Tarjuman-e-Mashriq

کتابوں سے عشق کی آخری صدی

 کچھ روز قبل  جبار مرزا صاحب کا     کتاب ” بہاولپور میں اجنبی”  پر ایک تبصرہ پڑھا .  اس کتاب کو میں ابھی تک خود نہیں پڑھ سکا مگر خوش آئند بات  یہ ہے کہ اس کتاب کو برطانیہ  میں چھاپا گیا اور اس پر ہمارے  استاد شمس الرحمان صاحب  کا  تبصرہ بھی موجود ہے . مرزا صاحب نے اس کتاب  میں موجود سعود عثمانی کے ایک شعر سے اپنے تبصرے کا آغاز کیا جس میں شاعر کہتا ہے

کاغذ کی یہ مہک ، یہ نشہ ٹوٹنے کو ہے

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

مرزا صاحب نے     لکھا   ” اللہ نہ کریں کتابوں سے عشق کی آخری صدی ہو ، کیونکہ قرطاس و قلم کا رشتہ تو لفظ ،، اقرا،، سے جڑا ہوا ہے” . بے شک ایسا ہی ہے  مگر جہاں دنیا میں  بہت سی اجارہ داریاں ہیں،  جہاں بہت سے قبضے ہیں اورجہاں بہت سے لوگ کچھ لوگوں کے معیار زندگی کو برقرار رکھنے کی خاطر ہر روز مرتے ہیں وہیں کتابوں کی آخری صدی ، اگر کبھی ہوئی ، تو ان پبلشرز کی وجہ سے ہو گی کہ جنہوں نے کتاب کو عام قاری کے ہاتھوں سے دور کر دیا ہے اور اب کتاب صرف چھپتی اور بکتی کسی کو خوش کرنے لیے ہے . تراجم اور کتاب  کو چھاپا جاتا ہے اور  دوستوں کے درمیاں وجہ دوستی کا پاس رکھا جاتا ہے .    عوامی کتب نہیں چھپتی ہیں  اور جو چھپتا ہے وہ حقیقت سے بہت دور ہوتا ہے . ہزاروں  میں جب کتاب کی قیمت ہو گی تو  عام قاری اسے کیسے  پڑھے گا  

جبار مرزا صاحب کی کتاب  ”جو ٹوٹ کے بکھر ا نہیں ” جو حال ہی میں چھپی اور جس نے آن لائن چھپنے کے باوجود بہت پزیرائی پائی کی  وجہ  یہ تھی کہ یہ کتاب تلخ حقائق پر مبنی ذاتی تجربات اور ایک ایسی محبت کی داستان ہے جس کا اظہار اس خوبصورتی سے پہلے بہت کم ہوا ہے اور شائد اس لیے بھی  یہ کتاب بہت مقبول ہوئی کہ یہ  عوام کے لیے لکھی گئی کتاب ہے اس میں خواص نہیں ہیں  جبکہ آج کا پبلشر خواص کا پبلشر ہے    

نیچے کی سطور میں ، میں اپنا ایک تجربہ جو پہلے ایک طویل مضمون ‘ ڈومیلی ‘ کے عنوان سے چھپ چکا ہے کا ایک حصہ ہے ، بیان کر رہا ہوں جس سے مجھے لگا کہ کتابوں سے دور کرنے والے اور کوئی نہیں  وہ ادارے ہیں جو انہیں چھاپتے ہیں.

