دنیا میں دو ایسے خطے ہیں جن کی سیاسی، جغرافیائی، عسکری اور کسی حد تک تجارتی اہمیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ دیکھا جائے تو دنیا کا سارا نظام خوف اور اُمید کے درمیان معلق ہے۔ خوف اور اُمید کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے اور اسی نفسیاتی عمل سے کاروبار زندگی منسلک ہے۔ اُمید کا تعلق آزادی، خوشحالی ترقی و کامرانی سے ہے جس کے ہزارہا پہلو ہیں۔ خوف اُمید پرلہر اتا وہ سائیہ ہے جو کسی بھی وقت، فرد، معاشرے اور ریاست کی آزادی، خوشحالی، ترقی و کامرانی کا راستہ روک کر اُسے تنزلی کا شکار کر سکتا ہے۔ خوف کے اس سائے کا خاتمہ تو ممکن نہیں اور نہ ہی اسے کسی بھی طریقے سے اور ہتھیار سے ختم کیا جاسکتا۔ علمائے سیاست نے صدیوں پر محیط تحقیق و تجربے سے جو نتیجہ اخذ کیا اسکا حل یہی ہے کہ اپنی ترقی، آزادی اور خوشحالی کی حفاظت ریاست کی سرحدوں پر کرنے کے بجائے اپنے ملک سے دور ایسے مقام پر کی جائے جس سمت سے خوف کا اندیشہ ہو۔
معلوم تاریخ کے مطابق جزیرہ نما عرب، کشمیر اور چین کا درمیانی علاقہ جس میں کارگل، تبت، زنسکار، بلتستان اور گلگت کے ملحقہ علاقے شامل ہیں ہمیشہ سے ہی عالمی سازشوں کا مرکز رہے ہیں۔
پیٹرھوپ کر ک کی تصنیف ”دی گریٹ گیم“ فارن ڈیولزآن سلک روڈ، قوسٹ فارکم، سیٹنگ ایسٹ اپلیز کے علاوہ قدیم تاریخی کتب جن میں ہندوؤں کی مقدس تاریخی کتاب نیل مت پران، پندٹ کلین کی راج ترنگنی، سفر نامہ ہیون سانگ، یونانی تاریخ دان، ھیروڈوٹس، جغرافیہ دان کلاڈیس ٹالمس، سٹار بو، پلینی اور درجنوں رومی سیاح، محقق اور تاریخ دان کشمیر اور چینی ترکستان آئے۔ان سیاحوں اور تاریخ دانوں نے سفر نامے اور تحقیقی مقالے لکھے جس سے ثابت ہے کہ ہمالیہ و قراقرم کے دونوں اطراف بسنے والی اقوام خوشحال، بردبار، تعلیم یافتہ، ہنر مند، جفاکش،اور آزادی پسند تھیں۔ بد قسمتی سے کشمیری تاریخ اور تہذیب کو اہل مغرب اور دیگر اقوام نے قابل توجہ نہ سمجھا اور اسے ہندی تاریخ و تہذیب میں مدغم کر دیا۔ باوجود اس کے اقوام عالم اس خطہ زمین سے لا تعلق نہ رہ سکیں اور ہر دور میں اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے گریٹ گیم کا میدان قرار دیکر مختلف حیلوں سے اسے زیر قبضہ رکھنے کی کوششوں میں مصرف رہیں۔
سولہویں، سترویں اور اٹھارویں صدی عیسوی میں اس خطہ زمین پر جو سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں اس کا مفصل احوال مرزا حیدر دوغلات نے تاریخی رشیدی میں درج کیا جب یہ علاقہ کشمیر اورمغلستان کا حصہ تھا۔ اٹھارویں صدی کے ابتدائی سالوں تک کشمیر پر حکمرانی کرنے والے خاندانوں کا تعلق تبت، مغلستان (سنگیانگ) اور ترکستان سے رہا ہے۔ شاہ میری خاندان کا تعلق اگرچہ ایران سے تھا مگرشاہ میربھی ترک النسل ہی تھا۔
کشمیر کے پہلے حکمران راجہ گوند اور آخر ی فرمانرو ایعقوب شاہ چک کا تعلق تبت سے تھا۔ چک خاندان کے بعد مغل، افغان، سکھ،ڈوگرہ اور انگریز اس علاقہ پر قابض ہوئے جن کے تسلط کے بعد گریٹ گیم کی اصطلاح متعارف ہوئی۔
