روزاوّل میں ہی فرما دیا کہ اے اولاد آدم شیطان کے وسوسوں ، چکموں اور دشمنی سے خبردار رہنا ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ فرمایا تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے مگر وہ لوگ جو میرے راستے پر چلےں گئے انہیں کوئی غم و پریشانی نہ ہوگی۔ آخر ت میں وہ جنت میں لوٹ آئینگے جہاں سے اُن کے باپ آدم ؑ اور ماں حوا ؓ کو شیطان نے نکلوا یا تھا۔ فرمایا اے اولاد آدم ؑ شیطان نے تمہارے باپ اور ماں کو بر ہنہ کر دیا۔ اللہ نے اپنا کرم کیا اور جنت سے انہیں ستر پوشی کے لےے لباس فراہم کیا۔ پھر فرمایا دیکھو اور شیطان کی چالوں سے بچ کر رہو کہیں وہ تمہیں بھی بے لباس نہ کر دے۔ پھر کہا کہ بہترین لباس تقویٰ ہے اگر تم سمجھ سکو تو۔سوچنے کی بات ہے کہ آج جتنی برہنگی ، بے حیائی، لاقانونیت اور بداخلاقی پاکستانی معاشرے میں ہے اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی ۔برہنگی کو ہمارے معاشرے اور ریاست نے ثقافت کا لازمی جُز تسلیم کر لیا ہے۔عریانی اور فحاشی کو ٹرنڈ، ٹریڈ اور ٹیلنٹ کا نام دیا گیا ہے جس کے بغیر ترقی کا تصور ہی محال ہے ۔ ہمارے سیاستدان، قانون دان اور دانشورالٰہی احکامات کی رو گردانی کر چُکے ہیں اور ساری قوم کو تباہی کے راستے پر ڈالنے کے ذمہ دار ہیں ۔ایک اسلامی اور نظریاتی مملک کی یہ حالت ہے کہ عورت مارچ کی آڑ میں خدا اور اُس کے رسول ﷺکی توہین کی جاتی ہے اور ریاست مدینہ کے ماڈل کی خواہش رکھنے والی حکومت کا وزیر اگلے سال خود اس مارچ کی رہنمائی کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔اسی حکمران جماعت کے دور میں ایوان صدر میں جسمانی نمائش کرنے والی خواتین کے لئے سرخ قالین بچھایا جاتا ہے۔جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ برہنگی، بے حیائی اور بد اخلاقی معاشرتی اور سیاسی تنزلی کا باعث بنتی ہے۔تاریخ میں جن قوموں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا وہ معاشی لحاظ سے خوشحال ، ذہنی لحاظ سے عقلمند اورزیرک تھیں۔ اُن کی ترقی و کامرانی کے آثار آج بھی موجود ہیں۔اُن کی تباہی کی وجہ شہوت پرستی اور خدائی احکامات سے روگردانی تھی۔
قرآنی تاریخ کے مطابق اللہ نے تخلیق آدم ؑ سے پہلے ساری صنعتوں کا اجزاءکیا اور پھر بہترین شکل وصورت اور پورے علم و حکمت سے انسان کو پیدا کیا۔ تخلیق آدم ؑ کے ساتھ ہی ایک انسانی معاشرہ قائم ہو گیا اور پھر اولاد آدم ؑ نے اللہ کے ودیعت کردہ علم کی روشنی میں اُن صنعتوں کو کھوج نکالا جنہیں قرآنی بیان کے مطابق خالق نے زمین کے پیٹ میں محفوظ کر رکھا تھا۔
انسانی وضع کردہ تاریخ کا وہ حصہ جس میں خدائی حکم ، حکمت، ارادے ، قوت و برتری کا ذکر ہے وہ ہی درست اور قابل تقلید ہے۔ وہ تاریخ اور فلسفہ جن کی بنیاد مفروضات پر ہے وہ بے فائدہ ، بے وقعت ، نا قابل عمل اور بڑی حد تک خدائی احکامات کی ضد، ہٹ دھرمی اور مادی خداﺅں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مترادف ہے۔