                                             ……تو کچھ سال پہلے میں نے لکھا تھا  

پچھلے تین ہفتوں سے میں ایک کمرے میں بند   اپنے اگلے سفر کی تیاری میں مشغول تھا  ، اس بار سفر پر جانے سے پہلے میں نے   اپنے سفری سامان میں  میرے محترم استاد ولی موسی کشمیری  کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو  کی ڈائری    رکھ لی  ، جہاں میں بیٹھا ہوں   یہ   سو سال   پرانی عمارت ہے جو  دو کاؤنٹیز    ( اضلاح )   کے ملاپ پر  موجود ہے . یہاں سے کچھ فاصلے پر واروک شائر کا آغاز ہوتا ہے جہاں ولیم شیکسپیر  کی  جائے پیدائش ہے ،   یہ عمارت اب میرا گھر ہے ، اس گھر  کی تاریخ مجھے بتاتی ہے کہ  کوئی سو سال پہلے  یہاں  مسٹر ولیم تھامس  نے آ کر پہلا  بسیرا  کیا  اور تب سے اب تک  اس کی ملکیت  تین لوگوں کے نام ہوئی ، آج میں یہاں رہتا ہوں  آنے والے کل کوئی اور   آباد ہوگا مگر  یہ عمارت کہیں نہیں جائے گی . یہ عمارتیں، یہ شہر ، ان  شہروں کے قلب سے گزرنے والی شاہراہیں  اور ان کے  کنارے پر آباد  عمارتیں ، جو کبھی گھر بنتی ہیں تو کبھی مکان . کچھ ایسی ہی  کہانی  ملکوں ، خطوں اور  ادوار کی ہے .  ایک دور کی تبدیلیاں دوسرے دور کو جنم دیتی ہیں  اور انسان ان تبدیلیوں  سے متاثر ہونے  والا  وہ واحد جاندار ہے جس نے اپنی  ضرورتوں اور   اپنی طاقت کا رعب منوانے کے لیے حادثاتی طور پر یا منصوبہ بندی کے ساتھ  چھوٹی چھوٹی  ریاستوں  میں اپنی حکومتیں قائم کیں اور پھر انہیں  وسعت دیتا دیتا   عظیم مملکتوں  کا شہنشاہ بن بیٹھا . ان  سب کی فتوحات اور  لشکر کشی میں  یہی عمارتیں  ، قلعے اور   زمینی ڈھانچے  ان  کے مسکن تھے  جنھیں اب ہم  آثار قدیمہ اور  ماضی کی فوجی چھاؤنیوں کے بطور جانتے ہیں . میرا کمرہ گھر کے سامنے کے حصے میں ہے اور یہاں سے ایک مصروف شاہراہ نظر آتی ہے آ س پاس  گھر ، کچھ      تعلیمی ادارے ، ایک  سابقہ عدالت کی عمارت اور  برمنگھم کا عالمی ہوائی اڈہ ہے  ،  پورا دن  چہل پہل   میری آنکھوں کے سامنے رہتی  ہے   اور اکثر میں یہ سوچتا ہوں کہ ہم سے پہلے کے لوگ  جب یہاں آئے اور آباد ہوئے تو ان کا پیش منظر کیا تھا  

عامر شاہد کیانی میرے ایک دوست  ہیں  جو    وہ   اکثر مجھ سے  اپنے تجربوں کی بنیاد پر   ایک صحت مندانہ مباحثہ کرتے ہیں جو میرے لیے  بہت مفید ہوتا  ہے . کچھ روز پہلے میں نے   ان   سے ان کے آبائی علاقے   دینہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں کی تاریخ کے بارے میں پوچھا .  یہ علاقہ مجھے ذاتی طور پر اس لیے  دلچسپ لگتا ہے کیونکہ  بچپن سے جب بھی میں  نے راولپنڈی سے میرپور کا سفر کیا تو  مجھے ترکی کی خشک   پہاڑیوں کے پیچھے اپنے   کشمیر  کے پہاڑ نظر آتے تو بے ساختہ  سوچ کچھ ایسی ہوتی    

اس ملک کی سرحد کو کوئی چھو نہیں سکتا

جس ملک کی سرحد کی نگہبان ہیں آنکھیں

ایک روز    معمول کے مباحثے  کے دوران کیانی  صاحب سے میں نے ڈومیلی کی اہمیت اور کچھ    تاریخوں  پہلوؤں پر بات کی  ، اس  گفتگو کی وجہ جناب سلمان راشد صاحب کا ایک انٹرویو   تھا جو میں نے  دیکھا اور روز نامہ ڈان میں ان کا ایک انگریزی کا مضمون تھا ،  اس  گفتگو  کا نتیجہ یہ  نکلا  کہ  میں  ڈومیلی کے ماضی کی تلاش میں  نکل پڑا. اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے دیکھتے جب میں تھک  گیا تو  ایک روز اٹھا ٹکٹ بک کروایا اور  اسلام آباد جا  اترا  اور اپنے محسن  استاد ولی موسی کشمیری کے پاس چلا گیا .  میرے لیے سال کا یہ وقت ہمیشہ اہم ہوتا ہے جب میں گھر جاتا ہوں اور  جسم و  روح پھر  سے ایک نئی امنگ کے ساتھ  واپس لوٹتے اور  اگلے سال کے منتظر ہو جاتے ہیں  