جموں سے تبت اور مغرب کی جانب سری کول سے چترال، ہزارہ اور اٹک کے علاہ چھچھ اور حضرو تک ڈوگرہ راج قائم تھا مگر گریٹ گیم کا سارا میدان انگریزی تسلط میں تھا۔ انیسویں سے بیسویں صدی تک یہ علاقہ انگریزوں کے علاوہ جاپانیوں، فرانسیسیوں، جرمنوں او ر روسیوں کے درمیان کشمکش کا میدان رہا۔برطانوی اور روسی جاسوسوں کے علاوہ دونوں اطراف کے فوجی دستے کئی بار آمنے سامنے آئے مگر ھنزہ، گلگت اوریٰسین کے راجگان کی بغاوت او ر روسیوں سے خفیہ تعلقات کے خوف کی وجہ سے انگریز ہر بار مسلح کارروئیوں سے گریز کرتے رہے۔ ڈوگرہ حکمران بھی کبھی انگریزوں سے خوش نہ رہے اور اپنے ایجنٹوں اور تاجروں کے ذریعے روسیوں سے خفیہ تعلقات بحال رکھے۔
1947ء کے بعد پاکستان اور بھارت د والگ ریاستیں قائم ہوئیں تو تقسیم ہند کے فارمولے کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت نے جوناگڑھ، گجرات،سُکم اور کشمیر پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ مہاراجہ کو ایک عالمی سازش کے تحت پہلے کشمیری مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا اور پھر کشمیر یوں کی جد وجہد آزادی کو دبانے کے لیے مہاراجہ کو الحاق کشمیر کی جعلی دستاویز کی آڑ میں اقتدار سے ہی ہٹا دیا گیا۔ فریڈم ایٹ مڈنائیٹ کے مصنفین نے اس عالمی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے ہر سازشی کردار کا الگ اور مفصل احوال بیان کیا۔
1947سے 1950تک کشمیریوں نے بھارتی فوج کے خلاف مسلح جدوجہد کی اور گلگت اور بلتستان کے علاوہ دس ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کر لیا۔ گلگت اور بلتستان کے غیور عوام نے ٹائیگر فورس جس کی کمان کرنل مرزا حسن اور آئی بیکس فورس جس کی کمان لیفٹینٹ بابر کر رہے تھے نے بھارتی اور ڈوگرہ افواج کو شکست دیکر سونامرگ، دراس اور کارگل پر قبضہ کر لیا۔ اس سے پہلے کہ مجاہدین آزادی سرینگر سے تبت تک کے علاقہ پر تسلط قائم کرتے پنڈت جواہر لا ل نہرو مسلۂ کشمیر اقوام متحد میں لے گئے مگر بعد میں گریٹ گیم کے کھلاڑیوں کی مدد سے اقوا م متحد اور سیکیورٹی کونسل کی قراردوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے شمالی کشمیر جس میں کارگل سے تبت اور شمال مغر ب میں دریائے شیوک کے دھانے تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔
1962ء میں بھارت نے نیفا کے علاقوں پر اپنی پوزیشن مضبوط کی تو چینوں نے بھارتی فوج کو نہ صرف پسپا کیا بلکہ بہت سے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ امریکہ اور بھارت دوست ممالک کو خطرہ محسوس ہو ا کہ پاکستان اس موقع سے فائد اٹھا کر کارگل اور ملحقہ علاقوں پر قابض ہو جائیگا۔ بھارت نواز ممالک کو گریٹ گیم کا میدان ہاتھ سے نکلتا نظر آیا تو امریکہ نے صدر پاکستان جنرل ایوب خان کو یقین دلایا کہ بھارت،چین معاملات درست ہوتے ہی پاک بھارت مذاکرات کے ذریعے مسلۂ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار داروں کے مطابق حل کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے پاکستان ایک بار پھر عالمی سطح پر سازش کا شکا ر ہوا اور بھارت نے اپنی پرانی روش کے تحت نئی سازشوں کا جال بننا شروع کر دیا۔ خفیہ اطلاعت کے تجزیے کے بعد چین نے پاکستان کو مطلع کیا کہ میرآف ھنزہ سے مختلف ممالک کے سفارتکاراور خفیہ ایجنسیوں کے نمائندے رابطے میں ہیں۔ یادرہے کہ ریاست ھنزہ شمال میں ایک بڑی ریاست ہے۔حکمران خاندان کا تعلق تیموری ترک قبیلے سے ہے اور بچانوے فیصد آباد اسماعلیہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ جن کے معاشرتی، سیاسی اور مسلکی تعلقات افغانستان اور کارگل کے کچھ علاقوں کے باشندوں سے ہیں۔ گریٹ گیم کے اہم کھلاڑی میر آف ھنزہ کو اس بات پر قائل کر رہے ہیں کہ وہ کارگل کے علاقوں کا بھارت سے الحاق کر دے توبدلے میں اس کی ریاست اور خودمختار حیثیت عالمی سطح پر قبول کر لی جائے گی۔ یوں تو یہ علاقہ جات پہلے سے ہی بھارت، چین اور افغانستان کے زیر قبضہ تھے مگر میرآف ھنزہ کی جانب سے ان ممالک کے پاس کوئی قانونی دستاویز نہ تھی۔ موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے پاکستان اور چین نے سرحد معاہدہ کیا اور اکسائی چن کا سارا علاقہ چین کے حوالے کر دیا۔ معائدے کے مطابق شمالی کشمیر کے کچھ علاقوں اور اکسائی چن کے علاوہ خنجراب کے کچھ علاقے چین کے حوالے کیے گئے۔ یہ ایک عارضی معاہدہ ہے جس کا مستقبل آزادیِ کشمیر سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ 1965اور1971کی جنگوں سے بھی پاکستان کوئی فائدنہ اٹھا سکا اور ملکی اور غیر ملکی سازشی عناصر نے گریٹ گیم کا میدان ہموار رکھا۔
1978اور1980کے درمیان افغانستان پر سوویت یونین نے سور انقلاب کی آڑ میں قبضہ کیا تو گریٹ گیم میں بھی تیزی آگئی۔ 1971کی جنگ کے دوران اس علاقہ کو پاکستانی قیادت نے کوئی اہمیت نہ دی جس کی وجہ سے بھارت نے بلتستان کے مزید علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ باوجود اس کے پاکستانی قیادت نے آنکھیں بند رکھیں اوربھارت کو اس انتہائی حساس علاقے پرمن مانی کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ 1980کے بعد بھارت نے کارگل کے بدھ اور ہندو نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرنا شروع کیا اور کارگل میں ہائی آلٹیچیوٹ اینڈ سنو وارفیر سکول قائم کیا۔ سکول کمانڈنٹ کرنل کمار کا تعلق انڈین سپیبل فورس سے تھا۔ کرنل کمار نے امریکہ سے رینجرزکورس کے علاوہ روس سے بھی تربیت حاصل کی اور مغربی ممالک سے تقسیم ہند سے پہلے کیا جانے والاسروے ریکارڈ، نقشہ جات اور دیگر دستاویزات حاصل کیں۔ بھارتی فورس اور بھارتی خفیہ ایجنسی نے دراس،لیہ اور سونا مرگ کے مقامات پر اپنے مراکز قائم کیے اور بلتستان کے علا قوں میں اپنے ایجنٹ بھجوانا شروع کر دیے۔ گرمیوں میں انڈین آرمی کے دستے سولین لباس میں خپلوکے مختلف علاقوں اور گاؤں میں گھس آتے اور مقامی لوگوں کو ہراساں کرتے۔ سردیوں میں برف کے دوران سنو اینڈماؤنٹین وارفیئرسکول کی نگرانی میں انڈین آرمی کے دستے سیاہ چن کے علاقوں میں جنگی مشقیں کرتے جس کی اطلاع سول آبادی نے کئی بار مقامی انتظامیہ کو دی مگر انتظامیہ نے بوجہ چپ سادھ لی۔ لوکل آبادی نے انڈین آرمی کی دست درازی اور خواتین کی بحرمتی کے واقعات رپورٹ کیے تو بہت سے لوگوں کو افواہ پھیلانے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا۔ بہت سوں پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیااورسزائیں بھی ہوئیں۔
