Tarjuman-e-Mashriq

عہدیوسفؔی

ہماری پہلی  مسکراتی تصویر نوّےکی دہائی کےاوائل کی ایک خوش رنگ شام کی ہے ۔ ہم کچھ  اس لیےبھی پوزبنائےبیٹھےہیں کہ ابو یہ تصویرکھینچ رہےہیں۔ ہمارے
ساتھ وہ ہم جماعت ہیں جودرجہ ہشتم میں امتیازی نمبروں سےکامیاب ہوئے۔ آپ نے ٹھیک پہچانا یہ تقریبِ تقسیمِ انعامات ہے۔
ہماری کہانی اس
کےکچھ دن بعدشروع ہوتی ہے۔۔۔
دوسری تصویر میں آراستہ یہ حسین گلدستہ پاکستان سٹیل کیڈٹ کالج کےپرنسپل ڈاکٹرفضل محمود، وائس پرنسپل ڈاکٹرجاوید اقبال اوراساتذہ کرام ہیں۔ تقسیم انعامات کی تقریب کےروح رواں ہمارےفزکس کےپروفیسرجاویداس فریم میں نظرنہیں آرہے۔ انعامی کتب انہوں نےمنتخب کی تھیں اورہمارےحصےمیں آنے والی کتاب تھی مکتبۂ دانیال کی شائع کردہ یوسفؔی کی آب گم۔
کچھ دن بعد اکیڈیمک بلاک میں پروفیسرموصوف سے مڈبھیڑہوگئی اورچھوٹتے ہی انہوں نے پوچھ لیا کتا ب کیسی لگی؟ کچھ دیرتودماغی جمع تفریق میں لگ گئی کہ فزکس کی ایسی کونسی کتاب ہم نےمستعارلی تھی؟ صاحب ہمیں یہ کہنےمیں کوئی عار نہیں کہ ہم ٹیکسٹ بک قسم کے پڑھاکو تھے، پڑھاکو کیا تھےرٹوّطوطےتھے۔ اس دوپہر ہم نے صاف دیکھا کہ ہمارے جواب سےجاویدصاحب کومایوسی ہوئی تھی۔ ایک حاصل انتخاب کتاب، خودپسندی میں لتھڑا ایک ذہانت کازعم اور ایک استاد کا کتاب کےمندرجات پراستفسار ہماری مطالعاتی زندگی پر اسقدر گہرا اثرچھوڑیں گے ہمیں خود بھی اس کا اندازہ نہیں تھا!
کہانی کے اس حصے کو لکھ دینے کے مقابلے میں سنانا زیادہ سہل ہے تو صاحب آگے بڑھنے سے پہلے سنتے جائیے۔
https://soundcloud.com/sheherzadepodcast/introduction
اور اگر آپ سننے کے خوگرنہیں ہیں تب بھی بلا جھجھک آگے بڑھ جائیے۔ ہم کوشش کریں گے کہ داستان کا تسلسل نہ ٹوٹے۔
یوسفیؔ کی آب گم محض ایک مزاح نگارکی جگ بیتی نہیں تھی کہ وہ تو اور بہت سی دستیاب تھیں۔ سچ پوچھیے ہم پہلےپہل توسمجھ نہیں پائےکہ ایساکیاپڑھ رہےہیں کہ ہماری مسکراہٹ، بےاختیارکھلکھلاکرہنسنے، اچانک اداس ہوجانے یہاں تک کہ آنکھوں کی نمی کسی بھی جذبےکسی بھی کیفیت پر ہمارااختیار نہیں رہا۔بہت دن تو ہم یوسفؔی کو پڑھا کیےاور سردھناکیے۔ یہ بہت بعدمیں پلےپڑاکہ زندگی اپنےبھید بھاؤ ان پرکھولتی ہےجواسے جیےجانےکی طرح جیتےاوربرتتےہیں۔سکھ کی فصل اوردکھ کی بیگارایک راضی بہ رضارغبت سےکاٹ لینےوالوں پراس کااسم اعظم دھیرےدھیرے اترتا ہے۔ اورپھرچہرےکوایک بےنیازمسکان عطاہوتی ہے۔
لفظوں سے وہی کھیل سکتا ہےجس نےایک عمرلفظ کوجانچا، پرکھا، برتا اور بتایاہے تب کہیں جاکرمعانی ومفاہیم کا قلب کھلتاہے۔ مشتاق احمد نے ایک جُگ جینے کی طرح جیا تو اسے وہ نروان نصیب ہواجس نے اردو ادب کو عہد یوسفؔی کی سوغات عطا کی۔ اور صاحب کہہ لینے دیجیے کہ ہرعہد یوسفؔی کا ہی عہد ہے۔  تمبولاکھیلنےوالےاس دلدارہندسے سے واقف ہوں گے جسےپکارنےوالاچورچور،دل کاچور، آل فورکہہ کرپکارتاہے۔ عمرعزیزکی اتنی بہاروں میں کم وبیش تین مختلف ادوارمیں یوسفی کو پڑھااورصاحب ہردفعہ لفظ نےایک نئی چھیل ایک نئی چھب دکھائی او رطبیعت اورنیت دونوں کوایک نئےڈھنگ سےبالترتیب شرمایااور گرمایا۔
ہمارےدلعزیزمصنّف کی تحریرکاخمیرمٹّی میں گندھاہے۔ ان کےتناورکردار زمین سےجنمےہیں۔ جب ان کی جڑیں شریانوں کی جگہ لےرہی تھیں توایک ہجرت کی وحی ان کےدل پراُتری۔ اپنی آنول کاٹ جنم بھومی میں دباانہوں نےنئےدیس کی راہ لی۔ یہیں یہ چھتنارپلکھن بنےاوراب ان کی یادوں کے چھدرے سائے سرحد پارجاتےہیں۔
ایک ڈھنڈار حویلی کے اس سے کہیں زیادہ شکستہ مگر مغلوب الغضب جوالامکھی مالک قبلہ کےنام سے ہیں، ہتھ چھٹ بدمعاملہ، گالیاں دینے پر آئیں تو مادری زبان میں طبع زاد بلکہ خانہ ساز۔ لفظ کے لچھّن دیکھنا چاہیں تو اپنے پڑھنے والوں کے لیے پیش خدمت ہے آب گم سے بقلم خود لکھاگیا یہ ٹکڑا :
 