یونانی اور دیگر فلاسفہ نے انقلابات کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے اُسے مسلم فلاسفہ و فقہا نے کلیتہً گرد نہیں کیاچونکہ اس میںتغیر و تبدیل کے بعض اجزاءاصلاحی ہیں اور کچھ عذاب الہٰی کی آمد کی نشانیاںاور تنبہ میں شمار کیا جاسکتاہے۔ معاشرتی بگاڑ ہی سیاسی زوال اور ریاستی اداروں کی بے توقیری و تنزلی کا سبب بنتا ہے ۔ عدل کا فقدان بد اعتدالی کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے اور ریاست کا توازن بگڑ جاتا ہے ۔ عدل و مساوات کا فقدان بد انتظامی اور دیگر مشکلات و خدشات کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونی والی خرابیوں کو انقلاب کا نام دیا گیا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ جملہ خرابیوں کا تدارک کسی فوری انقلاب کی صورت میں ہوا ہو۔ تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ انقلابات کے بعد خدا کی طرف سے عذاب آیا جس کی کوکھ سے نئے معاشرے اور نئی تہذیب کا اجرا ءہوا۔ اگر ہم انسانی معاشرے ، ماحول اور ریاست کے انتظامی امور اور طریق حکمرانی کا عہد عتیق سے موازنہ کریں تو موجودہ دور کا انسان زیادہ وحشی ، خونخوار ، انسان دشمن ناشکر ا اور جدید علوم تک رسائی کے باوجود جاہل اُجڈ، مکاراور برہنہ ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا حامل انسان فرعون ، نمرود ، شداد، قارون اور گل گامش کاراستہ اختیار کر چکا ہے۔ بیان کردہ کرداروں کی جگہ جدید ٹیکنالوجی کی حامل قوتوں اور اُن کی حامی اقوام نے لے لی ہے ۔نام نہاد مسلمان ملک ، حکمران اور حکومتی مشینری ذاتی مفاد، شہوت نفسانی اور نفسیاتی لذات کی خوگرہو کر ذلت و رسوائی کے دلدل میں دھنس چکے ہےں۔ آج سارے عالم اسلام پر خوف طاری ہے اور حکمران طاغوتی قوتوں کے عملاً غلام ہیں ۔
ارسطو نے انقلاب کی جو وجوہات بیان کی ہیں اُن میں خوف کا عنصر بھی شامل ہے۔ خوف کے نفسیاتی پہلو پر نظر ڈالیں تو اس کی بنیادی وجوہات میں عدم تحفظ ، عدم مساوات اور انصاف کا فقدان ہے۔ انقلابی نفسیات ایک الگ اور منفرد موضوع ہے جس پر محقیقین نے کبھی توجہ نہیں دی۔ قرآن پاک میں فرمان ہے کہ کائینات کے خزانوں کی چابیاں میرے پاس یعنی خزانوں کے مالک اور خالق ربّ کے پاس ہیں۔ فرمایا ہر شخص کو حساب کے مطابق رزق دیتا ہوں مگر جسے چاہوں بیشمار دوں اور جس پر چاہوں تنگی کردوں۔ پھر فرمایا کہ ذرا غور کرو کیا لاکھوں کروڑوں پرندے اور دیگر جاندار اپنا رزق اپنی پیٹھ پر اُٹھا کر چلتے ہیں؟ اللہ نے ساری مخلوق کا رزق اپنے ذمے لیا اور پھر فرمایا اپنی اولادوں کو رزق کی تنگی کے خوف سے قتل نہ کرو۔
