Tarjuman-e-Mashriq

وہ کون ہے ؟

تحریر: انوار ایوب راجہ

( ایک ذاتی واردات )

 مدت ہوئی قلم نہیں اٹھایا ، خود سے خودکلامی بھی بھول گیا ہوں – مدت سے اپنے من کی کال کوٹھری میں بند اپنے اندر کے قلمکار کو دفن    کرنے کی کوشش کر رہا تھا – ہم انسان ذاتی حادثات کا شکار ہو کر کمزور اور مفلوج ہو جاتے ہیں

ہوائیں چلتی ہیں تو اپنی سرسراھٹ میں اک عجیب سی بولی بولتی ہیں ، رات ہوتی ہے تو سناٹا دور دور کی آوازوں کو اپنے ساتھ ہمارے ذہنوں اور جسموں تک لے آتا ہے -دن  چڑھتا ہے تو چرند پرند بیدار ہوتے ہی ایک الگ انداز میں اپنا حال دل بیان    کرتے ہیں 

مسجدوں ، مندروں ، گردواروں اور گرجاؤں  سے عجیب سے  پیغامات  آتے ہیں ، ایسے لگتا ہے جیسے ان کمروں کے بند دروازوں کے پیچھے سے کوئی پکار رہا ہے- ہر کوئی اپنی اپنی بولی میں اپنے اپنے جان جاناں کو پکارتا ہے، ہر کوئی بھگتی اور محبت سے اپنے ساجن کو منانے کی کوشش کرتا ہے – وہ گھر کے اندر کمروں کی دیواروں پہ لگے پوسٹروں اور اونچی عمارتوں اور چوباروں سے نہیں بولتا وہ تو ہمارے من میں بولتا ہے 

ہم دیکھ کچھ اور رہے ہوتے ہیں وہ ہمیں دکھا کچھ اور رہا ہوتا ہے ہم سوچ کچھ اور رہے ہوتے ہیں وہ ہمیں کسی اور سوچ میں ڈال دیتا ہے . ہم چلتے ہیں تو چلتے ہی رہتے ہیں مگر جب وہ ہمیں روکتا ہے تو ہماری ہر حرکت نا ممکن ہو جاتی ہے – ہم کہانیاں لکھتے ہیں وہ کہانیاں لکھواتا ہے ہم گھروں والے ہیں وہ گھروں میں نہیں بستا ، ہم اپنے جیسوں کو چاہتے ہیں وہ سب کو چاہتا ہے –

وہ کون ہے؟ جسے عشق حقیقی کا معیار بنا کر ہم زندگی گزارتے ہیں –

ہمیں نقصان   ہوتا ہے تو صبر ہمیں وہی دیتا ہے اور جب ہم خوش ہوتے ہیں تو وہ بھی اسی کا کرم ہوتا ہے – اس وقت رات کا سناٹا ہے دور کے آوازے میرے قریب ہیں مگر اتنے نہیں جتنا وہ ہے ، 

وہ؟ وہ کون ہے ؟

آج میں یہ سوچ رہا ہوں کے کیا وہ بولتا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ہم اسے سن کیوں ہنی پاتے – اگر وہ  ہے تو دکھتا کیوں نہیں ہے – وہ میرے وجود میں ہے یا میرا وجود اس کے قبضے میں ! یہ سوال یہ سوال کیوں میرے ذھن میں ابھر رہے ہیں ؟ .

 میں آئفل ٹاور کے نیچے بیٹھا خود سے یہ سوال پوچھ رہا تھا اور سامنے کچھ بچے کھیل رہے تھے – ایک چھوٹا سا بچہ دوڑتا اپنی ماں کے پاس آیا اور پنجابی میں زور سے بولا ( وہ مخاطب اپنی ماں سے تھا مگر کوئی اور اس کے لبوں سے میرے  سوالوں کا جواب دے رہا تھا  ) ”مما وہاں ایک فقیر کہہ رہا   ہے رب بولتا ہے ہم  بہرے ہیں  کان صاف کرو وہ سنتا بھی ہے اور بولتا بھی” – اس کی ماں نے اسے پنجابی میں کہا کے کیسی باتیں کر رہے ہو پاگل ہو گئے  ہو کیا؟ یہ میرے رب کے ہونے کی دلیل میرے لیے کافی تھی وہ سن رہا تھا اور میرے رب . نے  اس بچے کی زبانی مجھ تک اپنے ہونے  کی دلیل دے ڈالی 

وہ کشتی والا ہے بادبانوں کا مالک ایک  قادرہستی  ہے اور اس کی  قدرت  سمجھنے کے لیے  اس کو سمجھنا ضروری ہے .وہ ہر حال میں بے حال لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے – گاؤں کے کھیتوں کی پگڈنڈیوں اور شہر کی شاہراہوں پر جہاں کہیں میں نے اسے ڈھونڈا وہ مجھے نا ملا اور آج ملا بھی تو کہاں ؟

شام اور صبح  میں  رات بیچ کا پڑاؤ ہے ایسے ہی جیسے میرے وجود کے آغاز سے اختتام تک میری زندگی – کاش میں ان  الفاظ کو سمجھ پاؤں ، کاش میرے دل میں اس کا خوف نہیں اس کی محبت پیدا ہو اور میرے کانوں سے گناہوں کی میل نکل جائے  اور میں اسے کتابوں کے ڈھیر اور عالموں کے مباحثوں میں نہ  ڈھونڈوں بلکہ اس کی قدرت میں اسے ڈھونڈوں – کیا ہی اچھا ہو کے میں چلوں تو اس کی جانب اور اس کے واسطے اور رکوں  جاؤں تو اس کے حضور جھک جاؤں .

میرا پڑاؤ میرے وجود کی طرح بہت کمزور ہے بلکل ایسے ہی جیسے رات کا سناٹا ! دن  چڑھتے ہی یہ سناٹا ختم ہو جاتا ہے – میرے اس پڑاو میں اگر وہ میرے ساتھ رہا تو میں شائد اپنے پوچھے  ہوئے  سوالات کے جواب جان پاؤں ورنہ تاریخ کی پرانی کتابوں بلکہ کسی  پرانے ڈائجسٹ کی ردی کی طرح میں گم ہو جاؤں گا بلکہ   ری سائیکل  بھی نہ ہو  پاؤں گا اور زمانے کے فقیر ہمیشہ یہی کہیں گے

”اپنے کان صاف کرو وہ بول رہا ہے تم سن کیوں نہیں رہے ”.

 

 

Exit mobile version