Tarjuman-e-Mashriq

میجرشبیرشریف، نشان حیدر

 
 
میجرشبیرشریف، نشان حیدر
امی جی کا سب کچھ، تنویرکا دوست، سبونہ کا شہید

تحریر :محمد عمران سعید

کرنل اشفاق نے فاتح سبونہ میں لکھا ہے محاذ سے میجرشبیرشریف کی شہادت کی خبر ایک ٹیلیفون تھا جو پڑوس میں آیا
خبرپہنچانے والے پڑوسی نے دروازے پردستک دے کرتصدیق چاہی ’کیا آپ کا کوئی فوج میں ہے؟‘
گھر میں موجود شبیرکی والدہ کا جواب تھا، ’میراتوسب کچھ ہی فوج میں ہے‘
شبیر اپنی والدہ کا سب کچھ ہی تو تھا
بہت سالوں بعد جب راشدولی جنجوعہ امی جی کاانٹرویو کررہے تھے تو امی جی کا کہنا تھا کہ شایدشبیرکو آگاہی تھی کہ وہ کس راستے کا مسافر ہے۔ بیٹ مین کو حکم تھا کہ ہروقت کم ازکم چار وردیاں تیارحالت میں ہونی چاہییں۔ وہ اپنے پروردگارسے اپنی سب سے اچھی یونیفارم میں ملنا چاہتاتھا
امی جی ہرروز فجرکی نماز کےبعد شبیرکی گھرمیں آویزاں تصویر سے باتیں کیا کرتیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ جس دن مجھے اس کی بہت یاد ستائے تو شبیر خواب میں آکرمل جاتا ہے
امی جی اب کیویلری گراؤنڈ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں، اپنے شہید بیٹے سے ملنے کے لیے اب وہ کسی خواب کی محتاج نہیں رہیں
شبیریاروں کا یارتھا۔ اس کےسب سے عزیز دوست جواں سال تنویراحمد نے اپنی جان لے لی تھی۔ شبیرکو قلق تھا کہ دوست نے دل کا حال بتائے بغیرموت کو گلے لگا لیا۔ ماں اپنے لاڈلےکو خواب میں مشکل میں دیکھتی تو پریشان حال میانی صاحب کی قبرکا طواف کرتی ۔ایسے ہی کسی عالم میں تنویرکی والدہ نے شبیرکو کہا تھا کہ شاید تنویرکے پہلو میں کوئی صدیق کوئی شہید لیٹے تو اسے قرار آئے۔ شبیرکی شہادت کے بعد یہ انکی بہن تھیں جنہوں نے یہ یقینی بنایا کہ شہادت کے مرتبے سے سرفراز ہوئے شبیرکو اس کی وصیت کے مطابق میانی صاحب میں تنویر کے پہلو میں لٹا دیا جائے
میانی صاحب کے قبرستان میں شبیرکو تنویرکے پہلو میں خاک نشین دیکھتا ہوں تو یقین ہونے لگتا ہے کہ شبیرنے دوستی کی لاج رکھتے ہوئے شہادت کو لبیک کہا
صاحبو! ایک بیٹے اور ایک دوست سے پرے شہید ایک جنگجو بھی تو ہوتاہے۔ شبیر بھی ایک جنگجو تھا اور جنگجو بھی کیا کمال!
کیڈٹ تھا تو پاکستان ملڑی اکیڈمی سے شمشیراعزاز حاصل کی، ۱۹۶۵ میں پہلی جنگ لڑی تو بہادری کے کارناموں پر ستارۂ جرّات کا اعزاز اپنے نام کیا اور اگلی ہی پاک بھارت جنگ میں ۱۹۷۱ میں سلیمانکی سیکٹر میں سبونہ کے محاذپرداد شجاعت دیتے ہوے شہادت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئے اور بہادری کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر ان کے حصے میں آیا۔
ایک سپاہی کو اس سے بڑھ کر اور کیا چا ہیے!
آئیے آپ کو ۱۹۷۱ کے سلیمانکی کے محاذ پرلیے چلتے ہیں
میجرشبیر ۶ ایف ایف کی براوو کمپنی کی کمان کررہے ہیں اورانہوں نے کمال دلیری سے پیش قدمی کرتے ہوئے سبونہ کے دفاعی نالے پر اہم ترین پل بیری والہ برج ثابت وسالم قبضے میں لے لیا ہے
دوسری طرف ۳ آسام اور ۴ جاٹ کی طاقتورحریف قوتیں باوجود بھرپور حملوں کے پل کو ۶ ایف ایف کے قبضے سے نہیں چھڑا سکیں
یہ ۴ اور ۵ دسمبر کی درمیانی رات کاذکر ہے کہ گھمسان کی لڑائی میں میجر شبیر شریف نے اپنے مقابل ۴ جاٹ کے کمپنی کمانڈر میجر نارائن سنگھ کو مارگرایا اور خود اس لڑائی میں زخمی ہوگئے۔ زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ محاذ پر رہے اور اگلے دن ۶ دسمبر کو دشمن کے ٹینک کی مشین گن کے فائر کی زد میں آکرشہادت کے رتبے پر فائز ہوئے
اور صاحب شجاعت کسی ایک کی تو میراث نہیں۔ جب فوجیں لڑتی ہیں تو جان ہتھیلی پر لیے سپاہی بھلے اس طرف کے ہوں یا اس پار کے بہادری کے نئے کارناے رقم کرتے ہیں۔ میجر شبیرکے ہاتھوں پہلے زخمی ہونے اور پھررجمنٹل ایڈ پوسٹ کے سفرمیں جان کی بازی ہاردینے والے میجر نارائن سنگھ کی بہادری کی تعریف خود پاکستانی سپاہ نے کی اور ہندوستان نے اپنے اس بہادر سپوت کو بہادری کے اعزاز ویر چکر سے نوازا
جہاں سبونہ سے کچھ دور گاؤں نورمحمدمیں ایک دلیرانہ حملے میں ۶ ایف ایف کے نائب صوبیدار عارف نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا وہیں ۳ آسام اور ۴ جاٹ کے جانبازوں نے جان پر کھیل کر پاکستانی سپاہ کی فاضلکا کی طرف پیش قدمی کو روکھے رکھا
جہاں سلیمانکی پوسٹ کا آبزرویشن ٹاور تاحد نظرپھیلے ۱۹۷۱ کے اس محاذ کے پاکستانی جانبازوں کی یاد دلاتا ہے وہیں ہندوستان کے بارڈر سے لگ بھگ سات کلومیڑ اندر آصف والہ کے گاؤں میں شہیدوں کی سمادھی ہے جہاں ۱۹۷۱ میں دو سو سے زیادہ جانبازوں کی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں
مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلۂ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ
مصنف سے براہ راست رابطہ meemainseen@gmail.com  پر کیا جا سکتاہے 

کرنل اشفاق کا انٹرویو دیکھنے کے لیے لنک پر کلک کریں
https://www.youtube.com/watch?v=biTbt4rcLpE&t=259s

 

Exit mobile version