اسی دوران پاک فوج سے تعلق رکھنے والے بلتی جوانوں نے گلگت میں قائم فورسز ہیڈ کواٹر کو مطلع کیا تو گلگت سکاؤٹ کو سیاہ چن سے ملحقہ آبادیوں کے تحفظ کے لیے الرٹ کیا گیا۔ خفیہ معلومات حاصل کرنے والی ایجنسیاں جو اب تک سو رہی تھیں بھی خواب خرگوش سے بیدار ہوئیں تو اسی دوران بھارت کی ایک ٹورازم ایجنسی کی طرف سے جرمن رسالے میں اشتہار شائع ہوا کہ پاکستان کے بجائے بھارتی کی جانب سے کے ٹو اور دیگر اہم چوٹیوں کو سر کیا جائے تو بھارت پاکستان کی نسبت بہت سہولیات فراہم کریگا۔
اس اشتہار اور دیگر خبروں کی تصدیق ہونے کے بعد موسم کھلنے سے پہلے ہی پاکستان آرمی سپیشل سروسز گروپ کی ایک کمپنی زیر قیادت میجر اسلم خان خٹک اور کیپٹن ارشد رفیق ملک اس علاقہ میں پہنچ گئی۔ نامساعد موسمی حالات کے باوجود سپیشل فورس کے افسر اور جوان بھارتی فوج کی آمد کا انتطار کرنے لگے۔ چند دنوں بعد بھارتی دستے اپنی مجوزہ جگہ پر آئے اور کیمپ قائم کر لیا۔ کیمپ کے قیام کے بعدا نہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ تین اطراف سے پاک فوج کے گھیرے میں ہیں۔ میجر اسلم خان خٹک نے میگافون پر اعلان کیا کہ شام سے پہلے کیمپ خالی کیا جائے ورنہ نتائج کی تمام تر ذمہ داری بھارتی فورس کمانڈر کے سر ہوگی، میجر اسلم خان کی وارننگ کے بعد بھارتی دستے اپنی جان بجا کر بھا گ نکلے اور اپنا انتظامی کیمپ اور دیگر سامان وہی چھوڑ گئے۔
چھ ماہ تک سپیشل فورس کے دستے اس علاقے میں موجود ہے اور سول آبادی کا نہ صر ف حوصلہ بڑھایا بلکہ بھارتیوں کا چھوڑا ہوا سامان بھی اُن کے حوالے کر دیا۔ اسی دوران آرمی میڈکل کور نے کئی مقامات پر میڈیکل کیمپ قائم کیے اور سول آبادی کو مفت علاج اور ادویات کے فراہم کیں۔ اگلے سال بھارت کی جانب سے ایک بٹالین فوج، سپیشل فورس کے دستے اور دیگر امدادی گروپ موسم کھلنے سے پہلے ہی اپنی جگہوں پر آگئے۔ بھارتی فورس اپنی پوزیشن مستحکم کر رہی تھیں کہ پاکستان سپیشل سروس گروپ کے جوان اُن کے سروں پرجا پہنچے۔میجر اسلم خان خٹک، میجر ارشد اور کیپٹن آفتاب نے جاتے ہی بھارتی فورس کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ مار کارروائی کی۔ اس اچانک کاروائی سے خوفزدہ ہو کر بھارتی فوج کیمپ سے بھاگ اُٹھی۔ دیگر کیمپو ں اور چوکیوں پر میجر ارشد اور کیپٹن آفتا ب نے بھرپور کاروائیاں کیں اور بھارتی فوج کو بھانگے پر مجبور کردیا۔
