شیراز خان -لندن
انتخابی مہم اپنے زوروں پر ہے اور ہمارے قومی لیڈروں کے جلسوں میں آپ نے کشمیر کے حوالے سے نعرے اور دعوئے ان کی انتخابی تقریروں میں سنے ہوں گئے ان بونگیوں نما تقریروں پر ہمارے میڈیا کے اداریے لکھے جارہے ہیں اور ٹی وی ٹاک شوز کے پروگرام بھی ہو رہے ہیں گزشتہ جمعہ کو اینکر پرسن عینی خان نے روز نیوز کے تجزیاتی پروگرام اوپینین میکرز میں ایک سوال پوچھا کہ بلاول بھٹو اور مریم نواز نے آزادکشمیر کے انتخابی جلسوں میں کشمیر کی بیٹی اور بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا ہے پھر جو زبان اور لب و لہجہ جلسوں میں اختیار کیا جارہا ہے کیا یہ آزاد کشمیر کا محدود اور حساس سا خطہ اس کا متحمل ہوسکتا ہے دوسرا یہ کہ کیا پاکستان کی بڑی جماعتوں کے ان رہنماؤں کو آزاد کشمیر کے مسائل کا بھی پتہ ہے یا نہیں میرے ساتھ دوسرے تجزیہ نگاروں میں روز نیوز کے چیئرمین سردار خان نیازی جنرل امجد شعیب، احمد رضا قصوری، جنرل نعیم لودھی، برگیڈئیر ریٹائرڈ حامد نواز بھی شامل ہوتے ہیں میں نے مختصر وقت میں آزاد کشمیر کے چند موٹے موٹے مسائل کو پیش کیا چونکہ وقت مختصر ہوتا ہے اس لئے میں ان مسائل کو کالموں کے زریعے پیش کر رہا ہوں اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا ان مسائل کے بارے میں ہمارے لیڈروں نے اپنے جلسوں میں کسی جگہہ زکر یا فوکس کیا ہے یا نہیں یہ سند کے طور پر لکھ رہا ہوں کہ میں نے1984 میں گریجویشن یونیورسٹی اف مظفرآباد سے کی تھی مجھے آج بھی گورنمنٹ پرائمری سکول میں پانچویں جماعت تک وہ پتھر یاد ہے جس پر میں بیٹھا کرتا ہے مڈل سکول میں ٹاٹ یعنی کارپٹ دستیاب ہوئے پھر کالج یونیورسٹی میں لکڑی کے بینچ تھے پرائیویٹ سیکٹر کے سکول بہت بعد کی بات ہے مجھے اس پر فخر ہے کہ کم از کم مجھے تعلیم حاصل کرنے کا موقع تو ملا جبکہ میرے بھائی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سعودی عرب اور دوبئی چھوٹی عمر میں ہی چلے گئے تھے جبکہ ایسے ہی ہزاروں کشمیری نوجوانوں سے سعودی عرب اور مڈل ایسٹ بھرا پڑا ہے جو بے چارے انتہائی نامساعد حالات میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنا اور اپنے بچوں اور عزیز و واقارب کا پیٹ پالتے ہیں آج بھی آزاد کشمیر میں محرومیاں ویسی ہی ہیں سونے کے چمچے اور سونے کی چوسنیاں منہ میں لے کر پیدا ہونے والے بلاول اور مریم نواز کو ان کشمیر کے پہاڑوں میں رہنے والوں کے مسائل کا نہ پتہ ہے نہ بلوچستان گلگت بلتستان اور ملک کے دیگر دیہاتی علاقوں کے عوام سے ان کا کوئی رابطہ اور سروکار ہے ہر پانچ سال کے بعد آزاد کشمیر میں الیکشن کا ایک ڈرامہ رچایا جاتا ہے اور آازدکشمیر کے مقامی لیڈر اپنی وفاداریاں بدل کر جس کی بھی وفاق میں حکومت ہوتی ہے اس کو جوائن کرلیتے ہیں
آزاد کشمیر میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے چونکہ آزاد کشمیر میں تعلیم کی شرح 85% ہے
یہاں پانچ یونیورسٹیاں ہیں انکے پھر سب کیمپس بھی ہیں تین میڈیکل کالجز ہیں
جہاں سے کئی سو ڈاکٹرز اور انجنرز سالانہ بنیادوں پر فارغ التحصیل ہو رہے ہیں جبکہ آزاد کشمیر کے طالبعلم پاکستان کی یونیورسٹیوں سے بھی تعلیم مکمل کر کے فارغ ہو رہے ہیں جبکہ چین اور وسطیٰ ایشیائی ممالک سے بھی پڑھ کر نوجوان واپس آرہے ہیں اب محکمانہ طور پر آزاد کشمیر میں گورنمنٹ سیکٹر میں ان نوجوانوں کے لئے جابس نہیں ہیں حتٰی کہ ڈاکٹرز اور انجنرز فارغ بیھٹے ہوئے ہیں
آزاد کشمیر میں کوئی انڈسٹری سرے سے ہے ہی نہیں کارپوریٹ سیکٹر بھی نہیں ہے
ٹورازم پر تھوڑی توجہ دی گئی تھی لیکن جو پرکشش سیاحتی مقام ہیں وہ لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب ہیں جہاں زیادہ آمد و رفت ممکن نہیں ہے
