Tarjuman-e-Mashriq

کشمیر آج بھی اداس ہے

برطانیہ میں کشمیر کے نام پر قائم ہونے والے پہلے گروپ سے لے کر کشمیر کے نام پر بننے والی آخری تنظیم تک کی نصف صدی نے ہزار وں بونوں کو بلند قامتی کا زعم تو دے دیا لیکن پروفیسر سلطان محمود ہاشمی کا کشمیر آج بھی اداس ہے۔
سرزمین برطانیہ پر قدم رکھنے والے پہلے کشمیری کا نام اور خدوخال شائد تاریخ کے اوراق میں کبھی واضح نہ ہو سکیں اور شائد اس بات کا فیصلہ بھی نہ ہو سکے کہ وہ تاریخ اور سال کون سا تھا کہ جب پہلے کشمیری کے قدموں نے برطانیہ کی مٹی کوچھوا، لیکن گزشتہ صدی کے آخری نصف میں کشمیر اور بالخصوص آزاد کشمیر کے ضلع میرپور سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد برطانیہ آنا شروع ہو گئی تھی۔
ہجرت کرتے مسافروں کے ہاتھوں میں بظاہر کوئی سامان ہو یا نہ ہو لیکن وہ سفر میں اپنے ساتھ اپنی پوری ایک دنیا رکھتے ہیں۔ اجنبی دیس میں قدم رکھتے ہوئے کشمیری مسافروں کے ساتھ بھی ان کی تہذیب اور تمدن کی پوری ایک دنیا تھی جس کو انہوں نے اس نئے دیس میں آباد کرنا تھا سو انہوں نے برطانیہ میں ایک نئی دنیا آباد کرنا شروچ کی۔
گرم موسموں میں پروان چڑھے جسموں کو برطانیہ کی یخ بستہ ہواوں کا عادی ہونے میں کتنا وقت لگا؟
سماعتوں کو اجنبی بولی سے مانوس ہونے میں کیا کیا مشکلات پیش آئیں؟
زبان کے ذائقے کے اسباب پیدا کرنے میں کیا کیاجتن کرنا پڑے؟
یہ تمام سوالات میری آج کی گفتگو کا موضع نہیں ہیں۔ میں آج ان سطور میں برطانیہ میں مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے حوالے سے ہونے والی سرگرمیوں کی نصف صدی پر بات کروں گا۔
کشمیر کے نام پر برطانیہ میں سیاست کا آغاز ہمارے بزرگوں کے یہاں آنے کے ابتدائی برسوں میں ہی ہوگیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے صدموں اور تباہیوں سے نڈھال برطانیہ کی اجڑی فیکریوں کو توانا جسموں کی اور کشمیریوں کوکام کی ضرورت تھی۔ سو فیکٹریوں کی رکی مشینوں اور کشمیری تارکین وطن کی زندگیوں کا پہیہ چلنے لگا۔
رہائش ، روزگار، کھانے پینے اور دیگر معاملات سے ذرا فرصت ملی تو احساس ہوا کہ ہم اپنے پیچھے محض منتظر والدین، بہن بھائی یا اولاد ہی چھوڑ کر نہیں آئے بلکہ ایک ایسا وطن بھی چھوڑ کر آئے ہیں جس کو عالمی توجہ کی ضرورت ہے لہٰذا برطانیہ میں کشمیر کے حوالے سے سرگرمیوں کا آغاز ہونے لگا۔ ابتداء میں انتہائی نامساعد حالات میں ہمارے بزرگوں نے برطانیہ میں کشمیر کے حوالے سے کام کرنا شروع کیا تو یقیناً اس نئے ملک کے سیاسی کلچر سے ناواقفیت کی بنا پرغلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن ان کے ارادوں کی سچائی پر کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر اور پاکستان سے آنے والے سیاستدانوں نے کشمیری تارکین وطن کی اس طاقت کوا پنے مفادات کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا کشمیری جماعتوں کی برانچیں بننا شروع ہو گئیں اور برطانیہ میں کشمیریوں کی قیادت مخلص لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر "فرقہ تصویر یہ” کے ان پیروکاروں کے ہاتھ میں آ گئی کہ جن کے غیر سنجیدہ طرز عمل نے برطانیہ کے طول و عرض میں کشمیر کو ایک تماشا بنا کر رکھ دیا۔ برطانیہ جہاں مسئلہ کشمیر میں کئی حوالوں سے اہمیت رکھتا ہے وہاں یہ ملک اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ اس کی پارلیمینٹ کے بیسیوں حلقے ایسے ہیں کہ جہاں کشمیریوں کے ووٹ فیصلہ کن طاقت رکھتے ہیں۔ اول اول جب برطانوی پارلیمینٹ کے رکن یا امیدوار ہماری تقریبات میں آتے تھے تو وہ پوری تیاری کے ساتھ آتے تھے اور جو بات کرتے تھے اس کا مطلب بھی ہوتا تھا اور اگر ہم چاہتے تو ان کی باتوں کوان کا عمل بنا سکتے تھے لیکن ہمارے غیر سنجیدہ طرز عمل نے بہت جلد ان پر عیاں کر دیا کہ ہماری دلچسپی ان کی باتوں یا ان کے کام میں نہیں بلکہ ہماری دلچسپی تو ان تصویروں کی حد تک محدود ہے جو بعد میں کچھ اخبارات کی زینت بنیں گی کچھ ہمارے ڈرائنگ رومز کی دیواروں پر سجیں گی اور کچھ کا مسکن وہ البمز قرار پائیں گی کہ جو بعد میں گھر آئے ہر مہمان کو بہانے بہانے دکھائی جائیں گی۔ لہٰٰذا برطانوی پارٹیوں کے رہنما اورپارلیمینٹ کے ممبران اب ہماری تقریبات میں اس شرط پر آئے ہیں کہ انہیں کسی دوسری تقریب میں جانا ہے لہٰذا وہ جلدی چلے جائیں گے۔ سو وہ اردو میں اسلام و علیکم اور خدا حافظ کہہ کر داد وصول کرتے ہیں اور منتظمین کوا تنا موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ہر زاویے سے تصویریں بنوا لیں۔ برطانوی سیاستدانوں کی کشمیر کیساتھ دلچسپی اب اتنی رہ گئی ہے کہ نہ گاڑی سے اترتے ہوئے کشمیر ان کے ذہن میں ہوتاہے اور نہ تقریب سے واپس جاتے ہوئے گاڑی میں سوار ہونے کے بعد، لیکن اس میں ہم کس کو الزام کیا دیں کہ یہ سب ہمارے اپنے اعمال کی کمائی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرتے کرتے آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ہماری اپنی نئی نسل ہمارے غیر سنجیدہ طرز عمل سے اتنی بدظن ہو چکی ہے کہ اگر نوجوانوں کے سامنے کشمیر یا اس کے حوالے سے ہونے والی کسی سرگرمی کی بات کی جائے تو و ہ طنزیہ مسکراہت کے ساتھ سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ یہ ہے ہماری پچاس برسوں کی کمائی۔ بقول فیض احمد فیض کہ ۔۔۔۔
ہم سے اس دیس کا تم نام و نشان پوچھتے ہو کہ
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یادا ئے
اور یاد آئے بھی تو کسی محبوب گزشتہ کی طرح
روبرو آنے سے جی گھبرائے

Exit mobile version