Tarjuman-e-Mashriq

محمود گامی کا کلام اور یومِ یکجہتیٔ کشمیر

انیسویں صدی کےصوفی اور مجازی دونوں رنگوں میں رنگےکشمیری شاعر محمود گامی کی دو حصوں پر مشتمل ایک شاہکار غزل ہے جس کا عکس ہمارے پڑھنے والے پہلی دو تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں اور ہمارے کشمیری قارئین پڑھ کر دُگنا لطف لے سکتے ہیں.اب ہم جیسے کم علمے اور کشمیری زبان سے نابلد کو تلفظ کی ادائیگی کے لیے رومن رسم الخط کا سہارا لینا پڑ رہا ہے, تکلیف کی پیشگی معذرت

ہماری کشمیری غزل کے دو لازوال شعر کچھ اس طرح سے ہیں

کریو منزء جگرس جائے

چھیم نو مہ مشائی نی

اے میرےمحبوب تیری جگہ تو میرے جگرکے پاس دل میں ہے

یہ بھی بھلاکوئی بھولنے کی بات ہے

چئیتمو چینی پیالن چائے ہتو کال مہ رُن چُھن

پیئیمو رپ بدنس ہائے چھیم نو مہ مشائ نی

وہ نازنین چینی کی پیالی میں چائے لائی ہے

کہ چینی سے بھی نازک اس بدن میں ایک دل ہے جو دُکھی ہے

گامی کے اس شاہکار کو کشمیر کے رنگوں میں رنگی ایک لازوال دُھن کا پہناوا ملا اور یہ گیت امر ہوگیا۔ صاحب جب کشمیر کے گانے والے ان اشعار کو ایک لہک اور لہجے کی کھنک دیتے ہوں گے تو کیا کیا نہ منظر باندھتے ہوں گے,اب ہمارےپڑھنےوالوں کو یہ دُھن کچھ کچھ مانوس لگ رہی ہوگی۔ ہمیں بھی لگی تھی نوے کی دہائی میںجب جمیعت کے رنگوں میں رنگی آزادی کشمیر کی جوانی کے دنوں میں پہلے پہل اس نغمے کو پی ٹی وی پر سُنا تھا۔

گامی کی چینی کی پیالی میں چائے پلاتی محبوبہ کو سنسر کرتے ہم نے جو وطن کی محبت کا تڑکا لگایا تو لگے ہاتھوں گانے کے مکھڑے میں ’بھلاؤں کیسے مناظر تیری بہاروں کے‘ کی اضافت کر ڈالی اور پھر اگلے ہی انترے میں باطل کو اپنے ارادوں سے خبردار کرتے ہوئے کشمیر کے ٹھنڈے میٹھے پانی میں ڈوبی ایک شیریں دُھن کو (فوجی باجے والوں کی زبان میں) تین سو ساٹھ کا ڈگا لگا دیا میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن جنگی ترانے نے دُھن کے ساتھ تو جو کھلواڑ کیا سو کیا گستاخی معاف رخسانہ مرتضیٰ نے کشمیری لہجے اور اسلوب کے ساتھ جو سلوک کیا وہ کس منہ سے کہیں  جوانی دیوانی تو لہو گرماتی’باجے والوں کی باراتانہ‘ دھن کی نظر ہوگئی. بہت بعد میں محمود گامی کے اس شاہکار کی روح کوایک نرم خُو دُھن میں سننے کی توفیق نصیب ہوئی ترانے بناتے، انہیں سنتے سناتے لہو گرماتے، جہاد کی سبیلیں کرتے اور جنگیں لڑتے ایک عمر بیتی۔ مگر عقل والو! کیا ہم نے کبھی کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے لیے تشکیل دی کمیٹی        کی باگ دوڑ کسی ایسے شخص کو بھی سونپی جسکی زبان کشمیری ہو، جو اس سے واقف ہو, کشمیر کو سمجھتاہو

جہاں اقوام عالم متحد ہو کر بیٹھتی اور تنازعے سنتی ہیں، نمٹاتی ہیں یا نہیں اس بحث سے قطع نظر، ہمیں یاد نہیں پڑتاکہ پاکستان کی طرف سے کبھی کشمیر کا مسئلہ کسی کشمیری بولی بولنے والے نے اپنی زبان میں پیش کیا ہو صاحبو کسی مفتوحہ یا مقبوضہ خطے کا بھی دل ہوتا ہے جو دھڑکتا ہے، نبض ہوتی ہے جو سانس لیتی ہے. زبان، لوک لہجے، رس مٹھاس موسیقی کی روح ہوتی ہے جو جب رچ جائے تو رنگ پچکاری میں اوڑھنے والے کو اپنے رنگ میں رنگتی چلی جاتی ہے مقبوضہ زمینیں ابھاگن ہوا کرتی ہیں۔ آپ ان کے لوک رس، کہانیوں اور نغموں سے منہ موڑیں تو پھر یکجہتی کے اظہار کے لیے, بُرا نہ منائیے گا, چوک کے اشاروں پر گاڑیوں کے ہارن بجانا اور پھر اپنے گھروں کو چلے جانا قوموں کا مقدر ٹھہرتا ہے

بات کہیں کی کہیں نکل گئی جس کے لیے اپنے پڑھنے والوں سے معذرت چاہتے ہیں۔ بتانا یہ تھا کہ لگ بھگ ڈیڑھ صدی قبل محمود گامی نے محبت کی ایک شاہکار غزل کہی تھی اور جسے کشمیر جنت نظیر کے پہاڑوں اور ان میں بہتے جھرنوں کی موسیقیت عطاہوئی تھی پانچ فروری کو کشمیرڈے پر اگر اس دھن کو اس کے کشمیری رنگوں میں سن لیا جائے تو کیا برا ہے؟

آج کا دن چینی پیالن میں چائے اور چینی سے بھی نازک بدن میں دھڑکتے دل کے نام، کہ وہ جب جب دھڑکتا ہے ایک نیا دُکھ ایک نئی کسک زمین کی کوکھ کو دان کرتا ہے ۔۔۔

پُوچھنے والے تُجھے کیسے بتائیں آخر

دُکھ عبارت تو نہیں جو تُجھے لکھ کر بھیجیں

یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سُنائیں تُجھ کو

نہ کوئی با ت ہے ایسی کہ بتائیں تجھ  کو

Exit mobile version