Tarjuman-e-Mashriq

یادداشتیں

       

              بریگیڈیئرصولت رضا کی انکشاف انگیز یادداشتیں 

 

                                                                                          گفتگو/ترتیب و اہتمام:عبدالستار اعوان           

               

 بریگیڈیئر (ر) صولت رضا 6 اکتوبر 1952ء کو سید رفاقت حسین کے ہاں پشاور میں پیدا ہوئے۔ جو ایک سرکاری ملازم کے طور پر وہاں متعین تھے۔ ابتدائی تعلیم ڈی پی نیشنل سکول ٹیونیشیا لائنزکراچی سے حاصل کی۔ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹائون لاہورسے میٹرک،اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے انٹرمیڈیٹ، اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا۔1971ء میں پاک آرمی جوائن کی اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے تربیت حاصل کی۔ پاسنگ آئوٹ کے بعد توپ خانہ کی ایک یونٹ ’’23 فیلڈ رجمنٹ آرٹلری‘‘میں تعینات کیے گئے۔اکتوبر 1973ء میں ان کی خدمات مستقل طور پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’’انٹر سروسز پبلک ریلیشنز‘‘ کے حوالے کر دی گئیں۔ جولائی 2003ء میں آئی ایس پی آر سے بطور بریگیڈیئر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔

صولت رضانے  اپنی کتاب ’’کاکولیات‘‘ سے بہت شہرت پائی۔کتاب کا پہلا ایڈیشن 1975ء میں شائع ہوا اور اس کا 27واں ایڈیشن 2012ء میں شائع ہوا۔یہ معلوم ایڈیشنز کی تعداد ہے جو مصنف کے پبلشر نے شائع کیے۔ کہاجاتاہے کہ اس کتاب کے ’’نامعلوم ایڈیشنز‘‘کی تعداد بہت زیاد ہ ہے۔یہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں زیر تربیت ایک کیڈٹ کی دلچسپ آپ بیتی ہے۔ پیش لفظ میں ممتاز ادیب بریگیڈیئر صدیق سالک نے لکھا: ’’کیپٹن صولت رضا سنگلاخ فوجی زمین سے پھوٹنے والا ایک تازہ چشمہ ہے۔ اسی زمین سے پھوٹنے والے کئی چشمے مثلا ً کرنل فیض احمد فیض،میجر چراغ حسن حسرت ، میجر جنرل شفیق الرحمن، کرنل محمد خان اور میجر ضمیر جعفری پہلے ہی دریااور پھر سمندر بن چکے ہیں۔ صولت رضا میں بھی چشمہ سے سمندر بننے کی صلاحیت موجود ہے‘‘۔

                                                                                                              ٭٭٭٭٭

 میری پیدائش پشاور میں ہوئی جہاں میرے والد گرامی سیدرفاقت حسین سرکاری ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے۔قومی شناختی کارڈ کے مطابق میری تاریخ پیدائش چھ اکتوبر1952ء ہے ۔ بچپن کی ابتدائی یاد میں پشاور کے بجائے مشرقی پاکستان کا شہر’’ کومیلا ‘‘حاوی ہے ۔شہر کے قریب ہی چھائونی کا علاقہ تھا جس کے رہائشی علاقے میں واقع سرکاری کوارٹرمیں سے ایک میں ہم رہتے تھے ۔ ہم میں والد ،والدہ اور میر ے سمیت تین بچے تھے۔دو بہنیں مجھ سے چھوٹی تھیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اسکول جانے کی عمر کو نہیں تھا۔ لہذا گھر پر ہی مقیم تھے۔ والد صاحب پشاور سے تبدیل ہو کر کومیلا چھائونی آگئے تھے ۔ ان کی ملازمت ملٹری انجینئرنگ سروسز(ایم ای ایس)کے سول سٹاف میں تھی۔بچپن کی انمٹ یادوںمیں گھر کے سامنے سرسبز میدان ، شدید بارش،گھنے درخت،پرندوں کی دن بھر چہچہاہٹ اور صبح سویرے گائے کے دودھ کا گلاس پینا شامل ہے۔اے بی سی اور الف انار، ب بکر ی کا قاعدہ بھی تھا۔ ایک اور خاص بات یہ کہ ڈھاکہ کے گلاب جامن تھے ۔والد صاحب جب بھی سرکاری کام کاج سے ڈھاکہ جاتے تو واپسی پر ہمارے لیے گلاب جامن ضرور لایا کرتے تھے۔ گلاب جامن کے بارےمیں والدین کی گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ اباجی (والد گرامی)کا نام ’’رضی کے ابا‘‘ہے ۔

رضی میرا گھریلو نام تھا ۔ یوں امی جان والد گرامی کو’’ رضی کے ابا‘‘ کہہ کر پکاراکرتی

 تھیں۔کومیلا (مشرقی پاکستان)میں دو برس گزارنے کے بعد ’’رضی کے ابا‘‘کی کراچی پوسٹنگ ہوگئی ۔ ان کادفتر ویسٹ وہارف کے قریب تھا لیکن رہائش کے لئے سرکاری کوارٹرٹیونیشیا لائنز میں الاٹ ہواتھا۔ یہ 1956ء کا ذکر ہے ۔ کوارٹرٹیونیشیا لائنز  کراچی میں رہائش پذیر اکثریت سرکاری ملازمین کی تھی ۔یہ انگریز دور کی تعمیر کردہ بیرکس تھیں جنہیں رہائش گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ہر گھر دو بڑے کمروں، صحن ، برآمدوں ، کچن واش روم وغیرہ پر مشتمل تھا ۔ ہمارے گھر کے سامنے سڑک کے اس پار سینٹ پیٹرکس سکول کی سپورٹس گرائونڈ تھی جہاں صرف اسکول کے طلبہ ہی داخل ہو سکتے تھے۔ اس گرائونڈ کے ارد گرد ہزاروں جھگیاں تھیں جہاں مہاجرین مقیم تھے ۔کوارٹرٹیونیشیا لائنز میں واقع ڈی پی نیشنل ہائی سکول میں جماعت اول میں داخل ہوا ۔ پہلے روز امی جان نے لکیردار پاجامہ اور ململ کا سفید کرتا پہنایا ۔ تختی اور بستہ تھما کر میرے تایازاد بھائی توقیر مہدی کے حوالے کیا کہ اسے کلاس میں چھوڑ آئو۔ کلاس میں بیٹھے چندسیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ توقیر بھائی کو جاتا دیکھ کر واپس ان کے پیچھے پیچھے گھر آگیا۔ والدہ محترمہ بہت ناراض ہوئیں۔ابھی ڈانٹ ڈپٹ ہورہی تھی کہ والد گرامی گھر تشریف لائے ۔ انہوں نے اسکول کے بھگوڑے کی ایسی دھنائی کی جو آج بھی نہیں بھولتی ۔ چھترول سے فارغ ہو کر انہوں نے توقیر بھائی سے کہا کہ اسے دوبارہ کلاس میں بٹھا کر آئو۔ اب کبھی سکول سے نہیں بھاگے گا۔ واقعی سکول تو کیا ہم کبھی کالج یا یونیورسٹی کی کلاس سے بھی غیر حاضر نہیں رہے ۔

 کوارٹرٹیونیشیا لائنز کے قریب جیٹ لائنز اور جیکب لائنز ہیں ۔ جیکب لائنز میں میرے ناناسید رفیق احمدقیام پذیر تھے جو وفاقی حکومت کے محکمہ مالیات میں ملازمت کرتے تھے اور قیام پاکستان کے بعد دیگر مسلمان ملازمین کے ساتھ دہلی سے ہجرت کر کے کراچی آگئے تھے ۔ نانا جی ابتداء سے ہی دہلی میں مقیم تھے ۔ انہوں نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا۔ میری والدہ محترمہ بتایا کرتی تھیں کہ پاکستان آنے والی ٹرین میں سفر کے دوران مسلسل بے پناہ مسرت اور ایک انجانے

 خوف کی کیفیت ہم پر طاری رہی تھی۔ والدہ بیان کرتیں کہ کس طرح ہم نے خون کے دریا عبور کر کے یہ وطن حاصل کیا تھا۔ والدہ صاحبہ بتاتی تھیں کہ ہم نے خود پاکستان کا پرچم بنایا اور اسے ٹرین کے انجن پر لہرا دیا تھا۔ میرے ناناجان ہمیشہ قومی لباس ہی زیب تن کرتے تھے ۔ شیروانی ،جناح کیپ ،کرتا اور پاجامہ ہی پہنا کرتے۔ گھر میں اردو کا رواج تھا ۔ البتہ جب پنجاب سے رشتہ دار آتے تو گھر میں پنجابی ہی کی گونج سنائی دیتی تھی۔ دراصل ہمارے خاندان کا تعلق ضلع نارووال کے ایک قدیم گائوں سنکتھرہ سے ہے جو اب تحصیل ظفر وال میں شامل ہے ۔ آغاز میں ضلع سیالکوٹ تھا۔ سنکتھرہ کے سادات خاندان سے تعلق رکھنے والے مختلف خاندان بسلسلہ ملازمت وکاروبار وغیرہ پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ہوگئے ۔ ایک دو نسل کے بعد وہیں کے ہو رہے ۔ ناناجی کا خاندان پہلے ’’دہلی والے‘‘ کہلاتے پھر ’’کراچی والے‘‘ ہو گئے ۔ ناناجی ریٹائرہوئے تو میرے اکلوتے ماموں سید سعید الحسن لاہور میں واپڈا ہیڈ کوارٹرز میں تعینات تھے ۔ لہذا ’’کراچی والے‘‘ کچھ عرصے بعد ’’لاہور والے‘‘ ہو گئے ۔ سنکتھرہ سے آبائی تعلق رکھنے ولاے متعدد گھرانے اندرون سندھ آباد ہیں اور ان کی گھریلو زبان سندھی ہے ۔ بیرون ممالک بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں ۔ اکثر تقریبات میں پاکستان آتے رہتے ہیں ۔ تاہم گائوں میں ان کی آمد سیاح کے طور پر ہوتی ہے کیونکہ آبائی گھر مسمار ہو چکے ہیں یا اردگرد کے مقامی افراد نے قبضہ کر لیا ہے ۔ ہمارے آبائی گائوں کے حوالے سے سید نذیر نیازی اپنی کتاب ’’اقبال کے حضور‘‘میں رقمطراز ہیں کہ:’’ ایک روز علامہ اقبال نے اپنے خاندان کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ان کے آبائو اجداد نے قبول اسلام کے بعد کشمیر سے ضلع سیالکوٹ کے ایک گائون سنکتھرہ ہجرت کی اور برسوں یہاں مقیم رہے ‘‘۔ سنکتھرہ میں قیام کے دوران ایک بار کسی غیر مسلم جاگیردار نے سادات خاندان کے سربراہ سے کہا کہ وہ اپنے سید ہونے کا ثبوت پیش کرے ۔ جاگیردار کا اصرار تھا کہ سادات کو آگ نقصان نہیں پہنچاتی لہذا بزرگ سید کو اپنا نسب صحیح ثابت کرنے کے لیے آگ کے الائو میں بیٹھنا ہوگا۔ جاگیردار کے حکم پر آگ روشن کی گئی ۔ بزرگ سید ایک سبزعبایا اوڑھ کر آگ میں بیٹھ گئے ۔ سیکڑوں افراد جاگیردار کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔ کہتے ہیں کہ جب آگ سرد ہوئی تو بزرگ قرآنی آیات کی تلاوت فرماتے ہوئے زندہ موجود تھے ۔ اس واقعہ کے بعد جاگیردار معافی کا طلب گار ہوا اور اپنے خاندان اور دیگر ہم ذات لوگوں کو تلقین کی کہ سادات کے ساتھ عزت و تکریم کے ساتھ پیش آئیں اور محلہ سادات میں ننگے پائوں داخل ہوا کریں۔ علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ بزرگ سید نے ان کے خاندان کو خصوصی دعا دی اور وہ سیالکوٹ شہر چلے گئے جہاں کاروبار کی بدولت حالات بہت بہتر ہوئے، اس کے ساتھ تعلیم اور علم کے میدان میں بھی خاندان کے افراد ترقی کی منازل طے کرنے لگے ۔ علامہ اقبال کے خاندان کے حوالے سے ہمارے بزرگ بھی مختلف اجتماعات میں واقعات بیان کرتے ہیںجو انہوں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھے تھے۔

