(گزشتہ سے پیوستہ)
ارسطو کا یہ خیال قدیم یونانی ریاستوں کی وجہ سے اجاگر ہوا جہاں اعلیٰ حکومتی اور انتظامی عہدے اہلیت کے بجائے قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کیے جاتے تھے۔ قرعہ اندازی میں بھی عام لوگوں کی شمولیت منع تھی۔ اس عمل میں حصہ لینے والوں کا تعلق اشرافیہ اوراُن کے من پسند لوگوں سے ہوتا تھا۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی حدتک قدیم فرسودہ یونانی نظام آج بھی جاری ہے۔ ملک میں سوائے فوج کے کوئی ایسا محکمہ نہیں جہاں اہلیت کو اولیّت دی جاتی ہو۔ سول سروسز کا امتحان پاس کرنے والے بابو صرف ایک ہی باررٹہ لگا کر یا پھر کسی بڑی سفارش کے بل بوتے پر نوکر شاہی کا حصہ بنتے ہیں اور پھر بائیسویں گریڈ تک مال کماتے اور لگاتے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ سیاسی گھرانوں کی طرح بیورو کریٹک گھرانے بھی ہیں جن کے بچے، بچیاں داما اور پوتے پوتیاں اپنی اپنی باری پر نوکر شاہی کا حصہ بنتے اور دولت کماتے ہیں۔ بیورو کریٹ کا کام سیاستدانوں کی خدمت اور لوٹ مار میں حصہ داری کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سول سروسز کے متعلق ایک بیان میں کہا تھاکہ ملک کے کسی ادارے نے نظام زندگی کو اتنا پست اور مفلوج نہیں کیا جتنا نوکر شاہی نے کیا ہے۔ نوکرشاہی نے ملک میں طبقاتی نظام قائم کیا جیسے ہندوُ دور میں برہمنوں نے کررکھا تھا۔ نو کر شاہی متکبر، ظالم اور کرپٹ لوگوں کا ٹولہ ہے جو ریاست کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
سٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے اور دیگر ادارے نااہل افراد کی کھپت اور ضرورت سے کئی سو گنا زیادہ افراد کی بھرتی کی وجہ سے تباہ ہوئے۔اہم قومی اداروں کی تباہی ہر جمہوری حکومت کا شیوہ رہا ہے اور ا ب بھی ہے۔ اگر یہی حالت رہی تو یہ لوگ ملک کا سودا کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرینگے۔ زرداری، نواز شریف اور ان کی حامی علاقائی اور قوم پرست جماعتوں کے اتحاد سے صاف ظاہر ہے کہ اُن کی بد خواہشات کے راستے میں صرف اور صرف مسلح افواج حائل ہیں۔ فضل الرحمن، نواز شریف اور دیگر برسرے عام کہہ رہے ہیں کہ ہمار ا نشانہ افواج پاکستان ہیں۔ وہ دیگر اداروں کی طرح من پسند افراد کو فوج پر مسلط کرنا چاہتے ہیں تاکہ فوجی جرنیل پولیس افسروں کی طرح سیاستدانوں کے ذاتی مفاد کا تحفظ کریں۔
ارسطونے انقلاب کی خاص وجوہات کے ضمن میں لکھا ہے کہ کسی خاص فر د یا چند افراد کی غیر معمولی اہمیت با کرداراہم اور انتہائی قابل افراد کی اہمیت کو نہ صرف کم کر دیتی ہے بلکہ اُن کا مقام ادنیٰ درجے سے بھی کم ہو جاتا ہے۔ زرداری، نواز شریف اور فضل الرحمن کے علاوہ ایک مخصوص ٹولہ اچانک سیاست میں وار د ہواا ور پھر ہر لحاظ سے ناگزیر ہو گیا۔ ایسا ہی احوال گجرات کے چوہدریوں اور شیر پاؤ کا ہے۔ یہ سب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرح مارشلاؤں کی پیداوار اور ڈکٹیڑوں کے جانشین ہیں مگر عوام میں ایسی مقبولیت حاصل کر لی ہے کہ ہر شخص انہیں نایاب اور ناگزیر سمجھتا ہے۔ دیکھا جائے تو ملک کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور انتظامی حتیٰ کہ عدالتی نظام کو مفلوج کر نے میں ان ہی لوگوں کا ہاتھ ہے۔