(گزشتہ سے پیوست)
ہزاروں سال پہلے چین ترقی و کامرانی کی جس معراج پر تھا اُس کی بنیاد سیدھا راستہ یعنی صراط مستقیم ہی تھا ۔لاﺅز ے ، کنفیوشس اور چنگ ژی کا دور چوتھی یا پھر تیسر ی صدی قبل مسیح لکھا گیا ہے اور اسی دور میں یونانی فلسفہ و فکر بھی اپنے عروج پر تھا۔ یونانی جن نظریات اور افکار کی بنیاد رکھ رہے تھے چینی معاشرہ اور ریاست ان نظریات کے مشاہدے کے بعد فکری اور روحانی انقلاب سے فیض یاب ہو رہے تھے۔ لاﺅزے اور کنفیو شس کے نظریات قدیم چینی تعلیمات اور روحانی مشاہدات پر مبنی تھے۔ لاﺅزے بنیادی طور پر تاریخ دان ، محقق اور ابتدائی عمرانیات کا استاد تھا۔ اگرچہ چینی معاشرہ دور غلامی سے گزر رہا تھا مگر چینی درویشوں اور صوفیوں کی ایک جماعت بھی اپنے کام میں مصرو ف تھی۔ ان ہی درویشوں اور صوفیاءکی فکری اور روحانی تحریک کے نتیجہ میں لاﺅز ے نے اپنے اقوال پیش کیے جن کی تشہیر کنفیوشس نے کی۔ جب تک کوئی معاشرہ اور ریاست سیدھی راہ پر رہتا ہے اسے زوال نہیں آتا ۔ سیدھی راہ پر چلنے کے لےے علم کی روشنی ، عقل کا مثبت استعمال اور شعوری قوتوں میں اعتدال اور حقیقت پسندی کا رجحان کار فرما رہے تو اجتماعی شعور بیدار ہوتا ہے ۔
ماﺅ کا نظریہ انقلاب حقیقت پسندی کا مظہر ہے۔ مسلم فلاسفہ نے ارسطو کے نظریہ انقلاب کی تردید نہیں کی اورنہ ہی ماﺅزے تنگ نے مغربی فلاسفہ سے اتفاق کیا ہے۔ وہ کارل مارکس ، لینن اور سٹالن کے نظریات سے متاثر تو تھا مگر خود ایک ایسے معاشرے کا حصہ تھا جو کئی ہزار سالہ تاریخی ، ثقافتی ، علمی ، فکری ، اور روحانی ورثے کا امین تھا۔ قدیم چینی تاریخ او رثقافت کے جو آثار ملے ہیں اُن سے ظاہر ہے کہ چینی تہذیبی ادوار بابلی اور سو میری تہذیبوں سے ایک حد تک تو ہم آہنگ تھے مگر اُن کی ایک جداگانہ حیثیت بھی تھی۔ ایک موقع پر ماﺅزے تنگ نے بیان دیا کہ میرے لئے مسلمانوں کی بد حالی اور زوال پذیری باعث حیرت ہے۔ جس قوم میں محمد ﷺ جیسا رہنما پید اہوا اور جن کے پاس قرآن کریم جیسی الہامی کتاب موجود ہے انہیں ساری دنیا کی امامت کا فریضہ سرانجام دینا چاہےے ۔ ماﺅ کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ اُس نے قرآن پاک اور سیر ت رسول ﷺ کا مطالعہ کر رکھا تھا۔ عطاللہ شاہ بخاری لکھتے ہیں کہ مہاتما گاندھی کی پرارتھنا میں سورة فاتحہ کے علاوہ کچھ قرآنی آیات بھی شامل تھیں۔ گاندھی نے ایک جلسے سے خطاب کے دوران کہا جو لوگ مسائل کو غلط سمجھنا پسند کرتے ہیں وہ قرآن پڑھیں۔ مجھے قرآن میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی جس سے ہندو مسلم دشمنی کا تاثر اُبھرتا ہو۔ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ مسلمانوں کی نسبت ہندو اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے مسلمان صوفیاءکے مزاروں پر حاضری دیتے ہیں۔ ہندوستا نیوں کی قومیں اور قبیلے مشترک ہیں مگر مذہب اور عقیدے الگ الگ ہیں۔ بیٹا مسلمان ہو جائے تو وہ اپنے ہندو ، سکھ یا عیسائی باپ اور ماں سے رشتہ ختم نہیں کرتا چونکہ والدین اور عزیز و اقرباءکی خدمت اس پر لازم ہے۔ اسلام نے والدین کی خدمت کا حکم دیا ہے اس میں مذہب اور عقیدے کی کوئی تفریق نہیں رکھی۔ پیغمبر ؑ کا حکم ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرو اوراپنے عقیدے پر قائم رہو ۔ایک موقع پر مہاتما نے کہا کہ غیر مسلم کے لئے قرآن پڑھنے اور اُس سے رہنمائی حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔
عمران خان نے اقتدارسنبھالتے ہی ایک بیان دیا کہ ہم پاکستان کو ریاست مدینہ کا ماڈل بنائینگے ۔ وزیراعظم پاکستان کی یہ خواہش نہ تو قابل اعتراض ہے اور نہ ہی قابل گرفت جرم ہے ۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست میں بسنے والے سیاستدانوں ، صحافیوں ، مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین حتٰی کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے بھی اسے تنقید اور تفریح طبع کا موضوع بنایااور تمسخر اُڑایا۔
زرا سوچئیے ، آئین پاکستان سے انحراف کی سزا تو موت ہے اور ناقابل معافی جرم ہے مگر خدا کے آئین قرآن سے انحراف کی مملکت اسلامیہ پاکستان میںکوئی سزا مقرر نہیں ۔ اہل علم و عقل غور کریں تو ہم اللہ کی پکڑ میں آ چکے ہیں اور عذاب الٰہی کے منتظر ہیں ۔ ریاست مدینہ کا اصل ماڈل تو خود عدلیہ نے پیش کرنا تھامگر وہ اس ضمن میں ناکام ہو چکی ہے۔حکومت کی ہر خامی او رناکامی کو ریاست مدینہ کی ناکامی اور پھر اعلیٰ عدلیہ کے جج کا یہ کہنا کہ کیا یہ ہے ریاست مدینہ کا ماڈل ؟سمجھ سے بالا ترہے ۔
مغربی فلاسفہ میں فرانسیسی مفکر جان بودین کا نظریہ انقلاب یہ ہے کہ معاشرے اور ریاست میں الہٰی اور فطری عمل جاری رہتا ہے۔ قدرت کا ملہ پر اگرچہ ہماری نظر نہیں ہوتی مگر نظام فطرت ہمیشہ محترک رہتا ہے۔ معاشرے اور ریاست میں ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جو مقتدر اعلیٰ کی دسترس سے باہر ہو جاتے ہیں ۔ ایسے حالات میں اگر کسی انقلاب کی صورت میں مقتدر اعلیٰ کو ہٹا دیا جائے تو ضروری ہے کہ کوئی زیرک ، بے لوث ، محب وطن اور اعلیٰ ترین صلاحیتوں سے لیس شخص برسر اقتدار آکر نظام مملکت سنبھال لے اور معاشرتی بُرائیوں اور لا قانونیت کا خاتمہ کرئے۔ باوجود اس کے ہم نہیں کہہ سکتے کہ چند ماہ یا سالوں میں ملک کا نظام کامل درستگی کا اعلیٰ نمونہ اور مملکت مثالی حیثیت اختیار کر لے گی ۔ کشمیری تاریخ دان اور سیاسی مفکر پنڈت کلہن نے ریاست کے خدو خال اور حکمرانی کی اعلیٰ مثال کے ضمن میں راجہ رنادت اور رانی نارمہ جنہیں وہ روحانی شخصیات اور خدا کی طرف سے فائز کر دہ حکمران کہتا ہے کہ مثال میں لکھتا ہے کہ قدرت جب کسی خطہ زمین پرمہربان ہو اور عوام الناس سچ کے مثلاشی ہوں تو خدا اُنہیں مہربان ، عادل اور حکمت سے لیس حکمران عطا کرتا ہے۔