تحقیق میں سب سے بڑا مسئلہ  مستند حوالوں اور    صاحب علم و دانش  تک رسائی ہے . آج  گو کہ بہت سی  کتابیں دستیاب ہیں ، انٹرنیٹ پر حوالہ جات مل جاتے ہیں مگر  مقامی لوگوں سے بات کرنا اور ان سے یہاں کی  لوک داستانوں میں چھپے کرداروں   میں تاریخ کی کھوج ایک   تکلیف دہ کام ہے  مگر میرے محسن  دوست اور   اتالیق  ولی موسی کشمیری نے یہ مسئلہ حل کر دیا  اور میں نے  ڈومیلی  پر   لکھنا شروع کیا  

میں نے انٹرنیٹ کا سہارا لیا اور کچھ کتب خریدنے کا فیصلہ کیا . مجھے  لاہور پاکستان میں موجود ایک پبلشر  کی  ویب سائٹ پر سلمان راشد صاحب کی ایک کتاب ملی  جس کی بارے میں اور کچھ اور کتب کے بارے میں میں نے انہیں   پیغام بھجوایا  اور ان سے پوچھا کہ اگر میں ان سے سلمان راشد صاحب کی  تمام کتب خریدوں  تو وہ  مجھ سے  کیسا برتاؤ کریں گے . میرے تجربے میں جب آپ ایک پبلشر سے کافی ساری کتابیں خریدیں تو وہ آپ کو  نہ صرف  رعایت دیتے ہیں  بلکہ  وہ آپ کو اپنے بک کلب  کا ممبر بھی  بنا لیتے ہیں  مگر یہاں معاملہ کچھ اور تھا . کتب کی قیمت   سترہ ہزار  روپے تھی مگر  پبلشر کا نمائندہ جواب دینے سے قاصر تھا ، اس نے مجھے انتظار کرنے کو کہا .    میرے اس پیغام بھجوانے اور  پبلشر کے  نمائندے کا جواب آنے  کے دوران  میں نے اپنی تحقیق جاری رکھی . مجھے   ایک  ویب سائٹ پر  جناب سلمان راشد صاحب کا ایک انٹرویو  دیکھنے اور سننے کا موقع ملا جس میں انہوں  نے اپنے  علمی سفر  اور اس سفر میں آنے والی تکالیف  کا ذکر کیا اور  ایک جگہ انہوں نے  اپنے مشاہدے کی بنیاد  پر  کہا کہ اکثر لوگ اس لیے جاہل ہیں کیونکہ وہ پڑھتے نہیں ہیں . اب میرے لیے اپنی جہالت کو کم کرنے کے لیے یہ ضروری تھا  کہ میں ان کے پبلشر کا  جواب  موصول ہوتے ہی  ان کی کتابیں پڑھوں اور  فاضل لوگوں کی صف میں کھڑا ہو جاؤں . اس کے ساتھ ساتھ میں نے  ڈان میں چھپا ان کا ایک مضمون بھی پڑھا جو  ڈومیلی کی تاریخ  کا خاکہ تھا  

