Tarjuman-e-Mashriq

پاکستان میدان جنگ میں

پاکستان میدان جنگ میں

علامہ محمد اسد اپنی تصنیف ’’روڈ ٹومکہ‘‘ میں لکھتے  ہیں کہ دلی پہنچ کر میں نے علامہ اقبال سے رابطہ کیا تو علامہ نے دلی آنے کی وجہ پوچھی۔ بتایا مشرق بعید جانے کا ارادہ ہے۔ میں جس جرمن اخبار کے لیے کام کرتا ہوں وہ چاہتے ہیں کہ میں اس خطے کے ممالک پر مفصل تحریر لکھوں۔ علامہ اقبال  نے کہا اب کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ دلی میں مسلم لیگ کے دفتر میں بیٹھ کر کام کرو۔ فیصلہ ہوچکا ہے اور پاکستان بن کر رہے گا۔ علامہ اسد لکھتے ہیں کہ اقبال کا حکم سنکر میں حیران ہو گیا۔ تب مسلم لیگ نوابوں کی جماعت مشہور تھی جو بڑی بڑی گاڑیوں اور بگیوں پر بیٹھ کر گھروں سے نکلتے او ر عالیشان محل نما حویلیوں میں رہتے تھے۔ ہندو اور کانگرسی رہنما لفظ پاکستان کا مذاق اڑاتے تھے اور عام دیہاتی مسلمان قائداعظم  اور پاکستان کے نام سے ہی واقف نہ تھے۔

علامہ اقبال   بیمار تھے اور لاہور تک محدود تھے مگر سینکڑوں لوگ انہیں ملنے جاتے اور یہی خبر لیکر آتے کہ اجلاس باطنی میں فیصلہ ہو گیا ہے اورپاکستان بن کر رہے گا۔

چوہدری غلام عباس (مرحوم) لکھتے ہیں کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے۔ 23مارچ1947ء کے دن قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور سات سال کے محدود عرصے میں تکمیل پاکستان ہو گئی۔مزید لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ کے اندرونی حالات بھی اچھے نہ تھے۔ بہت سے لیگی تحریک آزادی کی آڑ میں اپنا مقام اور مفاد مقدم رکھنا چاہتے تھے اور بہت سوں کو آخر دم تک یقین نہ تھا کہ علامہ اقبال   کا خواب حقیقت بن جائیگا۔ برطانوی استعمار اور کانگرس پوری قوت سے تحریک آزادی کی مخالفت کر رہے تھے اور ہر سطح پر مسلمانوں کو ڈرانے، دھمکانے اور لالچ دے کر ساتھ ملانے کی کوشش میں تھے۔ کیبنٹ مشن اور مائونٹ بیٹن مشن کی ناکامی نے پاکستان مخالف قوتوں کو مایوسی کے اندھیرے میں ڈالا تو علمائے دیوبند اور سرخ پوشوں نے تحریک پاکستان کی مخالفت میں اتحاد کر لیا۔ سندھ کا محاذ جی ایم سیّد نے سنبھال لیا اور کانگرس کے اتحادی بن گئے۔ جی ایم سیّد کو سندھی نوابوں اور جاگیرداروں کے علاوہ آدھی ہندو برادری اور طلبا ء کی حمائت سے بھی محروم ہونا پڑا۔ سندھ کا دانشور طبقہ انگریز اور کانگرسی چالوں سے بخوبی آگا ہ تھا۔ سرچارلس نیپر کی خون ریزی اور پیر صاحب پگاڑا  کی شہادت سندھیوں کے دلوں پر نقش تھی۔

