تبصرہ – ڈاکٹر یوسف عالمگیرین
عسکری ادب میں کاکولیات ایک ٹریڈ مارک کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ گویا عسکری ادب کاکولیات کے بغیر نامکمل ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں گزرے ہوئے شب و روز اور تربیتی کٹھن مراحل کے حوالے سے کاکولیات اولین ترین اور مستند کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ مصنف نے کتاب میں پی ایم اے کی تربیت اور پیشہ ورانہ سخیتوں کو جس ہلکے پھلکے پیرائے میں پیش کیا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے۔ کسی بھی کتاب کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مصنف کا اس میں کتنا زور لگا ہے۔ کاکولیات کا اسلوب اس امر کا عکاس ہے کہ لفظ مصنف کے سامنے ہاتھ باندھے دکھائی دیتے ہیں کہ مصنف نے جس طرح چاہا انہیں استعمال کیا۔ ا س کی وجہ شائد یہ ہے کہ کتاب کے مصنف ایک سکہ بند اور مستند لکھاری جناب صولت رضا ہیں۔ آپ نے یہ کتاب اس وقت لکھی جب آپ کپتان تھے آپ بعد میں آئی ایس پی آر میں بریگیڈیر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے آپ کا کمال یہ بہرکیف رہا کہ آپ کی تحریر شگفتگی اور چاشنی وہی رہی جو کپتانی کے دور جوانی کی تھی۔ فوج جوائن کرنے سے پہلے صولت رضا روزنامہ نوائے وقت لاہور کے ساتھ منسلک تھے۔ آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کر رکھا تھا۔ اس کے باوجود آپ نے ریگولر کمیشن کے ذریعے فوج جوائن کی اور کپتانی تک آرٹلری کی ایک یونٹ میں پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے رہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ جو کوئی اخبار کے دفتر کی سیڑھیاں ایک مرتبہ چڑھ جائے پھر اخبار اور میڈیا سے ناطہ توڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آپ کا عملی صحافت کا تجربہ اورایم اے صحافت کی ڈگری آپ کو گھما پھرا کر آئی ایس پی آر میں لے آئی کہ فوج میں رہتے ہوئے آئی ایس پی آر کی ملازمت ہی وہ واحد ذریعہ سمجھی جاتی ہے کہ جس سے اخبارات پڑھنے اور صحافتی برادری سے تعلقات استوار رہتے ہیں۔ جناب صولت رضا کی تحریر میں ادبی چاشنی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ جس کی شائد وجہ یہ ہے کہ اُن کی دوستیاں صرف صحافتی نہیں ادبی حلقوں میں بہت پائی جاتی ہیں۔
آئی ایس پی آر کی خوبصورتی ہے کہ اُن کے ساتھ اردو ادب و صحافت کے بڑے بڑے نام منسلک رہے۔ فیض احمد فیض‘ چراغ حسن حسرت‘ میجر ضمیر جعفری‘ بریگیڈیر صدیق سالک‘ میجر ابن الحسن‘ زیڈ اے سلہری‘ بریگیڈیر صولت رضا‘ کرنل اشفاق حسین‘ صوبیدار افضل تحسین یہان خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ’’دروازہ کھلتا ہے‘‘ کے مصنف ابدال بیلا بھی اپنی سروس کے اواخر میں آئی ایس پی آر سے منسلک ہوئے اور یہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔ گویا آئی ایس پی آر ایسے لوگوں کی آماجگاہ رہی ہے جن کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے قلم اور کاغذ سے بنتا ہے۔
بریگیڈیر صولت رضا کا نام اس حوالے سے بہرکیف منفرد رہا ہے کہ ان کی شناخت ایک مزاح نگار کے طور پر رہی۔ ان کی تحریر اور گفتگو میں بھی بے ساختگی اور شگفتگی باآسانی محسوس کی جا سکتی ہے۔ کاکولیات کا پہلا ایڈیشن اکتوبر 1975میں شائع ہوا۔ اکثر کتابیں ایک دفعہ چھپ کر چھپ جاتی ہیں۔ اگر کتاب نہ چھپے تو مصنف خود چھپ جاتا ہے گویا اچھی کتاب اور تصنیف کبھی ریٹائر نہیں ہوتی کاکولیات 31 ویں ایڈیشن کے بعد بھی بھرپور جوانی کے مزے لے رہی ہے۔ 1975میں پی ایم اے جانے والا کیڈٹ اور 2021 میں پی ایم اے کاکول جانے والے کیڈٹ کو جب یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ ابھی عشق کے اور کون کون سے امتحان باقی ہیں تو وہ کاکولیات کے صفحات کو ’’پھرول پھرول‘‘ کر پڑھتا ہے کہ کون سی سزا ابھی باقی ہے۔ بہرکیف فوجی تربیت کے وہ دن جو کیڈٹس ’’رونے پٹنے‘‘گزارتے ہیں ان کے لئے زندگی بھر کا اثاثہ بن جاتے ہیں۔کہ زندگی کے اصل معنی انہیں ایام میں کہیں پنہاں ہوتے ہیں۔