سیاسی استحکام، گڈ گورنس اور میرٹ پر تعیناتی کے راستے میں یہی گھرانے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اقربأ پروری، مفاداتی سیاست اور نوکر شاہی کے سہارے حکمرانی ان گھرانوں کا شیوہ رہا ہے۔ ارسطو کی بیان کردہ خاص وجوہات میں سیاست میں نا شاہستگی، غیر مہذب خیالات، ہوس اقدار اورانوکھے واقعات کا رونما ہونا بھی کسی انقلاب کا باعث بن سکتے ہیں۔ برسراقتدار طبقہ اگر ایسا طرز زندگی اختیار کر لے جو عوام کی نظروں میں چبتا ہو تو معاشرہ ان کے ماضی کے حوالے سے ان کے حال کو نا پسند یدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ عام آدمی سوال کرتاہے کہ ایک میرے جیسا شخص چند سالوں میں کس قابلیت اور اہلیت کی بناء پر آسمان کو چھونے لگا ہے۔ چوہدری شجاعت حسین کی خود نوشت ”سچ تو یہ ہے“ کے جواب میں کشور ناہید نے اپنی تصنیف ”ہزار داستان“ میں ایک باب سچ+سچ =جھوٹ لکھ کر ارسطو کے خیالات کی تصدیق کر دی ہے۔
کشور ناہید چوہدری صاحب سے سوال کرتی ہیں کہ جناب میں آپ سے عمر میں بڑی ہوں۔ تجربہ اور مشائدہ بھی رکھتی ہوں۔ میری آپ کے والدم محترم سے بھی ملاقاتیں رہی ہیں۔پھر سادہ سا سوال پوچھا کہ جب وہ پولیس سے نکلے یا نکالے گئے تو جلد ہی وہ کس وسیلے سے نیشنل بینک آف پاکستان کے بورڈ آف گورنر زمیں شامل ہوگئے۔ سوالات تو اور بھی کیے مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ 1947ء کے بعد جو قیادت سامنے آئی اس پر عام آدمی کا سوال ہے کہ اگر قیادت کایہی معیار ہے تو پھر میں کیوں نہیں؟؟۔ آخر میاں شریف کے لوہار خانے میں سونے کی کونسی کان اور پشاور کے بلوروں کے کوہلو وں سے تیل کا کون سا کنواں نکل آیا تھاجو ہمارے محلے سے نہ نکلا؟
ارسطو نے خوف بھی ایک وجہ لکھی ہے اور اس خوف کی وجہ زرداری سب پر بھاری، فضل الرحمن سیاست کا پہلوان، نواز شریف ناگزیر اور کشور ناہید کا سچ +سچ=جھوٹ ہے۔ معاشی عدم استحکام، عدم مساوات اور عدل و انصاف کے فقدان کی وجہ سے معاشرے میں مستقبل کے حوالے سے خوف پیدا ہو چکا ہے جو ریاست کو عدم استحکام کا شکار کر سکتا ہے۔ ”کیا انقلاب اسطرح آتاہے“ کے عنوان سے کشور ناہید لکھتی ہیں کہ بینظیر کے پہلے دور میں بینظیر اور بیگم بھٹو نے کارکنوں میں نوکریاں بانٹنی شروع کیں اور یہ سلسلہ حکومت کے خاتمے تک چلتا رہا۔ اسی طرح اسمبلیوں میں بیٹھے جیالیوں نے بھی یہی رویہ اختیار کیا۔ حکومت ختم ہوئی تو سارے سفارشیوں کو فارغ کر دیا گیا۔ نواز شریف کی باری آئی تو اکی پہلوان کے جتنے رشتہ دار اور گوالمنڈی کے جتنے کن ٹُٹے تھے سب کے سب من پسند عہدوں پر فائز ہوگے۔ بعد کے ادوار کے بیان میں ضیاء شاہد نے لکھا کہ بینظیر کی ہدایت پر راؤ رشید نے زرداری ہاؤس کراچی میں پلیس منٹ بیورو کا اجراء کیا اور جواب میں نواز شریف نے ماڈل ٹاؤن میں وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کا صوابدیدی دفتر کھول کر نوکریاں،پلاٹ اور پرمٹ بانٹنے اور بیچنے کا سلسلہ شروع کیا۔ کراچی کا بیورو راؤ رشید کے بعد زرداری کی صوابدید پر چلا گیا اور ماڈل ٹاؤن کے دفتر کا چارج بدستور شہباز شریف اور پھر حمزہ شہباز کو منتقل ہوا۔