رنادت اور نارمہ رانی کے دور میں ہی آپ ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا۔ کشمیری مفکر ، محقق اور تاریخ دان سمع اللہ عزیز منہا س نے اپنی تنصیف ”ناگ سے نیلم تک “ میں لکھا ہے کہ صلح نامہ حدیبیہ کے بعد آپ ﷺ نے ساٹھ سے زیادہ حکمرانوں اور قبائلی سرداروں کے نام خطوط لکھے جن میں کشمیر کا راجہ وین بھی شامل تھا۔ مشہور سیاح اور تاریخ دان چالز ہیوگل اپنے سفر نامہ کشمیر اور پنجاب میں لکھتا ہے کہ جس دور میں آپ ﷺ نے حکمرانوں کے نام خطوط لکھے تب کشمیر کا حکمران راجہ وین نہیں بلکہ رتنادت یا رنادت تھا۔ شمالی علاقوں میں ایک مضبوط حکومت تھی جسے پٹولہ شاہی دور کہا جاتا ہے ۔ راجہ رنادت ایک نیک سیرت حکمران تھا اگر آپ ﷺ کا خط رنادت کو ملتا تو وہ یقیناً مسلمان ہو جاتا ۔حضور ﷺ کے خط کا ذکر توتاریخ میں موجود ہے مگر حکمران کا نام شامل تاریخ نہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ خط جنوبی کشمیر کے کسی راجہ کے نام لکھا گیا ہو چونکہ شمالی پنجاب کا بہت کا حصہ اس دور میں کشمیر میں شامل تھا۔
دور حاضر کے سیاسی مفکرین اور علم سیاسیات کے طلباءو علماءاس بات پر متقفق ہیں کہ آج جہاں بھی سیاسی استحکام ہے ، جمہوری ادارے مضبوط ہیں ، اچھی حکمرانی اور عدل و انصاف کا چرچا ہے ہر کام میرٹ اور قابلیت پر ہوتا ہے ، معاشی مساوات اور معاشرتی اعتدال ہے وہ سب الٰہی فطری قوانین اور تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ وہ یونانی حکما¿و فلاسفہ کے نظریات اور معائدہ عمرانی کے علاوہ نظریہ انقلاب کی مثالوں سے ثابت کر تے ہیں کہ یونانی سیاسی مفکرین کی تعلیمات اور نظریات کا صرف وہی حصہ جو فطری قوانین کی تشریح کرتا ہے قابل تقلید ہے۔
دیکھا جائے تو یونانی اور مغربی مفکرین کے پیش کردہ نظریات و افکار کسی بھی ریاست یا خطہ زمین پر عملاً نافذ نہیں۔ آج دنیا میں کوئی ایسی ریاست نہیں جسے مثالی ریاست کہا جائے۔ جمہوریت اور حاکمیت کا جو نظریہ یونانی فلاسفہ نے پیش کیا وہ بھی پوری طرح کار فرما نہیں اورنہ ہی فلاسفر بادشاہ اور عادل حکمران کسی خطہ زمین پر موجود ہے۔ معائدہ عمرانی کا جو نظریہ فلاسفہ نے پیش کیا وہ اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ایسانظریہ کبھی نافذ العمل تھا ہی نہیں ۔ معائدہ عمرانی کی جو بھی شکل سامنے آئی اُس کی وجہ مجبوری اور عام آدمی کی کمزوری یا پھر ایک دوسرے پر انحصار کی کیفیت تھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک قدرتی امر ہے۔ فرد معاشرے کی ایک اکائی ہے جو قدرتی امر کے تحت ایک مر د اور عورت کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے۔ جلا ل الدین سیوطی کا یہ قول کہ قرآن کریم عمرانیات کے سب سے پہلی کتاب اور ابن خلدون عمرانیات کا بابا آدم ہے،سچائی اور حقیقت پر مبنی ہے۔
