Tarjuman-e-Mashriq

کشمیر سے جونا گڑھ اور ڈھا کہ- 3

 
گزشتہ سے پیوستہ
ہمارے ہاں عدلیہ ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر عدل کا فقدان ہے جس کی بڑی اور بنیادی وجہ معاشرے اور ریاست میں اعتدال کا نہ ہونا ہے۔ اعتدال کے بغیر اجتماعی شعور بیدار نہیں ہوسکتا اور نہ ہی عام آدمی اپنے آپ کو معاشرے اور ریاست کا فعال، باعزت اور باوقار فرد سمجھتا ہے۔اُسے جس طرف سے تھوڑی سی آسودگی اور وقتی فائد ہ نظر آئے وہ اُسی سمت جھلک جاتا ہے۔ جس ملک میں بائیس کروڑ انسانوں کے جنگل میں بیس کروڑ بے اہمیت، بے وقت اور بے شعور انسان بستے ہوں اُن میں دو کروڑ قانون شکنوں اور جرائم پیشہ عناصر کا ہونا خارج از امکان نہیں ہوسکتا۔ جس ملک او رمعاشرے میں عدل، علم، حکمرانی، مراعات اور مفادات کے الگ الگ میعار ہوں وہاں کسی عام آدمی کو قتل کرنا، علم کے دروازے بند کرنا، مریض کو دوا سے محروم کرنا، بے عزت و بے آبرو کرنا کوئی جرم نہیں۔ عدل صر ف عدالتوں میں ہی نہیں بلکہ ہر سطح پر مفقو د ہے۔ انصاف بڑے ڈاکوؤں، ملکی خزانہ لوٹنے والوں، عوام اور سرکار کی زمینوں پر قبضہ کرنے والے ہاؤسنگ سکیموں کے مالکان، ڈرگ اور دیگر مافیا جات کے سرغنوں کو دہلیز پر ملتا ہے۔ ایسا ہی احوال سرکاری محکموں اور اداروں کا ہے۔ بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے جیسے ادارے ریاست کے اندر ریاستیں ہیں جہاں پاکستان کا قانون اور آئین بے اثر ہے۔ سندھ کا اصل حکمران آصف علی زرداری، پنجاب کا شریف خاندان اور خیبر کا پرویز خٹک ہے۔ بلوچستان صدیوں سے سرداروں کی ملکیت ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ آزادکشمیر کا نظام حکومت ٹھیکیداروں کے ہاتھ ہے۔ دنیا کے بہترین کرپٹ، قانون شکن نودولیتے پاکستانی سیاسی جماعتوں کو مال لگاتے اور پھر حق حکمرانی خرید کر سوگنا کماتے ہیں۔
شہیدلیا قت علی خان کے بعد ایوب خان کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے کشمیر بھارت کا مٹھی میں آگیا اور پے در پے غلطیوں، نا اہلیوں اور نفرتوں نے بھارت کا پنجہ ظلم مضبوط کیا۔ یہی حال مشرقی پاکستان کا ہوا۔ جنرل اعظم خان کو بحیثیت گورنر بنگالیوں نے دل وجان سے قبول کیا مگر ایوب خان نے بغیر کسی وجہ کے جنرل اعظم کی جگہ عبدالمنعم خان گورنر تعینات کر دیا اور پھر جو ہوا وہ بھی اچانک نہ ہوا بلکہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ہی ہوا۔ مرحوم حسین شہید سہروردی کو حب الوطنی اور مشرقی و مغربی پاکستان کو نہ صرف باہم ملائے رکھنے بلکہ تحریک آزادی کشمیر کو ایک نئے انداز سے شروع کرنے کے منصوبے پر کام کرنے کے جرم میں دو سالوں کے اندر ہی وزرات عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا۔ایوب خان نے اسپر بھی صبر نہ کیا اور پھر ابڈ و لگا کر جناب سہروردی کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ جناب سہروردی کا یبان ہے اگر چھپن کا آئین ختم کیا گیا تو پھرمشرقی پاکستان الگ ہوجائیگا۔ اسی طرح جب انہیں وزرات اعظمیٰ سے ہٹایا گیا تو آپ نے روتے ہوئے کہا کہ میر ا کشمیر منصوبہ ختم ہو گیا۔ میرے سیاسی دشمن نہیں چاہتے کہ کشمیر بھارت کے دست جبر سے آزاد ہو۔ دنیاجانتی ہے کہ جناب سہروردی مرد آئن تھے۔ تقسیم سے پہلے اُنہوں نے کلکتہ کے مسلمانوں کی کس طرح حفاظت کی اور ہندو دہشت گردوں کی گردنیں نا پیں۔2005میں راقم کو بنگلہ دیش جانے کا موقع ملا۔ وہاں اب بھی ہزاروں بنگالی دل میں پاکستان بسائے  بیٹھے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ہم نے بنائی، تحریک پاکستان ہمارے بزرگوں نے شروع کی اور تقسیم ہند کے وقت سب سے زیادہ قربانیاں بنگالیوں اور بہاریوں نے دیں۔ مگر افسوس کہ ہماری عزت و آبرو اور ہمارے خون کی کسی نے قدر نہ کی۔ مغربی پاکستان کے جاگیرداروں اور بیوروکریسی نے ملکر ہمارا استحصال شروع کیا تو جناب حسین شہید سہروردی نے مسلم لیگ چھوڑ کر جگتو فرنٹ بنایا جس کی کوکھ سے عوامی لیگ نے جنم لیا۔
ایک بزرگ بنگالی سیاستدان جن کا تعلق نواب نصر اللہ خان کی جماعت سے تھا نے بتایا کہ قدرت نے پاکستان بچانے کے متعدد مواقع فراہم کیے مگر نا اہل سازشی قیادت نے ملک توڑنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ الیکشن سے پہلے سمندری طوفان نے سارے مشرق پاکستان میں تباہی مچا دی۔ اس موقع پر ہم نے یحییٰ خان، گورنر مشرقی پاکستان کے علاوہ صوبائی اور مرکزی الیکشن کمیشن سے درخواست کی کہ الیکشن ایک سال کے لئے ملتوی کر دیے جائیں تاکہ بحالی کام آسان ہو۔ بعض عوامی لیگی حلقے بھی نہیں چاہتے تھے کہ تباہی و برداری کے ماحول میں الیکشن مہم شروع نہ کی جائے۔ اگر یحییٰ، بھٹو، صوبائی سول اور فوجی قیادت متفق ہو جاتی تو مجیب الرحمن بھارت کے پریشر کے باوجود کسی حدتک راضی ہو جاتا۔ محب وطن بنگالی قائدین نے حساس اداروں کے افسروں سے بھی درخواست کی کہ اس موقع سے فائدہ اُٹھائیں تاکہ بھارت اور مجیب کا منصوبہ کچھ عرصہ کے لیے ٹل جائے۔ اگر سال کے بجائے چھ ماہ کا وقفہ مل گیا تو بھارت کو از سر نو منصوبہ بندی کرنا ہوگی جس کا توڑ سول اور ملٹری قیادت کو ملکر سوچنا ہو گا۔ ہم نے یہ منصوبہ بھی پیش کیا کہ جس طرح بھٹو نے تا شقند کی بے بنیاد اور من گھڑت کہانی کے پلاٹ پر ایوب خان کے خلاف مہم چلائی تھی کیوں نہ یحییٰ خان کے خلاف بھی ایسی ہی مہم چلائی جائے۔ہم چاہتے تھے کہ یحییٰ خان کی جگہ ایک عبوری حکومت آئے جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے نمائندے شامل ہوں اور یہی حکومت الیکشن کی ذمہ داری لے۔ ہماری اس تجویز کو بھی رد کیا گیا اور بھٹو، مجیب اور دیگر علاقائی جماعتوں نے یحییٰ خان پر مکمل اعتماد کا اظہار کر کے بھارت اور عوامی لیگ کا راستہ آسان کر دیا۔