ہسپتالوں کی عمارتیں موجود ہیں لیکن ڈاکٹرز اور دوائیاں نہیں دیہاتی اور پہاڑی علاقے ہیں
کوئی ائیرایمبولنس نہیں ہے حتیٰ کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ سے آئے روز جو لوگ زخمی ہوتے ہیں وہ بھی فوری طبعی سہولیات سے محروم ہیں
دو چھوٹے ائیرپورٹ بنے تھے ایک راولاکوٹ میں دوسرا مظفر آباد میں لیکن یہ دونوں نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر اپرشنل نہیں ہیں
راولاکوٹ میں تولی پیر کا پانچ سو کنال کا علاقہ ہے لیکن یہاں سیاحوں کے لئے کوئی ہوٹل نہیں ہے یہاں آزاد کشمیر کے سابق صدر اور وزیراعظم سردار یعقوب رہتے ہیں جو سرمائے کے زور پر الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے ہیں حتٰی کہ فریال تالپور اور آصف علی زرداری نے انہیں وزیراعظم اور صدر ریاست بھی تعینات کیا لیکن وہ راولاکوٹ کے ٹورازم کے فروغ کے لئے کوئی ہوٹل قائم نہیں کرسکے
اگر ہم انفراسٹرکچر کی بات کریں تو ساری سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں پاکستان کو ملانے والی سڑکیں کسی حد تک ٹھیک ہیں لیکن سنگل ٹریک ہیں جہاں حادثات ہوتے ہیں اور گاڑیاں دریا میں جا کر گر جاتی ہیں حتٰی کہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن سردار صغیر چغتائی کی بھی لاش حالیہ دنوں میں منگلہ ڈیم سے ملی ہے
جن کی گاڑی دریا میں گر گئی تھی
ایک سڑک سی پیک کے تحت بننی تھی اس کو اس طرح ڈائزان کیا گیا تھا کہ آزادکشمیر کے تمام اضلاع کو کور کیا جانا تھا جس کوMMM ایکسپریس وے کا نام دیا گیا تھا یہ
مانسہرہ سے شروع ہوکر براستہ مظفرآباد باغ پونچھ کوٹلی میرپور بھمبر سے پھر گجرات جاکر اس کو ملنا تھا اس منصوبے کے لئے اب بجٹ میں رقم مختص نہیں کی گئی نجانے اس میں کیا رکاٹیں ہیں
میرپور میں سپیشل اکنامک زون بننا تھا یہ بھی سی پیک منصوبے کے تحت تھا اس کی زمین الاٹ تو ہوگی تھی لیکن ڈویلپمنٹ کا کام شروع نہیں ہوسکا
کوہالہ ہائیڈرل پراجیکٹ پر کام شروع ہونا تھا جو منگلہ ڈیم سے بھی بڑا منصوبہ تھا لیکن اس پر کام شروع نہیں ہوسکا
میرپور منگلا ڈیم اپ ریزنگ منصوبہ کے تحت میرپور میں ایک ایئرپورٹ کا وعدہ کیا گیا تھا پھر آزاد کشمیر جانے والی اس اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی کہ میرپور میں ایک ائیرپورٹ بنایا جائے گا یہ دیرینہ مطالبہ یوکے یورپ مڈل ایسٹ میں مقیم نہ صرف کشمیریوں کا ہے بلکہ پوٹھوہار جہلم گجرات اور کھاریاں لالہ موسیٰ کے لوگوں کا بھی ہے لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے آزاد کشمیر میں پچھلے تیس سالوں سے بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے ہیں مسلم لیگ ن نے 2016 میں الیکشن سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آکر 90 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کروائیں گے لیکن فنڈز کھانے کی خاطر بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے گئے اب پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے سیکرٹری اطلاعات سردار ارشاد محمود نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے منشور کے مطابق آزاد کشمیر میں برسراقتدار آکر پی ٹی آئی 90 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کروائے گئی لیکن یہ بھی محض انتخابی نعرہ ثابت ہوگا ابھی پی ٹی آئی نے اس طرح الیکشن مہم شروع نہیں کی ہے جو لیڈر یا وفاقی وزیر آزاد کشمیر کی الیکشن مہم کی یاترا پر آئیں گئے وہ بھی بلاول بھٹو اور مریم نواز کو جوابات دیں گے ان کے پاس بھی کوئی اور ٹرینگ نہیں ہو گی نہ مسائل کا ادارک ہوگا
(جاری ہے )