بھارتی فورس کی اس کارروائی کے بعد سپیشل سروسز گروپ کے دستے اپنی جگہوں پر دفاع پذیر ہوگے اور شدید برف بھاری کے دوران بھی علاقہ خالی نہ کیا۔ اگلے سال بھارت نے ایک ڈویژن فوج معہ لانگ رینج توپخانے اور دیگر انتظامات کے ساتھ سیاہ چن کے علاقے میں تعینات کر دی۔بھارتی ڈویژن کو ہیلی کاپٹروں کے علاوہ موسمی حالات کے مطابق لباس اور خوراک روس نے فراہم کیا جبکہ مغربی ممالک نے بھی بھارت کی بھرپور مدد کی۔ بھار ت کی اس پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے NLI کے کچھ دستوں کے علاوہ پہلی پاکستانی انفنٹری بٹالین 21آزادکشمیر رجمنٹ دفاع وطن کے لیے سیاہ چن کے محاذ پر جاپہنچی۔ رجمنٹ کی قیادت لفٹینٹ کرنل محمد عبداللہ اوربعد میں لیفٹنٹ کرنل اسلم پرواز نے کی۔ اس رجمنٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے نارمل ونٹرکٹ (سردیوں کے لباس) میں منفی 40اور45کے درجہ انجماد اور23سے 25ہزار فٹ کی بلندیوں پر بغیر کسی خصوصی لباس اور خوراک کے محض قوت ایمانی اور جذبہ جہاد سے سرشار ہو کروطن کا دفاع کیا اور بھر پور تیار ی اور کئی سالہ تربیت اور تجربے سے لیس بھارتی فوج کو نہ صرف مزید پیش قدمی سے روک دیابلکہ کئی چوکیوں سے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔
جونہی پاکستانی فوج نے سیاہ چن میں دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ پر اپنی اہمیت کا احساس دلایا تو گریٹ گیم کی حکمت عملی میں بھی تبدیلیاں وضع ہونے لگیں۔ چینوں نے اپنے علاقے میں کچھ اصلاحات کیں اور اپنا دفاع مزید مستحکم کر لیا۔سوویت یونین نے اپنی سپیشل فورس کا ایک بریگیڈ واخان میں تعینات کیا مگر پاکستان نے کوئی جوابی کارروائی نہ کی۔ پاکستان کی جانب سے رپورٹنگ اینڈ ابزرویشن کا موثر نظام قائم کیا گیا جس کے مطابق روسی واخان میں قائم کیمپوں تک ہی محدود رہے۔
اسی دوران افواہ ساز اداروں نے خبریں پھیلانا شروع کیں کہ بھارت جلد ہی ایک بڑی زمینی کارروائی کرتے ہوئے شارع ابریشم تک آئیگا اور روسی بریگیڈ سے ملاپ کے بعد پاکستان اور چین کا زمینی رابطہ منقطع کر دیگا۔ افوائیں اپنی جگہ قائم ر ہیں اور بھارت اپنی فوجی قوت میں بھی مسلسل اضافہ کرتا رہا۔ بھارت نے واخان میں روسی فوج کی موجودگی کو نفسیاتی حربے کے طور پر استعمال کیا تواسی دوران احمد شاہ مسعود نے وادی پنج شیر میں روسیوں کے خلاف کاروائیاں کیں اور صوبہ نورستان اور کنٹر میں مجاہدین کی پوزیشنیں مستحکم ہو گئیں۔ روسیوں نے واخان سے اپنا کیمپ اٹھا لیا اور نور ستان کا علاقہ اسماعیلی مذہبی رہنما سید کیان کے حوالے کر دیا۔ روسی اپنا اسلحہ بمعہ ٹینک، تو پخانہ اور دیگر سامان سید کیان کی ملیشیا فورس کے حوالے کر گئے اور دوستانہ ماحول میں یہ علاقہ خالی کر دیا۔اُن دنوں ٹائم میگزین نے سیدکیان کی تصویر صفحہ اوّل پر شائع کی اور انہیں ایک روسی ٹینک پر سوار دکھلایاگیا۔
روسو افغان جنگ نے گریٹ گیم منصوبے پر بھی اثر کیا اور گریٹ گیم کے کھلاڑیوں کو بھارت سے توجہ ہٹا کر افغانستان کی طرف دیکھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ روسو افغان جنگ کے اختتام پر افغانستان پر پہلے وار لارڈز نے ڈاکٹر نجیب اللہ اور شمالی اتحاد کے ہاتھ مضبوط کیے اور بعد میں شمالی اتحاد کے اہم رہنما پروفیسربُرہان الدین ربانی عہدہ صدرات پر فائز ہوئے تو وارلارڈز بھی شامل اقتدار ہوگے۔ پروفیسر ربانی نے مکہ معائدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صدرات چھوڑنے سے انکار کیا تو کھیل طالبان کے ہاتھ آگیا۔