یوسفؔی کےرکھ رکھاؤکو سہج سہج برتیئے اور ان کےاسلوب سےبیعت ہو جائیے۔ لفظوں کایہ جادوگرآپکو نئی وادیوں میں لےچلےگا۔ اورصاحب پڑھنےکا مزہ تب ہےکہ مزاح کارس قطرہ قطرہ رچے اور پھرایک نامعلوم سمت سےدکھ کی چھایا بوندبوندپلکوں پر اترے۔ زرگزشت سے پیش خدمت ہے اجرک، لفظ یوسفؔی کے ہیں مگر رسم الخط ہماراہے۔
لفظوں سےکھیلنےوالےجادوگرنےجب ان کوایک لوچ دارلہجہ اورایک گدگداتی آوازبخشی تو بزبان یوسفؔی میں اسےکمال تک پہنچایا۔ جیو ٹی وی کےاسی نام پربنائےگئےپروگرام میں یوسفؔی صاحب نےدعوت نامےکی خطاطی پرپھلجھڑی چھوڑی کہ کاتب نےجس پرپیچ اندازمیں کتابت کی ہےبزبانِ یوسفؔی بدزبان یوسفؔی پڑھاجاتاہے۔
ہم ان بلندیوں کو تو نہیں پہنچ سکتے مگر نقل کرنے کی سعی کرسکتے ہیں اور صاحب آپ کو پہلے بتائے  دیتے  ہیں کہ نقل بالکل بھی بمطابق اصل نہیں ہے۔
تصوّف کی وارداتِ قلبی کاظہورآدھی عمراِدھرآدھی اُدھرچالیس کےپیٹےمیں ہوتاہے۔ اس عمرمیں بندہ کھُل کرصرف حال ہی کھیل سکتاہے۔ ہمارے یہ لفظ اس پوڈکاسٹ    کی تمہید ہیں جہاں ہم یوسفؔی کامضمون بائی فوکل کلب پڑھ کرسنا رہےہیں۔ پیش خدمت ہے یوسفؔی بزبانِ ناچیز  
صاحبو! ہربرسی ایک شام غریباں ہےاورہرشام غریباں دمِ واپسیں کوپلٹتی ہےتو یہ مضمون کیافرق ہے!
یوسفؔی کاحساس قلم بچھڑجانےکی تصویرکھینچتااداس کرتا چلاجاتاہے۔ وہ انگارےکی طرح دہکتی بوگن ولیا کی گودمیں سویا سیزرؔ ہو بچے جہاں کسی کو پاؤں نہیں رکھنے دیتے کہ وہاں ان کا ایک ساتھی سورہاہے۔
یا نثاراحمد خاں کےمرگ چھالےکا قصّہ جن کاجواں سال بیٹاایک حادثےمیں گزرگیا۔ جنازےکےدالان میں لارکھنے پر زنانے سے وہ ’بھنچی بھنچی سی چیخ کہ سننےوالےکی چھاتی پھٹ جائے‘۔ نثاراحمد خاں کا دلاسا  ’بیوی!صبر۔اونچی آوازسےرونےسےاللہ کےرسول ﷺ نےمنع کیاہے‘ مگرمیّت کو لحدمیں اتارتےوقت باپ کااپنےسفیدسرپرمٹھی بھربھرکےخاک ڈالنا ۔
یاپھرتمباکوپراپنے استادخان سیف الملوک خان سےبیس سال بعدنوشہرہ کی یخ بستہ سویرمیں ملاقات کہ خانصاحب خاص ملنے کے لیے آئے تھے اور ریتا بنوا کے لائے تھے کہ ’بیٹی نے ساری رات جاگ کرپکایاہے‘
یوسفؔی کا استفسار’اور بھابھی ۔۔۔؟‘
انہوں نےمضبوطی سےابدالی (بندوق) کوتھامااورسرجُھکالیا