کشور ناہید لکھتی ہیں کہ تیسری دفعہ زرداری کے پاس صرف سندھ رہ گیا اور نواز شریف نے کھل کر ہر جگہ نہ صرف ہاتھ صاف کیا بلکہ میرٹ، گڈ گورنس اور سیاسی استحکام کا صفایا کر کے شرافت اورجمہوریت کا جنازہ نکال دیا۔ زرداری ہو یا نواز شریف ہر کوئی اپنی ناکامی اور نااہلی کا ذمہ دار ڈکٹیٹر شپ کو ٹھہراتا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہمیں سیاست کے داؤ پیچ اور جموریت کا سبق فوجی جرنیلوں نے ہی پڑھایا۔ دیکھا جائے تو فوج میں بڑاظرف ہے۔ بوڑھے فوجی جرنیل ضرور سوچتے اور دل میں کہتے ہوں گے”خدمت یک سگ نہ ازآدم کمزادرا“ زرداری اور نوازشریف کے ادوار میں جتنا پیسہ اور کاروبار بیرون ملک منتقل ہوا اس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی۔ نواز شریف اور زرداری کی دیکھا دیکھی نوکر شاہی، عدلیہ کے کچھ معزز ججوں، جرنیلوں اور دیگر طبقات نے بھی لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔
کشور ناہید اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ ملک آہستہ آہستہ خونی انقلاب کی طرف جارہا ہے۔ وہ سیاستدانوں کی بولیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اقتدار کے بھوکوں اور لوٹ مار کے ماہرین کو خبر ہی نہیں کہ وہ کس خطرناک راستے پر چل نکلے ہیں۔ اس کا انجام ہولناک ہوگا اور اس راستے کا تو کوئی یوٹرن بھی نہیں۔
ارسطو نے خاص وجوہات کے ضمن میں دشمن ملکوں کی ریاستی امور میں مداخلت، ریاستی عہدوں کی تقسیم میں بد اعمالی، بے احتیاطی، اقربأ پروری، نااہل اور نا تجربہ کار لوگوں کی اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کو قومی زوال اور انقلاب کا باعث لکھا ہے۔ غیر ملکی مداخلت موجود ہ دور کی مجبوری ہے جس کی وجہ کرپشن، لوٹ مار، سیاسی عدم استحکام اور نااہل سیاسی قیادت ہے۔ جس ملک میں کرپشن سپیشلسٹ زرداری، نواز شریف، فضل الرحمن اور راتوں رات ارب پتی بننے والے شیرپاؤ، چوہدری اور دیگر نودولیتے خاندان شرافت، سیاست، سخاوت اور سعادت کے اعلیٰ میعار پر فائز ہوں اور عوام کے دلوں میں یہ بات گھر کر جائے کہ ان کے بغیر مملکت کا نظام چل ہی نہیں سکتا تو سمجھو ملک تباہ اور قوم اجتماعی شعور سے عاری غلامی کی خو گر ہوچکی ہے۔
معاشی لحاظ سے تباہ حال اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ملک آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر غیر ملکی اداروں کے رحم و کرم پر ہے۔ ملک کے اندر کارٹل مافیا اور دیگر جرائم پیشہ عناصر بیورو کریسی کی مدد سے ملکی نظام چلا رہے ہیں۔ عمران خان تو کیا خودارسطو بھی اس نظام کو درست کرنے سے عاجز آجائے۔ جمہوریت کے ضمن میں ارسطو لکھتا ہے کہ جب منتخب عوامی نمائندے اپنے اختیارات سے تجاور کریں اور قانون کا احترام نہ کریں تو اہل اقتدار کی طرف سے عوام پر زیادتیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سیاسی رہنما اور کارکن جذباتی تقریروں سے عوام میں ہیجان برپا کر دیتے ہیں اور مختلف طبقات ایک دوسرے سے نہ صرف نفرت کرتے ہیں بلکہ دشمن بن کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے ہیں۔ سیاسی رہنما اور کارکن اس تفریق سے فائدہ اُٹھاکر اقتدار پر قبضہ جمالیتے ہیں۔ عوام اعلیٰ طبقات سے نفرت کرتے ہیں جس کی وجہ سے لاقانیت کا نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔ مختلف گروہ اور خاندان ملکر منظم جرائم کرتے ہیں مگر عدالتیں خوف اور لالچ کی وجہ سے انہیں رخصت دیتی ہیں۔ جمہوری اقدار کے فقدان اور نام نہاد جمہوریت کے ضمن میں آخری بات ہر جائز و ناجائز طریقے سے جمہوریت کے لبادے میں حصول اقتدار اور دھوکہ دہی کے ذریعے عوامی رائے کو اپنے گروہی اور ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔گروہی، علاقائی،قبائلی اور مسلکی سیاست کی آڑ میں ذاتی مفادات کا حصول نہ صرف جمہوریت کی توہین بلکہ جمہور کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے۔ ان ہی نعروں کی آڑ میں ایک جماعت اقتدار حاصل کر تی ہے اور ملکی خزانہ لوٹ کر دوسرے کو دعوت گناہ دیتی ہے۔ زرداری، نواز شریف، فضل الرحمن، اچکزائی، اسفند یار ولی اور دیگر نے یہ نعرے لگائے اور باہم مل کر ملکی خزانہ لوٹتے رہے اورپھر ایک دوسرے سے حقوق مانگنے والے کئی با ر اتحادی بن کر حکومت کرتے اور لوٹ مار کر تے رہے۔جمہوریت کی آڑ میں ملک لوٹنے والوں نے مفاد حاصل کیا، مال بنایا، پھر اپنی سابق روش پر آکر پٹھان، پنجابی، سندھی، مہاجر اور بلوچ کے حقوق اور شریعت کے نفاذ کے نعرے بلند کئیے اورجاری نظام کی برائیاں گنوانے لگے۔ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا مگر آزادی کے فوراً بعد ایک طبقہ پاکستان اور اسلام دشمنی کے ہتھیاروں سے لیس اس بنیادی نظریے پر حملہ آور ہوا۔ پاکستان کی حد تک دیکھا جائے تو اب یہاں کوئی سیاسی فلسفہ یا نظریہ کار فرما نہیں۔ جمہوریت، آمریت، بادشاہت اور اشرافیہ میں جتنی خامیاں اور خرابیاں بیان کی گئی ہیں وہ سب پاکستانی سیاسی، انتظامی، عدالتی اور معاشرتی نظام کا حصہ ہیں جنہیں عوام خوبیاں سمجھ کر حکمران طبقے سے ترقی، خوشحالی، امن، عدل ومساوات،معاشی استحکام اور معاشرتی اعتدال کی آس پر جی رہے ہیں۔ ارسطو نے ظاہری انقلاب کی آٹھ اقسام یبان کی ہیں مگر باطنی، فکری اور روحانی انقلاب پر کچھ نہیں لکھا۔ اس کی ایک وجہ ارسطو کی باطنی امور سے لا تعلقی اور فکری اور روحانی اقدار سے ناواقفیت ہے۔ وہ کسی خونی انقلاب سے بچنے کے لیے جن اصلاحات کا ذکر کرتا ہے ان میں فکری اور روحانی عنصر کسی حد تک موجود ہے۔ مثلاً متوسط طبقے کا معاشرے اور ریاست میں موجود ہونا۔ ہر شہری کے لیے تعلیمی اور معاشرتی اصلاحی اداروں کی موجودگی، بدعنوانی اور کرپشن کا خاتمہ، عدل و مساوات کی بحالی، سیاست سے بد عنوانی کا خاتمہ، معاشی مساوات اور قانون فطرت کی اطاعت اور الہیٰات کا بیان۔ دیکھا جائے تو یہ سب عین دین فطرت اور قرآنی الہٰی احکامات کے مطابق ہے۔ کائنات کا موجد خالق کائنات ہے اور کائنات کا نظام عدل پر استوار ہے۔ ساری مخلوق خدا اعتدال کے دائرے میں رہتی ہے اور طبعی لحاظ سے وہ کسی دوسرے دائرئے میں داخل نہیں ہوسکتی۔ انسان نے چاند اور مریخ پر جانے کا دعویٰ تو کیا ہے مگر اس کا کوئی واضع ثبوت نہیں کہ وہ جس سیارے پر اُتراتھا وہ واقع ہی چاند تھا۔ اللہ نے انسان کو تسخیر کائنات کی دعوت دی تاکہ وہ اپنے خالق کو اُس کی نشانیوں سے پہچان کر اس پر ایمان لائے۔ اگر کوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم، محقق اور سائنسدان کیوں نہ ہو وہ اللہ کی نشانیوں کو سمجھے بغیر اللہ کی پہچان سے معذور رہتا ہے۔ وہ شخص مادی مشاہدات کی روشنی میں مخلوق کو دھوکہ دینے اور زمین پر تباہی پھیلانے کی منصوبہ بندی تو کرتا ہی ہے مگر حقیقی مشاہدہ نہ ہونے کے باعث وہ مخلوق خدا کا ایمان بھی متزلزل کرتا ہے۔