ابن خلدون کی اعلیٰ ظرفی کا یہ حال ہے کہ آپ نے ارسطو کو عمرانیات کا پہلا اُستاد قرار دیا اور اُس کے افکار و خیالات کو ر د کرنے کے بجائے ان کی درستگی کی۔ ابن خلدون کا سارا علم قرآن اورا حادیث سے اخذ کردہ ہے۔ فرمان الہٰی ہے کہ اے لوگو تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا۔ پھر تمہارے خاندان ، قبیلے اور قومیں بنائیں تا کہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔ پھر فرمایاکہ انسان کو قلم کے ذریعے علم دیا جو وہ جانتا نہ تھا۔ فلسفہ خلدونیہ کی بنیاد قرآن کریم سے اخذ کردہ علم پرہے اور تشریح احادیث رسول ﷺ کی روشنی میں کی گئی ہے ۔ انسان اکیلا نہیں بلکہ جوڑے کی صورت میں پیدا کیا گیا ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا تاکہ اُن کی نسلیں قائم رہیں۔ حیوانات ، نباتات اور جمادات کے بھی جوڑے پیدا کئے گے اور جو کچھ ان سے پیدا ہوتا ہے وہ بھی جوڑوں کی صورت ہی اختیار کرتا ہے۔
انسانی پیدائش کے ساتھ ہی عمرانیات کا علم سامنے آگیا ۔ کائنات میں جو بھی چیز چھوٹی یا بڑی پیدا ہوئی اُسکا علم بھی نازل ہوا تاکہ اُس کی پہچان ہو اور اُسکی افادیت کا نظریہ قائم ہوسکے۔
سورہ النساءکی ابتدا¿ میں فرمایا ۔” اے لوگو ڈرتے رہو اپنے ربّ سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اُسی سے پیدا کیا اُس کا جوڑا اور پھیلائے اُن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں اور ڈرتے رہو اللہ سے جس کے واسطے تم سوال کرتے ہو ایک دوسرے سے اور خبردارر ہو قرابت والوں سے بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے”۔
اسی سورہ کی آیت 82میں فرمایا ۔” کیا غور نہیں کرتے قرآن میں اگر یہ ہوتا کسی اور کا یعنی اللہ کے سوا تو ضرورپاتے اس میں تفاوت "۔یوں قرآن کریم کا ہر لفظ ، ہر آیت اور ہر سورة قابل غور ، سبق آموز اور قابل تحقیق ہے ۔ ان دو آیات مبارکہ پر غور کریں تو سارے عمرانی علوم ، ان کی افادیت ، احکامات الہٰی اور حدیث رسول ﷺ کی روشنی میں فرد سے معاشرے اور پھر ریاست اور حکومت کے درمیان تعلق ، تعاون اور توازن کا رشتہ ہر خاص و عام کی سمجھ میں آجاتا ہے۔
قرآن پاک میں ربّ کائنات نے بار بار اپنی تخلیق کا ذکر کیا ۔ فرمایا زمین پر غور کرو میں نے اسے کس انداز سے بچھایا ۔ تواز ن کے لئے اس پر پہاڑوں کی صورت میں بوجھ رکھے۔ پھر زمین کے اندر اور باہر کی پیداوار اور پیدائش کا ذکر ہے۔ سمندروں ، ہواﺅں ، فضاﺅں او رخلاﺅں کا ذکر کیا۔ آسمانوں ، فرشتوں ، جنوں ، لوح محفوظ اور عرش بریں کا ذکر کیا۔ سدرة المنتہیٰ وقاب و قوسین سے لیکر اپنی قدرت ، عظمت اور کبریائی بیان کی ۔تخلیق آدم سے لیکر قیام قیامت اور پھر سزا وجزاءکا ذکر کیا اور اپنے حکم اور عدل کا پیمانہ و معیا ر بیان کیا۔ فرمایا اے نبی ﷺ اگر منکرین ، منافقین اور مشرکین غور کریں اور میری تخلیق پر تحقیق کریں تو وہ سمجھ جائینگے کہ قرآن اللہ کا ہی کلام ہے ۔اگر کسی اور کا ہوتا تو اس میں تفریق ہوتی ۔ سوائے قرآن کریم کے دنیا میں کوئی ایسا علم نہیں جوہر لحاظ سے مکمل ، قابل عمل اور مسلسل افادیت اور اہمیت کا باعث ہو۔ فرمایا اللہ کا دستور نہ بدلتا ہے اور نہ ٹلتا ہے۔ فرمایا میں نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے نیک کام کون کرتا ہے۔ قرآن پاک میں جو کچھ بیان ہوا وہ ہر انسان کے لئے ہے ۔ اسے سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے کسی مادی علم کی ضرورت نہیں۔ قرآن کا ہر قاری اپنی عقل وفہم سے وہ سب حاصل کر لیتا ہے جو مسلک کا مقید عالم اور دانشور سمجھنے سے قاصر رہتا ہے یا پھر مسلکی اور مفاداتی ذہنیت کے دائرے میں رہ کر اللہ کے دستور میں اپنی خواہشات اور ترجیحات کو شامل کر لیتا ہے ۔ آج دنیا میں لاکھوں مسلمان مفکر اور دانشور ہیں اور ہر ایک اپنے مسلکی اور مفاداتی دائرے کا اسیر ہے ۔وہ انسانوں کا پیش کردہ نیو ورلڈ آرڈر ، تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ اور گلوبل ویلج کا اختراع تو قبول کر رہا ہے مگر اللہ کی حاکمیت ، اللہ کے دستور اور قانون کی تشریح سے معذور اور مفرور ہے۔ کیا ہمارے دانشور نہیں جانتے کہ کائنات کا خالق و مالک اللہ ہی ہے، اُسی نے انسان کو پیدا کیا، وہی مارنے والا اور پھر اُٹھانے والا ہے اور پھر اُسی کے سامنے ہر شخص جوابدہ ہوگا ۔ آخر وہ تہذیبوں کے تصادم کے جواب میں یہ کیوں نہ بتا سکے کہ تہذیبوں میں کوئی تصادم نہیں ہوتا بلکہ تہذیبیں اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے بعد زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔ ہر تہذیب کا ایک حصہ جو اللہ کے دستور سے مطابقت رکھتا ہے وہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور پھر اُسی کی کوکھ سے ایک نئی تہذیب کا اجراءہوتا ہے۔
اگر ہم ہندی، چینی ، ایرانی، مصری، یونانی اور بابلی تہذیبوں کا جائزہ لیں تو ان میں ہم عصری اور ہم آہنگی کا ایک نمایاں پہلو نظر آتا ہے۔طالب علم، سیاح اور تاجر مصر سے چین اور ہند تک سفر کرتے تھے جن کی وجہ سے تہذیبوں کے درمیان رشتہ قائم تھا۔
طوفان نوح ؑ کے بعد حضرت نوح ؑ کے تین بیٹیوں ، سام ، یافت اور جا م کی اولادوں سے نسل انسانی خطہ زمین پر پھیل گئی جس سے ابتدائی انسانی معاشرہ قائم ہوا ۔ حضرت آدم ؑ سے لیکر حضرت نوح ؑ تک انسانی معاشرے اور ریاست کا نظام کن اصولوں پر کا ربند تھاکوئی تاریخ دان اس کی کھوج نہ لگا سکا ۔ جس طرح حمورابی بادشاہ کا تاریخ میں کوئی ذکر نہیں اورنہ ہی شہر ارم اور سیل العزم سے کوئی سائنسدان واقف تھا بلکہ بابل اور ارم کے قرآنی بیان کا اکثر مغربی دانشور مذاق اڑاتے تھے تا وقتیکہ ان دونوں جگہوں کی کھدائی سے نہ صرف قرآنی تاریخ کی تصدیق بلکہ زمانہ قبل از تاریخ کی تہذیبوں کا راز بھی کھل گیا ۔ حضرت نوح ؑ اور حضرت آدم ؑ کے درمیانی عرصہ میں ایک تہذیبی دور گزرا ہے۔اس دور کا انسان بھی ہر لحاظ سے مہذب اور باشعور تھا۔
