ہیں۔ حسن نثار خو د کہتا ہے کہ اُس نے سعود ی عرب جا کر دولت کمائی مگر وہ ایسا نا شکر ہے کہ اُسے سعودی عرب کے درویش بادشاہ اور عالم اسلام کے ہیرو شاہ فیصل شہید کے نام سے نفرت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرا تو لائلپور ہے میں اسے فیصل آباد نہیں مانتا۔ وہ نہیں بتلاتا کہ مارک لائل اُس کا کیا لگتا تھا۔ لائلپور تو انگریز کے نام پر تھا اس سے پہلے بھی تو اُس کا نام کسی ہندو کے نام پر ہوا ہو گا اُس کا نام کیوں نہیں لیتے۔
پروین حقیقت پسند، سچی کھری، بولڈ اینڈ بلنٹ ہے۔ اُس کا غصہ منافقانہ اور عیارانہ نہیں۔ وہ کہتی ہے کہ آجکل میڈیا پر شور ہے کہ امریکہ کے بعد افغانستان اور پاکستان کا کیاہوگا؟ امریکہ کے جانے بعد افغانستان میں وہ ہی ہو گا جو طالبان کی مرضی ہوگی۔ طالبان تجربہ کار، زیرک اور ہر لحاظ سے باخبر اور معاملات کی پیچیدگیوں سے آگاہ ہیں۔ پاکستان کے ساتھ کیا ہوگا؟ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کے بعد پاکستان میں کیا ہوگا؟ حامد میر نامی نام نہاد دانشور اور نظریہ پاکستان کا دشمن کہتا ہے کہ صحافی صاف شفاف، محب وطن او ر جرات مند ہیں۔ ظاہر ہے کہ جن صحافیوں کوساری دنیا کی پاکستان، اسلام اور فوج مخالف ایجنسیاں پال رہی ہیں اور جنکا لیڈر حامدمیر ہے، جس کے گلے میں بنگلہ دیشن کا طوق تمغہ سچا ہے وہ مجیب الرحمن سے کیا کم ہے؟ اگر کسی شخص کو اس پر اعتراض ہو تو وہ مرحوم وفاقی سیکرٹری مسعود مفتی کی تحریر ”لمحے“ پڑھ لے اور پھر خود فیصلہ کر ئے کہ مجیب کی بیٹی کے سامنے گردن جھکانے والا حامد میر لارڈولزلی کے سامنے جھکنے والے میر جعفر سے کتنا مختلف ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جنرل مشرف چوہے کی طرح بھاگ گیا۔ بھائی تیرا نواز شریف کس طرح بھا گا ہے؟ تم کہتے ہو فوجی اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیر لیں۔ ڈانگ پھری تو سب سے پہلے تم اور تمہارے ساتھ ڈھور ڈنگروں کی طرح ڈکراتے پھرو گے۔ چند دن پہلے ہی تمہیں کسی نے کہا تھا کہ تم پر گولی جاوید مینگل نے چلائی تھی۔ یہ جاوید مینگل کون ہے اس کے متعلق بھی توکچھ بولو۔غیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس بار تم معافی نہ مانگو اور اپنے بیان پر ڈٹے رہو۔ کیا تم وہ حامدمیر نہیں ہو جس نے امن کی آشاچلائی تھی۔ اور جعلی اجمل قصاب پیدا کیا تھا۔ اسکا مطلب تویہ ہے کہ تم اصل اجمل قصاب کے متعلق بھی جانتے ہو۔ تمہارا ماما قدیر کدھر گیاہے۔ یہ فوج کا ظرف ہے کہ تم جیسے لوگوں کو خاطر میں نہیں لاتی اور جعلی ہیرو بننے کا موقع فراہم نہیں کرتی یہ تم ہی ہو جس نے ارد شیر کاؤس چی اور پرویز ھود بھائی کو اپنے پروگراموں میں مدعو کر کے قائداعظم ؒ کی توہین کی اور نظریہ پاکستان کی مخالفت کی۔
تم نے بڈھ بیرا اور شمسی کا ذکر کیا بلکہ طعنہ دیا۔ مجبوریوں میں غلطیاں بھی شامل ہوتی ہیں جس کا انداز تم جیسے جعلی دانشور نہیں کر سکتے۔ بڈھ بیر کے فیصلے میں مرحوم بھٹو بھی شامل تھے اور شمسی پر کبھی نواز شریف، زرداری اور محترمہ بینظیر نے بھی اعتراض نہیں کیا تھا۔ بلیک واٹر پر تو کبھی تم نے اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی بھٹو مرحوم کا کالا باغ ڈیم منصوبہ ختم کرنے پر کچھ لکھا ہے۔
ایوب خان اور جنرل پرویز مشرف نے کم سے کم سہولیات دیں جو نہیں دینی چاہیے تھیں مگر تب محترمہ بینظیر اور نواز شریف نے بھی اسے درست فیصلہ قرار دیا تھا۔