جنیوا امن منصوبے نے پاکستان کی پوزیشن کمزور کی اور دوسری جانب دیوار برلن کے انہدام اور سوویت یونین کے اختتام پر وارساپیکٹ بھی ختم ہو گیا۔ یونی پولر ورلڈ کے قیام اور سرد جنگ کے خاتمے پر نیوورلڈ آرڈر، گلوبل ویلج اور تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاحات سامنے آگئیں۔ گلف وار سے پہلے ایرانی انقلاب، عراق ایران جنگ اور بعد میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں اور عرب بہار جیسے واقعات نے عالمی طاقتوں کی توجہ منشتر کر دی۔
9/11کے واقع کے بعد افغانستان پر قابض کثیر الاقوامی فوج کو طالبان نے تھکا دیا اور بہت سے ممالک اس اتحاد سے ہی نکل گئے۔یورپی یونین کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی اور دہشت گری کی نئی جنگ اور اس کے کھلاڑیوں آئی ایس ایس اور القائدہ ساری دنیاکے معمہ بن گئے۔ سرد جنگ کی جگہ دہشت گردی کی جنگ متعارف ہوئی جس کی آڑ میں پاکستان مخالف قوتوں نے بھارت اور افغانستان میں صدیوں سے قائم نفسیاتی تعلقات کو ایک نئے قومی اتحاد میں بدل دیا۔ افغان نفسیاتی طور پر بھارت اور ہندو نواز ہے۔ 1747سے پہلے جب افغانستان کوئی ملک ہی نہ تھا تب بھی کوہ سلیمان کے دونوں اطراف بسنے والے پختون سر زمین ہند کے ہندوؤں اور سکھوں کے ہمدرد اور غم گسار تھے۔ امیر عبدالرحمن آف افغانستان نے تقسیم ہند سے پہلے ملکہ معظم سے درخواست کی تھی کہ بلوچستان، چترال، سوات،دیر اور اٹک تک کے علاقہ جات افغانستان میں مد غم کیے جائیں۔ سندھ اور پنجاب کو بھارت کا حصہ قرار دیا جائے اور شمالی علاہ جات پر ڈوگرہ حکمرانی کا حق تسلیم کیا جائے۔ امیر عبدالرحمن کو خطرہ تھا کہ چترال کے ضلع بدخشاں جس میں واخان اور سری کول کے علاقہ جات،ضلع نورستان اور کنڑشامل ہیں پاکستان کو واپس کو مل جائیں گے۔واضع رہے کہ بیان کردہ افغان صوبے ریاست چترال کے انگریز ریذیڈنٹ نے افغانستان کے سپر د کر دیے تھے۔ شاہی خاندان میں باہمی اختلافات کے نتیجے میں چترال کا بادشاہ قتل ہوگیا تو اسکا کمسن بیٹا تخت نشین ہوا۔ انگریز پولیٹیکل ایجنٹ اور گریٹ گیم کا ماہر کیپٹن ینگ ہا سبنڈ بادشاہ کا نگران مقرر ہوا تو اُس نے چترال کے تین اضلاع عارضی طورپر افغانستان کے حوالے کر دیے۔ معاہدے کے مطابق بادشاہ کے بالغ ہونے پر ریاست کا انتظام بادشاہ کے حوالے کیا جائیگا اور افغانستان ان اضلاع سے دستبردار تصور ہوگا۔تقسیم ہند کے بعد میں حکومت پاکستان اور افغانستان نے خاموشی اختیار کی اور چترال کا بڑا حصہ تا حال افغانستان کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔ افغان جنگ کے بعد جنرل ضیاء الحق ہوائی حادثے میں جان بحق ہوئے تو پاکستان میں سیاست کا نیا کھیل شرو ع ہو گیا بے نظیر بھٹو کے بعد نواز شریف اور پھر بے نظیر بھٹوا ور1999کی کارگل جنگ کے بعد جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور پھر تیسری بار نواز شریف اقتدار میں آئے۔ جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی چند سال ترقی انتظامی امور میں بہتری اورخوشحالی کے گزرے مگر جلد ہی جنرل پرویز مشرف پر روائتی سیاستدانوں اور کرپٹ مافیا نے کنٹرول حاصل کرلیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو زبردستی کھینچ لیا گیا اور NRO کی آڑ میں نہ صرف جنرل مشرف کو اقتدار سے الگ کیا گیا بلکہ زرداری اور نوازمشرف کی صورت میں کرپشن کو جمہورت کا نام دیکر ملکی وسائل لوٹ کر بیرون ملک منتقل کر دیئے گئے۔