بلوچستان انگریزوں، کانگرسیوں اور پاکستان مخالف دھڑوں کے نرغے میں تھا۔ بلوچی سرداروں کو طرح طرح کی ترغیبات دی جا رہیں تھیں۔ ایک طرف حکمران اور دوسری طرف مسلم لیگی زعما، پارٹی ورکر، طالب علم اور قبائلی سرداروں کا ایک گروپ دن رات محنت کر رہا تھا اور حالات پاکستان کے حق میں بدلنے کی جدوجہد کر رہا تھا۔ کانگرس اور انگریزی حکومت زیادہ فکر مند نہ تھی۔ انہیں یقین تھا کہ اُن کے حامی سردار اور پاکستان مخالف قبائل جنہیں و ہ پوری طرح نواز چکے تھے اُن کے حق میں فیصلہ دیں گے۔ 29جون1947ء کے دن ٹائون ہال کوئٹہ میں قبائلی جرگے نے فیصلہ کرنا تھا اور30جون کو ریفرنڈم ہونا تھا۔ اصل فیصلے کی تاریخ 29جون ہی تھی۔ جرگے کی اہمیت سے ہر کوئی واقف تھا اور اسی کے فیصلے پر زور دیا جارہا تھا۔ جرگہ ہال میں جانے سے پہلے سردار دوداخان مری نے ہنستے ہوئے کہا آج بلوچوں اور پٹھانوں کے درمیان پاکستان جیتنے کا مقابلہ ہے۔ دیکھو کون بازی لے جاتا ہے۔ سرداروں نے اپنی کرسیاں سنبھالیں تو انگریزی حکومت کانمائندہ مسٹر جیفرے فاتحانہ انداز میں ٹائون ہال میں داخل ہوا اور لارڈ مائونٹ بیٹن کا پیغام پڑھ کر سنانے لگا۔ پیغام ختم ہونے سے پہلے ہی نواب محمد خان جوگیزئی نے مسٹر جیفر ے کو روک دیا اور فرمایا یہ پیغام ہم پہلے ہی پڑھ چکے ہیں۔ ہمیں مزید وقت کی ضرورت نہیں۔ شاہی جرگہ پاکستان کے حق میں فیصلہ کر چکا ہے۔ ہاں اگر کسی سردار کو اعتراض ہے تو وہ ایک طرف کھڑا ہو جائے۔ سردار دودا خان مری نے پاکستان کے حق میں تقریر کی تو چار سرداروں نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ ہم خان آف قلات سے وعدہ کر چکے ہیں۔ اس پر میر جعفر خان جمالی اور سردار محمد خان جوگیزئی نے کہا کہ خان آف قلات پہلے ہی پاکستان کے حق میں فیصلہ کر چکے ہیں۔ یہ سنکر چاروں سردار اپنی نشتوں پر بیٹھ گئے۔ قاضی محمد عیسیٰ، عبدالغفور درانی، حاجی جہانگیر خان اور غلام محمد ترین نے چاروں سرداروں کو گلے لگایا اور مبارک باددی۔ ٹائون ہال کے باہر خبر پہنچی تو طلباء تنظیموں نے ملکر پاکستان زندہ باد اور قائداعظم   زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند کیے۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھا تو مسٹر جیفر ے نے بددلی سے کہا، میں ابھی وائسرائے ہند کو تار بھجوا دیتا ہوں کہ بلوچستان کے عوام اور شاہی جرگے نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کر دیا ہے۔

اس عظیم فیصلے کے باوجود سازشیں چلتی رہیں اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بلوچستان میں بغاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ خان آف قلات کے بھائی پرنس عبدالکریم نے 1948ء میں پہلی بغاوت کی اور موجودہ دور میں بلوچستان لبریشن آرمی جسے افغانستان، برطانیہ، بھارت اور امریکہ سمیت دنیا بھر کی پاکستان مخالف قوتوں کی حمائت حاصل ہے تحریک طالبان پاکستان سے ملکر بلوچستان میں آگ اور خون کا کھیل،کھیل رہی ہیں۔