فرمایا میں لوگوں کو رزق کی تنگی اور کشادگی سے آزماتا ہوں کہ کون میرا شکر گزار ہے۔ آج دنیا میں عدم توازن ، عدم مساوات اور عالمگیر سطح پر عدم تحفظ اور انصاف کا مسئلہ ہے چونکہ دنیاکی کثیر آبادی نے ایک قلیل آبادی کے حامل ملکوں اور اُن کی پالیسوں کے سامنے نفسیاتی شکست تسلیم کر لی ہے۔ ایک طرف اقوام متحدہ جیسا نمائشی کلب ہے جہاں پانچ مادی طاقتوں کی اجارہ داری ہے۔ اسی طرح دنیا کی ساری دولت پانچ یہودی خاندانوں کے قبضے میں ہے جو ساری دنیا کے مالیاتی اداروں کو کنٹرول کر تے ہیں ۔ علاوہ اس کے امریکی پابندیوں کی زد میں روس ، چین ، برطانیہ اور فرانس سمیت ساری دنیا کے ملک آسکتے ہیں جس کا فی الحال کسی ملک اور قوم کے پاس کوئی توڑ ہی نہیں ۔ اسی طرح عالمی بینک ، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف جیسے ادارے ہیں جن کے ذریعے غریب اقوام اور پسماندہ ملکوں کو پہلے کنگال کیا جاتا ہے اور پھر انہیں بحالی کا جھانسہ دیکر باجگزار بنا لیا جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو اقوام متحد سمیت سارے عالمی ادارے استحصالی قوتوں کے آلہ کار اور عالم انسانیت کی تذلیل اور توہین کے ہتھیار ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے۔ عالم اسلام سمیت دیگر ریاستیں اورا ُن کے حکمران ان عالمی اداروں کی غلامی پر ہی اکتفاکیئے سوچ وفکر کی قوتوں سے ہی مفلوج ہیں۔ دیکھا جائے تو اس کی وجہ نو اُمیدی ، نفسیاتی تنزلی ، بزدلی اور عقیدے کی کمزوری ہے۔ معاشرتی اور ریاستی خوشحالی کاترازوں نومیدی اور عزم نوکے درمیان معلق رہتا ہے۔ فرمان ربیّ ہے کہ تمہیں میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کی رحمت اور نعمتوں پر یقین رکھتے ہیں ۔ وہ جو بظاہر اسلام کے ماننے والے اور قرآن پڑھنے والے ہیں وہ بھی اللہ کی رحمت اور نعمت پر یقین نہیں رکھتے ۔ ھودؑ ، ایکہ ، اصحابے رس اور قوم شعیب ؑ کےساتھ کیا ہوا ، عربوں کے علاوہ یہودی اور عیسائی علما ان واقعات سے خوب واقف ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہا ہے اُس میں دولت مند عرب ملکوں اور پسماندہ مسلمان ریاستوں کے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، سرمایہ داروں اوراہل الرائے کی بد نیتی ، ہوس اقتدار ، خود غرضی ، شہوت پرستی کے علاوہ نو میدی ، نفسیاتی تنزلی ، بزدلی اور عقیدے کی کمزوری شامل ہے۔ اہل عجم کی نسبت اہل عرب قرآن کی زبان، بیان، مطالب و مقاصد بہتر سمجھتے ہیں ۔ قرآن کریم میں جن اقوام پر خدا کے عذاب کا ذکر ہوا وہ سب کی سب سرزمین عر ب پر ہی علمی ، عقلی ، صنعتی اور سیاسی ترقی کے عروج پر تھیں ۔
آج مسلمان جس ذلت کی زندگی جی رہا ہے اُس کی ساری ذمہ داری مسلمان علماء، دانشورں، حکمرانوں ، سیاست دانوں ، سرمایہ داروں اور اہل الرائے کے سر ہے ۔ جن پانچ کاروباری خاندانوں کے پاس دنیا کی دولت جمع ہے وہ سب امیر مسلمان حکمرانوں ، سیاست دانوں ، سرمایہ داروں اور نوکر شاہی کی ملکیت ہے جو اس طبقہ نے اپنے عوام سے چھپا کر مغربی سرمایہ داروں کے بینکوں میں یا پھر اُن کے کاروبار میں لگا کر محفوظ کر رکھی ہے۔