حضرت شیث ؑ ، حضرت آدم ؑ کے بیٹے تھے اور حضر ت آدم ؑ کے دور میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ حضرت نوح ؑ کی عمر نو سوپچاس سال ہوئی ۔ حضرت نوح ؑ اور حضرت ابراہیم ؑکے درمیان اندازاً دوہزار چھ سو چالیس سال کا زبانی فرق بیان کیا جاتا ہے۔ اس دور میں بھی انسانی معاشرے اور ریاست کا وجود قائم تھا۔ دیکھا جائے تو قرآنی اور انسانی تواریخ کے الگ دھارے ہیں۔ قرآنی تاریخ تخلیق کائنات سے زمانہ لامحدود پہلے ایک ذات لا محدود کے بیان پر محیط ہے مگر ہر شخص اس کا علمی اور عقلی مشاہدہ نہیں کرسکتا ۔ ذات لامحدود کے تصور کے بغیر تاریخ تخلیق کائنات کو سمجھنا آسان نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ محقیقین نے بلا تحقیق تاریخ کے ارتقائی عمل کا تعین ثمری دور سے کیا جب انسان دیگر حیوانات کے طرح جڑی بوٹیاں ، پھل ،پھول، پتے اور سبزے پر گزارہ کرتا تھا ۔ تاریخی ارتقائی عمل کا تصور اس بات کی دلیل ہے کہ محقیقین نے انسانی تخلیق کے عمل کو سمجھے بغیر ایک نظریہ قائم کیا جسے عالمی سطح پر بلا تحقیق و تخصیص تسلیم کر لیا گیا۔ تاریخ کی طرح سائنس ، فلسفے اور دیگر علوم کا بھی یہی حال ہوا چونکہ ذات الہٰی اور اُس کے کارخانہ قدرت کو سمجھنے سے ہر شخص کا ذات الہٰی پر ایمان لانا واجب ہو جاتا ہے ۔ کوئی بھی شخص جس چیز کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرے وہ اُس کے وجود سے منکر نہیں ہوسکتا مگر خالق کے متعلق مخلوق انسانی کسی ایک نقطے پر متفق نہیں اور نہ ہی الہٰی تاریخ کے ارتقائی عمل کی قائل ہے۔
فرمایامیں نے زمین اورآسمان چھ دن میں بنائے اور پھر میرا تخت عرش پر قائم ہوا ۔ اس سے پہلے میرا تخت پانی پر تھا ۔ قرآنی تاریخ کے ظاہری پہلو پر نظر ڈالیں تو زمین اور آسمانوں کی تخلیق تاریخ کا پہلا واقع ہے جو کسی بگ بینگ سے نہیں بلکہ حکمت اور تدبیر کا نتیجہ ہے ۔ تفاسیر سے معلوم ہے کہ تخلیق کا ایک دن ایک ہزار سال کے برابر تھا جبکہ قیامت کا دن پچاس ہزار سالوں کے برابر ہوگا۔ اس تاریخ کے لحاظ سے زمین اورآسمانوں کی تخلیق میں چھ ہزار سال لگے ۔ ان چھ ہزار سالوں میں کیا کچھ ہوا اسکا بیان بھی اُم الکتاب میں موجود ہے۔ تخلیق کائنات کے بعد پیدائش آدم کا مرحلہ بھی یکدم نہیں ہوا بلکہ اس کی تیاری میں بھی ایک طویل عرصہ لگا ۔ کائنات کی تمام جزیات جب اپنی اپنی جگہ قرار پا چکیں تو فرمایا آسمان کی طرف دیکھو اُسے اوپر نیچے سات درجوں میں بنایا اور پھر اُن میں اپنا حکم جاری کیا۔ سب سے نچلے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا تاکہ تمہاری آنکھوں کو رونق بخشے اور کچھ شیاطین کو بھگانے کے لئے انگاروں کی صور ت میں رکھے گئے ۔ اسی طرح زمین کے اندر اور باہر ہزارروں لاکھوں خزانے رکھے گئے اور اسے انسانوں کا دستر خواں بنا دیا۔