مرحومہ کلثوم سیف اللہ خان ( ہلال امتیاز ) اپنی سوانح ’’ میری تنہا پرواز ‘‘ میں صوبہ سرحد کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ قیام پاکستان سے پہلے صوبہ سرحد میںایک تاریخی ریفرنڈم ہواجس میں صوبہ سرحد کے عوام نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اس ریفرنڈم میں مسلمان خواتین نے پورے ملی جوش و جذبے سے حصہ لیا۔ ایک طرف ہم یعنی مسلم لیگی تھے اور دوسری جانب سرحدی گاندھی باچاخان کی پارٹی تھی۔ ریفرنڈم کے دن ایک موقع پر ہم اور باچا خان کا خاندان آمنے سامنے تھے۔ ہمارے کیمپ سے مسلم لیگ زندہ باد اور قائداعظم  زندہ باد کے نعرے مسلسل بلند ہو رہے تھے اور باچا خان کے کیمپ میں مکمل خاموشی اور مایوسی تھی۔ باچا خان کے کیمپ میں زبیدہ نام کی ایک لڑکی تھی۔ اُس نے میری گوری چٹی سہیلی میمونہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم تو کسی انگریز کی بیٹی لگتی ہو۔ میمونہ نے غضب ناک ہو کر کہا، میں تو صرف انگریز کی بیٹی لگتی ہوں تم تو حقیقت میں ہندوئوں کی بیٹیاں ہو۔ میمونہ نے اس پربھی صبر نہ کیا اور شیر نی کی طرح جُست لگا کر زبیدہ کو دبوچ لیا۔ میمونہ نے اُس پرتھپڑوں کی بارش کر دی تو مشکل سے زبیدہ کو بچایا گیا۔ میرے والد نے باچاخان سے درخواست کی کہ ہم سب ووٹ ڈالنے آئے ہیں لڑنے نہیں۔ آپ اپنے کیمپ کے بچوں اور خواتین کو کنٹرول کریں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقع رونما نہ ہو۔ باچا خان نے میرے والد سے اتفاق کیا اور باقی وقت اچھا گزر گیا۔

اس روز مسلم لیگ کے کیمپوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ جبکہ باچا خان کے کیمپ میں اُن کے خاندان کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ لو گ نعرے بلند کرتے، ووٹ ڈالتے اور چلے جاتے۔ وہ لکھتی ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ اُس روز کسی مسلمان نے باچا خان کی حمائت میں کانگرس کو ووٹ نہ ڈالا۔ محترمہ کلثوم سیف اللہ کے ایک دوست نے بتایا کہ وہ ہرشام مرحومہ کیساتھ پشاور گریژن کے گرائونڈ میں طویل واک کرتے اور اُن کی زندگی کے متعلق مختلف واقعات سنتے تھے۔ کلثوم سیف اللہ تحریک آزادی پاکستان کے واقعات اور بعد میں پیش آنے والے مسائل کی مکمل تاریخ تھیں۔ اُن کے مطابق پاکستان ایک مسلسل جدوجہد کے صلے میں حاصل ہوا اور اس کے استحکام کی جنگ آج بھی جاری ہے۔ پاکستان کے مخالفین اور اُن کی اولادیں آج بھی بھارت نواز اور پاکستان مخالف ہیں اور اغیار کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں۔

