Tarjuman-e-Mashriq

ہم بنے پریزائیڈنگ افسر-1

تاکید:یہ تحریر مشاہدے ، دیگر پریزائیڈنگ افسران کے تجربات اور سوشل میڈیا سے لیے گئے مواد کے نتیجے میں لکھی گئی ہے ۔بعض جگہوں پر محض تخیّل کا بھی سہارا لیا گیا ہے ۔
1: یومِ ٹریننگ
آزادکشمیر میں 25 جولائی کو عام انتخابات تھے جس سلسلے میں ریٹرنگ افسر کانامہ ہمارے نام آیا کہ "کسریِٰ” رمضان مارکی” ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے مع تشریف آئیں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ "قصرِ” رمضان مارکی ہے "کسریٰ” نہیں۔10 بجے کا وقت طے تھا مگر خدا خدا کرکے ساڑھے 11 بجے کفر ٹُوٹا۔اسی دوران میں اے سی نے کام کرنا ترک کر دیا تو سٹیج پر رکھے ملٹی میڈیا میں آزاد کشمیر کے ٹھنڈے علاقوں کی ویڈیوز چلائی گئیں تاکہ ماحول کو "سرمایا” جائے ۔دورانِ ٹریننگ ساری گفتگو فارم 24 کے فضائل کا طواف کرتی رہی ۔کوزے میں دریا بند کریں تو یہ کہ جان چلی جائے مگر فارم 24 نہ جائے ۔باقی تشریح طلب امور یہ کہہ کر نظر انداز کر دیے گئے کہ آپ سب پہلے بھی ڈیوٹیاں کر چکے ہیں لہٰذا بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔یوں ایک معقول تعداد جن کے پہلی بار ہاتھ پیلے ہورہے تھے ٹریننگ، تربیت اور مہارتیں سیکھنے سے محروم رہے ۔پاکستان الیکشن کمیشن کی ایک ویڈیو چلا دی گئی؛ جس کےساتھ ساتھ لقمے بھی دیے جانے لگے؛ یہاں تک کہ سامعین کا پیٹ بھر گیا ۔”تقرر نامہ "کمپوز تھا مگر آخری فقرہ قلمی تھا ۔خدا اور میڈیکل سٹور والے جانیں کیا لکھا تھا۔
2:سرکاری ملازمین کی ووٹنگ
18 ۔جولائی کو سرکاری ملازمین نے اپنا ووٹ ڈالنا تھا ۔سخت گیر گرمی کا عالم، گھمسان کا رن و مرد، ہر مردانہ بٹن کُھلا ہُوا، ہر ہونٹ پیاسا، ہر پِنڈا گیلا اور پانی نہ پانی زاد۔قومی مسائل کی طرح لمبی لمبی قطاریں جن میں آبادی کی طرح اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا ۔ہر بندے تک پسینے کی مسلسل فراہمی مگر پانی ناپید ۔
خیر کسی طرح یہ حشر سامان وقت گزرا ۔ووٹ کاسٹ کرنے والے مختلف اداروں کے اعلیٰ افسران تھے؛ خصوصاً ایک معقول تعداد محکمہ سکولز، کالجز اور یونی ورسٹیز کی تھی ۔شام 5بجے اس جگہ کی صورت حال یہ تھی کہ جابجا پانی کی بوتلوں کی لاشیں بے گوروکفن پڑی تھیں ۔بریانی کے ڈبے اور پلیٹیں پاؤں تلے کچلی ہوئی تھیں؛ کوئی چمچہ کہیں تو کہیں چمچہ کہیں ۔میزبانوں نے پانی کا انتظام کیا اور نہ ہی کوڑا دان کا انصرام ۔افسوس کا مقام ہے کہ جس معاشرے کی” اعلیٰ سطح کی کریم” کا یہ عالم ہو تو عوامی مقامات پر کوڑا کرکٹ پھینکے جانے کا رونا بند کر دینا چاہیے ۔
3:پولنگ اسٹیشن کے لیے روانگی :
23۔جولائی کو فون کیا گیا کہ کل شام 5 بجے تھیلا (پولنگ بیگ) لینے کے لیے آن دھمکیں۔بعد میں وٹس ایپ گروپ میں یہ پیغام چلتا پھرتا دکھائی دیا کہ دن 10 بجے پہنچنا ہے ۔ ہم وقت کی پابندی کرتے ہوئے مقررہ جگہ پہنچ کر شرمندہ ہوئے؛ کیوں کہ کام معاشرے میں ایمان داری کی طرح ٹھنڈا تھا ۔خیر ایک ایسی جگہ جا پہنچے جہاں ہم سے پہلے چار پریزائیڈنگ افسران بیٹھے "کُچھ ” کھیل رہے تھے ۔ہم بھی مرزا غالب کانام لے کر شریکِ سفر ہوئے ۔اس موقع پر ازہر درانی کا شعر خواہ مخواہ یاد آگیا:
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
خیر دوبارہ، بارہ بجے واپس پہنچے ۔ہر شخص کی پیشانی پر 12 بج رہے تھے ۔آخر کار انتخابی تھیلا اور اعزازیہ دے کر ہمیں پولیس کے حوالے کر دیا گیا ۔باہر میڈیا تیز دھار مائک اور دیدہ بینا والے کیمرے لیے موجود تھا ۔انھوں نے کیمرے کے ایک ہی فائر سے تمام افسران کو پولیس سمیت "شوٹ” کیا۔ہمارا راہبر ہمیں کچہری سے نکال کر غازی مارکیٹ کی شروعات تک لایا؛ وہاں سے ہماری نمائش مسٹ کے مرکزی دروازے کے بالکل سامنے تک رہی ۔سخت گرمی میں وہاں سے پھر ہمیں پیدل چلوا کر پیچھے لایا گیا ۔سرِ بازارایک پولنگ بیگ اور دوسرا اپنا بیگ اٹھائے عجب گرمی کے ہاتھوں خوب درگت بن رہی تھی ۔فیض احمد فیض یاد آ گئے :
ع:آج بازار میں پابہ جولاں چلو
عجب بدنظمی تھی، خیر کسی طرح گاڑیوں میں بٹھا دیا گیا ۔چار گاڑیوں پر مشتمل برات چل نکلی ۔آگے” دولھے میاں” کی کار؛ اس کے پیچھے پولیس کی ایک گاڑی؛ جس کی سیٹوں کے سر پھٹے ہوئے تھے اور "دماغ” باہر نکلا ہوا تھا ۔ہمارے ملّاح”نے ہر اس جگہ بریک اور گاڑی نے چیخ ماری جہاں عیدالاضحیٰ کی” باقیات” ماحول کو مہکا رہی تھیں ۔جگہ جگہ آلائش تھی؛ ہر شاہراہ پر جس کی نمائش تھی؛ یہی اس قوم کے کردار کی” پیمائش "تھی ۔لاکھوں روپے کی قیمتی جانوروں کی قربانی کرنا؛ قصائیوں کو منہ مانگی رقم دینا مگر صفائی کے معاملے میں صرف ایک سو یا دو سو روپے کی بچت کی خاطر جانوروں کی آلائشوں کا ڈھیر عوامی مقامات پر لگا دینا۔ہر راہ گیر کو اپنے اباؤاجداد کی شان میں قصیدہ لامیہ لکھنے پر مجبور کرنا۔واہ واہ! قربانی کا جذبہ اور فلسفہ تو کوئی ہم سے سیکھے ۔
ہم مقرّرہ سکول پہنچے تو سکول کو تالا لگا ہوا تھا ۔خیر اللّہ بھلا کرے ایک پولیس والے کا جس نے خودی کو بلند کیا اور دیوار پھاند کر اندر گیا؛ کنڈی کھولی اور ہم داخلِ دفتر ہوئے ۔کمرہ جماعت کی دیوار پر میر حسن کی مشہورِ زمانہ مثنوی "سحر البیان” کا معروف شعر لکھا دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی ۔مصرع ثانی تو ضرب المثل کا رتبہ پا چکا ہے :
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
اقبال کے اشعار بھی لکھے ہوئے تھے؛ ایک شعر کو یوں لکھا گیا تھا کہ” روحِ آزادی کشمیر "کے ساتھ ساتھ "روحِ شعر” بھی پامال ہوگئی تھی ۔ایک اور شعر کے ساتھ حُسنِ سلوک کے نتیجے میں اس کی پرواز میں کوتاہی ہو گئی تھی ۔چوں کہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں سو قومی ہستیوں اور سرکاری عمارات کے ساتھ ہمارا رویّہ شروع ہی سے اچھّا نہیں رہا ۔
سب سے پہلے اس کمرے کی زیارت کی جسے کل ہم نے اپنے معصوم مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا ۔ہال نما بدحال کمرہ، اکلوتی چھت، چار دیواریں:24 ۔ستمبر 2019 کے زلزلے کی یادگاریں؛ نو کھڑکیاں، چار روشن دان مگر چھت کے قریب نہیں بلکہ کھڑکیوں کی طرح دیوار کے بہت نیچے؛ چھت سے لٹکے ہوئے پی آئی اے کے تین پنکھے؛ بلب ہولڈر کا سر ندامت سے جھکا ہوا، ہولڈر بلب سے خالی؛ گویا بلب ہولڈر” بلب ہولڈر "نہیں؛ اوپر تلے کی جڑواں ٹیوب لائٹس اور جا بجا پلستر کی تہیں سفیدی کا مزا کرکرا کرتی ہوئیں۔مالٹائی کولر (جس میں برف ڈالنے کے نتیجے میں پانی ٹھنڈا ہوتا ہے) جس کی گردن، ڈھکن اور ٹونٹی سفید ۔