مولانا غامدی کہتے ہیں کہ قرآن کریم فزکس کی کتاب نہیں ۔ باوجود اس کے وہ عالم اور محقق مانے جانتے ہیں سیّد سبط حسن نے بھی اپنی تحریروں میں قرآن کریم کے احکامات و ہدایات مسخ کرنے کی کوشش کی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اگر یہ لوگ ایسا نہ کریں تو عالمی شہرت یافتہ کیسے کہلائیں ۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ امام غزالی ؒ اور ابن خلدون نے شہرت کو شہوت سے بڑا جرم قرار دیا ہے۔ جیسا کہ یبان ہوا ہے کہ اللہ نے سارا کائناتی نظام ایک سائنسی عمل سے ہی ترتیب دیا ہے جس کا دورانیہ چھ ہزار سال پر محیط ہے۔ جب کائنات کا سارا عمل مکمل ہو چکا تو اگلہ مرحلہ تخلیق آدم کا آیا جس کا وجود کائناتی اجزاءکا جوہر ہے ۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ خالق نے جو کچھ تخلیق کیا وہ سب انسانی مشاہدات، علم و عمل اور پھر مشاہدے ، علم اور عمل کے بدلے میں سزاءوجزا یعنی جنت اور جہنم کی زندگی پر موقوف کر دیا۔ گو کہ قرآن کریم فزکس کی کتاب نہیں مگر فزکس کا علم قرآنی علوم کی ہی ایک ادنیٰ جز ہے۔
تخلیق کائنات کے عمل اور تخلیق آدم پر نگاہ ڈالیں خالق کائنات نے انسانی تخلیق سے پہلے کائناتی ریاست تخلیق کی جسے انسان کے لئے مشاہدہ گاہ بنا کر اسے تماتر علمی ، عقلی ، شعوری ، ظاہری اور باطنی علوم کی قوتوں سے مزین کیا۔ سب سے پہلے نوری مخلوق پیدا کی اور پھر ناری مخلوق کے بعد زمین بچھائی اور خاکی مخلوق پیدا کی ۔ نوری اور ناری مخلوق کی ہیت و عمل پر علمائے حق ، اولیائے کاملین نے تفسیر یں لکھیں جواصلاً مخلوق انسانی کی رہنمائی کا ہی وسیلہ ہیں۔
انبیائے کرام کے بعد اولیائے حق جو ہر نبی اور رسول کے دور میں ہوئے ہی اصل الہٰی علوم تک رسائی رکھتے ہیں جن کے ذمے الہٰی احکامات کی روشنی پھیلانا اور مخلوق خدا کو شرو فساد اور وسوسوں کے جال سے نکلنے کی ترکیب سمجھانا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ نے انہیں اپنا دوست ”ولی اللہ “ کے نام سے پکارا اور فرمایا کہ انہیں دنیا میں رہتے ہوئے کوئی خوف و خطرہ نہیں۔ جس طرح پیغمبر ، نبی اور رسول اللہ کے منتخب بندے تھے ویسے ہی ان پر ایمان لانے والے اور پھر حکم الہٰی کو مخلوق تک پہنچانے والے لوگ بھی منتخب اور مخصوص ہستیاںہیں جو دل کی آنکھوں سے دیکھنے کی قوت رکھتے ہیں۔
قرآنی تاریخ کے مطابق آدم ؑاور حو اؓ کی پیدائش ایک ساتھ ہوئی ۔ فرمایا میں نے آدم ؑ کے ساتھ اُس کا جوڑ اپیدا کیا تاکہ اُسے راحت وسکون میسر ہو۔ کاش کوئی مولوی فضل الرحمن ، آصف زرداری اور نواز شریف کو سمجھا سکے کہ بیٹیاں سیاسی نہیں بلکہ روحانی اثاثہ ہوتی ہیں۔ مادیت کا غلام اور شہرت وشہوت کے کیچڑ میں لتھڑا شخص نہ تو عالم دین اور نہ ہی سیاستدان ،مصلح، مبلغ اور مہذب انسان ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جو علمیت، عقلیت اور روحانیت کے لبادے میں شہر و فساد کا باعث بنے اور جن کی وجہ سے معاشرتی بھگاڑ اور ریاستی انتشار نے قوموں کو ذلت ورسوائی کا نمونہ بنا دیا۔