کہا میں نے پاکستان بنتے اور پھر ٹوٹتے ہوئے دیکھا۔ میں نے پاکستان کے دو ستوں اور دشمنوں کا رویہ دیکھا مگر دکھ اس بات کا ہے کہ دشمن آج بھی اپنا مشن مکمل کرنے کے لیے میدان میں کھڑا ہے اور دوست سورج مکھی کے پھول ہیں۔ جدھر مفاد دیکھا اُدھر رُخ کر لیا۔ افغان مہاجرین اور حکومتوں کے متعلق بتایا کہ پاکستان کی سلامتی، خوشحالی اور امن کے لیے اور صوبہ سرحد کے مخصوص معاشرتی ماحول اور کلچر کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ افغان مہاجرین کو جلد واپس بھیج دیا جائے۔ اسے ذاتی اور پارٹی بزنس نہ بنایا جائے۔ اُن کا ملک آزاد ہے۔ وہاں الیکشن ہوتے ہیں، امریکہ وہاں اپنے اتحادیوں سمیت موجود ہے اور کھربوں ڈالر افغانستان کی ترقی اور خوشحالی پر خرچ کر رہا ہے تو پھر پاکستان میں تیس لاکھ مہاجر رکھنے کی کیا منطق ہے۔افغان مہاجرین کا طویل قیام پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ مگر حکومتیں اور حکمران طبقہ اس بزنس میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ مرحومہ کلثوم سیف اللہ ہماری تاریخ کا باب ہی نہیں بلکہ زندہ تاریخ تھیں۔ جواَب نہیں رہیں۔ 14اگست1947کے دن پاکستان دنیا کے نقشے پر اُبھرا اور16اکتوبر1947ء کے دن ڈوگرہ فوج، پولیس اور آرایس ایس کے دستوں نے کشمیری مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ 20نومبر 1947میں بھارتی فوج نے کشمیر میں مداخلت شروع کر دی اور مختلف محاذوں پر مجاہدین آزادی کشمیر اور بھارتی فوج کے درمیان خونریز جنگ شروع ہوگئی۔ یہ جنگ کسی فوجی حکمت عملی کے فقدان کے باوجود جذبہ جہاد اور جذبہ حب الوطنی کی قوت سے ایک تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لیس فوج کے خلاف لڑی گئی۔ اس جنگ کی سب سے بڑی کمزوری قیادت کا فقدان تھا۔ قبائلی یلغار اور قادیانیوں کی سازشوں کے باوجود مجاہدین نے دس ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کر لیا۔ قائداعظم   کی رحلت کے بعد لیاقت علی خان کے حکم پر پاکستان آرمی نے مجاہدین کے فتح کیئے ہوئے علاقوں کا کنٹرول سنبھال کر کچھ علاقے خود ہی خالی کردیے اور کچھ پرناقص دفاع کی وجہ سے بھارتی فوج نے قبضہ کر لیا۔ دس ہزار میں سے چھ ہزار مربع میل پر بھارت قابض ہوگیا جسے خالی کرنے اور بھارت کے حوالے کرنے کی آج تک کوئی وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ موجودہ دور میں ہیڈ مرالہ کے قریب کُری کی لہری ڈھلوان سے لیکر تائوبٹ تک آزادکشمیر کا کل رقبہ چار ہزار ایک سو مربع میل ہے ۔

12اکتوبر1947کے دن مقامی لوگوں نے جنگ آزادی کشمیر کا اعلان کیا جو31دسمبر1948ء تک یعنی 15ماہ جاری رہی۔ 24اکتوبر 1947ء کے دن آزادکشمیر حکومت کا قیام عمل میں آیا مگر مجاہدین نے جنگ اپنے طو رپر جاری رکھی۔ یہ جنگ عملاً 1950ء تک کسی نہ کسی صور ت جارہی۔ پاکستان آرمی نے مجاہدین کو آزادکشمیر ریگولر فورس کا حصہ بنا کر تنظیم سازی کی اور ہر محاذ پر باقائدہ کمانڈر تعینات کر دیے۔