ارسطو کے بعد جان لاک نے نظریہ انقلاب پیش کیا جو ارسطو کے نظریے سے مختلف نہیں۔ جان لاک کے مطابق اگر حکومت معائدہ عمرانی سے انحراف کرے تو عوام کو حق ہے کہ وہ حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کریں۔ ایڈمنڈبرک تیسرا فلسفی ہے جس نے انقلاب کا نظریہ پیش کیا۔ برک اٹھارویں صدی میں آئرلینڈ میں پیدا ہوا۔ وہ ایک نامور سیاستدان تھا۔ اُس کے نظریات میں نظریہ آزادی، حقوق، حکومت، مملکت اور نظریہ انقلاب شامل ہیں۔ اُسکا کہنا ہے کہ آزادی ایک نعمت ہے مگر یہ انسانی رویے پر منحصر ہے کہ وہ اس نعمت سے کس طرح فائدہ اٹھاتا ہے۔
برک ریاست میں بغاوت کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی قدیم معاشرے میں تبدیلی چاہتا ہے۔ ایک طرف وہ فرانسیسی انقلاب کا مخالف ہے تو دوسری جانب وہ امریکی انقلاب کو جائز سمجھتا ہے۔ دیکھا جائے تو برک اپنے نظریات کی خودہی نفی کرتا ہے اور ہر چیز کو ضرورت کے مطابق جائز و ناجائز سمجھتا ہے۔ لینن اور سٹالن کے انقلابی نظریات کی بنیاد کارل مارکس کے اشتمالی نظریہ انقلاب پرہی استوار ہے۔ ماؤزے تنگ بھی کارل مارکس اور لینن کے نظریات سے ایک حدمتفق ہے۔ اُس کے نزدیک تاریخ کا ارتقاء طبقاتی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اور ہر دور میں جاری رہیگا۔ ماؤ کے مطابق کسی بھی انقلاب کی کامیابی کی صورت میں شکست خوردہ طبقہ ختم نہیں ہوتا بلکہ بکھر جاتا ہے اورپھر یہی طبقہ ایک عرصہ بعد انقلابیوں کی کمزوریوں اور ناکامیوں سے فائدہ اٹھا کر سامنے آتا ہے اور ایک نیا انقلاب جنم لیتا ہے۔
چینی رہنما ڈنگ ژیاؤ پنگ نے چینی انقلاب اور روس کے ولاڈی میر پوٹن نے روسی انقلاب کی اگرچہ مخالفت تو نہیں کی مگر حالات کے مطابق مثبت تبدیلیوں کے ذریعے انقلاب کو ایک نیا رخ دیا۔ ڈنگ ژیاؤ پنگ نے سارے چینی معاشرے کو ایک خاموش انقلاب کی مدد سے نہ صرف بدل دیا بلکہ ایک مثالی معاشرہ بنا کر ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ گڈ گورنس، میرٹ پر تعیناتی، معاشی مساوات، کرپشن کا خاتمہ،سیاسی استحکام اور عدل و انصاف کی جلد فراہمی نے ثابت کیا کہ ان اصولوں کی موجودگی میں کسی بغاوت اور خونی انقلاب کی ضرورت نہیں رہتی۔ بیرونی مداخلت کے راستے خود ہی بند ہو جاتے ہیں اور شکست خور دہ عناصر معاشرے کا حصہ بن کر ترقی اور خوشحالی کی ڈگر پر چل نکلتے ہیں۔ ڈنگ ژیاؤ پنگ نے علمی، فکری اور روحانی انقلاب کا راستہ اختیار کیاا ور ساری دنیا میں مقیم چینی باشندوں کو لاؤز ے اور کنفیوشس کی تعلیمات کی روشنی میں ترقی، خوشحالی، اعتدال اور استحکام کی راہ پر ڈال دیا۔ ڈنگ ژیاؤ پنگ نے لاؤز ے اور کنفیوشس کے نظریات اور گوتم بدھ کی تعلیمات کا ازسرے نو اجراء کیا اور انہیں چینی تعلیمی نظام کا حصہ بنا دیا۔ دیکھا جائے تو بدھ مت کے بنیادی اصول اور عقیدہ دین فطرت کے عین مطابق ہے جس کا اجراء کشمیر سے ہوا۔ لاؤز ے نے جس دین یا عقیدے کی بنیاد رکھی اسے تاؤ ازم یا سیدھا راستہ کہا جاتا ہے جو قرآن کریم کے الفاظ صراط مستقیم کا ہی ترجمہ ہے۔ (جاری ہے)