معاً خیال آیا کہ اگر بیلٹ باکس نہ پہنچا تو اسے "بیلٹ کولر” بنا کر کام چلا لوں گا ۔ووٹر ڈھکّن اُٹھا کر ووٹ ڈالیں گے ۔ہم گنتی کے لیے ٹونٹی کھول کر سارے ووٹ نکالیں گے ۔وقت 3 بجے کا تھا اور پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے، جی چاہا کہ بلّی کھا کر انھیں تو ٹھکانے لگواؤں ۔قریب کوئی ڈھابہ نہیں تھا،” میرِ کارواں” سے زمینی من و سلویٰ کی امید فضول تھی ۔خیر اللّہ بھلا کرے مقامی لوگوں کا جنھوں نے ترس کھایا اور اچھّا کھانا کھلایا ۔اس سے قبل جب چارپائیوں سے لدی پھندی ٹرالی آئی(جس کے ساتھ اس کا گھر والا بھی تھا جسے ٹرالی نے آگے لگا رکھا تھا) تو یوں لگا جیسے کھانے کی دیگیں آ گئی ہیں ۔رات کو ایک پریزائیڈنگ افسر سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ :”پولیس والے اپنے گھر چلے گئے ہیں اور میں اس وقت تھیلے( پولنگ بیگ) کے ڈھیر پر بیٹھا بات کر رہا ہوں ۔فون سے قبل تھیلے کو سینے سے چمٹائے بے قراری سے صحن کے چکّر کاٹ رہا تھا جیسے تھیلا رو رہا ہو اور فیڈر مانگ رہا ہو ۔سکول کا چوکی دار چابیوں کا گچّھا مجھے سونپ کر گھر جا چکا ہے جسے میں نے انگور کا گچّھا سمجھ کر قبول کر لیا ہے ۔یوں اس وقت میرے پاس مجسٹریٹ درجہ اوّل کے علاوہ سکول کے چوکی دار کے اختیارات بھی ہیں ۔اس وجہ سے میرا سر فخر سے مزید بلند ہو گیا؛ میرا قد اور بھی بڑھ گیا ہے ۔”
ایک لمبے عرصے کے بعد کھُلے آسمان تلے سونے کا اتّفاق و اتّحاد ہوا۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں جیسے دور آسمان پر اے سی چل رہا ہو اور اس کا رخ ہمارے پولنگ اسٹیشن کی طرف ہو۔ہمارے ایک شاگرد نے فون کیا جو پہلی بار”سُولی” چڑھ رہا تھا ؛ کہنے لگا :”میرا زنانہ پولنگ اسٹیشن ہے مگر مجھے لیڈی کانسٹیبل نہیں دی گئی” ۔ہم نے کہا:”گویا آپ پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں ہوگا” ۔یہ سن کر اس نے ہلکا پھلکا محسوس کیا ۔مزید کہا:”آپ کل کے پیر بابا ہیں اور آپ نے کل500 بیبیوں کو دستخط کرکے تعویذ کاٹ کاٹ کر دینے ہیں ۔بے فکر رہیں اور پنکھا بند کرکے سو جائیں ۔”
ہمیں تین فرشی پنکھے دیے گئے تھے جن میں سے دو اِدھر اُدھر تانک جھانک بھی کر لیتے تھے جبکہ کسی سیاست دان کی طرح تیسرے پنکھے کی گردن میں سریا تھا؛ اس لیے وہ دنیا اور” مافیا” سے بے خبر بے حس کھڑا تھا ۔” فرشی اور عرشی ہوا "مل جل کر خوب مزے دے رہی تھی اور یوں لگ رہا تھا جیسے صحن میں اے سی چل رہا ہو ۔
اس کے باوجود اکّا دُکّا عادتوں مجبور مقامی مچّھر” پابوسی”کے لیے آتے رہے ۔ایک بار ہم نے ایک پاؤں پر بیٹھے مچّھر کو دوسرے پاؤں سے مسلنے کی کوشش کی؛ یعنی اندھیرے میں پاؤں چلایا تو کم بخت اور زیادہ بدبخت مچّھر اندھیرے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سکول کا مرکزی دروازہ کھول کر بھاگ گیا ۔ہم اپنے پاؤں سے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار کر رہ گئے ۔پاؤں پر پاؤں بجنے سے تالی کی آواز آئی۔درد ہمارے جسم میں کرونا وائرس کی طرح اور نظام میں سفارش کی طرح سرایت کر گیا ۔یہ جولائی کی طاق رات تھی یعنی پچیسویں رات جسے جاگ کر کاٹ رہے تھے۔
(جاری ہے)
Exit mobile version