اپنی زندگی میں شریک حیات کو وداع کرنے کےسانحے سےخو د یوسفؔی صاحب بھی گزرے۔صاحب کیا کچھ نہ دل پر بیتی ہوگی۔زندگی کےآخری ایام کسی مونس ، کسی دسراہٹ کےبغیرکیسے گزرے ہوں گے یہ کچھ ان کا دل ہی جانتا ہوگا۔ اس کا کچھ ذکرایک انٹرویو میں کرتےہیں جس میں شام کو صبح کرنےکےحیلوں کابیان ہے۔کمرے میں ایک کرسی، ساتھ چھ بائے تین کابیڈاورکچھ بکھری کتابوں کےسواایک زرد چادر۔ یہ تھی متاع فقیر۔ کہنےلگے ’میری بے حد پسندیدہ بسنتی رنگ کی یہ چادرمرحومہ نے بڑے شوق سے اپنے ہاتھ سے اپنے لیے سی تھی۔ آخری دن دمِ وداع یہی چادر اوڑھے ہوئے تھیں۔ رُخسار بھی ہمرنگِ چادر ہوچلے تھے۔سب نے کہا، یہ چادر بھی فقیر فقراکو دے دلادو۔ سو میں نے سب سے اُتاؤلے باؤلے سوالی، دھجا دھاری بیراگی کو یہ کفنی سونپ دی۔‘

کہیں اوڑھ چدریاسجنی گئی
کوئی کفنی پہنے راہ تکت ہے

۲۰ جون ۲۰۱۸  کو اس کفنی پہنے راہ تکنے والے کا بلاوہ بھی آگیا اور ہم نے مٹی کی امانت مٹی کے سپرد کردی۔

ابن انشأ نےیہ لافانی جملہ کہاتھاکہ ہم اردوادب کےعہد یوسفؔی میں جی رہےہیں۔  یوسفؔی صاحب محفلوں میں اکثرکہاکرتےتھےکہ عہدِ یوسفیؔ کا مطلب میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ایسا عہد جس میں ہرایک کی قمیض کا دامن آگے سے پھٹا ہواہے، اورہرایک کی حسرت ہے کاش پیچھے سے پھٹا ہوتا ۔۔۔
صاحب! ہم ڈنکےکی چوٹ یہ ماننےکوتیار ہیں کہ ہمارادامن آگےسےپھٹاہواہے۔ ہمیں ببانگِ دہل اپنادامن پیچھےسےپھٹ جانے کی حسرت کااظہارکرنےمیں بھی کوئی عارنہیں۔ کہہ لینےدیجیےہم خوش قسمت تھےکہ اردوادب کےعہدِیوسفؔی میں جیے
اےدوست تجھ کودامنِ یوسف کاواسطہ
آ جاکبھی تودستِ زلیخا لیے ہو ئے
Exit mobile version