سورة عنکبوت میں فرمایا:۔ ان سے کہو کہ زمین کی وسعتوں میں اُترو اور دیکھو کیونکہ پیدا کیا پیدائش کو پھر اللہ اٹھا ئیگا جو گزر چکا ہے بے شک وہ ہر چیز کر سکتا ہے ۔ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا۔ تب عربوں کی حالت کیا تھی اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔نزول قرآن کے بعد عرب اقوام نے علمی ، ادبی ، سائنسی ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی عروج کا جو دو ردیکھا اس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ یہ سب قرا ٓن سمجھنے ، اس پر عمل کرنے اور اُم الکتاب ، کتاب حکمت سے ظاہری اور باطنی علوم اخذ کرنے کا نتیجہ تھا۔ جتنا علم ظاہری و باطنی عرب مسلمان حکما اور فلاسفہ نے اہل بیت اصحاب رسول ﷺ سے حاصل کیا آج دنیا اُسی کے بل بوتے پر ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ مگر انسانیت کے معلم دولت مند ہونے کے باوجود غلامی ، بزدلی اور خوف کی زندگی جی رہے ہیں۔ اُن کی دولت جن ملکوں کے بینکوں میں جمع ہے اور وہ ہی ان کی زندگیوں اور حکمرانیوں کے محافظ اور ضامن ہیں۔ فرمایا تمہیں دولت مند اس لیے بنایا کہ تم بھوکوں کو کھانا کھلاﺅ، قیدیوں کو رہائی دلاﺅ ، یتیموں ، مسکینوںاور مسافروں کی مدد کرو۔ اللہ نے زکوٰة ، خیرات ، عشرو صدقات کے علاوہ تحائف کا بھی ذکر کیا ۔ ماں ، باپ اور عزیز واقارب کے علاوہ پڑوسیوں کے حقوق کا حکم دیا۔ قرآن کریم ہر علم کی بنیاد اور انسانی دینی اور دنیاوی ضرورتوں کی رہنما کتاب ہے۔ قرآن کا بنیادی موضوع انسانیت ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ اللہ کی حاکمیت اور برتری تسلیم کیے بغیر نہ انسان میں انسانیت کا مادہ پیدا ہوسکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی محکم عقیدے پر قائم رہ کر فلاح انسانیت کا حق ادا کر سکتا ہے۔ بظاہر ہم ایک ماڈرن معاشرے اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں مگر ہر جگہ خوف کا سائیہ ہے ۔ وہ قومیں جن کے پاس دولت کے انبار ہیں اور قرآن جیسی محکم کتاب کی زبان سمجھتے ہیں، قرآنی تعلیمات سے کوسوں دور سفلی ، مادی اور استدراجی قوتوں کا عقیدہ اپنا کر اللہ کے عذاب کو دعوت دے چکے ہیں۔
یونانی فلاسفہ کے ادوار سے لیکر عہد حاضر تک جتنے انقلاب آئے اور فلاسفہ نے انقلابات کے رونما ہونے کی جو وجوہات لکھیں اُس کا بنیادی تعلق معاہدہ عمرانی سے انحراف ہے۔علمائے حق کی تحقیق اور الہٰی قوانین کی روشنی میں دیکھا جائے تو دنیا کی حکمرانی اللہ کی حکمرانی کا ہی نمونہ ہے جسے اچھی حکمرانی یا گڈ گورنس کہا جاتا ہے۔
