Tarjuman-e-Mashriq

چھتروہ ڈاکخانے کی کہانی

تحریر: بشیر میرپوری
ترجمہ: ظہور چوہدری
1962 تک چھتروہ، ضلع میرپور، تحصیل ڈڈیال، آزاد کشمیر میں کوئی ڈاکخانہ نہیں تھا.گاؤں والوں کو خطوط اور منی آرڈرز وصول کرنے کے لیے ڈاکخانے کی اشد ضرورت تھی.چھتروہ کے باشندوں کو ڈاکخانہ سیاکھ، جو دریائے پونچھ کے کنارے واقع تھا، جانا پڑتا تھا. آنے جانے کا سفر تقریباً 19،20 کلومیٹر تھا. منی آرڈرز اور خطوط جو سیاکھ ڈاکخانے میں آتے تھے،  کئی دنوں بعد تقسیم ہوتے تھے.
انگلینڈ سے خطوط تقریباً دو ہفتوں کے بعد موصول ہوتے تھے. سیاکھ کے علاوہ ہل(Hill) میں بھی ڈاکخانہ تھا جو چھتروہ کے قریب ترین تھا اور تقریباً 6 کلومیٹر کا سفر تھا. مگر یہ ڈاکخانہ چھتروہ کے Catchment area میں نہیں آتا تھا.
چھتروہ ایک بڑا زرعی گاؤں تھا جو تقریباً 3 کلومیٹر لمبا اور 1.7 کلومیٹر چوڑا تھا. پیداوار کا زیادہ تر انحصار مال مویشیوں کو پالنا اور کھیتی باڑی پہ ہی تھا. ماسوائے کچھ لوگوں کے زیادہ تر عوام غریب تھی. اس لئے انہیں دن رات کام کرنا پڑتا تھا.
بعض اوقات عوام زمین پہ زرعی ٹیکس (مالیہ) دینے سے بھی مجبور تھے. 1947 میں ڈوگرہ راج کے خاتمے نے ملک کی معیشت کو بری طرح مفلوج کر دیا تھا ۔ آزاد کشمیر حکومت کو سیاسی اور معاشی سٹرکچر ٹوٹا ہوا اور غیر محفوظ ملا تھا.
آزادی سے پہلے متحدہ کشمیر میں مسلمان سب سے زیادہ غریب تھے. چھتروہ کے لوگ غربت سے بچنے کیلئے اس وقت ہندوستانی پنجاب کے صنعتی علاقوں اور کراچی، ممبئی کی بندرگاہوں پہ کام کرنے کیلئے ادھر کا رخ کرتے تھے.
May be an image of 1 person and standing
چھتروہ سے انگلینڈ ہجرت کا سب سے پہلے آغاز 1948 میں ہوا. جب میرے والد چوہدری عطاء محمد (مرحوم) پہلی بار لیورپول(Liverpool) کی بندرگاہ پہ اترے تھے. مگر برطانیہ آنے سے پہلے انہوں نے چھتروہ کے پرائمری سکول کی بنیاد رکھ دی تھی اور سکول میں بچوں کی تعلیم کا سلسلہ مکمل طور پر شروع ہو گیا تھا.
انہوں نے اپنے بھائی چوھدری ستار محمد اور کئ اور رشتہ داروں کو برطانیہ بلوایا. پھر لوگوں نے اپنے اپنے رشتہ داروں، دوستوں، اورہمسایوں کو برطانیہ آنے کیلئے بلانا شروع کر دیا.
چھتروہ سے نئے آنے والے لوگ برطانیہ میں جو بھی کام ملتا تھا اسکو کر لیتے تھے. اور باقاعدہ زبردست محنت مزدوری کر کے اپنے بیوی، بچوں اور خاندان کو پیسے اور خط پتر بذریعہ سیاکھ ڈاکخانے بھیجتے تھے. اکثر منی آرڈرز اور خطوط حاصل کرنے کے لیے انہیں سیاکھ ڈاکخانے میں جانا پڑتا تھا.
چوہدری عطاء محمد 1959 میں برطانیہ سے پہلی بار واپس چھتروہ لوٹے تھےاور جو چھتروہ پرائمری سکول کی بنیاد انہوں نے 1948 میں رکھی تھی، اسے بڑھانے کا کام شروع کر دیا. اس لئے کہ بچوں کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ ہو گیا تھا. والدین اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں سکول بھیجنے پر رضا مند تھے لہذا سکول بچوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے چھوٹا تھا.
