مذکورہ مسئلے کا آسان بلکہ سادہ ترین حل تو یہی ہے عورت اگر مارچ پر مصر ہے تو اسے عسکری اصطلاح میں کوئیک مارچ کا مشورہ دیا جائے حالانکہ اس سے
کیونکہ مذکورہ صنف کا اگر مشورے پر غور والا خانہ خالی نہ ہوتا تو بات یہاں تک پہنچتی کیسے، اپنے موقف پر اصرار اسے قدرت کی طرف سے ودیعت ہوا ہے اس لیے ہم اسے کلی طور پر قصور وار نہیں ٹھرا سکتے، خیر اس مارچ کے مقدمے پر آتے ہیں پہلی گذارش تو یہ ہے یہ مذہب کا مقدمہ ہر گز بھی نہیں ہے مذہب پسند بالعموم اور اسلام پسند بالخصوص(جو بلا وجہ ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں) اس مسئلے میں پنگا لے کر اس مقدمے کو منطقی کی بجائے مذہبی رنگ دے کر مزید الجھا رہے ہیں، یہ سراسر ایک معاشرتی مسئلہ ہے اور اسکا حل بھی معاشرتی اصولوں اور اقدار کے مطابق ہی تلاش کیا جانا چاہئے، عورت اگر نکاح کو ختم کرنے کا نعرہ بلند کرتی ہے تو مرد کو اسکا ہم آواز ہو جانا چاہیے کیونکہ نکاح کے باب میں جتنی ذمہ داریاں اور مشکلات مرد کے حصے میں آتی ہیں عام کو تو چھوڑیں ایک دانشور عورت کو بھی بہت کم اسکا ادرک ہوتا اور جن عورتوں کو اسکا ادراک ہے بلا تفریق مذہب، رنگ ونسل وہ ایسی خواتین کی ہر سطح پر مخالفت میں پیش پیش ہیں ، چند عشروں کی تو بات ہے معاشرتی تانا بانا یوں بکھرے گا کہ اسکا کوئی دھاگا ملے گا نہ سرا ، یوں مذکورہ عورتوں کو اس مطالبے کی اوقات اور اپنی معاشرتی حثیت کا اندازہ ہوجائے گا ، چشم تصور سے ہی اس معاشرے کا جائزہ لیں تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے کہ جس میں عورت کسی کی بہن ہے نہ بیٹی اور بیوی ہونے سے تو خود انکار کر چکی ہے رہی ماں کی بات تو خدا جانے کتنے بچے اسے ماں ماننے سے ہی انکاری ہوں گے کیونکہ اس کے پیچھے وہ ادارہ ہی موجود نہیں جو اسے ماں کے درجے پر فائز کرتا ہے مثلا” سیاسی اصطلاح میں آپ کسی ایسے بندے کو اسپیکر مان لیں گے جس کے پاس کوئی اسمبلی ہی نہ ہو ؟
یوں”میرا جسم میری مرضی” جیسے بے معنی اور عقل سے عاری نعرے سے شروع ہونے والا یہ سفر جب ” ہر ایک عورت ہر ایک کی مرضی ” تک پہنچے گا تو کیسی مضحکہ خیز صورتحال ہوگی، کیونکہ ایک جسم اگر کسی کی ماں ،بہن ،بیوی یا بیٹی کا نہیں صرف ایک عورت کا ہے وہ عورت اس جسم کو خود کسی آگ میں جھونکے یا کوئی اور آگ اسے جلائے کوئی اس پر پانی کیوں ڈالے یا کپڑا کیوں رکھے گا؟ مرد (جسکی جمع عورت کے نزدیک مردود ہے ) کا تو اس صورتحال میں فائدہ ہی فائدہ ہے ماں کی فکر نہ بہن کا غم ،بیٹی کی ذمہ داریاں نہ بیوی کے نخرے ، ہر طرف عورتیں ہی عورتیں کسی پر کسی قسم کا کوئی ٹیگ نہیں ،ماں کا ٹیگ نہ بہن کا ٹیگ نہ بیٹی کا ٹیگ ایک بیوی کے اپنے منصب سے دستبردار ہونے کے اتنے فائدے اور ثمرات پس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے