تحریر : برگیڈیربشیرآرائیں
ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ رہتے ہیں جو ملنے جلنے ۔ بات کرنے اور دیکھنے میں چنگے بھلے لگتے ہیں جیسے خوب سکھی اور پیٹ بھرے ہوں مگر آپ انکے زرا سا قریب ہو جائیں تو پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے ۔
میاں بیوی تین بچے کرائے کا مکان اسکول کی فیس بجلی اور سوئی گیس کا بل دیکر صرف ایک وقت یعنی دوپہر کے کھانے پر گزارا کرتے ہیں ۔ آپ ملیں تو ہنس کر بات کرینگے ۔ آپ حال پوچھیں تو شکر الحمدو للہ کہیں گے ۔ بھوکے پیٹ بھی آپ سے کچھ نہیں مانگیں گے ۔
مزید سنیں ۔ میاں پرائیویٹ کمپنی میں تھا ۔ گلے کا کینسر ہوا ۔ نوکری گئی گھر کی چیزیں بکنا شروع ہوئیں ۔ میاں بستر کا ہوگیا ۔ دونوں بچوں کا اسکول جانا بند ۔ بیوی نے لوگوں کے گھر کام کرکے مکان کا کرایہ دینا اور گھر کا راشن لینا شروع کیا مگر آہستہ آہستہ ایک وقت کے کھانے پر اکتفا ہونے لگا ۔
یہ عورت ہمارے آفس آکر پوچھنے لگی کہ کیا آپ کورونا کے علاوہ کسی کینسر کے مریض کو دوائی نہیں دیتے اور ہاں کیا کسی عورت کو بیوہ ہونے پر ہی راشن دیتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جنہیں سن کر آپ سے کوئی اور جواب بن ہی نہیں پاتا سوائے انکی ضرورت پوری کرنے کے ۔
انسان دوسرے انسانوں کی کوئی ضرورت تو پوری کر سکتا ہے انہیں پال نہیں سکتا ۔ پالتا صرف اللہ ہے ۔ رازق وہی ہے ۔ کوئی انسان کتنا بھی امیر کبیر ہو جائے ۔ دن رات بانٹتا پھرے کسی کا رازق نہیں ہوسکتا ۔ پچھلے ہفتے دو عورتیں فاٶنڈیشن کے آفس سے راشن لیکر جانے سے پہلے پوچھنے لگیں کہ فوٹو کون بنائے گا ۔ میرا اسٹاف حیران تھا کہ یہ بات وہ کیوں کہہ رہی ہیں ۔ انہیں بتایا کہ ہمارے ہاں فوٹو نہیں بناتے ۔ کہنے لگیں یہ تو کمال ہوگیا اگر آپ ہم جیسے مجبوروں کا پردہ رکھتے ہیں تو دعا ہے کہ اللہ آپکے پردے بھی رکھے اور آپ دینے والے ہی رہیں ۔
تب سے بیٹھا اللہ سے دعا مانگ رہا ہوں کہ پرودگار تو ان دونوں عورتوں کی دعا قبول کرلے ۔ پتہ نہیں ہمیں عزت سے جینے کو کتنے پردوں کی ضرورت رہتی ہے اور تُو نے تو نہ جانے ہمارے کتنے عیبوں پر پردہ ڈال رکھا ہے کہ ہم معاشرے میں عزت سے گھوم پھر رہے ہیں ۔
اے لوگوں دوسروں کا پردہ رکھیے تاکہ وہ اللہ سے آپکے پردے رکھنے کی دعاٸیں مانگتے رہیں ۔