انہوں نے یہ بھی سوچا کہ گاؤں کے لوگوں کو ایک ڈاکخانے کی سخت ضرورت ہے اور انہیں سیاکھ جانے کے لئے لمبا اور دشوار گزار سفر طے کرنا پڑتا تھا، خاص کر عورتوں اور بزرگوں کیلئے سیاکھ جانا مشکل تھا ۔
عطا محمد پاکستان پوسٹل اینڈ ٹیلی کیمیونیکیشنز جہلم گئے جن کے پاس آزاد کشمیر ڈاکخانہ جات کا کنٹرول تھا اور چھتروہ کہ لیے ڈاکخانے کے بارے پوچھا۔. انہیں نے عطا محمد کو بتایا کہ چھتروہ کے ڈاکخانے کی درخواست منظور ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں.
چوہدری عطاء محمد آسانی سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے اور چاہتے تھے کہ چھتروہ میں ڈاکخانے کا قیام ہو جائے تو وہاں کے عوام بآسانی خطوط اور منی آرڈرز وصول کر سکیں گے. انہوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ ڈاکخانے کا قیام بہت ہی ضروری ہے.
شیخ خلیق احمد ڈان (The Dawn) اخبار لاہور کے رپورٹر جو خود بھی کشمیری تھے، 1950 کے عشرہ کے وسط میں کوونٹری( Coventry) کے روزنامہ ایوننگ ٹیلی گراف The Coventry Evening Telegraph میں صحافتی کام سیکھنے تین ماہ کے لیے انگلینڈ آئے تھے. اس وقت ایشیائی لوگوں کے لئے رہائش اور خصوصاً مسلمانوں کے لئے حلال گوشت کا حصول ایک بہت بڑا مسئلہ تھا.
شیخ خلیق احمد کوونٹری پولیس اسٹیشن گئے، اور ان سے اس سلسلے میں مدد مانگی کہ کوئی مسلمان گھر ہو جس میں ان کے رہنے کا انتظام ہو سکے.
پولیس اسٹیشن نے انہیں چوہدری عطاء محمد کے مکان کا پتہ جو 142 Foleshill Road پر واقع تھا ان کو دیا. شیخ خلیق احمد شام کو ان کے دیئے ہوئے پتہ پر پہنچے. شیخ صاحب نے میرے والد صاحب کو اپنے سارے حالات سے آگاہ کیا. چوہدری عطاء محمد نے ان کی کھلے دل سے آؤ بھگت کی اور ان کی رہائش اور کھانے کا اپنے گھر مکمل بندوبست کیا.
چوہدری عطاء محمد تعلیم یافتہ لوگوں کے قدر دان تھے، بیشک وہ خود ناخواندہ تھے.
تین ماہ بعد جب شیخ صاحب واپس پاکستان جانے لگے تو وہ اپنا تعارفی کارڈ چوہدری صاحب کو دے گئے اور کہا جب بھی آپ پاکستان آہیں اور کسی قسم کی سرکاری مدد کی ضرورت پڑے تو رابطہ کریں.
شیخ صاحب سے والد صاحب نے رہائش اور کھانے کا کچھ نہیں لیا اور نہ ہی وہ نئے آنے والے لوگوں سے کچھ بھی لیتے تھے جب تک وہ کام پر نہ لگ جائیں.
عطاء محمد ایک بار پھر جہلم پاکستان پوسٹل اینڈ ٹیلی کیمیونیکیشنز چھتروہ کے ڈاکخانے کے سلسلے میں دوبارہ گئے، انہیں یہی بتایا گیا کہ کئی سال لگ سکتے ہیں.
اس وقت انہیں شیخ خلیق کی بات یاد آئی تو انہوں نے ان سے مدد لینے کا سوچا اور جہلم سے پہلی بس جو لاہور جاتی تھی ڈان اخبار لاہور کے آفس کے لئے محو سفر ہو گئے.
استقبالیہ(Reception) پر اپنا تعارف کراکے شیخ صاحب کا پوچھا شیخ صاحب بڑی گرم جوشی سے ملے، خوب خاطر تواضع کی اور آنے کا مقصد پوچھا.
عطاء محمد نے ساری ڈاکخانے کی کہانی انہیں بتائیں . ان سے اس کے لیے مدد اور مشورہ مانگا. شیخ صاحب نے ان سے پوچھا، "چوھدری کتنے ڈاکخانے آپ کو چاہئیں”؟ انہوں نے کہا صرف ایک ڈاکخانہ چاہیے!
شیخ صاحب نے فون اٹھایا، نمبر گھمایا اور دوسری جانب والے شخص کو بتایا "کیا تمہیں یاد ہے کہ انگلینڈ میں کسی نے میری دیکھ بھال کی تھی، وہ چوہدری عطاء محمد چھتروہ آزاد کشمیر والے تھے، اور وہ میرے پاس آئے ہیں اور انہیں اپنے گاؤں چھتروہ میں ایک ڈاکخانے کی ضرورت ہے”.
