تحریر: شمس رحمان
یہ چار مضامین ہیں تحقیق و جستجو کے ۔ وسیع اور عریض میدان ہیں علم کے اور آگہی کے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی تاریخ و پس منظر ہے ، مختلف پہلو ہیں ۔ ہر ایک شے کے بارے میں ہر ایک کا اپنا مخصوص نقطہ نظر ہے اور پھر اس نقطہ نظر کے اندر کئی ایک نقطہ ہائے نظر ہیں۔ علمی اعتبار سے مذہب و سائنس پوری کائنات اور اس کے اندر ہر ایک شے اور عمل و مظاہر کو سمجھتے سمجھاتے ہیں ۔ جبکہ ترقی ایک علم بھی ہے اور عمل بھی ۔ یہ نتیجہ ہے علم و آگہی کا۔ علم و آگہی کے ساتھ ساتھ انسان ترقی کی شاہراہ پر چلتا آ رہا ہے ۔ یہ ایک پہلو ہے ہماری زندگی کا جس کی ان گنت شکلیں ، دائرے اور راستے ہیں۔
اور سیاست؟ سیاست بھی علم بھی ہے اور عمل بھی ۔ سیاست کے علم کو سیاسیات اور سیاست کے عمل کو سیاست کاری کہا جاتا ہے۔ ۔ سیاست کا علم درحقیقت سیاست کے اعمال کے مطالعے کا ہی نام ہے۔ اور ازل سے لے کر اب تک مذہب و سائنس کے علم اور ترقی کے عمل کی پیدائش اور پرورش چاہے اور بنیادوں اور وجوہات اور راستوں کے ذریعے ہوئی ہو لیکن ان کو عملی طور پر لاگو کرنے میں مرکزی کردار عملی سیاست کا ہوتا ہے (حکومت اور اپوزیشن اور ان دائروں سے باہر سیاست کاروں کا بھی)۔
مذہبی نقطہ نظر جس کے اندر کئی ایک نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں تخلیق و اختتام اور انجام کو مذہبی عقیدے کی عینک سے دیکھا جاتا ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے علم و تحقیق کو اس کے دائرے میں رکھنے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے سیکھنے اور استعمال کرنے کی ترغیب دی اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
سائنسی نقطہ نظر کے مطابق وسیع طور پر مذہب اور سائنس کو اس کائنات کے بارے میں علم حاصل کرنے کے دو ذریعے سمجھا جاتا ہے۔ سائنسی علماء کے بقول مذہب قدیم ترین ذریعہ ہے کائنات کے بارے میں علم حاصل کرنے کا جبکہ سائنس کو چند صدیاں قبل فروغ حاصل ہوا ہے۔ تاہم یہ صرف ایک دعویٰ یا نظریہ ہے۔ ایک اور دعوے کے مطابق مذہب سے پہلے انسان گرد و پیش کو سمجھنے اور اپنی بقاء کے لیے اپنے مشاہدات اور تجربات سے کام لیتا تھا لیکن پھر ایک مرحلے پر یہ نظریہ حاوی ہو گیا کہ اس کائنات کو سمجھنے کے لیے اس کے خالق کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اسی طرح اور بھی کئی ایک نظریات موجود ہیں تاریخ ، مذہب ، سائنس اور دیگر علوم کے بارے میں ۔
لیکن مذہب ہو یا سائنس یا ان کے اندر ان کی بیسیوں شاخیں ہر ایک میں ہر ایک شے کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ کوئی ایک ہی نقطہ نظر یا نظریہ یا کائنات کے مختلف پہلووں اور مظاہر پر کلی اتفاق نہیں پایا جاتا ۔ اختلاف اور تنقید کو مذہب اور سائنس کے عالم ایک صحت مند رحجان قرار دیتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے سائنس اور مذہب میں ایک فرق موجود ہے۔ وہ یہ کہ مذہب کی بنیاد عقیدہ ہے اور سائنس کی بنیاد شک ۔ اس کا مطلب یہ کہ مذہبی نقطہ نظر سے خدا کے وجودیت و واحدانیت ، ، تخلیق کے مذہبی نظریے اور نبیؐ کی حقانیت پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا ۔ جبکہ سائنس میں کچھ بھی شک سے مبرا نہیں ہے۔ تاہم سائنس میں شک کا مطلب انکار نہیں ہوتا بلکہ شک سائنسی علم کا اولین قدم قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ علمی دائرے میں ہوتا ہے جہاں دعوے اور شک و تنقید پر بحث کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ مگر جب بات علمی دائرے سے نکل کر سیاست کے دائرے میں آتی ہے تو پھر علم و عقل اور دلیل کی بجائے سیاست حرکت میں آجاتی ہے۔ اور سیاست کسی ایک فریق یا طرف سے نہیں ہوتی ۔ ہر ایک طرف سے ہوتی ہے۔