جنرل ٹکا خان کے خلاف بی بی سی، وائس آف امریکہ، بھارتی پریس، ریڈیو ماسکو اور وائس آف جرمنی کے علاوہ مغربی پاکستانی صحافیوں اور اخبارات نے بھی رضا علی عابدی کے سیر بین سے ملکر بھارت اور مجیب کے حق میں بین بجانی شروع کر دی تو یحییٰ خان نے مشرقی کمان تبدیل کرکے جنرل نیازی جیسے نااہل،غیر ذمہ دار اور مسخرے کو مشرقی کمان دیکر بنگلہ دیش کا قیام ممکن بنا دیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ہم سمجھ رہے تھے کہ جنرل نیازی کو واہگہ بارڈر پر گرفتار کر کے اُس کاکو رٹ مارشل کیا جائے گا مگر وہاں اُس پر پھول برسائے جارہے تھے۔ وہ مجرم کے بجائے ہیرو بنکر پھرتا رہا اور پھر سیاسی جماعت بنا کر جلسے جلوس بھی کرتا رہا۔ وہ جلسوں میں روائتی شملہ پہن کر جاتا اور عوام کو بہودہ لطیفے سنا کر خوش کر تا۔
ایک طرف پاک فوج کے افسر اور جوان ایک ہی وقت میں چار محاذوں پر بے جگری سے لڑ رہے تھے اور دوسری جانب یحییٰ، بھٹواور نیازی سازشوں میں مصر وف تھے۔ مکتی باہنی کے ڈیڑھ لاکھ خونخوار درندوں، عوامی لیگی غنڈوں، بھارتی فوج اور موسم کی شدت کا مقابلہ کرنے والی فوج بے سرو سامانی کے باوجود ہر محاذ پر جرات و استقلال کا مظاہرہ کر رہی تھی۔ بھارتی فوجی جرنیل بھی پاکستان آرمی کے جذبہ حب الوطنی کے معترف تھے۔ بھارتی فوج نے بے جگری سے لڑنے والے افسروں اور جوانوں کی لاشوں کی بے حرمتی نہ کی بلکہ انہیں مکمل فوجی اعزاز کیساتھ دفنایا۔ مکتی باہنی اور عوامی لیگی درندوں نے درندگی اور حیوانیت کے ایسے ایسے مظاہرے کیے جسے بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔
چٹاگانگ میں قیام کے دوران بھی کچھ سابق فوجیوں اور سیاسی ورکروں سے ملاقات ہوئی۔ یہ وہ فوجی افسر تھے جو جنگ کے دوران مغربی پاکستان میں تعینات تھے۔ جنگ کے دوران وہ نہ تو باغی ہو کر بھارت گئے اور نہ ہی کسی مقام پر بزدلی کا مظاہرہ کیا۔ جنگ کے بعد یہ لوگ کوئٹہ اور لورالائی کے مقام پر منتقل ہوئے او رپھر بنگلہ دیش بھجوا دیے گئے۔ ان میں سے اکثریت کا خیال تھا کہ مجیب الرحمن حکومت کا پالتو سانپ تھا جسے ڈھنسنے کے لئے تیار کیا گیا۔ کون نہیں جانتا تھا کہ 1950سے ہی وہ بھارت کے خفیہ دورے کر رہا تھا اور نہرو سے بھی مل چکا تھا۔ کیا حکومت نہیں جانتی تھی کہ مشرقی پاکستان میں سارا تعلیمی نظام ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے اور ہندواُستاد بنگالیوں کی برین واشنگ کر رہے ہیں۔ علاوہ اس کے مغربی پاکستان سے آنیوالے سول بیورو کریٹ بنگالی عوام سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے تھے اور انہیں اپنا غلام سمجھتے ہیں یہ بھی سچ ہے کہ مغربی پاکستان میں بھی بیورو کریسی کا یہی رویہ تھا اور آج تک ہے مگر مشرقی پاکستانی عوام زیادہ حساس، جذباتی اور ہمدردانہ رویے کی اُمید رکھتے تھے۔ مجیب الرحمن کو اگر تلہ سازش کیس میں باعزت بر ی کرنا ایوب خان کا ایک اور بلنڈر تھا جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا۔ مجیب الرحمن کی سیاسی پرورش میں اصفہانی خاندان کا بھی ہاتھ تھاجو بیگم بھٹو کے قریبی رشتہ دار تھے۔اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی، بلوچی اور سندھی قوم پر ستوں خاص کر جی ایم سید کی حمایت کا بھی اثر تھا جس کا ذکر کبھی ہوا ہی نہیں۔

Exit mobile version