فرمان ربیّ ہے کہ ہر جاندار کا رزق میرے ذمے ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ خالق ہے اور اپنی تخلیق سے خوب واقف ہے۔ فرمایا اے لوگو میں نے تمہیں یعنی تمہارے باپ آدم ؑ اور ماں حوا ؓ کو پہلے مٹی سے پیدا کیا اور پھر تمہیںجمے ہوئے خون کے لوتھرے سے بتدریج ایک طے شدہ سائینفک نظام کے تحت پیدا کیا۔ پھر فرمایا ذرا اپنی پیدائش پر غور کرو۔ فرمان ربیّ ہے کہ انسان اپنی پیدائشی حقیقت پر غور نہیں کرتا اور تکبر کرتا ہے۔وہ رعونت اور درندگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ظالمانہ رویہ اختیار کرتا ہے ۔ حالانکہ یہ زندگی چند روز کی ہے۔ فرمایا مرنے والوںسے اگلے پوچھتے ہیںکہ تم کتنا عرصہ دنیا میں رہے؟ وہ کہیں گے ایک دن یعنی صبح سے شام تک یا اُس سے بھی کم نصف دن سے سورج غروب ہونے تک ۔یہ ایک اندازہ ہے اصل حساب تو گنتی کرنے والوں کے پاس ہے۔ فرمان ربیّ ہے کہ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشہ ہے۔ قرآن کریم میں حضرت آدم ؑ ، حضرت نوح ؑ ، اور حضرت ہود ؑ کی طویل عمروں، اصحاب کہف ؓ اور حضرت عزیرؑکی نیند کی طوالت کا ذکر ہے جو صدیوں پر محیط تھی۔ فرمایا اے نبی ﷺ انہیں کہہ دو کہ جو کچھ قرآن پاک میں بیان ہوا یہ پہلی کتابوں میں بھی بیان ہوچکا ہے ۔
یہودی او رعیسائی علما¿ نے مختلف مواقعوں پر آپ ﷺ سے سوالات کیے جس کا جواب خود ربّ تعالیٰ نے قرآنی آیات کے ذریعے دیا۔ یہ سوال ان علماءکے ذہن کی اختراع نہ تھی بلکہ اُن کے پاس گزشتہ کتابوں کا علم تھا۔ فرمایا ۔ قرآن میں کچھ واقعات وہی ہیں جن کا ذکر پچھلی کتابوں میں آچکا ہے ۔ انی جاعِلیµ فِی الاَضِ خلیفة اورفَاذکرُونی اَذکُر کُم پرغورکریں تو خدا کی حاکمیت ، کائناتی سلطنت ، تخلیق آدم ؑ ، نزول قرآن ، نظام قدرت اور عالمگیر عمرانی علم کا منبع و ماخذ صرف قرآن کریم ہی ہے۔ و ہ خالق و مالک اللہ جس کے حکم و حکمت اور ارادے سے یہ ظاہری کائنات ارض و سما اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے تخلیق ہوا وہی اسکا نظام چلانے والا ہے۔
جب خالق کائنات نے فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں زمین پر اپنا نائب مقرر کرنے والا ہوں ۔ علمائے حق کے مطابق تب تک تخلیق کائنات کا عمل مکمل ہوچکا تھا ۔ قرآنی آیات کی روشنی میں بیان ہوا ہے کہ زمین اتنی ہی بچھائی گئی جتنی انسان کو ضرورت تھی۔ یعنی ہر انسان کا اس زمیں پر اور اس کی ظاہری و مخفی پیداوار اور اس کے پیٹ میں چھپے خزانوں اور اس کے سینے میں موجود غذاﺅں اور دیگر ضروریات کی چیزوں ، نباتات ، جمادات اور حیوانات پر یکساں حق ہے۔ کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا غلام نہیں۔ ہر دولت مند کی دولت میں غریب ، مسکین ، نادار ، بیمار ، مسافر اور قیدی کا حق ہے ۔ الہٰی حکم کے مطابق اسلام میں حقوق صرف اللہ سے منسوب ہیں اور مخلوق کا کام فرائض کی انجام دہی ہے۔ زمین پر موجود ہر انسان اپنی حیثیت اور علم و مرتبے میں اللہ کا نائب ہے۔ ہر نائب یا خلیفہ کا کام اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کرنا اور اُس کے احکامات پر بغیر وجہ پوچھے عمل کرنا ہے۔ انسان اپنی دنیاوی بشری حیثیت میں انتہائی کمتر ہے۔ جیسا کہ قرآن میں تخلیق آدم ؑ ، تخلیق انسانیت کے مراحل بیان ہوئے ہیں۔ الدھر میں بیان ہوا کہ ایک دور ایسابھی تھا کہ انسان کا کوئی نام ونشان تک نہ تھا۔ تفاسیر میں بیان ہوا ہے کہ تب کائنات وجود پذیر ہو چکی تھی اور جن وملائکہ کا وجود بھی تھا مگر اُن کی حیثیت انسان کے برابر نہ تھی۔ وہ اللہ کی حمد وثناءتو کرتے تھے اور حکم بردار بھی تھے مگر اُن کی حیثیت نائبانہ یا خلیفانہ نہ تھی۔
اللہ بزرگ و برتر نے انسان کو عقل و شعور دیا اور اعضا¿و قوا¿ میں ایسی خاصیتیں رکھیں تاکہ وہ باقی زمینی مخلوق پر برتری حاصل کر سکے۔ اللہ نے انسان کو علم کی قوت سے میزن کیا اور اُس کے دل میں جستجو کا مادہ رکھا ۔ انسانی خواہشات کی حدیں مقرر کیں اور شیاطین سے بچنے اور شیطانی چالوں سے دور رہنے کے طریقے سمجھائے تاکہ وہ اپنے مرتبے یعنی خلیفہ کی حیثیت سے گر کر شیطانی چالوں اور حربوں کا اسیر نہ بن جائے۔
اللہ خالق و مالک اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں ۔ وہ سمیع وبصیر ہے۔ فرمایا کسی قوم کو خبردار کیے بغیر اُس پر عذاب نازل نہیں ہوا۔ وہ جو راہ راست سے ہٹ گئے ،درجہ انسانیت سے گر کر مادیت کی طرف مائل ہوئے، باوجود مادی ترقی و خوشحالی کے عدل و انصا ف کو چھوڑ کر کفر وشرک کا راستہ اختیار کیا ، اللہ نے اُن کی رہنمائی کے لیے اپنے نبی اور رسول اُن ہی کی قوموں اور قبیلوں سے مبعوث کیے ۔فرمان ربیّ ہے کہ کسی قوم و قبیلے پر عذاب نازل نہیں ہوا جب تک انہیں تنبہہ نہ کی گئی ہو۔ اُن کے پاس پیغام رساں اور اللہ کی طرف سے ہدایت نامہ نہ بھیجا گیا ہو۔ دیکھا جائے تو جب اللہ نے ارواح سے مخاطب ہو کر پوچھا کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں©” ارواح نے کہا قالو بلا” بے شک تو ہی ہمارا ربّ ہے۔ اللہ اور بندوں کے درمیان یہ پہلا معائدہ ہے۔ یہی وہ عمرانی معائدہ ہے جس کی ابتداءتخلیق آدم ؑ سے پہلے ہوئی۔ پھر کہا تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یا د کرونگا۔ معائدے کی اگلی شق کہ ”تمہیں زمین پر اپنا خلیفہ بناﺅ نگا “ بعض علما¿ اسے معاون یا قائم مقام کی تشریح میں بھی لیتے ہیں جو صریحاً غلط تصور ہے۔ اللہ خالق، حاکم ، زبردست اور حکمت والا ہے۔اسے کسی معاون ، مدد گار یا قائم مقام کی کیا ضرورت ہے وہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہے۔ قائم مقام تو اُس حاکم یا عہد یدار کا ہوتا ہے جو وقتی طور پر اپنی جگہ موجود نہ ہو یا رخصت پرہو ۔ اللہ کی شان ہے کہ وہ ہر لمحے ہر جگہ موجود ہے۔ خلیفہ یا نائب وہ ہے جسے حاکم اپنی طرف سے کچھ اختیار سونپ دے اور ان اختیارات کی حد بھی مقرر ہو۔ حاکم کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ نائب یا خلیفہ کی کسی حکم عدولی پر سرزنش کر ئے یا سزا دے ۔ حاکم اپنی سلطنت میں لامحدود اختیارا ت رکھتا ہے جبکہ خلیفہ کے اختیارات محدود اور حاکم کی مرضی و منشاءکے محتاج ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی کائناتی سلطنت میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ دیگر مخلوق بھی آبادہے اور ہر ایک کی الگ اُمتیں ، نسلیں اور اقسام ہیں۔ فرمایا ۔ زمین اور آسمانوں کے درمیان جو کچھ ہے سب اللہ کی تعریف کرتا ہے۔ اُس کی حمد و ثناءبیان کرتا ہے ۔ سورة الرحمن میں فرمایا ، ستارے اور اشجار یعنی نباتات بھی سجد ہ ریز ہوتے ہیں۔ سورہ یٰسین میں فرمان ربیّ ہے کہ سورج اور چاند کی منزلیں مقرر کر دیں ہیں وہ اپنے طے شدہ دائروں میں گھومتے ہیں ۔اسی طرح دیگر مخلوق ارضی و سماوی کا ذکر ہے جن میں دن او ررات بھی شامل ہیں۔ کوئی چیز اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز نہیں کرتی جبکہ انسان نے ہر دو ر میں اپنے ربّ خالق و مالک کے ساتھ کیے ہوئے معائدے سے روگردانی کی اور عذاب الہٰی کا حقدار ٹھہرا ۔ عالم ارواح میں تو "قالو بلا” کہا مگر مجسم ہو کر طرح طرح کی تاویلیں گڑلیں اور اپنے اپنے خدا تخلیق کر لیے۔ سورة سبا میں اہل سبا کا ذکر ہے جن کے ملک میں خوشحالی ہی خوشحالی تھی مگر اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کیا تو عذاب الہٰی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ سورة ”ص “ میں حضر ت داﺅد ؑ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا اے داﺅد ؑ ہم نے تمہیں ملک میں نائب مقرر کیا سو تم حکومت کرو لوگوں پر انصاف سے اور اپنے جی کی خواہش پر نہ چلو۔ چونکہ خواہشات اللہ کی راہ ،صراط مستقیم سے ہٹانے کا موجب بنتی ہیں اور وہ لوگ جو خواہشات کے اسیر ہو کر اللہ کی راہ سے پھسل جاتے ہیں اُن کیسے سخت عذاب ہے۔
قرآنی اور انسانی تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو مسلم معاشرہ بتدریج تنزلی کا شکار ہے اور دیگر اقوام اور مذاہب کے ماننے والوں کی نسبت فرقہ پرستی اور توہم پرستی کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ دنیا کے نقشے پر ایسی کوئی اسلامی ریاست نہیں جہاں اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے احکامات کی روشنی میں عدل و انصاف اور طریق حکمرانی رائج ہو۔بظاہر اسلام کی دعویدار ریاستوں میں چانکیائی اور میکاولین نظام حکومت ہے۔ایک طرف مسلمان حکمران اور عوام اسلام کا نام لیتے ہیں مگر اصلاً اللہ کے احکامات سے منکر دھوکادہی کے مرتکب اور عذاب الہٰی کے منتظر ہیں۔
"البتہ ہم نے بنایا انسان کو اور ہم جانتے ہیں جو باتیں اُس کے دل میں آتی ہیں۔ہم اُس کی شہ رگ سے بھی نزدیک ہیں”۔”القرآن سورةق”
انقلاب یا عذاب – 4
پرانی پوسٹ