1999ء کی کارگل جنگ سے پہلے سیاہ چن پر کئی خون ریز معر کے ہو ئے اور جنگی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ ہوا۔ گوکہ پاکستانی صحافیوں اور دانشوروں نے فوج مخالف رویے اور بھارت نوازی کی وجہ سے کسی پاکستانی افسر اور جوان کی ہمت اور جذبے کو سراہنے سے اجتناب کیا مگر عالمی عسکری تربیتی اداروں،عسکری جریدوں اور دانشوروں نے پاک فون کے کمانڈروں اور جوانوں کے منصوبوں اور کارناموں کو خراج تحسین پیش کیا۔ کیپٹن کرنل شیر خان کو جس انداز سے بھارتی افسروں اور عسکری تجزیہ نگاروں نے خراج تحسین پیش کیا وہ نہ صرف قابل تعریف بلکہ عساکر پاکستان کے لئے باعث فخر ہے۔ آپریشن چمک کی منصوبہ بندی کو امریکہ کے عسکری دانشوروں اور منصوبہ سازوں نے ایک حیرت انگریز عسکری کارنامہ قرار دیتے ہوئے لیفٹینٹ کرنل سیّد محمد حسین یونس نقوی کی ذہانت اور قابلیت کو بمثال قرار دیا۔ اسی طرح اس آپریشن کے ہیرو کیپٹن نوید الرحمن، سپیشل فورس کے حوالدار یعقوب،کیپٹن سہگل اور دیگر کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور انہیں نئے جنگی اسلوب متعارف کروانے والے جرات مند ہیر و قرار دیا۔
پاک چین فریند شپ سے دنیا پہلے ہی خائف تھی کہ چائنہ پاک کو ریڈور (سی پاک) منصوبہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں خاص کر بھارت، آسٹریلیا، جاپان او ردیگر کے لئے اعلان جنگ ثابت ہوا۔
چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی، اقتصادی اور سفارتی قوت دنیا کے صنعتی ممالک کی اجارہ داری اور تیسری دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک کو معاشی لحاظ سے تباہ کرنے اور غلام بنانے کی پالیسی پر بجلی بن کر گری۔انڈوپیسفک منصوبہ یک دم اپنی اہمیت کھو بیٹھا جس کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو گریٹ گیم منصوبے کی اہمیت کا شدت سے احساس ہوا۔
سی پاک منصوبے کا راستہ روکنا یاناکہ بندی کرنا اب ممکن تو نہیں رہا مگر اسے مفلوج کرنے کے لیے امریکہ کو افغانستان سے جلدفوجی انخلاء کا منصوبہ ترک کرنا پڑا۔ اسی طرح ایران سے کشیدہ تعلقات کی بحالی اور جزیرہ نما عرب کی ریاستوں پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت پیش آئی۔
افغانستان، ایران،پاکستان، چین اور مشرقی وسطیٰ کی ریاستوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں اور اُسے فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر استعمال کیا جائے۔