جناب صولت رضا کاکولیات کے ذریعے اردو ادب میں اپنے قارئین کا ایک بڑا حلقہ پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں جو بہرحال ان سے یہ گلہ کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ انہوں نے کاکولیات کے بعد ’’پریشیر بریک‘‘ کیوں لگا دی۔ جناب صولت رضا اُن مصنفین میں سے ہیں کہ جن کی ایک کتاب شائع ہو تو لوگ دوسری کا انتظار کرتے ہیں وگرنہ بہت سے ادیبوں کی پہلی کتاب پر ہی لوگ بلبلا اٹھتے ہیں اور بہانے بہانے سے مصنف کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ’’ ایک بھی بہت ہے۔‘‘ بعض مصنفین تو اپنی دوسری کتاب اس ترغیب کے ساتھ فروخت کرنے کی سعی کرتے ہیں کہ انہیں دوسری کتاب کے ساتھ پہلی کتاب کی دو کاپیاں فری دی جائیں گی۔ جناب صولت رضا کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔ ان کی کاکولیات کا 31 واں ایڈیشن بھی ہاتھوں ہاتھوں لیا گیا ہے جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ جناب صولت رضا نے تحریری میدان میں ذرا ہاتھ ہولا رکھ کر اپنے قارئین کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اُن کا قلم اور اسلوب اُن کے پاس اﷲ تعالیٰ کا ایک ایسا تحفہ ہے جسے انہیں عوام الناس میں اپنی کتابوں کے ذریعے سے تقسیم کرنا چاہئے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ایک اخبار میں کالم لکھنا شروع کیے لیکن شائد پھر اس لئے بند کر دیئے کہ ان دنوں جس جس قماش کے لوگ لکھنے پر تلے ہوئے ہیں ان کی موجودگی میں کوئی اور کام کر لیا جائے تو شاید عزت کا باعث ہے۔
اس کے باوجود اُمید کی جاتی ہے کہ جناب صولت رضا بہت جلد اپنے قارئین تک مزید کتابوں کے ذریعے اپنے خیالات پہنچائیں گے۔ اُن کی تین کتابیں زیرطبع ہیں جن میں آئی ایس پی آر کے مطابق‘‘ جو آئی ایس پی آر افسر کی حیثیت سے ان کی تیس برس پر محیط روداد ہے‘ ’’غیرفوجی کالم‘‘ آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد لکھے گئے کالم اور تیسری کتاب ’’نملیات‘‘ ہے۔ جس میں انہوں نے نمل یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن کے بانی چیئرمین کی حیثیت سے اپنے تجربات پر قلم اُٹھایا ہے۔
ان کتابوں میں اصل چیز ان کا مزاحیہ اسلوب ہو گا کہ ان ایسی لفظوں کی کاٹ اور بات سے بات نکالنے کا ڈھنگ بہت کم مزاح نگاروں میں پایا جاتا ہے۔ بہت سے مزاح نگاروں کو پڑھ کر باآسانی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس نے کہاں کہاں زور لگا کر مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ایسا مزاح نگار‘ ’’اﷲ توں پایا‘‘ جاتا ہے۔یعنی وہ اپنی ساکھ برباد کر بیٹھتا ہے۔ویسے بہت سے مزاح نگار لکھنے میں ٹھیک دکھائی دیتے ہیں لیکن دِکھنے میں اُن میں ٹیکنیکل فالٹ واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ وہ دانت سے دانت نہیں اٹھاتے اور بہت سنجیدہ ’لُک‘ دیتے ہیں لیکن جناب صولت رضا اس حوالے سے امتیاز رکھتے ہیں کہ ان کی تحریر یں پڑھ کر اور ان سے مل کر دونوں طرح سے طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔ ویسے جو وہ بولتے ہیں وہ کوئی ساتھ ساتھ لکھتا جائے تو مزاح سے بھرپور تخلیقات سامنے آتی جائیں۔ اﷲ کرے قارئین کو جناب صولت رضا کی ایک بعد دوسری اور پھر تیسری کتاب ملتی رہے تاکہ وہ لوگ جو خود کو کھلی کتاب قرار دیتے نہیں تھکتے کو بھی پڑھنے کے لئے کوئی اچھی کتاب ہاتھ آتی رہے۔