قرآنی الہٰی بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی انسانی معاشرہ نہ تو ثمر یاتی یا اُموی تھا اور نہ ہی حجری یادھاتی تھا ۔ابتدائی معاشرے کا قیام آدم علیہ السلام ، حوا ؓ اور اُن کی اولاد سے ہوا۔ اللہ نے آدم ؑ کو ظاہری ، باطنی اور کائناتی علوم سکھلائے اور پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔ ربّ تعالیٰ کا آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے سامنے پیش کرنے کا مقصد اُسے علمی لحاظ سے برتر ثابت کر نا تھا ۔ فرشتوں نے آدم ؑ کے سامنے اقرار کیا کہ ہم صرف اتنا ہی علم جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھلایا ہے۔ دیکھا جائے تو فرشتوں اور آدم ؑ کو علم اللہ نے ہی سکھلایا مگرا ٓد مؑ کی پیدائش ایسے میٹریل سے ہوئی جس میں کائنات کے ہر ذرے کا جوہر موجود تھا۔ فرمایا جب میں اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم اسے سجدہ کرو۔ قبلہ محمد نورالدین اویسی ؒ نے اپنی تصانیف منازل فقر، حقیقت تصوف اور راہ حقیقت میں تخلیق کائنات اور تخلیق آدم ؑکے بیان کو انتہائی آسان پیرائے میں بیان فرمایا۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ قرآنی تاریخ کے مطابق انسان کی پیدائش ہی خلیفہ کی حیثیت سے ہوئی ۔ تخلیق آدمؑ سے پہلے تخلیق کائنات کا مقصد انسان کو اس بات کا علم دینا تھا کہ تمہارا خالق وہ ربّ ہے جو کائنات جیسی تخلیق اپنے حکم اور ارادے سے کر سکتا ہے۔
عقلی ، سفلی اور مادی دلائل سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے کہ انسان ایک ارتقائی عمل سے مہذب ہوا اور پھر عمرانی ارتقائی عمل کے نتیجے میں معاشرہ ، ریاست اور ریاستی ادارے وجود میں آئے۔ پہلے عرض کیا ہے کہ انسانی اخذ کردہ تاریخ اور الہٰی قرآنی اور نظریاتی تاریخ کے الگ دھارے ہیں ۔ خالق کل وکن نے ایک نظرےے پر کائنات تخلیق کی جو اُس کے سوا دوسر ی کوئی طاقت کر ہی نہیں سکتی۔
تخلیق کائنات کے عمل سے ہی ربّ تعالیٰ نے اپنی قدرت ، واحدنیت ، طاقت ، عزم وارادے کا اظہار کیا۔ پھر آدم ؑ اور حوا ؓ کو پیدا کیا اور اُن کی اولاد سے مخلوق انسانی کی نسل چل نکلی ۔ اپنی برتر حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے آدم ؑ اور حوا ؓ کی تخلیق کا ایک سبب رکھا اور پھر آئندہ نسلوں کے لیے دوسرا سبب پیدا کیا جو تا قیام قیامت جاری رہے گا۔ فرمایا میں نے تمہارے کنبے اور قبیلے رکھے تا کہ تم آپس کی پہچان کر سکو ۔ یہی کنبے اور قبیلے آگے چلکر قوموں میں بدل گئے مگر انسانی رشتے اپنی جگہ برقرار رہے۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان ایک دوسرے کی کشش ، رغبت ، محبت اور اُلفت کے کئی معیار قائم ہوئے۔ اسی طرح میاں بیوی کا جذباتی رشتہ ، اولاد کی خواہش اور پھر اُنسیت ، محبت ، جذباتیت سے لیکر خاندانی عصبیت کے رشتے قائم ہوئے۔ )جاری ہے)۔۔۔
انقلاب یا عذاب – 3
پرانی پوسٹ