انڈوپیسفک منصوبے کو از سر ے نو تربیت دینے کے لیے مشرق بعید کے ممالک کے علاوہ یورپی یونین کی شمولیت بھی اہمیت کی حامل ہے۔مگر یہ سب کچھ جلد از جلد ممکن نہیں۔ دنیا کے معاشی، اقتصاد ی او رنفسیاتی حالات پر چین کے علاوہ ان دیکھا دشمن وائر س کی شکل میں حملہ آور ہے جس کے تدارک کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے۔
سوائے چین کے دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں وائرس پر مکمل کنٹرول ہو۔ گو کہ پاکستان میں اسپرکوئی مثبت بحث سامنے نہیں آئی مگر یہ حقیقت ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات نے گریٹ گیم کی اہمیت کو پچھلی صدیوں کی نسیت زیادہ اجاگر کیا ہے۔ اس بار روس اوربرطانیہ کی جگہ ساری دنیا کے صنعتی ممالک چین کے مد مقابل ہیں۔ اگر چہ روسی حکمت عملی کھل کر سامنے نہیں آئی مگر امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے روس، چین، ترکی، ایران او رپاکستان پر اپنی نظریں جما رکھی ہیں۔گریٹ گیم کا میدان تو وہ ہی ہے مگر کنٹرول برطانیہ کی بجائے پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ سیاہ چن محض ایک گلیشیر ہی نہیں بلکہ بھارت، چین اورپاکستان کے درمیان پہلی دفاعی دیوار ہے۔ بھارت کی پشت پر ساری دنیا کھڑی ہے مگر بھارت گزرے سال سیا ہ چن کے مشرق میں چین کے ہاتھوں شکست کھا چکا ہے۔ چین کے ہاتھوں مسلسل رسوائی نے ثابت کر دیا ہے کہ بھارت اگرچہ فرنٹ لائن سٹیٹ ہے مگر اس میں لمبے عرصے تک لڑنے کی صلاحیت نہیں۔ اُس کی اندرونی پالیسیاں عوام کش ہیں اور ملک نفسیاتی اور اقتصادی لحاظ سے مفلوج ہو رہاہے۔ داخلی لحاظ سے بھارت کمزور اور کھوکھلا ہو چکا ہے جو خارجی دباؤ کا ہی نتیجہ ہے۔ کشمیر کے حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں اور بھارتی فوج اور انتظامیہ سول آبادی سے حالت جنگ میں ہے۔ ایسے حالات میں وہ سلک روڈ پر قبضے کا خواب تو دیکھ سکتاہے مگر عملاً ایسا نہیں کرسکتا۔ 1980کی دہائی میں روسی فوج کی واخان میں موجودگی کے باوجود بھارت سیاہ چن سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اب روس بھی بھارت کا ذیادہ خیرخواہ نہیں رہا چونکہ بھارت مکمل طور پر امریکہ کی گرفت میں ہے۔ گریٹ گیم کے منصوبہ پر ساز کسی بھی صورت میں پاکستان کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پاکستان کو سیاسی، معاشی اور نفسیاتی لحاظ سے مفلوج کرنے کا عالمی مشن جاری ہے مگر پاکستانی حکمرانوں، سیاستدانوں، منصوبہ سازوں، دانشوروں اور اہل الرائے کو اس کا احساس ہی نہیں۔ چین اور روس ملکر بھی کوشش کریں تو ایک مفلوک الحال اور دفاعی اعتبار سے کمزور پاکستان گریٹ گیم کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس میں شک نہیں کہ میاں نواز شریف اور اُن کی جماعت کا فوج مخالف رویہ ملکی سلامتی پر بہت بڑا حملہ اور عالمی سازش کا حصہ ہے۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو اقتدار کے لئے صرف مغربی پاکستان کی ہی ضرورت تھی ویسے ہی آصف علی زرداری کاپاکستان سندھ تک محدود ہے۔ آنے والے وقت میں عالمی سطح پر نئی تبدیلیوں کا اعلان ہوچکا ہے اور گریٹ گیم کا میدان بھی سج چکا ہے۔ نتائج جو بھی ہوں پاکستان سب سے زیادہ متاثرہونے والا ملک ہوگا۔