کونڈا لیزا رائس کی کتاب بھی تم نے پڑھی ہوگی۔ وہ کون تھا جس نے کہا تھا کہ مجھے وزیراعظم بنا دیں اور جو چاہیے لے لیں۔ مشرف تو ڈکٹیٹر تھا تمہارے جمہوریت پسند تو آمروں سے بھی دو ہاتھ آگے جانے کو تیار ہیں۔ نواز شریف لندن بیٹھ کر کیا کر رہا ہے اور کن کن ممالک کے سفارتکار اسے ملنے آتے ہیں۔تم جانتے ہو کہ یہ لوگ سفارتکار نہیں بلکہ اُن ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ افسر ہوتے ہیں۔قوم تم جیسے پاکستان مخالف ہر ملک سے ایوارڈ حاصل کرنے والے بکاؤ صحافی سے جاننا چاہتی ہے کہ نواز شریف جیسا تاجر سیاستدان کسی چیز کا سودا کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس سودے میں تم جیسے صحافیوں کا کمیشن اور کوئی نیا ایوارڈ شامل ہو اُس پر رائے دینا آزادی صحافت کی توہین ہے۔ تم جتنا چیخو، چلاؤ اور سٹرکوں پر پاگلوں کی طرح ناچو، فوج کو اس کی پروہ نہیں۔ فوج کا ظرف دیکھو ذرا اپنی کم ظرفی پر بھی نظر ڈالو۔ آئی ایس پی آر تمہیں اور سلیم صافی سمیت سب بھونپوں کواپنی پر پریس بریفنگ میں مدعو کرتی ہے اور تم لوگ فرنٹ لائن پر بیٹھے اپنی بے عزتی کروا کر واپس آتے ہو۔ پروین کی حامد میر کے کارناموں کی لسٹ طویل اور مبنی بر حقیقت ہے۔
پروین کہتی ہے کہ عمران خان کے بعد کا سیاسی منظر کیا ہوگا، کسی نے اس پر توجہ ہی نہیں دی۔یہ سچ ہے کہ عمران خان قوم سے کیے ہوئے وعدے پورے نہ کرسکا جس کی بڑی وجہ زرداری اور نواز شریف کی پالیسوں سے ہونے والے نقصانات، کرپٹ بیورو کرٹیک نظام، دوسری جماعتوں سے آئے الیکٹ ایبل سیاسی خاندانوں کے چشم و چراغ اور مفاد پرست صنعت کار اور سب سے بڑھ کر مشیروں اور حکومتی امور چلانے والے کارندوں کا غلط چناؤ ہے۔
باوجود اس کے عمران خان آج بھی عوام میں مقبول ہے اور عوام الناس ابھی تک اُس سے پراُمید ہیں۔ ترین اور چٹھہ گروپ سامنے آنے سے بہت سے چہروں سے نقاب اُٹھ چکا ہے جس کا فائد بھی عمران کو ہوگا۔ وہ صحافی جونواز شریف اور آصف علی زرداری کے لنگروں اور صدقہ و خیرات پر جی رہے ہیں عوام انہیں بھی رد کر چکی ہے۔ سلیم صافی اور حامد میر کا بیانیہ جب سے بھارت، افغانستان اور امریکہ میں بکنا شروع ہوا ہے مقامی منڈی انہیں مسترد کر چکی ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کردار بھی مشکوک ہوچکا ہے جبکہ اے این پی اور پیپلز پارٹی نے بر وقت فیصلہ کرتے ہوئے غیر یقینی صورتحال سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔
کوئی صحافی یا اینکر مریم نواز، بلاول اور دیگر سیاسی جماعتوں کے مالکان سے یہ نہیں پوچھتا کہ عمران خان کی حکومت گرانے کے بعد آپ کے پاس ملک کی ترقی، خوشحالی،امن وامان، قومی یکجہتی، معیشت کی مضبوطی، کرپشن کے خاتمے، عدل و انصاف اور انتظامی امور کی بہتری کا کیا پروگرام ہے۔ کیا آپ لوٹ کا مال واپس کردینگے، عدالتوں اور قانون کے آگے سرنڈر کرینگے اور پچھلی چوریوں چکاریوں پر قوم سے معافی مانگ لینگے؟ ظاہر ہے کہ آپ ایسا نہیں کرینگے اور نہ ہی آپ کی ایسی تربیت ہے۔ اگرآپ مل کر الگا الیکشن جیت بھی جاتے ہیں تو عمران خان آپ کو لوٹ سیل لگانے اور ملک لوٹنے کی اجازت نہیں دیگا۔ اسمبلیوں سے ہارنے کے باوجود وہ عوامی فورس سے آپکا کھلا احتساب کر یگا اور یقینا کرپٹ سیاسی گھرانوں کا خاتمہ کر دیگا۔ وہ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر تو نہ بنا سکا مگر اب تمہیں بھی گھر سے بے گھر اور دربدر کر کے ہی دم لیگا۔ عمران خان کے بعد کیا ہو گااس پر ہر سنجیدہ شخص کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ فوج سے درخواست ہے کہ اس بار حامد میر کو معاف نہ کیا جائے یہی ملک اور قوم کے مفاد میں ہے۔اگر سراج الدولہ میر جعفر کو معاف نہ کرتا تو آج ہماری تاریخ مختلف ہوتی۔

 

Exit mobile version