Tarjuman-e-Mashriq

مجاہد اول کون؟

راجہ حبیب جالب- کینیڈا

اس سلسلے میں تاریخی واقعات کو سامنے لانا بہت ضروری ہے آزاد کشمیر کی تاریخ میں دو سب سے بڑے جھوٹ بولے گئے جن میں مجاہد اول اور پہلی گولی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔سب کو معلوم ہے کہ تاریخ لکھانے والوں نے سرکاری فنڈز سے کروڑوں روپے اپنی تاریخی جعل سازی کے لیے خرچ کئے جس میں نیلابٹ کی چوٹی پر ہونے والی ہر سال ایک کانفرنس جس پر خود انکی سیاسی جماعت کہ اہم رہنماووں نے تسلیم کیا کہ سردار عبدالقیوم خان صاحب نے خوب سرکاری خرانے کو ذاتی شہرت کے لئے استعمال میں لانے کے لئے پاکستان کے لیڈران کو مدعو کیا۔۔۔جہاں تک سردار عبدالقیوم خان صاحب کا تعلق ہے وہ نہ تو فوجی ماہر تھے اور نہ ہی ان کا انفنٹری کا تجربہ تھا وہ انڈین برٹش آرمی میں کچھ عرصہ باورچی خانے میں کام کرتے رہے ہیں بعدازاں سپلائی کلرک بنے اس کے بعد موصوف جب فوج سے الگ ہوئے تو سولجر بورڈ میں کلرک کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔۔مگر ۱۹۴۶ء میں موصوف کو ایک صوبیدار کی درخواست پر سولجر بورڈ سے برخاست کر دیا گیا۔۔۔ان پر الزام تھا کہ ان کی پینشن کے پیسے سردار عبدالقیوم خان صاحب کھا گئے ہیں۔۔۔۔یہ رپورٹ ابھی بھی سولجر بورڈ سے حاصل کی جا سکتی ہے۔۔۔۔اس سلسلے میں باغ میں پہلی گولی چلانے والے مولانا محمد بخش تھے جن کا تعلق بھی سردار قیوم صاحب کے گاوں جولی چیڑ (غازی آباد) سے تھا جو ڈوگرہ دور میں نسوار بنانے والے بازار سے مشہور تھا۔۔۔مولانا محمد بخش نے مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد فن حرب میں بھی تربیت حاصل کی وہ ایک نامور نشانہ باز اور اسلحہ کے استعمال میں مہارت رکھتے تھے اور امیر شریعت کے ممتاز کارکن تھے۔۔۔۲۱ اگست 1947ء کو ہڈہ باڑی کے مقام پر ایک جلسہ کا اہتمام کیا گیا جس میں باقی افراد کے ساتھ موصوف کو سالار بنایا گیا موصوف نے اپنی بندوق لیکر جلسہ کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی۔۔۔۔اس دوران ڈوگرہ فوجی اور پولیس نے اس جلسہ گاہ کا گھیراو کر لیا اور فائرنگ شروع کر دی۔۔۔موصوف نے جوابی فائرنگ کی۔۔اس دوران موصوف نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے تمام افراد کو جلسہ گاہ سے بخفاظت نکالا اور خود اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جولی چیڑ کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔۔راستے میں پولیس کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔۔۔موصوف جس گروہ کی قیادت کر رہے تھے اس میں 22 سالہ سردار قیوم خان بھی شامل تھے جو انکے پیچھے جا رہے تھے چنانچہ فوج کے ساتھ یہ پہلا تصادم اور پہلی گولی بھی مولانا محمد بخش نے چلائی اور امیر شریعت نے انھیں مجاہد اول کا خطاب دیا۔۔کفل گڑھ کے پولیس آفیسر تھانیدار محمد قاسم خان کے مطابق مولوی محمد بخش کو آخری وقت تک مجاہد اول کہا جاتا رہا موصوف ایک نیک سیرت شخصیت تھے انہوں نے اپنی بقیہ زندگی اوجہ مسجد میں تعلیم و تبلیغ میں صرف کی اور کبھی دنیاوی شہرت کو نزدیک نہ آنے دیا۔۔۔اس لئے یہ کہنا کہ سردار عبدالقیوم خان نے پہلی گولی چلائی۔۔سراسر جھوٹی داستان اور تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔۔۔چنانچہ باغ سے مجاہد اول اور پہلی گولی چلانے والے مولانا محمد بخش تھے۔۔۔ جاری ہے

Exit mobile version