اسی دوران مشرقی پاکستان اور بلوچستان میں حالات کشیدہ ہوتے رہے جس کی پشت پناہی بھارت اور افغان حکومت کر تی تھی۔ 1965اور1971ء کی پاک بھارت  جنگوں پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ حال ہی میں مکتی باہنی کے خالق اور پاکستان کے دشمن اور غدار لیفٹینٹ کرنل (ر)شریف الحق دالم کی تصنیف ”  بنگلہ دیش انٹولڈ فیکٹس ”سامنے آئی جسے جمہوری پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کا اُردو ترجمہ رانا اعجاز احمد نے” پاکستان سے بنگلا دیش، ان کہی جدوجہد” کے نام سے کیا ہے۔ کتاب کی اشاعت کا اہتمام فرخ سہیل گوئیندی نے کیا اور ہزاروں پاکستانیوں کے دلوں پر لگے زخموں پر اپنی دانش کا زہر چھڑک کر انہیں پچاس سال بعد پھر سے تازہ کر کے اپنے علم کا مینار بلند کرنے کی کوشش کی۔ فرخ سہیل گوئیندی نے مصنف کی حب الوطنی کا بینڈبجاتے ہوئے اسے عظیم سپاہی تو لکھ دیا مگر یہ لکھنا بھو ل گیا کہ وہ غداروطن، را کاایجنٹ، مجیب الرحمن کا ساتھی اور ہزاروں پاکستانی فوجیوں، سویلین عورتوں اور بچوں کا سفاک قاتل اور انسانیت کا مجرم ہے۔ سر مئی عقاب کے نام سے کسی میجر آفتاب نے بحریہ  ٹاون  لاہور سے غدار وطن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا کہ جب ہماری ایک پوسٹ پر حملہ ہوا تو پتہ چل گیا کہ ایسا کام شریف الحق ہی کر سکتا ہے۔ میجر آفتاب نے اس انداز سے دالم کی بہادری کا قصہ لکھاجیسے شہید ہونیوالوں سے اُسکا کوئی تعلق نہ تھا۔ کیا یہ اُن شہیدوں کی اولاد وں کے لیے ایک سانحہ نہیں کہ پاک فوج کی وردی  میں ملبوس رہنے والا نام نہاد میجر آفتاب ایک ایسے شخص کی تعریفوں کے پُل باندھ رہا ہے جس نے ملک اور اپنے حلف سے غداری کی اور بھار ت جا کر مجیب نگر آباد کیا اور پھرمکتی باہنی کو بھارت کی مدد سے تربیت دیکر اپنے ہی ساتھیوں پر یلغار کر دی۔ افسوس کہ میجر آفتاب جیسے نہنگ قوم بھی خاکی وردی میں ملبوس رہے اور پھر اسی وردی کی توہین کرتے ہوئے ایک غدار کے ہمنوا بن گئے۔ آخر میں میجرآفتاب نے کچھ فائرفائیٹنگ بھی کی اور کرنل دالم کو حالات کے حوالے کرتے ہوئے اسے بیگناہ ثابت کرنے کے لیے لفاظی سے کام لیا۔ مگر اس کا اصل چہرہ اور دل کی آواز سرمئی عقاب ہی ہے۔ کسی جگہ لکھا تھا کہ اوریا مقبول جان نے بھی اس تحریر کو پسند کیا اور مصنف کی کاوش کو سراہا ہے۔ دیکھا جائے تو ایسی تحریر اور ان تحریروں کو خراج عقیدت پیش کرنے والوں کے دل و دماغ ایک جیسے ہیں۔ وہ اپنی شیر وانیوں پر ہلال پاکستان، ستارہ پاکستان اور پرائیڈ آف پرفارمنس کے تمغے توسجاتے ہیں مگر دلوں کی میل کبھی قلم سے اور کبھی منہ سے اگلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ میجر آفتاب نامی دانشور کا نام پہلی بار دیکھا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ نہ جانے کتنے آفتاب اور دالم مقدس خاکی میں ملبوس ہو کر بھی وطن کی خاک سے نفرت کرتے رہے۔ انوار ایواب راجہ کا مضمون ’’وردی کا ڈی این اے ‘‘ پڑھ کریوں لگا جیسے وردی کا ڈی این اے کچھ بد بختوں کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ وردی کا ڈی این اے مقدس ہے اور مجرم اس کا حق ادا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔

 باجوڑ میں بغاوت اور پھر بلوچستان میں کشیدگی کا سلسلہ 1974تک جارہی رہا۔ ضیا الحق کے دور میں بھارت نے براس ٹیک مشقوں کے بہانے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی تیاری مکمل کر لی تھی مگر جنرل حمید گل (مرحوم) کی ایک جنگی چال اور جنرل ضیا الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی نے بھارتی حکومت اور جرنیلوں کے حوصلے پست کر دیے۔ 1982سے لیکر تا حال سیاہ چین پر بھارت اور پاکستان کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ ورکنگ بائونڈری اور لائن آف کنٹرول پر بھارت آئے دن حملے کرتا اور نہتے سویلین کو نشانہ بناتا رہتا ہے۔ 1995سے تادم تحریر کشمیریوں پر بھارت مظالم کے پہاڑ گرا رہا ہے مگر عالمی ضمیر مرد ہ اور عالمی قوتیں بے حس ہیں۔ اسرائیل امریکہ اور افغانستان سمیت پاکستانی سیاستدانوں اور کچھ اہل قلم کی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیر قانون اقبال حیدر (مرحوم ) ہمیشہ کہتے تھے کہ ہم اپنے بچے کشمیریوں کے لیے کیوں مروائیں۔ پیپلز پارٹی کے ہی وزیر اُمور کشمیر یورپ جا کر واپس آ گئے اور وہاں منعقد ہونے والی کشمیر کانفرنس میں شرکت نہ کی۔ عاصمہ جہانگیر اور ایم کیوایم کے الطاف حسین کے بیانات ریکارڈ پر ہیں مگر اُن کے چاہنے والے ان بیانات کی تشریح اپنے ہی انداز میں کرتے ہیں۔ سوات، کراچی اور وزیرستان میں ایم کیوایم اور تحریک طالبان پاکستان کی خو نریزی پر کسی حد تک کنٹرول حاصل ہوتے ہی معاشی دہشت گردوں نے پاکستان کے قومی خزانے پر حملہ کر دیا اورساری قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کر دی۔ حیرت کی بات ہے کہ قوم ان معاشی دہشت گردوں کے حق میں ہے اور اُن کی قیادت پر بھروسہ کرتی ہے۔ پاکستانی دانشوروں اور صحافیوں کا ایک بڑا طبقہ بھی ان کا حامی ہے اور لوٹو پاکستان کا نعر ہ بلند کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا پاکستان کے خلاف میڈیا وارلڑ رہا ہے۔ نظریہ پاکستان، پاک فوج، اسلام اور محب وطن پاکستانی ان کے احداف ہیں۔