 ڈی پی نیشنل ہائی سکول لائنز ایریا کراچی میں کلاس نہم تک تعلیم حاصل کی۔ کلاس نہم کا امتحان بھی بورڈ کا تھا۔ بدقسمتی سے امتحان شروع ہونے سے ایک ماہ قبل مجھے ٹائی فائیڈ نے آگھیرا۔شدید بخار اور تکلیف کے باعث موزوں تیاری نہیں ہو سکی۔رول نمبر سلپ مل چکی تھی ۔ اس دوران والد گرامی کو کراچی سے لاہور پوسٹنگ کا حکم نامہ مل گیا  طبیعت ذرا سنبھلی تو امتحان میں شرکت کا فیصلہ کر لیا ۔ طارق روڈ کے قریب ایک سرکاری سکول سنٹرتھا۔ ناناجی مجھے روزانہ کمرہ امتحان تک پہنچاتے اور پرچہ مکمل ہونے تک باہر برآمدے میں بیٹھے رہتے تھے۔میں ان کی بڑی بیٹی کا بڑا بیٹا تھا۔ یوں ننھیال پیار اور شخصیت کامرکز بن گیا تھا۔ ایک دو پرچے بخار کی کیفیت کے باعث مکمل نہیں ہوئے ۔ جماعت نہم کا نتیجہ اعلان سے قبل واضح تھا۔ لاہور پہنچے تو عارضی قیام ماڈل ٹائون میں مقیم والد گرامی کی بڑی ہمشیرہ کے ہاں کیا۔ابھی لاہور چھائونی میں سرکاری گھر الاٹ نہیں ہوا تھا ۔ مجھے ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹائون میں جماعت دہم میں داخل کرادیاگیا ،نہم اور دہم کا امتحان ایک ساتھ ہونا تھا لہذا سکول میں دہم اور اسکول کے باہر نہم کی تیاری شروع ہوگئی ۔ یہ سن ساٹھ /باسٹھ کا ماڈل ٹائون تھا ۔ انتہائی پرسکون بستی جہاں سب جان پہچان والے خاندان آباد تھے ۔ آم ،جامن کے درختوں کی بہتات اور ایف سی کالج نہر کے پانی کی روانی ۔ماڈل ہائی سکول سی بلاک کے ایک پرائیویٹ گھر میں قائم تھا۔ انگریزی کے ماسٹر خدابخش صاحب تھے ۔ ان کا جلال بہت مشہور تھا ، دو تین مرتبہ میرے ہاتھ بھی بید زنی کا نشانہ بنے ۔ ایک مرتبہ کلاس سے نکل کر سکول کی گھنٹی بجا دی تو پکڑے گئے اور سیدھے ماسٹر خدابخش کے روبرو رضاکارانہ اقبال جرم کے باوجود خوب دھنائی ہوئی۔

ماڈل ٹائون میں کرکٹ ،ہاکی اورفٹ بال کے لیے وسیع وعریض گرائونڈ موجود تھے ۔ ہم نے بھی جی بلاک میں کرکٹ ٹیم بنارکھی تھی ۔ بہر حال ماڈل ٹائون سے بے پناہ خوشگوار یادیں وابستہ ہیں ۔ والد صاحب کو جب لاہور چھائونی میں گھر ملاتو میں میٹرک بورڈ پاس کر چکا تھا ۔ میں سمجھتاہوں کہ ڈی پی نیشنل ہائی سکول لائنز ایریا کراچی اور ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹائون لاہور کے اساتذہ کرام کے مجھ پر بے پناہ احسانات ہیں ۔ یقین جانیے کہ جس دل جمعی اور استقامت کے ساتھ اساتذہ ہم ایسے طالب علموں کی تعلیمی استطاعت بڑھانے کے لیے کوشاں رہتے تھے ،وہ ہر لحاظ سے مثالی رویہ تھا۔

 اسکول کے بعد اسلامیہ کالج ریلوے روڈ مرکز نگا ہ تھا۔ سبز پاکستانی کلرکاکوٹ ، گرے رنگ کی پتلون ،سفید شرٹ اور گرین وائٹ ٹائی ۔ اس ڈریس کی اپنی ہی ایک شان تھی ۔ لاہور چھائونی سے اومنی بس سروس کی ڈبل ڈیکر بس ریلوے سٹیشن تک آتی تھی۔ اسٹیشن سے کالج تک پیدل راستہ طے ہوتا تھا ۔ کالج بروقت پہنچنے کے لیے گھر کے قریب بس سٹاپ پر پہنچتے تھے ۔ ڈبل ڈیکر بس میں اوپر کی منزل میں کھڑکی کے پاس بیٹھنے کا جنون تھا۔ بس کارڈ بنا ہوا تھا ۔ راستے میں دو تین کلاس فیلوبھی بس میں سوار ہوتے تھے ۔یوں آخری سٹاپ ریلوے سٹیشن کالج تک پیدل مارچ کی بوریت ختم ہوجاتی تھی۔ بغیر ٹک سفر کا تصور نہیں تھا ۔ لاہور اومنی بس بہت بڑی سہولت تھی ۔ بعد میں جی ٹی ایس بس سروس کی طرح یہ سروس بھی لاپتہ ہو گئی اور ہمارے ایسے کئی ہاتھ ملتے رہ گئے۔اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں بہترین اساتذہ موجود تھے ۔ انگریزی پروفیسراقبال صاحب جبکہ اردو ڈاکٹر احرار نقوی پڑھاتے تھے ۔ میں آرٹس میں سوکس اور اکنامکس کا طالب علم تھا۔ غیر نصابی سرگرمیاں اور سپورٹس عروج پر تھے ۔ کالج کے وائس پرنسپل مولانا علم الدین سالک کاسراپا تو آج بھی گیٹ پر بلیک رول تھامے نظر آتاہے ۔ شیروانی او رشلوار میں ملبوس جناح کیپ پہنے ہر آنے والے طالب علم کو شیر کی نظر سے دیکھتے ہوئے کہ اگر آنکھیں چار ہوجائیں تو خون کی روانی رک جائے ۔ کالج ڈریس میں معمولی کوتاہی بھی برداشت نہیں کرتے تے ۔ تاخیرسے آنے والوں کے لیے جواب طلبی کے لمحات مزید ’’اذیت ناک ‘‘تھے۔کالج آئے چند ماہ گزرے ہوں گے کہ گورنمنٹ کالج لاہور سے کرکٹ فائنل میچ کی نوبت پہنچ گئی۔اقبال پارک میں معرکہ برپا تھا تویہی پروفیسر علم الدین سالک صاحب طلباء کے ساتھ کالج ٹیم کا حوصلہ بڑھانے میں پیش پیش تھے۔ گورنمنٹ کالج اوراسلامیہ کالج کے مابین سپورٹس کے معرکے ہر لحاظ سے بین الاقوامی معیار کے ہوتے تھے ۔ تماشائیوں کا ہجوم ، ٹیموں کا چنائو اور میدان میں مکمل وابستگی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا۔ کسی کالج کے لیے شکست تو ناممکنات میں تھی ۔ ریلو ے روڈ کی ٹیم کالج کی گرائونڈ میں ہی نیٹ پریکٹس کرتی تھی ۔ کبھی کبھار میں بھی بالنگ یا بائونڈر ی کے باہر جاتی ہوئی گیند اٹھانے پر ازخود ہی مامور ہوجاتاتھا۔ لیکن میرے لیے بیٹنگ کرنا بہت مشکل تھا ۔ دراصل کلاس کے طالب علم اور میدان کے طالب علم دو مختلف ’’راہیں‘‘تھیں ۔ میرے خاندانی پس منظر اور حالات میں کرکٹ محض مشغلہ تھا ۔ والد صاحب بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ بہترین سامان خریدکر دیا تھا ۔ لیکن اولین ترجیح تعلیم ہی تھی ۔ اتوار کرکٹ کے لیے مختص تھا ۔ لاہور چھائونی کی شاید ہی کوئی گرائونڈ رہ گئی ہو جہاں ہم نے دن بھر کرکٹ نہیں کھیلی۔البتہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی ٹیم میں شمولیت خواب ہی رہا۔اس زمانے میں سلیکشن کا معیار بہت بلند تھا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے مقابلے کے باعث میرٹ کو اہمیت حاصل تھی ۔ تقریبا ً ایسا ہی ماحول گورنمنٹ کالج میں تھا ۔ وہاں بھی سپورٹس کے میدان میں پیش قدمی کے لیے سخت محنت مطلوب تھی ۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے دور کا ایک اہم واقعہ انجمن حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ تھا جو کالج گرائونڈ میں منعقد ہوا ۔ صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مہمان خصوصی تھے ۔ انجمن کے صدر سید محسن شاہ ( جسٹس نسیم حسن شاہ کے والد گرامی )اور دیگر اکابرین ڈائس پر موجود تھے ۔ مجھے دیگر ہم جماعت طلبا کے ہمراہ سٹیج کے نزدیک بٹھایا گیا ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کو دوسری مرتبہ بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ۔ اس سے قبل کراچی میں قیام کے دوران ایوب خان کو برطانوی ملکہ ایلزبتھ کے ہمراہ کھلی کار میں ڈرگ روڈ (موجود ہ شاہراہ فیصل)سے گزرتے دیکھا تھا۔ہم گورا قبرستان کے ساتھ فٹ پاتھ پر کھڑے تھے ۔ ایک کھلی کار میں جومعمول سے کم رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی ۔ ایوب خان اور ملکہ برطانیہ سوار تھے۔ایوب خان بلند قامت ، سرخ و سپید چہرہ اور اس پر شاندار وردی کی چمک ۔ قریب ملکہ برطانیہ خوبصورت گڑیا کی مانند ہم رکاب تھیں۔

مجھے یاد ہے کہ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے صدر پاکستان نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے طلبا کی تحریک پاکستان میں

 گرانقدر خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔ انہوں نے اپنی مادر علمی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا بھی بڑے فخر کے ساتھ ذکر کیا۔ انجمن حمایت اسلام کے کامیاب جلسے کی خوشی میں کالج میں دو روز کی تعطیل کا اعلان کیا گیا جسے ہم نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی جانب سے تحفہ قراردیتے ہوئے فلک شگاف نعرے بازی کی ۔ میرا1962-1964کا سیشن تھا۔اساتذہ کرام سلیبس مکمل کرانے کی سعی میں مصروف تھے۔ہماری توجہ کے اصل مراکز کرکٹ گرائونڈ اور حبیبیہ ہال تھے ۔کالج کی غیر نصابی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ حبیبہ ہال میں ہفتہ وار اہم شخصیات کے لیکچرز میں حاضری لازمی تھی ۔ ایک اور واقعہ یاد آیا ۔ چوک دال گراں میں پٹھورے چنے کا ٹھیلا تھا ۔ میں کالج سے واپسی پر چند منٹ کے لیے رکتا اور ہلکی پھلکی پیٹ پوجا کرکے پید ل اسٹیشن روانہ ہو جاتا تھا۔ ایک روز یہ نیک عمل انجام دے رہا تھا کہ اچانک کسی نے میرے کان مروڑتے ہوئے انگریزی میں ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی۔ یہ ہمارے انگریزی کے پروفیسر اقبال صاحب تھے جو سائیکل پر دھر م پورہ سے کالج آتے تھے ۔ انہوں نے کالج یونیفارم میں ٹھیلے پر لنچ تناول کرنے پر غم و غصے کا اظہار کیا ۔ اگلے روز کلاس میں بھی نشست سے کھڑا کر کے دوبارہ جھاڑ پلائی ۔ قریب تھا کہ ایک دو بید بھی رسید کردیتے لیکن انہیں رحم آگیا۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد فطری ترجیح اسلامیہ کالج سول لائنز تھا۔ لازمی انگریزی کے ساتھ اکنامکس اور پولیٹیکل سائنس اہم مضامین تھے ۔ اس کالج میں بھی دور برس 1966-1967بھرپور طور پر گزرے ۔ پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر گلزار محی الدین تھے جب کہ ہمارے کلاس لیکچرا رپروفیسر محمد سرورتھے ۔انگریزی پروفیسر ایرک سپرئین اور پروفیسر امین مغل ایسے ماہر اساتذہ کے حوالے تھی ۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ ہویا سول لائنز ، فیکلٹی ممبران کی اکثریت کی صلاحیت ، قابلیت اور تدریس سے لگائو بہت مثالی تھا۔

اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان کا دیدار نصیب ہواتو اسلامیہ کالج سول لائنز میں ایوب خان کے ناراض ساتھی اور سابق وزیر خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو سے مصافحہ قسمت میں لکھا تھا۔بھٹوصاحب لاہور میں پیپلز پارٹی کے قیام کے سلسلے میں قیام پذیر تھے ۔ ہمارے ایک پرجوش ساتھی راشد بٹ(مرحوم)نے کالج انتظامیہ سے ضد کر کے بھٹوصاحب کو کالج مدعو کرنے کی ٹھان لی ۔ یہ پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کا فنکشن تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو اپنی شعلہ بیانی اور مخصوص انداز تخاطب کے باعث عوا م میں روز بروز مقبول ہو رہے تھے ۔ خاص طور سے نوجوان ان کے شیدائی تھے ۔ اسلامیہ کالج سول لائنز کے وسیع لان میں شامیانہ نصب کیا گیا ۔صدر شعبہ پروفیسر گلزار محی الدین خود نگرانی کر رہے تھے ۔ راشد بٹ کی خوشی دیدنی تھی ۔ بھٹو صاحب تشریف لائے ۔ خطبہ استقبالیہ کے بعد پرجوش خطاب شروع ہو گیا۔ میں ڈائس کے ساتھ ہی زمین پر بیٹھ کر بھٹو صاحب کی تقریر سن رہا تھاجو بین الاقوامی مسائل اور مستقبل کی سیاست کا احاطہ کررہی تھی ۔ مجھے یاد ہے کہ اس اجتماع میں بھٹوصاحب نے بیگم زاہدہ خلیق الزمان پر بھپتی کسی جو آئندہ کئی دن تک اخبارات میں موضوع بحث رہی ۔ بھٹوصاحب کامیاب جلسے کے بعد اسلامیہ کالج سول لائنز سے روانہ ہوگئے اور راشد بٹ کو اساتذہ اور طلبہ سے مبارکباد وصول کرنے کے لیے چھوڑ گئے ۔

 گریجوایشن کے بعد ایم اے(ماسٹر ڈگری)میں داخلے کا مرحلہ تھا۔ میری دلچپسی وکالت اور صحافت کی جانب تھی ۔ وکالت سے پسندیدگی کا سبب قائد اعظم محمد علی جناح کی مثالی شخصیت تھی۔ ہمارے گھر میں بچپن سے روزنامہ اخبار آتاتھا۔ شاید گوشت ، سبزی یا کسی اور شئے کا ناغہ ہوجائے لیکن اخبار کا کبھی ناغہ نہیں ہوا تھا ۔مشرقی پاکستان میں بھی والد صاحب باقاعدگی سے نوائے وقت لاہور بذریعہ ڈاک منگوایا کرتے تھے۔تب مجھے پڑھنا لکھنا نہیں آتاتھا لیکن ’’نوائے وقت ‘‘کی پیشانی تصویر کی صورت میں آج بھی یاد ہے ۔ کراچی پہنچے تو روزنامہ انجام شروع ہو گیا۔اپنی بساط کے مطابق ہجے کر کے خبریں پڑھنے کی کوشش کرتا تھا۔ناناجی کے گھر جیکب لائنز میں ’’ڈان‘‘اخبار کا بسیرا تھا۔ کراچی سے والد صاحب کی پوسٹنگ لاہور ہو گئی تو ’’انجام ‘‘کی جگہ روزنامہ مشرق نے لے لی ۔ مشرق ایک مکمل اخبار تھا ۔ اس کے بانی عنایت اللہ نے جدید خطوط پر نئی طرز کے روزنامے کی بنیاد رکھی جو بے حد کامیاب رہی۔خبریں ، اداریے اور کالم ، فیچر،تصاویر اور سب سے بڑھ کر کئی رنگوں میں پرکشش اشاعت ۔

