کسی بھی محفل یا پر ہجوم جگہ پر خاموش بیٹھنے کے بے شمار فوائد ہیں۔ آپ خاموشی سے لوگوں کے مسائل سن سکتے ہیں اوراُن کی پریشانیوں، محرومیوں اور مجبوریوں سے واقف ہو سکتے ہیں۔اگر بس میں ہو تو اپنی استطاعت کے مطابق مد د بھی کر سکتے ہیں۔ اکثر راہ چلتے یا سفر کے دوران بھی ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو گھر میں رہ کربے گھر اور وطن میں ہوتے ہوئے بھی بے وطن ہوتے ہیں۔ وہ اپنے گھروں میں تو رہتے ہیں مگر بد اعتماد ی، بے یقینی، خوف اور دہشت اُن کے گھروں کے اندر اور باہر، گلیوں اور بازاروں سے لیکر تھانوں، پٹوار خانوں، عدالتوں اور کچہریوں میں اُن کا پیچھا کرتی ہے۔ ایسے لوگ غیر محفوظ اور مایوس ہو کر وطن میں تو ہوتے ہیں مگر بے وطنی اور غلامی کے ماحول میں رہتے ہیں۔
مجھے اعتراز احسن چوہدری کی بے وزن شاعری سے سخت اختلاف ہے۔ ماں جیسی دھرتی نظم لکھنے والے کو پتہ ہی نہیں کہ ماں کی عظمت کیا ہوتی ہے۔ جس دھرتی پر ہم جی رہے ہیں یہ ماں جیسی ہر گز نہیں۔ یہ ایک زخمی، رنجیدہ، دکھی، بیمار اور غلام دھرتی ہے۔ اعتزاز احسن جب قبضہ گروپوں، قاتلوں،مفسدوں اور نودولیتے سیاستدانوں کے مقدمے لڑتا ہے تو اُسے دھرتی ماں کے مظلوم، محکوم، بھو کے ننگے، بیمار اور بے بس بچوں کا کبھی خیال نہیں آتا۔ اعتراز احسن اوراسی مقام و مرتبے کے قانون دان، قانون شکنوں، قاتلوں اور جرائم پیشہ سیاستدانوں، کارخانہ داروں اور ٹیکس چورسیٹھوں کے مقدمے کروڑوں میں فیس اور مراعات لیکر لڑتے ہیں تو انہیں اس دھرتی ماں کاخیال نہیں آتاجس کے بچوں کے حقوق چھین کر وہ سیٹھوں کی تجوریاں بھرتے ہیں۔آخر کوئی بابر اعوان، لطیف کھوسہ، اکرم شیخ اور نائیک کسی دکھی اور بے آسرا کا مقدمہ کیوں نہیں لڑتا؟ ظاہر ہے جتنا پیسہ زرداری، شریف خاندان، ملک ریاض اور دیگر دے سکتے ہیں وہ ایک چھوٹا ملازم، دیہاڑی دار مز دور یا ایک کنال زمین کا مالک کیسے دے سکتا ہے۔ غرض مند عوام ہمیشہ ہی چرب زبان سیاستدانوں کی مکارانہ چالوں کے جال میں پھنس کر غلط فیصلہ کرتے ہیں اور ووٹ کے بدلے میں عزت اور آزادی کا سودا کر لیتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ ووٹ کو عزت دو کے اصل معنی کیا ہیں؟ وہ نہیں جانتے کہ اس ملک میں اُ ن کی کیا اہمیت ہے۔ غلاموں، مزارعوں، ذاتی ملازموں نچلے درجے کے شہریوں سے ووٹ مانگا نہیں بلکہ چھینا جاتا ہے۔ مریم نواز کہتی ہے کہ ہمارا ووٹ چوری ہوگیا۔ چوری کا مال دوبار ہ چوری ہو جائے تو وہ چوری کے زمرے میں نہیں آتا۔ چور پہلا ہو یا دوسرا چور چورہی ہوتا ہے۔ مریم نواز سے گزارش ہے کہ وہ مصری مصنف نجیب محفوظ کا ناول چور اور کُتے ضرور پڑھیں۔ چور چوروں سے نہیں بلکہ کتوں سے ڈرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاستدان کُتے پالنے کے شوقین ہوتے ہیں۔