کچھ گھنٹوں  بعد  مجھے پبلشر کے نمائندے کا پیغام آیا . یہ شخص میرے خیال سے صرف  سیلز ایجنٹ تھا کیونکہ اس نے  کسی منتظم سے  کتابوں کی ترسیل کے بارے میں پوچھنے کے بعد  مجھ سے میرا پتہ پوچھا اور جب میں نے اسے بتایا کہ میں برطانیہ میں رہتا ہوں تو وہ کچھ دیر  کے  لیے پھر مجھے انتظار کرنے کا مشورہ دے کر چلا گیا اور جب   واپس آیا  تو  اس نے میرے فضیلت حاصل کرنے کے تمام در بند کر دیے .  اس کے  پیغام کے مطابق کتب  سترہ ہزار  سے  اٹھاون ہزار روپے کی  ہو گئیں تھیں  اور   مجھے بتایا گیا کہ  یہ فیصلہ  منتظمین کا تھا  یعنی وہ منہ دیکھ کر  تھپڑ مارتے ہیں . میں چاہتا تھا کہ سلمان صاحب سے رابطہ کروں اور ان  کو بتاؤں کہ   لوگوں کے جاہل رہنے کی وجہ یہ پبلشر لوگ ہیں جو کتاب  عام قاری کے لیے  نہیں چھاپتے  اور وہ   جو بھی  کتاب چھاپتے ہیں وہ    اسے سونے کے بھاؤ بیچنے کی کوشش کرتے ہیں   کیونکہ  وہ نہیں چاہتے کہ ایک    عام   قاری کبھی فضیلت کی سیڑھیاں چڑھے   اور کبھی اپنے ماتھے سے جہالت کا لیبل اتارے   . کچھ دیر یہی سوچتا رہا کہ اب میں فاضل کیسے بن  سکتا ہوں    . میں اسی  ذہنی  الجھن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا اور  کوونٹری یونیورسٹی  میں  ملازمت کے  ایک معاہدے پر دستخط کرنے  چلا گیا .  اس یونیورسٹی کے  استادوں کو لگتا تھا کہ میں بھی  استاد بن سکتا ہوں لہٰذا بالغان کو ثقافت کے ساتھ ساتھ  بنیادی زبان سکھانے کے ایک کورس   کی تین منازل کامیابی کے ساتھ طے کرنے کے بعد مجھے  یونیورسٹی  نے ایک  صفر گھنٹوں کے    معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے بلوایا تھا ، یعنی جب میری ضرورت ہوئی مجھے کام پر بلوایا جائے گا  مگر انہوں نے   چار ماہ بہت شفقت سے بغیر کچھ فیس لیے بس ایک انٹرویو اور ماضی کے تجربے کی بنیاد پر  مجھے یہ  تربیت مہیا کی . میں    معاہدے پر دستخط کر رہا تھا  مگر سوچ  وہیں اٹکی تھی ، ” میں فاضل کیسے بنو؟ ” 

اس شام میں یونیورسٹی کی کافی شاپ میں بیٹھا تھا ،  میں کتھارسس کرنا چاہتا  تھا   اور   میں نے ڈاکٹر وقار ارشد کو کال کی ،   وقار  ایک نوجوان ڈاکٹر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور  پکے   پوٹھواری  ہیں . میں نے اور ڈاکٹر  وقار نے کافی پی اور پھر ہم کار پارک کی طرف چل پڑے  میں ڈاکٹر وقار کو  پبلشر  والی واردات سناتا  چل رہا تھا  . ڈاکٹر وقار بھی میری  طرح  یہاں  اس گروپ میں شامل  ہیں کہ  جنھیں استاد بننے کا شوق تھا اور ہم نے  کوئی چار ماہ اکھٹے  تربیت حاصل کی تھی (اب ڈاکٹر وقار آ ئر لینڈ میں ڈاکٹری کرتے ہیں ) . جب  ہم  کار پارک کی جانب جا آرہے تھے تو سامنے ایک پرانی  کتابوں کی دکان کا دروازہ کھلا تھا اندر سے پرانی کتابوں اور ردی کی مہک آ رہی تھی . میں  ڈاکٹر وقار کو لیکر اس دوکان میں داخل ہو گیا . یہاں ہم نے کوئی آدھ گھنٹہ گزارا ، میں نے پانچ کتابیں خریدیں اور اس دوکان میں داخل ہونے سے  پہلے جو جہالت کا بوجھ میرے کندھوں پر تھا اب اتر چکا تھا ، اس دوکان کی ایک شیلف میں   مبلغ سات پاونڈ میں مجھے سلمان  راشد صاحب کی وہ کتاب مل گئی  جس کی مجھے تلاش تھی .  اس کتاب کو حاصل کرنا  تو خود میں فاضل بننے کی سند تھی  ہی مگر اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ جس صاحب یا صاحبہ نے یہ کتاب اس اولڈ بک شاپ پر بیچی تھی   اسے یہ کتاب  صاحب کتاب نے خود  دی تھی کیونکہ کتاب کھولتے ہی لکھا تھا’  مصنف کی جانب سے نیک خواہشات –  سلیمان راشد ‘ (  جملہ انگریزی زبان سے  اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے ).  اب  میرے پاس اس تجربے کو بیان کرنے کے  لیے الفاظ نہیں تھے کہ کیسے جن کو فضیلت گھر  میں ملتی ہے وہ اسے چوراہوں کی نظر کر دیتے ہیں  اور مجھ سے کیسے  کتاب کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب کے دستخط بھی خرید لیتے ہیں  اور وہ بھی مبلغ سات پاونڈ میں   ، یعنی پبلشر  حضرات  کے لیے     حضرت علامہ محمد اقبال  کے الفاظ  سو فیصد درست ہیں کہ  ؛

شکایت ہے مجھے یا رب خُداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

Exit mobile version