ابھی حال ہی تک جب یورپ میں حکمرانی عیسائی پادریوں ، بادشاہ اور جاگیرداروں کے پاس تھی تو سائنسی سوچ و فکر کو خطرناک قرار دے کر اس کا قلع قمع کرنے کی پالیسیاں روا رکھی جاتی تھیں۔ مذہبی دعووں اور ان کے ترجمے و تشریح پر سوال اٹھانے والوں کو قتل تک کرنے کے احکامات صادر کیے جاتے تھے اور پھانسیوں پر لٹکانے کے مطالبات ہوتے تھے۔ لیکن ابلاغ ، صنعت و حرفت اور سفری سہولتوں میں ترقی کے نتیجے میں علم کے موجود دائروں میں وسعت پیدا ہوئی اور مذہب کی جو محدود تشریحات پادریوں نے کر رکھی تھیں وہ نئی نسل کے بڑھتے ہوئے علم کے سامنے بتدریج غیر متعلق ہو گئیں ۔ ایسے میں عیسائی پادریوں نے دوبارہ اپنی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا اور نئے علم کے ساتھ ان کو نئے معنی اپنی کتابوں میں موج زن نظر آئے، ظاہر ہے کچھ نے کہا کہ اصل دین سے پھر گئے ہیں لیکن ایسا کہنے والے بھی تمام تر طاقت و جبر کے باوجود اپنے پیروکاروں کو زندگی کے سفر پر آگے بڑھنے اور غضبناک ، قاہر اور جابر خدا کی جگہ پیار و محبت والے خدا کو اپنانے سے روک نہ سکے۔
اسلام جو کہ تمام الہامی مذاہب میں سے جدید ترین ہے اور ایک ایسے معاشرے میں ظہور پذیر ہوا جو اپنے خطے کے کناروں پر تھا۔ اس لیے ہمارے مذہب نے جو انقلاب عرب میں برپا کیا وہ لازمی طور پر عرب کے حالات معاشی ، سماجی و ثقافتی اور روحانی و نفسیاتی حالات کا پرتو تھا۔ وہاں سے جب اس کی طاقت و قوت میں وسعت پیدا ہوئی تو علم و آگہی اور وسیع تر ویژن اور بصیرت اور خدا اور بندے کے تصور ، مذہب اور سیاست کے تعلق اور انسانی کے حق سوال اور اور حق انکار و اقرار کے حوالے سے فیصلوں اور علم و عمل میں سیاست در آنے کے کئی ایک شواہد و امکانات ملتے ہیں۔ یوں ہمارے ہاں ہم تک جو دینی علم و بصیرت پہنچی اس میں ہماری اپنی حدود اور کمیوں کجیوں کا عمل دخل بھی ہے۔ اس لیے اگر ہم اپنی سمجھ بوجھ کو کامل قرار دے کر کسی پر فتوے جاری کریں یا جہاد کے نام پر دین کی مختلف سمجھ بوجھ کی بنیاد پر اختلاف رائے رکھنے والوں پر حملہ آور ہو جائیں تو یہ ایک دینی عمل نہیں ہے بلکہ دین کے نام پر سیاسی عمل نظر آتا ہے ۔ اس میں ہم اختلاف برداشت کرنے کی اپنی صلاحیت کی کمی کے باعث یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے خدا کو خوش کر رہے ہیں۔ ایسا خدا جس نے یہ کائنات اور اس کے اندر ہر ایک شے تخلیق کی اور ہر ایک راز سے واقف ہے اور ہر ایک کے دلوں کے حال جانتا ہے اس کو اپنے ہی تخلیق کیے ہوئے ایک بندے کی طرف سے مذہب یا خدا پر سوال کرنے سے اتنا غصہ آئے گا کہ جو ایسے شخص کو قتل کرے گا وہ اس پر خوش ہو گا؟ یعنی خدا پھر خدانخواستہ کسی تنگ نظر جاگیردار خصلت سیاستدان کی طرح ہے جو مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے؟ اسی نے تو سوچ و فکر کی صلاحیت دی ہے ۔ سوال کرنے کی قدرت بخشی ہے پھر وہی اس کے استعمال پر قتل کیوں چاہے گا؟ سوچئیے۔ یہ سوچیں اور عدم برداشت ہماری اپنی ہے ۔ اس کو اللہ سے جوڑنے کا چلن بھی ہمارا ہی ہے۔ اور یہ ہم نے اپنے گردویش پائی جانے والی مذہب کی تشریح سے سیکھا ہے۔ لیکن یہ چلن صرف مذہب تک محدود نہیں ہے۔
سائنسی نظریات و ہم تک پہنچے ہیں وہ بھی ہماری اسی قبائلیت اور جاگیرداریت کا شکار ہوئے ہیں۔ سائنس کا کام علمی بنیادوں پر سوچ و فکر کو استعمال کرنے کے علم و ہنر کو جلا بخشنا اور سائنس کا مقصد اپنے گردوپیش میں موجود طبعی اور معاشرتی دنیا میں کارفرما قدرتی قوانین اور اعمال کو سمجھنا اور ان کو معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے ہاں مخصوص مذہبی تشریحات و رترویحات سے سر مو انحراف کرنے والوں پر فتوے لگائے اور حملے کیے جاتے ہیں اس لیے مذہب کے نام پر سیاست کے خلاف ردعمل میں بھی علم و عقل ، تحقیق و وجدان اور مثبت و صحت مند راستوں کی کھوج و تعمیر و تشکیل کی بجائے فرقہ واریت اور تضحیک کے رحجانات غالب ہیں۔ مارکسزم و سائنس کے نام پر بھی اکثردرحقیقت تضحیک و فرقہ واریت ہی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔
یہ صورت حال ایک ایسے معاشرے میں جہاں علم و تحقیق کا دائرہ ویسے ہی تنگ ہے اور جہاں زندگی اور موت کے فیصلے آج بھی قبائلی ، جاگیردارانہ اور برادریائی جذبات کے تابع ہیں ، جہاں آج بھی عوام کی اکثریت کے پاس روزمرہ زندگی کی محرومیوں ، بے کسیوں اور بے بسیوں کے خوفناک شب و روز میں خدا وند کریم کے سوائے کوئی سہارا نہیں ہے ، جہاں آج بھی انسانوں کی اکثریت گھر کے اندر سے لے کر گاوں شہر و ملک کی سطح پر مختلف دائروں میں مختلف زندگیاں گذارنے پر مجبور ہے۔ ایسے سماج میں مذہب و خدا کے بارے میں سوالات و بحث مباحثہ علمی اداروں میں علمی انداز میں ہو تو اچھی بات ہے لیکن اس کو سیاسی دائرے میں سیاسی طور پر کرنا کوئی ایسا ترقی پسندانہ اقدام نہیں بلکہ یہ ترقی پسندی کو مذہب کشی قرار دینے کے الزام کو مزید پختہ کرتا ہے ۔ اس رحجان اور ایسی سرگرمیوں کا تعلق مذہب و سیاست میں استعمال کرنے کے رحجان اور سرگرمیوں سے ہے۔ ایک ایسا سماج جہاں مذہب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے وہاں مذہبی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاست میں تنقید و مخالفت سیاسی مقابلہ بازی اور مسابقت کا لازمی جزو ہیں ۔ جو کچھ بھی سیاسی میدان میں آئے گا اس کو تنقید ، شکوک و شبہات اور سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لیکن جسطرح مذہب کے نام پر سیاست والے مذہب کا سیاسی استعمال کرتے ہیں اسی طرح مذہب کو تنقید کا نشانہ بنانا بھی اس کے سیاسی استعمال کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ تمام نظریات اور ان کی سمجھ پر بحث مباحثہ اور سوال و جواب ایک ترقی پسندانہ رحجان ہے اور اسلام کے اندر چار امام اس کا ثبوت ہیں کہ کسی بھی علمی اصول و نظریے اور کتاب کی صرف ایک تشریح اور سمجھ بوجھ ممکن نہیں ہوتی۔ لیکن اختلاف رائے اور بحث مباحثے کے انداز اور دائرے ہوتے ہیں اور اگر ان دائروں میں رہ کر ہی تنقید کی جائے اور سوالات اٹھائے جائیں تو اس کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں ۔ بصورت دیگر اس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کا آغاز تو شاید معصومانہ سا ہو لیکن ایک بار جب تصادم شروع ہو جاتا تو پھر بہت سے مفادات پرست مختلف سمتوں سے آکر اپنا اپنا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ یا جیسا کہ ہمارے کلچر کا ایک خان ہے کہ جب تندور تپ جاتا ہے تو ہر کوئی اپنی روٹی لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے مذہب کے پرچارکوں اور اس پرچار کے انداز اور مندرجات کی مخالفت کرنے والوں سے یہی درخواست ہے کہ آپ سب بنیادی طور پر ایک ایسے معاشرے اور علاقے کا حصہ ہو جس کو اپنے نظام ، معاشرے و وسائل پر اختیار حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں معاشی ، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی میدانوں میں صحت مند ترقی اور خوشحالی کے مواقع بھی محدود ہیں۔ اس لیے ہم سب پر لازم ہے کہ اگر ہم اپنے ملک ریاست جموں کشمیر میں مذکورہ بالا آزادیوں اور ترقی کی شکلوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی آزادی کے نظریے کو اپنی ریاست کے ٹھوس حقیقی مادی حالات کے تناظر میں پروان چڑھائیں اور اس کو اتنی وسعت دیں کہ اس میں ریاست کی تمام رنگا رنگی اور تنوع سما سکے ورنہ تنگ نظر بصیرت میں اترے آزادی ، جہاد اور انقلاب کےتصورات کی عینکوں سے اپنے سواء سب کو آزادی دشمن، کافر، انقلاب دشمن قرار دینے کے چلن سے ریاست کے حصے بخرے تو کریں گے ہی ہر ایک حصے میں آزادی ترقی و خوشحالی کے امکانات کو بھی قتل کر دیں گے۔