اوّل تو سیاستدان کا لفظ ہی غلط ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ یورپ والوں نے سیاست کا نام پولیٹکس رکھ دیا ہے۔ آج دنیا میں سیاست تو ہے ہی نہیں صرف پولیٹکس ہے اور اسکا ہنر جاننے والے پالیٹیشن کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگ قانون سے مبرا ایسی مخلوق ہے جو کسی ضابطہ اخلاق کی پیروی نہیں کرتی۔ ہر وکیل کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ رہ کر ہی اپنے پیشے میں ترقی کرتا اور عدلیہ کا معزز جج بن جاتا ہے۔ ہمارے نامور وکیل پولٹیکل پارٹیوں کے سرگرم رکن ہیں اور اپنے لیڈروں کے جرائم کی قانونی حربوں سے حفاظت کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے کچھ جج بھی اپنی سیاسی وابستگی کو برقرار رکھتے ہوئے قانون کی آڑ میں مظلو م کا شکار کرتے اور اپنے محسنوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔
سابق چیف جج رانا شمیم کا قانون دان بیٹا ہاتھ میں گلاس لیکر کھلے عام اعلان کرتا ہے کہ میرا باپ نواز شریف کا حامی اور نون لیگ کا سر گرم کارکن رہا ہے اور اب ملک کا صدر بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ دولباخ کا کہنا ہے کہ قانون کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ عام آدمی کو انصاف مہیا کیا جائے۔ قانون بنانے والوں کی اکثریت قانون شکن اور اخلاقیات سے عاری ایسے شرفا پر مشتمل ہوتی ہے جو شرافت کے اصولوں کو ہی نہیں مانتے۔و ہ لکھتا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق زمین کی مالک حکومت ہے اور حکومت حکمران کی مرضی کا نام ہے۔ اس نظریے کی روشنی میں دیکھا جائے تو زرداری، نواز شریف اوران کے فرنٹ مینوں اور ڈیلروں کو حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیں زمین آلاٹ کریں، بیچیں یا خرید یں، اُن پر کوئی قدغن لگانا جرم ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ ایسے فیصلے صادر کر چکی ہے جس کی مثال دیگر دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح سرے محل اورایون فیلڈاپارٹمنٹ ہیں۔ بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے اور دیگر ہاؤسنگ سکیموں میں کشمیر ہاؤسنگ سکیم بھی شامل ہے مگر نہ نیب والوں کو فرصت اور نہ ہی اسلام آباد اور مظفرآباد میں بیٹھے آئین اور قانون کے محافظوں کو سونے کے انڈے دینے والی مرغیوں کو ذبع کرنے کا حوصلہ ہے۔
میرپور کے ایک بک سٹال پر پڑی کتاب ”کشمیر کا المیہ“ دیکھی اور پھر خرید لی۔ پڑھنی شروع کی تو پھر دو دن میں اوّل سے آخر تک پڑھ لی۔ چند روز پہلے کچھ عام لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ سب کے سب سفید پوش، لوئیر مڈل کلاس، ووٹر، سپورٹر، قانون اور قانون دانوں کے ستائے ہوئے بے بس و مجبور لو گ تھے۔ یہ لوگ آزادکشمیر میں الیکشن کے بعد مجبوری میں ڈالے گئے ووٹوں پر تبصرہ کر رہے تھے۔