فون کے دوسری طرف ان کے بھائی شیخ شفیق احمد، جو اس وقت پاکستان پوسٹل اینڈ ٹیلی کیمیونیکیشنز کے انچارج تھے، شیخ شفیق احمد نے اپنے بھائی شیخ خلیق کو بتایا کہ چھتروہ میں آج ہی ان کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی حکم صادر ہو جائے گا شیخ خلیق نے انہیں بتایا کہ آپ ڈاکخانے کی عمارت اور اسٹاف کا جلد از جلد بندوبست کریں.
ڈاکخانے کی پہلی عمارت کیلئے بازار میں ڈھوک کفایت علی اور مسیتی والے موڑے کے جوڑ پر ایک کمرہ جس کے مالک چوہدری محمد حسن اور ان کے دو بیٹے چوہدری محمد سوداگر اور چوہدری محمد سجاول تھے ان سے لے لیا گیا. عمارت کے دوسری طرف ان کی آٹا پیسنے کی مشین تھی. ڈاکخانے کو چلانے کے لیے ڈاکیے کی ضرورت تھی، اس کا اختیار عطاء محمد کو دیا گیا کہ وہ کسی مناسب آدمی کا بندوبست کریں، اس مقصد کیلئے انہوں نے چوہدری محمد سجاول (المعروف بھارتی سجاول) کا نام حکومت پاکستان کو پیش کیا گیا جو منظور ہو گیا.
چوہدری محمد سجاول ہل( Hill) سکول سے آٹھ جماعت پاس تھے. انہوں نے ابتدائی تعلیم چوہدری عطاء محمد کے 1948 کے پرائمری سکول سے حاصل کی تھی. دو ماہ کے اندر اندر جہلم سے وزن ( weights)، لیجرز( Ledgers) ، ترازو (Weighing scale)،اور دوسرا ضروری سامان تحریر( Stationary) وغیرہ، جہلم سے چھتروہ بھجوا دیا گیا.
اور 1962 میں اس ڈاکخانے نے باقاعدہ کام کرنا شروع کر دیا. سیاکھ ابھی تک بھی بڑا ڈاکخانہ تھا، وہاں سے خطوط منی آرڈرز اسی دن یا اگلے دن چھتروہ پہنچنے لگے اور انہیں لوگوں تک پہنچا دیا جانے لگا.
چھتروہ کے لوگوں کی سب سے بڑی فتح 1948 میں پہلے پرائمری سکول کا قیام تھا.ڈوگرہ سرکار اور ان کے ہاتھوں چنے ہوئے لیڈر نہیں چاہتے تھے کہ چھتروہ جیسے گاؤں میں تعلیم یا کوئی اور سہولیات کا سلسلہ شروع کیا جائے.
چھتروہ کے انگلینڈ میں رہنے والے لوگوں نے اپنے گاؤں کے ڈاکخانے، لڑکوں، اور لڑکیوں کے سکولوں کی عمارتیں بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا.
درجنوں چھتروہ کے لوگ اوپرا موڑہ سے بنہ گراں اور بلیترہ دوپہر کو ڈاکخانے آتے تھے کہ شاید ان کے عزیز واقارب نے کوئی خط پتر یا کچھ رقم بھیجی ہو گی. ڈاکخانے کا کام زور و شور سے چلنے لگا اب انٹرنیشنل لفافے، ٹکٹ وغیرہ سب کچھ چھتروہ سے دستیاب ہونے لگے اور لوگ بآسانی اپنے پیاروں سے باقاعدگی سے رابطہ کرنے لگے. خواتین اور بزرگوں کا سیاکھ آنے جانے کی دشواریوں کا خاتمہ ہو گیا.
اگر عطاء محمد اور شیخ خلیق کی ملاقات کوونٹری میں نہ ہوتی تو شاید چھتروہ میں ڈاکخانے کا قیام کئی سالوں تک ممکن نہ ہوتا.
1962 میں میرپور کے علاقوں ڈڈیال، چومکھ ،رٹہ ،کٹھار ،اور اوناع میں ڈاکخانے موجود تھے لیکن چھتروہ میں کوئی نہیں تھا. چھتروہ میں ڈاکخانہ نہ ہونے کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ تھی کہ مقامی سیاستدان نہیں چاہتے تھے کہ عوام کو کوئی بھی سہولت مہیا کی جائے ۔ چھتروہ کو ہل ڈاکخانے میں آسانی سے شامل کیا جا سکتا تھا۔ مقامی سیاست دانوں کی وجہ سے چھتروہ میں ڈاکخانہ کا قیام 1962 سے پہلے نہ ہو سکا اور اس وجہ سے چھتروہ کے عوام کو بین الاقوامی جدید مواصلات سے محروم رکھا گیا.
_______________________________
   
 
Exit mobile version