قصہ مختصر کہ میں نے لاء کالج اور شعبہ صحافت پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں داخلے کے لیے فارم پر کر دیئے ۔ لاء کالج سے انٹرویو کی کال آگئی۔دوسری جانب شعبہ صحافت میں پہلے تحریری امتحان ہوا اور اس کے بعد انٹرویو کا مرحلہ درپیش تھا۔تحریری امتحان پاس کرنے کے بعد انٹرویو کی قطار تھی ،جب میری باری آئی تو

 میں ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کی کتاب’’فن صحافت‘‘اور اپنے چند شائع شدہ مضامین تھامے صدر شعبہ صحافت کے کمرے میں داخل ہو ا۔ ڈاکٹر عبد السلام خورشید صاحب کے ساتھ مسکین حجازی ، جناب وارث میر،جناب مہدی حسن اور جناب محی الدین احمد تشریف فرما تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے مضامین پر سرسری نگاہ ڈالی جو ’’نوائے وقت‘‘کے تعلیمی صفحے میں شائع ہوئے تھے۔محترم وارث میر نے ’’فن صحافت‘‘کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ کل فیروز سنزسے یہ کتاب خریدی ہے اور ابھی پہلا باب ہی پڑھا ہے ۔ بہر حال انٹرویو ختم ہوا ۔ میں باہر جانے کے لیے دروازے کی جانب بڑھا اور جان بوجھ کر اپنی رفتار آہستہ کر دی ، دروازے سے نکلتے ہوئے مجھے جناب عبدا لسلام خورشید کی آواز سنائی دی ’’میرا خیال ہے چل جائے گا‘‘باقی تمام محترم ممبران نے جی جی کہا۔ اب میں پورے اطمینان کے ساتھ شعبہ صحافت سے گھر روانہ ہوا۔ دو روز بعد کامیاب امیدواروں کی فہرست نوٹس بورڈ پر چسپاں تھی اور دس بارہ طلباء و طالبات کے بعد میرا نام بھی تھا۔ کل پچیس سلیکٹ ہوئے تھے جن میں تیرہ طالبات اور بارہ طلباء تھے ۔

 1969-70

ء کے سیشن میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلے سے قبل پروفیسر وارث میر سے میری شناسائی نہیں تھی ۔ یہ شعبہ اب ترقی کی کئی منازل طے کر چکا ہے اور شعبہ ابلاغیات (ماس کمیونی کیشن)کہلاتا ہے ۔خیر جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ تحریری امتحان اور انٹرویو کے مراحل کامیابی سے طے ہوگئے اور ہم ایک روز سیاہ گون پہن کر ایم اے صحافت کا کلاس میں داخل ہو ئے تو کامرانی کے احساس سے حد نگا ہ تک فضا چکا چوند تھی۔ اساتذہ کرام میں ڈاکٹر عبدالسلام خورشیدصدر شعبہ تھے ، جو اپنی قابلیت ، تجربے اور صحافتی اثرورسوخ کے باعث سایہ دارشخصیت کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ پروفیسر مسکین حجازی ، وارث میر ، پروفیسر مہد ی حسن اور پروفیسر محی الدین نمایاں تھے ۔پروفیسر محی الدین کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور بنگلہ دیش کے وجودمیں آتے ہی وہ ڈھاکہ واپس چلے گئے ………۔ جاری ہے

 

 

Exit mobile version