ایک بزرگ بتار ہے تھے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک ولائیت پلٹ غنڈہ صفت شخص نے ہمارے گاؤں سے باہر سرکاری زمین پر قبضہ کرلیا۔ یہ زمین ہماری ذاتی زمینوں سے منسلک تھی اور سارے گاؤں کی چراگاہ تھی۔ اس زمین کا کچھ حصہ محکمہ جنگلات کا تھا جسے حلقہ پٹواری نے سرکاری زمین میں شامل کر کے ولائیت پلٹ غنڈے سے لاکھوں روپے وصول کیے۔ چار ونا چار ہم نے عدالتوں سے رجوع کیا اور بیس سال تک میں سردیوں اورگرمیوں کی شدت برداشت کر تا کوٹلی کی ضلعی عدالتوں میں اہل دیہہ کا مقدمہ لڑتا رہا۔ مقدمہ ایک عدالت سے دوسری عدالت اور پھر تیسری میں منتقل ہو تا رہا۔ افسر مال صاحب کی عدالت میں پہنچا تو موصوف جب تک اس عہدہ جلیلہ پر قائم رہے نوٹوں اور پونڈوں کے ٹائرلگی فائل دبا کر رکھی۔اُن کے جانے بعد یہ فائل ضلعی جج کے پاس منتقل ہو ئی تو پہلی بار حلقے کا پٹواری اور تحصیلدار بھی عدالت میں حاضر ہوئے اور بیان دیا کہ بیس سالوں سے جو شخص ایک معزز،غریب اور بے زمین شحص کے خلاف مقدمہ لڑ رہا ہے اسے جرمانہ کیا جائے اور مقدمہ خارج کر دیاجائے۔ یہ زمین حکومت آزادکشمیر کی ہے اہل محلہ کی نہیں۔ جج صاحب نے مجھے بھاری جرمانہ کیا اور مقدمہ خارج کر دیا۔ حلقہ پٹواری سے لیکر ممبر بورڈ آف ریونیو نے سرکاری زمین کا ایک کروڑ میں سودا کیا اور اس معزز، غریب اور بے زمین شہر ی کو اس رقبہ میں ایک کنال زمین الاٹ کر دی۔ لکھا گیا کہ اس شخص کومکان کے لیے ایک کنال زمین سرکار کی طرف سے آلاٹ کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنا سر چھپانے کے لیے مکان تعمیر کر سکے۔
ساتھ بیٹھے دوسرے بزرگ نے پوچھا کہ کیا وہ شخص بے گھر ہی تھا؟ تیسر اشخص جو اسی گاؤں سے تعلق رکھتا تھا،کہنے لگا وہ شخص آزادکشمیر میں امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسلام آباد، میرپور اور گاؤں میں اس کے عالیشان مکان،دکانیں اور مارکٹیں ہیں۔ انگلینڈ میں کئی کاروبار، مکان اور ریسٹورنٹ ہیں اور وہ سیاسی حیوانوں کو چارہ ڈالتا اور اپنا کام نکالتا ہے۔ پٹواری، تحصیلدار اور تھانیدار اُس کے زر خرید غلام ہیں۔ اُس نے ایک کنال کا دھوکے اور رشوت سے قانونی حق حاصل کیا اور دوسو کنال رقبے پر قبضہ کر لیا۔ اسے علاقہ بھر کے غنڈوں کی حمایت حاصل ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ایسے ہی لوگوں کا آزادکشمیر میں راج ہے۔ حکومتیں نمائشی اور پیدا گیرہیں۔ ایک پراپرٹی ڈیلر صاحب جو خاموش بیٹھے یہ قصہ سنتے رہے اور پھربولے۔ اگر کشمیر کا سارا رقبہ ایک ایک کنال کر کے بیچ دیاجائے تو کتنے اربوں کا ہوگا۔ میرپور میں ایک کنال کی قیمت دو کروڑ ہے۔ مظفرآباد اور سرینگر تو بہت ہی مہنگے ہونگے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ زرداری اور نواز شریف سے بات کر کے پٹواریوں اور تحصیلداروں کی ایک فوج تیار کر لے اورایک ایک کنال کا کشمیر بناکر بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے، اے آر وائی اور دیگر ڈیلروں کوفروکت کر دے۔ دوسری طرف مودی بھی تو یہی کر رہا ہے۔ یہ سن کر مجھے اسر ار احمد راجہ کی تصنیف ”کشمیر کا المیہ“ یا د آگئی۔ اس کتاب میں کا موضوع بھی یہی ہے۔جو لوگ آزادی کے کھوکھلے نعرے لگاتے ہیں وہ حقیقت میں غلامی کے خوگر ہیں۔ کرپشن اور قانو ن شکنی اُن کا اصل پیشہ اور سیاست گھناؤنا کاروبار ہے۔
ایک کنال کا کشمیر
پرانی پوسٹ