محترمہ ملیحہ خادم کا مضمون ایڈ یٹیڈ اینڈ اپ ڈیٹڈ تاریخ فرام انڈیا ‘‘ اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ لکھتی ہیں کہ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی قوت سے بھارت پاکستان پر حملہ آور ہے مگر بد قسمتی سے اسے جواب دینے والا کوئی نہیں۔ ہمارے سول اور سرکاری میڈیا کی ترجیحات میں بھارتی یلغار اور ففتھ جنریشن وار شامل ہی نہیں۔ انڈیا اپنی تاریخ کو اپ ڈیٹ کرنے پر اربوں روپے خرچ کر رہا ہے اور ایسی ایسی من گھڑت اور لغو کہانیاں اور قصے تاریخ میں ڈال رہا ہے جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں۔ سکندر اور پورس کی جنگ کے حوالے سے لکھا ہے سکندر کی شکست کی بڑی وجہ پورس کی کیولری یعنی گھڑ سوار فوج تھی۔ سلطان شہاب الدین غور ی اور پر تھوی راج چوہان پر ایک فلم میں دکھلایا گیا کہ پر تھوی راج چوہان کے تیرسے سلطان کی موت واقع ہوئی۔ اسی طرح یہ بھی بتایا گیا کہ پرتھوی راج چوہان نے کابل پر حملہ کیا اور مارا گیا۔ چوہان کی قبر افغانستان میں ہے اور افغانی اُس کی بے حرمتی کرنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ بھارتی میڈیا تحریک آزادی پاکستان، تحریک آزادی کشمیر،پینسٹھ، اکہتراور سیاہ چین پر لڑی جانے والی جنگوں کے حوالے سے تاریخ کو مسخ کرنے اور اسے بھارت کے حق میں بدلنے کے مشن پر تیزی سے کام کر رہا ہے اور اُس کا حدف پاکستانی بچے، خواتین اور طالب علم ہیں۔ بھارتی فلموں، کارٹونوں اوراینی میٹڈ فلموں کو مختلف ناموں سے سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی دیگر سائیٹس پر لانچ کیا جارہا ہے تاکہ پاکستانی اور مغربی معاشرہ اسے حقیقت سمجھ کر اپنی تاریخ پر اعتماد کرنا چھوڑ دے۔ لکھتی ہیں کہ پہلے تو پی ٹی وی پر تاریخی ڈرامے نظر آتے تھے مگراب میدان صاف ہے۔ لوگوں تک یکطرفہ انڈین برانڈ تاریخی ڈرامے اور فلمیں پہنچ رہی ہیں اور ہمارا تاریخی، ثقافتی اور معاشرتی نظام بھارت کے نشانے پر ہے۔ بھارت ڈس انفارمیشن پھیلانے کے مشن پر کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے اور ہماری وزارت اطلاعات و نشریحات کے علاوہ ادبی اور علمی حلقے بھی سیاست کا شکار ہیں۔

سندھ اور ہنڈکی تاریخ اور ثقافت کو ہندمیں مدغم کرنے پر بھارت سرعت سے کام کر رہا ہے۔ بھارت ہماری تہذیب و ثقافت اور روایات پر حملہ آور ہے مگر ہمارے اہل علم و قلم سیاسی کالم اور مضامین لکھنے اور اپنے اپنے من پسند لیڈروں سے داد حاصل کرنے میں مگن ہیں۔ بھارتی میڈیا منظور پشتین، بی ایل اے اورپاکستان مخالف تحریکوں کی تشہیر پر جس لگن اور محنت سے کام کر رہا ہے اس کی بڑی وجہ پاکستانی میڈیا کی بے حسی اور اہل علم و قلم کی بھارت نوازی ہے۔ آئی ٹی سیکٹر میں بھارت کو کوئی روکنے والا نہیں اور عام لوگ تاریخ و تہذیب کو بھارتی عینک سے دیکھنے پرمجبور ہیں۔ پروفیسر فتح محمد ملک اور جناب صفدر محمودپر مشتمل ایک مختصر ٹیم بھارتی اور مغربی میڈیا یلغار کے مقابلے پرہے مگر الیکٹرانک میڈیا ایسے سرفرشوں کو اپنے چینلوں پر جگہ نہیں دیتے۔ محب وطن پاکستانیوں کی رائے ہے کہ دفا ع وطن کے لیے ضروری ہے کہ عسکری ٹیلی ویژن چینل سامنے آئے اور ہماری تاریخ، ثقافت اور معاشرت کے علاوہ دینی اور روحانی اثاثوںکا بھی دفاع کرے۔ پاکستان اپنے قیام سے لیکر تادم تحریر حالت جنگ میں ہے اور یہ جنگ مستقبل میں بھی جاری رہے گی یہ جنگ فوج نہیں بلکہ عوام اور حقیقی عوامی نمائندوں نے محب وطن علماء ، صحافیوں، قلمکاروں، فنکاروں، دانشوروں، تاریخ دانوں اور اہل علم وعقل کی مدد سے لڑنی اور جیتنی ہے۔ کیا ہمارے سیاستدان، حاکم اور حکمران اس طرف متوجہ ہونگے؟ اس کا فیصلہ آنے والے کل پرچھوڑنے کے بجائے اس پر آج ہی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

Exit mobile version