Tarjuman-e-Mashriq

مجاہد اول کا سرکاری خطاب

راجہ حبیب جالب – کینیڈا

صوبیدار اللہ دتہ خان آف منگ    کا آزادکشمیر کی پانچویں رجمنٹ سے انکا تعلق تھا (ریٹائرڈ برٹش آرمی) موصوف نے کیپٹن بوستان خان کی قیادت میں جدو جہد آزادی کی ابتداء کی۔۔دوسری جنگ عظیم میں بخثیت نائیک ستارہ جرت اور ایم پی بہادر کا خطاب حاصل کیا۔۔۔اور 1947ء کے مجاہد اول جنگی ہیرو قرار پائے۔۔۔۔

غازی مجاہدِاول صوبیدار اللہ دتہ خان آف منگ نے دو اکتوبر 1947ء شام تین بجے ڈوگرہ فوج کے سپیشل مجسٹریٹ جگت رام جو کاہنڈی بلٹ۔تھوراڑ،منگ اور ٹائیں کے ڈوگرہ کیمپ کا دورہ کر کے ڈوگرہ فوج کو احکامات دینے واپس پونچھ شہر کا رح کر رہا تھا۔۔۔مجاہد گلہ سے گزر رہا تھا جہاں پر صوبیدار اللہ دتہ نے 12 بور کی رائفل سے سماسے قتل کر دیا اور یوں ڈوگرہ فوج کے منصوبہ کو قبل ازوقت فاش کر دیا۔۔۔اور علاقے کے فوجیوں کو بروقت کاروائی کرنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔واقعات کے مطابق ڈوگرہ جب منگ پہنچا تو ڈوگرہ ملٹری کو قلعہ منگ اور سکول کی عمارت میں محاصرے میں پایا۔۔۔منگ کی دھرتی تحریک آزادی کی بیس کیمپ رہی ہے۔۔۔جہاں 1832 ء کے شہداء سبز علی خان، ملی خان کی اس عظیم دھرتی پر ڈوگرہ فوج نے زندہ کھالیں اتروائی تھی۔۔۔تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور وہ غلامی میں رہیں۔۔۔۔وہاں ہی ایک درخت آج بھی تاریخی یادگار ہے جہاں پر ان عظیم افراد کی کھالیں کھینچی گئی تھی۔۔۔مگر انہوں نے سر تسلیم خم نہ کیا۔۔۔چنانچہ ڈوگرہ فوج یہاں مکانات کو نذرِآتش کرنے اور قتل عام کا منصوبہ بنا رہی تھی مگر منگ کے کمانڈوروں نے اپنے جاسوس بھیج کر ساری اطلاعات حاصل کر لیں اور یوں صوبیدار اللہ دتہ خان نے جگت رام کو قتل کر کے ان کے اس سارے پلان کو فیل کر دیا۔۔۔۔اور یوں جنگ آزادی کی ابتداء ہوئی۔۔۔۔یہ  پہلی گولی  صوبیداراللہ دتہ خان آف منگ کی تھی جو  مجاہد اول قرار پائے۔۔۔مگر وہ مولانا محمد بخش کی طرح عام آدمی تھے اس لئے ان کے یہ سارے خطاب دن دھاڑے چوری کر کے سردار عبدالقیوم خان مشتاق گورمانی کے مرید بن گئے۔۔۔اور اس کی مدد سے ان عظیم انسانوں کی تاریخی جدوجہد کو اپنے نام کر دیا اور پاکستان کے ہر ڈکٹیٹر کی قدم بوسی کر کے اور انکو تحفے دیکر نوازشات اور اقتدار حاصل کرتے رہے۔۔۔آج ان دو عظیم ہستیوں کا نام و نشان تک نہیں ہے۔۔۔جو دراصل اس ابتدائی مرحلہ میں سینہ تان کراپنے دشمنوں کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔۔۔

Exit mobile version